طالبان
افغانستان کی سب سے موثر جنگی و سیاسی قوت ہیں ان کو مختصرا طالبان کہا جاتا ہے نسلی اعتبار سے پشتون ہیں اور مسلکی اعتبار سے دیوبندی اور اہل حدیث کے مکتبہ فکر سے منسلک ہیں
ماسکو میں ہونے والے مذاکرات کے بعد طالبان نے یہ بیان دیا ہے کہ انہیں امید ہے کہ امریکا بھی معاہدے کا احترام کرتے ہوئے مئی میں افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لے گا۔ طالبان وفد نے شیر محمد عباس استنکزئی کی سربراہی میں روسی سفارت کاروں سے ملاقات کی۔ بات چیت کا یہ دور دو روز تک جاری رہا۔ اس موقع پر طالبان وفد کے سربراہ کا کہنا تھا کہ طالبان نے گزشتہ سال قطر میں ہونے معاہدے میں شامل ان تمام شقوں پر عمل کیا ہے جن کا تعلق طالبان سے تھا۔ وائٹ ہاؤس اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ گزشتہ سال صدر ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے دوحہ معاہدے پر نظر ثانی کر رہی [مزید پڑھیے]
امریکی افواج افغان سرزمین تیزی سے چھوڑ رہی ہیں۔ امریکا رخصت تو ہو رہا ہے مگر افغانستان کے مستقبل پر پہلے سے بھی بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے کیونکہ کسی ایک معاملے میں بھی پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ فائزہ ابراہیمی کو کچھ زیادہ یاد نہیں۔ تب وہ بہت چھوٹی تھی، جب افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی۔ فائزہ کے والدین جب اُسے بتاتے ہیں کہ افغانستان پر کئی سال تک طالبان کی حکومت رہی جو شریعت کے طے کردہ قوانین کے مطابق تھی تو اُسے یقین ہی نہیں آتا۔ فائزہ مغربی شہر ہرات میں ریڈیوپریزنٹر ہے۔ فائزہ کو یقین ہی نہیں آتا جب اسے بتایا جاتا ہے کہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے اور مدارس میں تعلیم پانے والے نوجوان کسی [مزید پڑھیے]
امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں دستخط شدہ امن معاہدے کی روشنائی ابھی خشک نہیں ہونے پائی کہ چند روز کے بعد ہی اس کے تاروپود بکھرتے نظر آرہے ہیں، حالانکہ اس کی تعریف وتوصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے تھے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اکیسویں صدی میں امریکی خارجہ پالیسی کے تحت طے پائے اس کمزور تر سمجھوتے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ اس کے تانے بانے بننے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کردار ادا کیا ہے اور قطر نے بین الاقوامی سمجھوتا طے پانے کے عمل میں ایک ’’سہولت کنندہ مصالحت کار‘‘ کا کردار ادا کیا ہے۔ قطر برسوں سے اپنے انتہا پسند دوست رجیم کے ناقدین کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہا ہے۔اس [مزید پڑھیے]
طالبان کے ساتھ تسلسل سے جا ری مذاکرات کے بعد امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکی انسداد دہشت گردی آپریشن کے مکمل خاتمے کے لیے بنیادی معاملات طے پا گئے ہیں۔ ان طے کیے گئے معاملات میں کوئی بات بھی حیرت میں مبتلا کر دینے والی نہیں تھی۔ طالبان نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین عالمی دہشت گرد گروہوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور امریکا نے افغانستان سے فوج کے انخلا پر رضامندی کا اظہار کیا۔ لیکن ابھی کچھ سوالات کے جوابات دینا باقی ہیں۔ امریکی فوج کتنے عرصے میں افغانستان سے نکلے گی؟ چند ماہ میں، جیسا کہ طالبان چاہتے ہیں اور کیا یہ امریکی فوج کے لیے ممکن نہ [مزید پڑھیے]
تیرہ سال پہلے جب امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ صدر پرویز مشرف کے پاس اپنی پتلون کی عقبی جیب میں ایک فہرست سمیت پہنچا اور اس نے بتایا کہ وہائٹ ہاؤس کے ایک حالیہ اجلاس میں صدر بش نے اس بات پر ناراضی اور مایوسی کا اظہار کیا کہ اس فہرست میں شامل زیادہ تر دہشت گرد امریکا کے ایک اتحادی پاکستان کی سرزمین میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اجلاس کے شرکا کے مطابق مشرف نے اس معاملے پر توجہ دینے کا وعدہ کیا اور ایک ماہ سے کم عرصے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی ISI نے اس فہرست کے سب سے اہم فرد کو گرفتار کرلیا۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے سابقہ اعلیٰ عہدیدار کے مطابق ’’سچائی تو یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی [مزید پڑھیے]
