ایشیا امریکی اتحاد سے دور کیوں ہٹ رہا ہے؟
یہ سیکرٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن تھیں جنہوں نے ایشیا کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے ’’ایشیا مرکز ہے‘‘ کی اصطلاح ٹکسال کی، اور یہ صدر […]
یہ سیکرٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن تھیں جنہوں نے ایشیا کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے ’’ایشیا مرکز ہے‘‘ کی اصطلاح ٹکسال کی، اور یہ صدر […]
جمعہ کے دن یورپی یونین میں سناٹا اور گھمبیر خاموشی کی کیفیت طاری تھی، ا س وقت یہ جاننا تقریباً ناممکن تھا کہ بریگزٹ ریفرنڈم […]
اس نکتے کو بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ نئی حکومت میں بشارالاسد کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ملک کی سنی […]
قومی سلامتی کے حوالے سے اسرائیلی پالیسی عجیب سی لگتی ہے۔ امریکا اور یورپ میں بہت سوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ایک […]
دوسرے الفاظ میں این ایس اے یمن میں موجود القاعدہ کے منصوبہ سازی مرکز سے آنے اور جانے والی ہر کال کو مانیٹر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی، اُن ۲۲۱ کالوں کو بھی جو افغانستان میں موجود بِن لادن کے فون سے آئیں۔ نائن الیون کے بعد تھامس ڈریک، جو این ایس اے کی اعلیٰ انتظامی سروس کے رکن ہیں، کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ ایوانِ بالا کی ذیلی کمیٹی کو ایک بند کمرہ سماعت میں اس بارے میں آگاہ کریں کہ حملوں کے وقت ایجنسی کتنی باخبر تھی۔ […]
ایک حالیہ جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکا میں خود کو عیسائی ظاہر کرنے والوں کی تعداد میں محض سات برسوں کے […]
سامراجیت کے نشے سے سرشار لوگوں کو اس حقیقت سے زیادہ کوئی چیز پریشان نہیں کرتی کہ شاید اس کا خاتمہ ہوجائے۔ طاقت کے ساتھ یہ رومان وقت کے ساتھ ہی چلتا ہے اور پرانے پھل کی طرح ضائع ہوجاتا ہے۔ بالآخر، الجھے ہوئے تضادات ہی آخر میں نمایاں ہوتے ہیں۔ امریکی سلطنت کے دن گنے جاچکے ہیں، مگر وہی بات، کہ ایسا ہمیشہ سے تھا۔ [مزید پڑھیے]
امریکی غلبے کو چین ختم نہیں کرے گا، تاہم سیاسی پیچیدگیوں اور دوسروں کے مسائل سے لاتعلقی کے باعث ایسا ہوسکتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے […]
تین مارچ کو امریکی کانگریس میں بن یامین نیتن یاہو کی قیامت خیز تقریر زیادہ مدد گار ثابت نہیں ہوئی۔ تقریر کا مقصد امریکا کو […]
نائن الیون کے تیرہ سال بعد امریکی صدر ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوا اور قوم کو بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی کی جنگ میں نئے دُشمن کے خلاف نیا محاذ کھولا جارہا ہے۔ یہ کوئی ایسا اعلان نہیں تھا جس کی براک اوباما نے توقع کی ہو۔ اُنہوں نے قوم کو بتایا کہ نئی جنگ چھیڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
مریکی صدر براک اوباما کہتے ہیں کہ آج کی دنیا غیر یقینی ہے، کہیں بھی کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر اس بدلتی ہوئی دنیا میں صرف ایک چیز ہے جو غیر تبدل پذیر ہے اور وہ ہے امریکی خارجہ پالیسی۔
امریکی پالیسی ساز اہل وطن کو یقین دلاتے رہے ہیں کہ اُن کا ملک ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رہے گا اور ہمیشہ خوش حالی اُن کے قدم چُومتی رہے گی۔ یہ خوش کن باتیں اب امریکیوں کا دل نہیں بہلا سکتیں۔ اُنہیں اندازہ ہوچکا ہے کہ اچھا وقت گزر چکا ہے یا گزر چلا ہے اور یہ کہ آنے والے دور کے دامن میں اُن کے لیے پھول کم اور کانٹے زیادہ ہیں۔
امریکی شہریوں کی رائے جاننے کے لیے یہ سروے ۱۹۵۰ء کی دہائی سے کیا جارہا ہے۔ ’گیلپ‘ کے ماہرین کے مطابق گوکہ مذہب کی افادیت کے قائل امریکی باشندوں کی تعداد میں بتدریج کمی آرہی ہے لیکن اب بھی امریکی معاشرے میں ایسے افراد کی اکثریت ہے جو سمجھتے ہیں کہ مذہب دورِ جدید کے سوالوں کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے
امریکا کے علمی جریدے ’’پرسپیکٹیوز آن پولیٹکس‘‘ کے تازہ ترین شمارے میں ایک مقالہ شائع ہوا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں جو نظام اس وقت کام کر رہا ہے اسے جمہوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کہنے کو یہ جمہوریت ہے۔ لوگ ووٹ دے کر اپنی مرضی کی حکومت منتخب کرتے ہیں مگر یہ حکومت ان کی مرضی کے مطابق کام نہیں کرتی۔ یہ چند بڑوں کی حکومت ہے، جو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور
امریکا کے تیسرے صدر اور اعلانِ آزادی کے خالق تھامس جیفرسن کے پاس نہ صرف یہ کہ قرآن کا نسخہ تھا بلکہ انہوں نے اسلام کو امریکی معاشرے کی تصویر کے ایک ممکنہ رنگ کے طور پر دیکھا اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کی کوشش بھی کی۔
Copyright © 2024 | WordPress Theme by MH Themes