طیب ایردوان کی تقریر پاکستان کی پارلیمنٹ میں

رجب طیب ایردوان نے ۱۷ نومبر ۲۰۱۶ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دورہ کیا اور پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا، جو آپ کی نذر کیا جارہا ہے۔ ایردوان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ واحد عالمی راہنما ہیں جو تین بار پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرچکے ہیں۔ (ادارہ)

محترم اسپیکر، سینیٹرزاور اراکین قومی اسمبلی!
میں آپ کو اپنی، اپنے وفد کی اور ترک قوم کی طرف سے احترام، محبت اور خلوص بھرا سلام پیش کرتا ہوں۔
السلام علیکم و رحمتہ اللّٰہ!

میں ترکی سے سب کی محبت سمیٹ کر لایا ہوں، میں آپ سب سے ایک بار پھر محبت، خلوص اور احترام کا اظہار کرتا ہوں۔ ۲۰۱۲ء کے دورۂ پاکستان کے دوران بھی میں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی تھی۔ تقریباً ساڑھے چار سال بعد قومی ادارے و حاکمیت کی علامت اس ادارے کی چھت تلے یکجا ہونا میرے لیے انتہائی مسرت کا موقع ہے۔ پاکستان نے اپنی اَقدار کے تحفظ کے ساتھ جمہوریت پر عمل درآمد کو کامیابی کے ساتھ سرانجام دے کر مسلم امہ کے سامنے ایک خوبصورت مثال پیش کی ہے۔ میں اس احسن کامیابی پر آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

محترم اور معظم بھائیو اور بہنو!

ترکی اور پاکستان کے تعلقات کسی بھی دو ممالک کے درمیان سفارتی رابطوں سے کہیں بڑھ کر خصوصیات کے حامل ہیں، ہم صرف الفاظ تک ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں دو برادر ملک ہیں۔ ہمارے عوام کے درمیان اس قدر گہری دوستی اور محبت کا ناتا پایا جاتا ہے کہ ہم پاکستانی بھائیوں کی خوشی اور غم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ بھی جذبات رکھتے ہیں۔ ہماری مملکتوں اور اقوام نے تاریخ کے دوران اس مفاہمت کا کھل کر مظاہرہ کیا ہے۔ مولانا جلال الدین رومی، وسیع معنوں میں اسی جغرافیہ پر جنم پانے والے، اپنے فیض و علم کو اناطولیہ سے دنیا بھر میں پھیلانے والے، ایک مشترکہ اثاثہ ہیں۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، محض گزشتہ ایک صدی کا جائزہ لینے سے ہماری باہمی دوستی کی گہرائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ معرکہ چناق قلعے(۱۹۲۲ء) کے دوران ہزاروں کی تعداد میں آپ مسلمان بھائیوں کے انتہائی کٹھن حالات میں ہماری مدد کو پہنچنے کو ہم نے نہ توکبھی فراموش کیا ہے اور نہ ہی کریں گے۔ آج کے جمہوریہ ترکی کی بنیاد میں، برطانوی جنگ کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کی مدد کو دوڑے چلے آنے والے اور اعلانِ جمہوریت کے بعد بھی ہمارے وطن کے لیے خدمات سرانجام دینے والے عبدالرحمن پشاوری کی طرح کے، متعددپاکستانیوں کی خدمات اور مشقت کارفرما ہے۔ اُس دور میں عبدالرحمن پشاوری کو ان کی والدہ محترمہ نے گھر لوٹ آنے کا پیغام بھیجا تو ہمارے بھائی نے یہ جواب دیا کہ ’’اناطولیہ پر دشمن کے حملے کے وقت اب میں کیسے واپس لوٹ سکتا ہوں…!‘‘ ہماری نظروں میں علامہ اقبال اور محمد عاکف کا ایک ہی مقام ہے۔ آپ ہماری آزادی اور درخشاں مستقبل کے شعراء ہیں۔ ترکی میں ۱۹۸۹ء کے زلزلہ کے دوران سب سے زیادہ مدد اور تعاون پاکستانی بھائیوں نے ہی فراہم کیا تھا جسے ہم کبھی نہیں بُھولے اور نہ بُھلا سکیں گے۔ ۲۰۱۴ء میں ترکی میں پیش آنے والے کان کے المیہ پر پاکستان نے ایک روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا تھا، ہم نے بھی دسمبر ۲۰۱۴ء میں پشاور کے اسکول میں بیسیوں بچوں کی ہلاکت کا موجب بننے والے مذموم دہشت گرد حملہ کے غم میں سرکاری طور پر ایک روزہ سوگ منایا تھا۔ ماضی سے چلے آنے والے اور ہر دور میں اپنی تروتازگی کو برقرار رکھنے والے ہمارے یہ مضبوط تعلقات، ترکی اور پاکستان کو ایک دوسرے کے لیے خاص بناتے ہیں۔ ہم ان شاء اللہ تعالیٰ اس بھائی چارے اور باہمی تعاون کو دنیا بھر میں مقبولِ عام کریں گے۔

