سنکیانگ
مانچو زبان میں سنکیانگ کا مطلب “نیا صوبہ” ہے، یہ نام اسے چنگ دور میں دیا گیا۔ یہاں ترکی النسل باشندوں کی اکثریت ہے جو اویغور کہلاتے ہیں۔ جو تقریباً تمام مسلمان ہیں۔ یہ علاقہ چینی ترکستان یا مشرقی ترکستان بھی کہلاتا ہے۔
سنکیانگ ایغور خود مختار علاقے میں چینی حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر شہریوں کی نظربندی کا جو پروگرام جاری ہے اس پر بحث کا اہم نقطہ ’’عرب حکومتوں‘‘کی خاموشی بھی ہے۔قطر واحد عرب ملک ہے جس نے پندرہ لاکھ مسلمان اقلیتوں کونام نہاد re-education campsـ کے نام پر چینی حکومت کی جانب سے نظربند کرنے پر تنقید کی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے چین کے اس اقدام کی انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی کے ایک حصے کے طور پر توثیق کی ہے۔ کچھ مبصرین عرب دنیا کے اس رویے کو خطے میں چین کے معاشی اثرورسوخ سے منسوب کرتے ہیں۔اس مضمون میں مبصرین کی اس رائے کو چیلنج نہیں کیا جا رہا بلکہ خطے میں چین کے معاشی [مزید پڑھیے]
کچھ مدت قبل ترکی کے شہر استنبول میں شہریوں کو کچھ ایسا دیکھنے کو ملا جو اُن کی آنکھوں کے لیے بہت حد تک اجنبی تھا۔ شہر کے بعض حصوں میں (بالخصوص اُن علاقوں میں جو سیاحوں میں بہت مقبول ہیں) میٹرو اور ٹرام اسٹیشنوں کے نام چینی حروفِ تہجی میں دکھائی دیے۔ چین کے صوبے سنکیانگ میں ایغور ترک مسلمانوں سے بدسلوکی اور حق تلفی پر مشتعل مظاہرین نے بعض سائن بورڈ توڑ بھی دیے۔ بعض سائن بورڈوں پر چین مردہ باد اور مشرقی ترکستان کی آزادی سے متعلق نعروں پر مبنی پوسٹر چسپاں کردیے گئے۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے میئر اکرم اماموغلو نے بتایا کہ یہ سائن بورڈ استنبول اور چینی سفارت خانے کے درمیان سمجھوتے کے نتیجے میں لگائے گئے تھے، [مزید پڑھیے]
چین میں سنکیانگی مسلمانوں پر جو بربریت گزر رہی ہے، اس پر مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد تقی عثمانی نے سخت تشویش کا اظہار کیاہے۔ ایک بیا ن میں انہوں نے کہا ہے ’’سنگیانگ کے مسلمانوں کے بارے میں تشویشناک خبریں آرہی ہیں۔ حکومت پاکستا ن کا فرض ہے کہ وہ چینی مسلمانوں سے متعلق خبروں کی تحقیق کرے اور اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے مسلمانوں کو انصاف دلائے‘‘ (جنگ کراچی، ۵ جنوری ۲۰۲۰ء) ادھرامریکی اخبار’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے اپنی اشاعت مورخہ ۱۶ نومبر ۲۰۱۹ء میں چینی حکام کی جانب سے ایغور مسلمانوں کے خلا ف ۴۰ صفحات کا چینی زبان کا حکم نامہ چینی زبان کی عبارت کے ساتھ ترجمہ کرکے شائع کیا ہے۔ اس نے تفصیل سے بتایا ہے کہ وہاں کس بُری طرح مسلمانوں [مزید پڑھیے]
چین کے سب سے بڑے اور اہم تزویراتی صوبے سنکیانگ میں چینی حکومت کے جبری اقدامات تاحال جاری ہیں، وہاں کی کسی بھی حکومت نے انہیں نہیں بخشا ہے۔ جیسا کہ اسی پرچے میں اپنے گزشتہ مضمون مورخہ ۱۶؍مارچ ۲۰۱۹ء میں راقم نے تفصیل سے بتایا تھا کہ سنکیانگی ایغور مسلمان گزشتہ کئی عشروں سے مسلسل جبر و تشدد کا شکار ہیں، خطے میں کبھی عرصۂ دراز تک ایک خالص ’’مسلم ترکستان‘‘ نامی حکومت قائم رہی تھی تاہم سابقہ تمام حکومتوں نے اس پر ہمیشہ چڑھائی ہی جاری رکھی تھی، حتیٰ کہ اس کی خودمختاری ختم کر کے آہنی شکنجے میں کس لیا۔ کل کی خودمختار اسلامی ریاست آج بدترین آہنی قید خانہ بنی ہوئی ہے، جہاں سے محض چھن چھن کر خبریں باہر آرہی [مزید پڑھیے]