افغانستان کا ایک بحران سے دوسرے بحران کی جانب سفر جاری ہے۔افغانستان اب وہ جگہ نہیں رہی جہاں انتہا پسند ایک دوسرے کے ساتھ مل کر،دہشتگردی کو استعمال کر کے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کیا کرتے تھے۔ بلکہ یہ اب ایسی جگہ بنتی جا رہی ہے جہاں انتہا پسند اپنے غلبے کے حصول کے لیے لڑ رہے ہیں اور بیرونی طاقتوں کی ترجیحات بھی تبدیل ہو گئی ہیں۔ یہ سب باتیں بھارت کی اس ملک کے بارے میں طویل مدتی سوچ پر سوال اٹھاتی ہے۔ بھارت کی افغان پالیسی کی بنیاد،خاص کر ۱۹۷۹ء کی روسی مداخلت کے بعد، اس بات پر تھی کہ ملک کی سیاسی اور سلامتی کے معاملات زیادہ تر دوستانہ تعلقات والی بیرونی طاقت کے ہاتھ [مزید پڑھیے]
افغان صدر کی اسلام آباد سے ۱۰؍دسمبر کو کابل واپسی پر ان کا استقبال طالبان نے قندھار ائیر بیس پر حملے سے کیا، جس میں ۵۰ سے زائد افراد ہلاک ہوئے اس کے ساتھ ہی افغان انٹیلی جنس کے سربراہ رحمت اللہ نبیل نے بھی صدر کی کابل واپسی پر اپنا استعفیٰ پیش کردیا، ان کا کہنا تھا کہ بعض پالیسی معاملات پر اختلافات کی وجہ سے وہ استعفیٰ دے رہے ہیں۔ استعفیٰ سے ایک روز قبل ہی انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر ان اختلافات کا اظہار کردیا تھا۔ صدر اشرف غنی نے اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا پراسس (Heart of Asia Process) کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی۔ یہ افغانستان کی مدد کے لیے بنایا جانے والا ایک علاقائی پلیٹ فارم [مزید پڑھیے]
اگر کہیں اور ایسا ہوا ہوتا کہ برفانی تودے گرنے سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے کسی پڑوسی ملک نے امداد بھیجی ہوتی تو اِس عمل کو شکریے کے ساتھ قبول کیا جاتا تاہم زیادہ حیرت کا اظہار نہ کیا گیا ہوتا۔ مگر جب حال ہی میں پاکستان نے افغانستان کی وادیٔ پنجشیر میں برفانی تودے گرنے سے ہونے والی ہلاکتوں پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین کے لیے امدادی سامان سے لدے ہوئے طیارے بھیجے تو دنیا کو اندازہ ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کس حد تک بہتر ہوئے ہیں۔ اب یہ امکان بھی موجود ہے کہ پاکستان کی حکومت طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کرے۔ یہ امکان اگرچہ اب تک محض ایک گمان ہے مگر [مزید پڑھیے]
ملا عبدالسلام ضعیف کا کہنا ہے کہ خود کش حملے خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں کا کام ہے، طالبان اِس قبیح فعل میں کبھی ملوث نہیں ہوسکتے۔ اس خیال کا اظہار انہوں نے حال ہی میں جنوبی افریقا میں ’’کیج افریقا‘‘ کی لانچنگ کے موقع پر کیا۔ اُن کی باتوں سے طالبان کے بارے میں پایا جانے والا اچھا خاصا اشکال دور ہوا ہے۔
پشاور کے چرچ پر حملہ القاعدہ کی بین الاقوامی مہم کا حصہ ہے کیونکہ جس دن یہ حملہ ہوا ‘اسی دن کینیا کے شہر نیروبی میں ایک بڑے شاپنگ مال میں بھی اسی قسم کا حملہ ہوا، جہاں اتوار کے روز ہزاروں لوگ موجود تھے۔پشاور میں حملہ کرنے والوں کا تعلق پاکستانی تحریک طالبان سے نہیں بلکہ القاعدہ کے ’’جند اللہ حفصہ‘‘ گروپ سے ہے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے صومالیہ کی الشباب تنظیم اور القاعدہ کے درمیان مفاہمت ہوئی تھی۔ ’’جند اللہ حفصہ‘‘ اس معاہدے میں شامل تھا‘ جس نے دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ حملہ انہوں نے کیا ہے۔پشاور میں دو خودکش حملہ آور ہلاک ہو گئے جبکہ نیروبی میں سات آٹھ حملہ آور تھے، جن کے پاس ہتھیار تھے اور انہوں نے یہ [مزید پڑھیے]
امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے انخلا کی تیاری کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں انخلا مکمل ہونے کی صورت میں معاملات کیا رخ اختیار کریں گے، سب جانتے ہیں۔ طالبان کی پوزیشن مستحکم ہے اور اس کا زیادہ امکان ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے۔ افغانستان میں چالیس سال سے حالات انتہائی سنگین ہیں۔ لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ سوویت یونین کی لشکر کشی کے بعد مغربی طاقتوں نے پاکستان اور دیگر ممالک سے جہادیوں کو فنڈنگ کے ذریعے افغانستان میں متحرک کیا اور بالآخر سوویت افواج کو نکلنے پر مجبور کیا۔ ان چالیس برسوں میں افغان عوام مستقل بنیاد پر غیر یقینی صورت حال کا شکار رہے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور ان کے ہم خیال ممالک افغانستان سے نکلنے کی تیاری [مزید پڑھیے]
مینگورہ، سوات سے تعلق رکھنے والی ۱۵؍سالہ طالبہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہوا تو پوری دنیا میں شور مچ گیا۔ سوال یہ ہے کہ سوات اور اس سے ملحق علاقوں میں دوسری بہت سی لڑکیوں پر بھی تو حملے ہوتے رہے ہیں۔ ان حملوں کے حوالے سے شور کیوں نہیں مچایا گیا؟ امریکی صدر براک اوباما، امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور برطانیہ کے سابق وزیر اعظم گورڈن براؤن نے حملے کی شدید مذمت کی اور پھر تو جیسے پوری دنیا میں مذمت کا سیلاب آگیا۔ ہالی وڈ کی اداکارہ انجلینا جولی نے تجویز پیش کی کہ ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام دیا جائے۔ معروف گلوکارہ میڈونا نے ملالہ کا نام اپنی برہنہ [مزید پڑھیے]
افغانستان میں افغان فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں اتحادی فوجیوں کی ہلاکت کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روشنی میں نیٹو کمانڈر جنرل جان ایلن نے مشترکہ گشت محدود کرنے کا حکم دے کر اس نوعیت کے واقعات کی سنگینی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ۱۶؍ستمبر کو مشترکہ گشت محدود کرنے کا جو حکم دیا اس سے ایک دن قبل بھی افغان فوجیوں کے حملے میں چار امریکی اور دو برطانوی فوجی مارے گئے۔ سال رواں کے دوران فائرنگ سے مارے جانے والے فوجیوں کی تعداد ۵۱ ہوگئی۔ ۲۰۱۱ء میں یہ تعداد ۳۵ اور ۲۰۰۸ء میں صرف ۲ تھی۔ مشترکہ گشت محدود کرنے کا حکم جنگ کے میدان میں مصروف افسران اور برطانیہ میں ایوان اقتدار دونوں کے لیے انتہائی حیرت کا باعث بنا، [مزید پڑھیے]
افغانستان میں نیٹو افواج نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے مختلف طریقے ہیں۔ کئی زاویوں سے اس جنگ کے اثرات کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے تاکہ عوامی حمایت برقرار رکھنے کے لیے طریقے سوچے جاسکیں۔ نیٹو افواج کو افغانستان میں دس برسوں کے دوران شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک بڑی مشکل ’’اپنوں‘‘ کے حملے بھی ہیں۔ افغان فوج اور پولیس کے بہت سے اہلکار آئے دن نیٹو افواج پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ برس ان حملوں میں ۳۵؍افراد مارے گئے تھے مگر اس سال یہ رجحان مزید پختہ ہوا ہے اور اب تک ۴۵ نیٹو فوجی اور اہلکار مارے جاچکے ہیں۔ ۶۹؍اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ [مزید پڑھیے]
صدر آصف علی زرداری کو شکاگو میں نیٹو کانفرنس میں شریک ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ امریکا نے سلالہ چیک پوسٹ کے سانحے پر نہ تو معافی مانگی، نہ ڈرون حملے روکے اور نہ ہی عسکری امداد کی روکی ہوئی رقوم جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ نہ صرف یہ، بلکہ یہ امریکا ہی تھا جس نے نیٹو سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان پر نیٹو رسد بحال کرنے کی شرط عائد کی۔ عجلت میں طلب کیے جانے والے ایک اجلاس میں کابینہ نے اعلان کیا کہ نیٹو رسد کھولنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور صدر شکاگو جاکر نیٹو سربراہ کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ شکاگو میں ایک حیرت انگیز اعلان پاکستانی صدر کا منتظر تھا۔ صدر براک اوباما نے اعلان کیا کہ [مزید پڑھیے]
1
2
»