عزت مآب اسپیکر و چیئرمین اور معزز اراکین اسمبلی!

ترکی میں ۱۵ جولائی کی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد پاکستان کی حکومت، اسمبلی اور عوام کے طور پر پاکستان کے ہمارے شانہ بشانہ ہونے والے پہلے ملک ہونے کامیں یہاں خصوصی طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں، ہم نے قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد کا بڑی ممنونیت کے ساتھ خیرمقدم کیا ہے۔ میں ذاتی طور پرترک قوم کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اسمبلی کے ارکان پر مشتمل وفد کاماہِ اگست میں ترکی کا دورہ، ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن ثابت ہوا۔پاکستان نے دہشت گرد تنظیم’’فیتو‘‘کے خلاف ۱۵ جولائی کی بغاوت کے اقدام پراپنے واضح موقف کا اظہار کرتے ہوئے پہلی جنگِ عظیم کی طرح ترک قوم کے ساتھ ہونے کی یاد تازہ کی ہے، اللہ آپ سے خوش ہو۔ ہمارے اس تعلق کو روزِ آخر تک قائم و دائم رکھے۔ آپ کی حمایت اور تعاون کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں۔

میں اس وساطت سے ایک بار پھر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ’’فیتو‘‘نہ صرف ترکی بلکہ تمام ممالک کے مستقبل کے لیے خطرناک خونی دہشت گرد تنظیم ہے۔