کشمیر کی صورتِ حال صاف بتارہی ہے کہ تہذیبوں کی بنیاد پر قائم دنیا کیسی دکھائی دیتی ہے۔ بین الاقوامی قانون کو جُوتے کی نوک پر رکھنے کے حوالے سے مودی، نیتن یاہو، شی جن پنگ اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک صف میں، بلکہ شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ اہلِ کشمیر کو آزادی یا حق خود ارادیت سے محروم کرنے کے حوالے سے نریندر مودی کا حالیہ اقدام تاریخی اعتبار سے کس طرح کا ہے، اِس کا درست اندازہ لگانے کے لیے ہمیں ۱۹۵۲ء میں تب کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے الفاظ پر غور کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا ’’کشمیر بھارت کی جاگیر ہے نہ پاکستان کی۔ یہ تو کشمیریوں کا ہے۔ جب جموں و کشمیر کا پاکستان سے الحاق کیا [مزید پڑھیے]
سال ۲۰۰۹ میں بیجنگ اولمپکس کھیلوں کے ابتدائی ایام میں چین کی بعض تنظیمیں حکومت کے خلاف بعض امور پر احتجاجی مظاہرے کررہی تھیں، جن کاچرچا عالمی میڈیا میں دیر تک ہوتا رہا۔ ان مظاہرین میں عام طور پر تبّت کے باشندے شامل تھے، جن کے مطابق چین نے ان کے علاقے پر زبردستی قبضہ کیا ہوا تھا۔یاپھر معروف چینی تنظیم ’’فالان گونگ‘‘کے کارکنان تھے جنہیں چین میں خلافِ قانون قراردے دیا گیا ہے۔ لیکن اُنہی دنوں چین میں کچھ اور افراد بھی احتجاجی مظاہرے کررہے تھے، جن کے مقاصد مذکورہ بالا تنظیموں سے بالکل مختلف تھے۔ بدقسمتی سے میڈیا میں ان مظاہرین کا ذکر نہ ہونے کے برابر تھا، اور جو کچھ کیا گیا، وہ بھی ان پر ’’دہشت گرد‘‘ ہونے کا لیبل لگاکر [مزید پڑھیے]
چین کی تیز رفتار ترقی نے مغرب کی نیندیں اڑا رکھیں ہیں۔ لاکھ کوشش کرنے پر بھی وہ چینی معیشت کی نمو کی رفتار کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر چین کا راستہ روکنے کی جتنی بھی کوششیں کی ہیں ان میں انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ چین نے وسط ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقا میں تیزی سے قدم جمائے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا تو اس کا اپنا خطہ ہے۔ اوشیانا کے علاقے میں بیشتر ممالک اس کے زیر اثر ہیں اور اس سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ مغربی مبصرین اور تجزیہ نگار چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ چین کی ترقی کو لگام دینا اب ممکن [مزید پڑھیے]
کائنات کی تخلیق قرآن میں کائنات کی تخلیق کا ذکر سورۃ الانعام کی آیت ۱۰۱ میں کیا گیا ہے: ’’وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے‘‘۔ قرآن میں دی ہوئی یہ اطلاع دورِ حاضر کی سائنس کی دریافتوں کے عین مطابق ہے۔ آج کی فلکی طبیعیات (Astrophysics) اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ پوری کائنات اپنی پوری مادی وسعتوں سمیت ایک عظیم دھماکے کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی تھی۔ اس واقعے کو ’’بگ بینگ‘‘ (Big Bang) یا ’’انفجارِ عظیم‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’بگ بینگ‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ کائنات ایک نکتے سے‘ عدم سے وجود میں آئی۔ جدید سائنسی حلقے اس بات پر متفق الرائے ہیں کہ کائنات کے آغاز اور اس کے وجود کی واحد معقول اور قابلِ ثبوت وضاحت [مزید پڑھیے]
چین کے صوبے سنکیانگ میں ۵ جولائی ۲۰۰۹ء کو مسلم یوگرز (Uighurs) کے احتجاجی مظاہروں کی شدت نے کئی عشروں بعد بدترین نسلی فسادات کی صورت اختیار کر لی۔ امن قائم کرنے والے اداروں نے ان فسادات پر بروقت قابو تو پالیا لیکن ان فسادات میں ۱۸۰ کے قریب لوگ موت سے ہمکنار ہو گئے۔ یوگرز کا کہنا ہے کہ امن قائم کرنے کے ذمہ دار اداروں نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور پرامن مظاہرین پر بے جا تشدد کیا گیا۔ عالمی یوگرز کانگریس نے ان فسادات کو ’’چینی حکام کی طرف سے سنکیانگ میں ڈھائے گئے بدترین مظالم‘‘ کا نام دیا ہے۔ چین کے صدر جو کہ جی۔۸ (G-8) کانفرنس میں شریک تھے فوری طور پر [مزید پڑھیے]