اسرائیلی ساحلی شہر، فرانسیسی یہودیوں کا گڑھ
خبر رساں ادارے ایسوی ایٹڈ پریس کے مطابق فرانسیسی یہودیوں کی اسرائیل منتقلی کا آغاز دراصل پیرس کی ایک یہودی مارکیٹ میں ایک دہشت گرد کے حملے میں چار افراد کو قتل کیے جانے سے قبل ہی شروع ہو چکا تھا۔ […]
خبر رساں ادارے ایسوی ایٹڈ پریس کے مطابق فرانسیسی یہودیوں کی اسرائیل منتقلی کا آغاز دراصل پیرس کی ایک یہودی مارکیٹ میں ایک دہشت گرد کے حملے میں چار افراد کو قتل کیے جانے سے قبل ہی شروع ہو چکا تھا۔ […]
برطانیہ کے سابق چیف ربّی لارڈ جوناتھن سیکز نے معروف امریکی اخبار ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ میں ایک مضمون لکھا ہے، جس میں اُنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک بار پھر یہودیوں سے شدید نفرت کی لہر اُٹھی ہے۔ اُنہوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے: ’’دنیا میں بھی بیشتر سیاست دان اِس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ اِس وقت یورپ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اینٹی سیمیٹزم (یہودیوں سے شدید نفرت) ہے۔ اگر کبھی یہ نُکتہ اُٹھائیے تو اُن کی طرف سے مختصر اور ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ اسرائیل کی حکومت نے فلسطینیوں سے جو سُلوک روا رکھا ہے، یورپ میں یہودیوں سے شدید نفرت کا اظہار اُس کا ردِعمل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ [مزید پڑھیے]
سروے رپورٹ کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ فی الوقت عالمی میڈیا کے ۹۰ فیصد حصے پر یہودی خبررساں ادارے، اخبارات، الیکٹرانک میڈیا، اور بین الاقوامی جرائد قابض ہیں۔ اور یہ وہی خبررساں ادارے ہیں جن کے ذریعہ ملکی و بین الاقوامی سطح کا مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے ۹۰ فیصد میڈیا پر صرف ۶ کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ یہ سبھی کمپنیاں یہودیوں کی ہیں۔
ہم سنے گاگ میں عبادت کے دوران یہ کہتے ہیں کہ ہم روشنی ہیں، ابدی خیر ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم راہ سے ہٹ گئے ہیں، ہم نے اپنا اصل بھلا دیا ہے، روحانیت کا دامن ہم سے چُھوٹ گیا ہے۔ سچ یہی ہے کہ ہم نے اپنا بہت کچھ اچھا بھلا دیا ہے اور بُرے کا یا بُرائی کا دامن تھام لیا ہے۔ اِسی کے نتیجے میں ساری بُرائیوں اور خرابیوں نے جنم لیا ہے
کینیڈا کے صوبے کیوبیک میں ’’لیو طاہور‘‘ (قلبِ مَطہّر) فرقے کے یہودی اپنے بچوں کو طویل مدت سے سیکولر اسکولوں میں نہیں بھیج رہے تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ اسکول بچوں کے قلب، ذہن اور روح میں خرابی پیدا کر رہے تھے۔
امریکا میں یہودیوں کا تشخص تبدیل ہو رہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مذہب پر سختی سے کاربند نہ رہنے والے یہودیوں کا تناسب گھٹ رہا ہے۔ دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ بہت سے یہودی دیگر مذاہب میں شادی کو بھی ترجیح دے رہے ہیں۔ سال رواں کے اوائل میں جن ۳۵۰۰ پختہ عمر کے یہودیوں سے سوالات کے ذریعے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی، ان کی اکثریت نے بتایا کہ یہودیت مذہب سے بڑھ کر اجداد کا فسانہ اور ثقافت ہے۔ بہت سے امریکی یہودی اب بچے پیدا کرنے پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آرتھوڈوکس کے سوا یہودیوں کی تمام ہی شاخیں معاشرے میں تیزی سے ضم ہو رہی ہیں۔ [مزید پڑھیے]