اس نے ۱۲۰ ملکوں میں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ کہاں پر ہے یہ؟ یہ پنسلوانیہ (امریکا) میں ہے،اور وہاں سے دنیا بھر میں اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔ہم سب میں جومشترکہ اقدار پائی جاتی ہیں،یہ ان کو استعمال کررہے ہیں۔ آپ ان کو دیکھیں کہ ویٹیکن کے ساتھ بھی ان کا تعلق پایا جاتا ہے۔یہ کہتے ہیں کہ ہم آپس میں ایسے منسلک ہیں کہ جیسے شہ رگ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ہماری شہ رگ سے قریب ہونے والی طاقت صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس کے سوا کوئی طاقت نہیں ہوسکتی۔ یہ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے شرک کے مرتکب ہورہے ہیں۔ میں اس چیز کو خاص طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں، مجھے یقین کامل ہے کہ اس دہشت گرد تنظیم کو پاکستان کو نقصان پہنچانے سے قبل ہی قلیل مدت میں ملیامیٹ کر دیا جائے گا۔ حکومت پاکستان کے اس فیصلے کو بروقت قرار دیتا ہوں۔ ’’فیتو‘‘ کے خلاف ہماری جنگ میں بھرپور تعاون کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دہشت گرد تنظیم کے خلاف ہمارا باہمی تعاون مزید فروغ پاتے ہوئے جاری و ساری رہنا چاہیے۔ القاعدہ اور اس کے ایک عنصر کے طور پر منظر عام پر آنے والی داعش کی طرح کی دہشت گردتنظیمیں صرف اور صرف اسلام کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور دینِ اسلام کے خلاف جاری جنگ کا آلہ کار بنی ہوئی ہیں۔مسلمانوں کا خون بہانے کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہ رکھنے والی ان تنظیموں کو، ہمیں قلیل مدت میں مسلم امہ اور دنیا بھر سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ ہم ان کے خلاف اندرونِ ملک، شام میں اور عراق میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم اس جدوجہد کو ڈرے بغیر اور ہمت کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں، ہمیں اس چیز کو سمجھ لینا چاہیے۔ ہمیں اس چیز کو سمجھ لینا چاہیے کہ دینِ اسلام کو یہ جو نقصان پہنچا رہے ہیں کوئی دوسرا نہیں پہنچا سکتا۔ دینِ اسلام ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ بے گناہ انسان کو کسی طرح بھی آپ سزا نہیں دے سکتے، ان کو قتل نہیں کرسکتے۔ ایسا کوئی حق نہیں پایا جاتا، یہ لوگ اس جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ان کے درمیان کون کون لوگ پائے جاتے ہیں، مغربی دنیا ان کے ساتھ ہے، داعش سے برآمد ہونے والے اسلحے کا مغربی دنیا سے تعلق ہونے کا ہم نے واضح طور پر پتا چلایا ہے اور سب جانتے ہیں کہ ان کی مدد مغربی دنیا کر رہی ہے۔ تقسیم ہونے والے ممالک کون سے ہیں، شام میں تقسیم ہو رہی ہے، عراق میں تقسیم ہوئی ہے، لیبیا میں تقسیم کا معاملہ سامنے آیا ہے، افغانستان میں اسی قسم کاانتشار پایا جاتا ہے۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد جاری ہے۔ ترکی بھی اسی طرح جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اب تک دہشت گردی سے نجات نہیں پائی ہے۔ YPG (کرد دہشت گرد تنظیم)، داعش اور فیتو کے خلاف ہماری جدوجہد جاری ہے اور ہم ان کے خلاف جدوجہد کو پُرعزم طریقے سے جاری رکھیں گے۔ میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس طرح سے نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔ ہمیں متحد ہو کر، ڈٹ کر ان کے خلاف محاذ آرائی کرنی چاہیے۔ ہمیں قلیل مدت کے اندر ان کو مسلم دنیا سے کاٹ پھینکنا چاہیے، وگرنہ ترکی، پاکستان اور امت مسلمہ میں امن و آشتی خواب ہی رہے گی۔ اگر ہم اس پیارے دین کے پیروکار کے طور پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ان مسائل کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو پھر ہم مسلمانوں کو ذلت کے گڑھے سے کبھی باہر نہیں نکال سکیں گے۔

دینِ اسلام کہاں سے تعلق رکھتا ہے؟ عربی زبان کے لفظ ’’سلم‘‘ سے اس کا تعلق ہے، جس کا مطلب ہے ’’امن‘‘۔ اسلام اور دہشت گردی کا تعلق بیان کرنا اسلام کے برخلاف ہے اور اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ دین اسلام توحید اور وحدت کا پیامبر ہے۔ کرۂ ارض پر اچھائی کا بول بولا کرنے اور بدی کو ختم کرنے کا مقصد رکھنے والے اس دینِ اعلیٰ سے وابستہ ہونے پر ہم سب کو فخر ہے۔ جیسا کہ ہمارے رب نے کہا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ۔

’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

(آل عمران:۱۱۰)

دوسرے الفاظ میں مسلمان کی شناخت، ہر طرح کے مظالم اورحق تلفیوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے پر مبنی ہے۔ ہمیں یہی زیب دیتا ہے۔ ہم صرف اور صرف اسی صورت میں رب العالمین کے احکامات کے عین مطابق امت بن سکتے ہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں کے درمیان تفرقے کے بیج بو کر اپنے لیے زمین ہموار کررہے ہیں۔ اس تفرقہ اور استحصالی صورت حال سے نجات پانے کے لیے ان کا قلع قمع کر نا لازم ہے۔