امریکا اور اسرائیل کے تعلقات ہمیشہ کھٹّے میٹھے رہے ہیں۔ ان تعلقات کو بہتر ڈھنگ سے موشے دایان نے ادا کیا تھا، جب انہوں نے کہا تھا کہ ’’امریکی دوست ہمیں دولت، ہتھیار اور مشورے دیتے ہیں اور ہم دولت اور ہتھیار تو لے لیتے ہیں مگر مشورہ ٹھکراتے ہیں‘‘۔ موشے دایان آج ایک اچھے بلاگر اور ٹوئیٹر ثابت ہوتے۔ مگر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ امریکا اور اسرائیل کی دوستی یا تعلقات کو چند الفاظ کے ذریعے بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ تعلقات کبھی ریاست کی دانش پر منحصر نہیں رہے۔ ان دو ممالک کے تعلقات نے جامعات کے شعبۂ سیاسیات کا نصاب بارہا بدلا ہے اور بین الاقوامی تعلقات کے تسلیم شدہ معیارات کو بھی مشکوک بنایا ہے۔ اس میں کوئی [مزید پڑھیے]
تہذیب و ثقافت، محض چند رسوم و رواج اور افکار وخیالات کے مجموعے کا نام نہیں ہے، بلکہ تہذیب و تمدن میں حقیقی طور پر مذہبی عنصر غالب ہے۔ کسی بھی تہذیب میں پائے جانے والے نظریات و خیالات اور اس میں موجود رسوم و رواج کا سلسلہ، کسی نہ کسی طرح مذہب سے ضرور ملتا ہے۔اس بحث سے قطع نظر کہ وہ رسوم و رواج مذہب کی نظر میں صحیح ہیں یا غلط، ہمارے ارد گرد ہونے والے رسوم ورواج نسل در نسل چلے آرہے ہیں۔ رواجوں کو دوام عطا کرنے کے لیے انہیں بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، اس لیے کسی بھی دین کا سچّا متبع بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اس دین کی ثقافت [مزید پڑھیے]
اسرائیل نے افریقا سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کو اپنے اندر سمونے اور مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی کوششیں بہت کی ہیں مگر دو عشروں کے دوران کی جانے والی یہ کوششیں اب تک بار آور ثابت نہیں ہوسکیں۔ ۱۹۹۱ء کے اوائل میں جب ایتھوپیا میں خانہ جنگی چھڑی تو ۱۴ ہزار یہودیوں کو اسرائیل نے اپنے اندر سمولیا۔ ان یہودیوں کو طیاروں کے ذریعے اسرائیل منتقل کیا گیا۔ ایتھوپیا کے جن یہودیوں کو اسرائیل میں بسایا گیا ان میں سمادار گیٹو بھی شامل تھی۔ ’’کالے یہودی‘‘ کہلانے والے ان یہودیوں کے لیے اسرائیل میں آباد ہونا گویا زندگی کے سب سے اہم اور حسین خواب کا شرمندہ تعبیر ہونا تھا۔ مگر خواب اور حقیقت میں بہت فرق ہے۔ سمادار گیٹو کے والدین اب [مزید پڑھیے]
اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا شمار ان اداروں میں ہوتا ہے جو قومی مفاد کے نام پر کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اسرائیلی پالیسیوں کے مطابق تمام اہداف حاصل کرنے کے لیے موساد نے مختلف ادوار میں کئی ممالک کو نشانہ بنایا ہے۔ کسی بھی شخصیت کو قتل کرکے سیاسی، سفارتی اور معاشی فوائد بٹورنا اس ادارے کا وتیرہ رہا ہے۔ اسلحے کے کئی تاجروں کو موساد نے ٹھکانے لگایا۔ جیرارڈ بُل بھی ان تاجروں میں سے تھا۔ موساد نے جیرارڈ بُل کو ۱۹۹۰ء میں قتل کیا۔ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بین گوریان کو ایک بھیانک خواب اکثر ڈرایا کرتا تھا۔ اس خواب کے مطابق ہولو کاسٹ سے بچ جانے والے یہودی اسرائیل میں ہولو کاسٹ کا نشانہ بن رہے تھے۔ ۱۹۶۲ء [مزید پڑھیے]
کسی بھی زبان میں تراجم کی اہمیت و ضرورت سے سب اچھی طرح واقف ہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ ہر زبان میں نئی اصناف، نئے افکار اور جدت کے کئی دوسرے پہلو اسی دروازے سے داخل ہوئے ہیں، جبکہ اردو زبان کو تو اتنی ادبی بلندی تراجم ہی کے طفیل ملی ہے۔ میرے نزدیک ترجمہ تخلیقی کام سے کسی صورت میں آسان مگر کم محنت طلب نہیں۔ جس طر ح ہر لکھاری ایک اچھا شاعر یا ادیب نہیں ہو سکتا اسی طرح ہر ترجمہ کرنے والا اچھا مترجم بھی نہیں ہو سکتا، یعنی ادھر بھی خداداد صلاحیتوں کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ ڈاکٹر منیر الدین احمد کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے اردو ادب میں تخلیقی کام میں بھی اپنی حیثیت [مزید پڑھیے]
آپ کو یہاں آکر ایسا ہرگز محسوس نہیں ہوگا کہ آپ ’’ہندوستان‘‘سے کہیں دور ہیں۔ ہندوستانی کھانوں اور کپڑوں کے علاوہ ہندی ٹی وی چینلز کی چٹپٹی خبروں سے لے کر بالی وڈ کے گانوں تک سب کچھ یہاں بہ آسانی دستیاب ہے۔ یہاں تک کہ آپ کو اپنی مادری زبانوں کے میگزینز بھی پڑھنے کو مل جائیں گی۔ یہ امریکا یا برطانیہ نہیں ہے جہاں ہندوستانیوں کی کثیر تعداد آباد ہے بلکہ یہ اس ملک کی ایک تصویر ہے جس سے ہندوستان کے سفارتی تعلقات قائم ہوئے ابھی دو دہائیاں بھی نہیں گزری ہیں
جغرافیہ: فلسطین کا رقبہ ۲۷۰۲۴ مربع کلو میٹر ہے۔ یہ سرزمین دنیا کے شمالی حصہ میں جنوب مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ اس کے مشرق میں بحرِ روم‘ شمال میں لبنان‘ شمال مشرق میں شام‘ مشرق میں اردن اور جنوب میں مصر واقع ہے۔ اس کا شمار مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں ہوتا ہے۔ فلسطین جنوب کی جانب سے بحر احمر اور مصر کے صحرائے سینا کی حدود میں واقع ہے
مبصرین کے خیال میں یہ انٹرویو جسے ایک عالمی نیوز چینل نے براڈ کاسٹ کیا‘ نہایت اہمیت کا حامل ہے ‘ اولاً اس وجہ سے کہ یہ انٹرویو ایک یہودی پیشوا کی آواز ہے جو ببانگ دہل اعلان کرتا ہے کہ صہیونی ڈھانچے کو ختم کرنا از حد ضروری ہے‘ کیونکہ بقول ان کے توریت کے مطابق اس کا قیام قطعاً ممنوع ہے اور اس کی وجہ سے تمام لوگوں کی زندگی اجیرن بن گئی ہے‘ حتیٰ کہ خود یہودی قوم بھی مصیبت سے دوچار ہے۔ ثانیاً اس انٹرویو کو نشر کرنے والا ادارہ‘ امریکا کا وہ فوکس چینل ہے جو اپنی اسلام دشمنی کے لیے مشہور ہے۔
یہودی مذہبی رہنما یسرویل ویسی نے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ صیہونیت ایک شیطانی جھوٹ ہے‘ جس نے دنیا سے متعلق اچھے عزائم رکھنے والوں کو اب تک دھوکہ میں ڈال رکھا ہے اور خود کو یہودی مملکت قرار دینے والی انتہائی بدطینت اور مکروہ حکومت کے تعاون کے سلسلہ میں انہیں مطمئن کر دیا ہے۔ یسرویل ویسی کہتے ہیں کہ اسرائیل اور صیہونیت نے ہر چیز کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
Copyright © 2021 | WordPress Theme by irak Themes