پیارے بھائیو! ہمارے دین میں تفرقے جیسی کوئی چیز نہیں۔ آپ کسی بھی مسلک سے تعلق کیوں نہ رکھیں سب سے افضل دین، دینِ اسلام ہے۔ ہم اس کی چھت تلے ملنے پر مجبور ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے۔ یہ لوگ ہمارے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں، لہٰذا ہمیں دینِ اسلام کی چھت تلے مستقبل کی جانب بڑھنا ہوگا۔ اسلامی مملکتوں کو تفرقہ، نفرت، فتنہ اور جہالت کے نام لیواؤں اور جغرافیہ کے بدلنے کے درپے ہونے والوں کے خلاف ہمیں مل جل کر نبرد آزما ہونا چاہیے۔ جیسا کہ علامہ محمد اقبال نے فرمایا ہے، مفہوم عرض ہے ’’عمل میں عدم اتحاد ہو تو افکار کی یکجہتی کس کام کی‘‘۔ ترکی اور پاکستان اپنی تہذیب، جغرافیہ اور قدیم ورثے کی بدولت اس دنیا میں قائدانہ کردار ادا کرنے اور دنیا کو متحد کرنے کی استعداد کے مالک دو ملک ہیں۔ ہم اس معاملے میں ہر قسم کے خطرات کو ہاتھ میں لیتے ہوئے جدوجہد سے دریغ نہیں کررہے۔ ہم خطے میں انسانی بحرانوں، دنیا بھر میں ہونے والی حق تلفیوں اور ناانصافیوں کا ہر پلیٹ فارم پر ذکر کرتے ہیں اور حل کی تجاویز پیش کرتے چلے آئے ہیں۔ ہماری جدوجہد محض یہاں تک محدود نہیں، بلکہ ہم انسانی وسائل کے ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ضرورت پڑنے پر سیاسی منصوبوں کی بدولت تمام بھائیوں کے شانہ بشانہ ہونے کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ہماری یہ جدوجہد کسی واحد مسلمان کے نا حق خون کا سدباب بننے تک جاری رہے گی۔ ہم، پاکستانی بھائیوں کو بھی امت مسلمہ کا راستہ مل جل کر ہموار کرنے کی پیشکش کرتے ہیں۔

مشترکہ اقدار اور قدیم روابط کے مالک علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں ایک دوسرے کی حمایت کرنے والی ہماری مملکت کے باہمی تعلقات میں حالیہ چند برسوں میں سنجیدہ سطح کے اقدامات کا مشاہدہ ہوا ہے۔ دوطرفہ اعلیٰ سطحی تعلقات ہمارے روابط کے پھلنے پھولنے میں معاونت کا وسیلہ ہیں۔ اسی طرح بین پارلیمانی روابط اور مذاکرات دونوں ملکوں کے سیاست دانوں و عوام کے درمیان تعلقات کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ کل شام خاص طور پر معزز صدر پاکستان سے ملاقات کے دوران اور آج وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مذاکرات کے دوران ترکی اور پاکستان کے درمیان اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے ہمیں جائزہ لینے کا موقع ملا۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان شاءاللہ اس روڈ میپ پر ہم عنقریب اہم سطح کی اسٹریٹجک کونسل کے ذریعے باہمی روابط بڑھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ہمارا ہدف ہے کہ باہمی تجارت کو ایک ارب ڈالر تک بڑھایا جائے۔ سیاسی، فوجی، انفرااسٹرکچر اور توانائی کے حوالے سے تمام تر اقدامات مل جل کر منافع حاصل کرنے کی بنیاد پر آگے بڑھائے جائیں گے۔

پاکستان اور ترکی کی پارلیمان کے مابین ہونے والے ڈائیلاگ کو ان شاء اللہ جاری رہنا چاہیے۔ اسی طرح سرمایہ کاری کے شعبوں میں بھی باہمی تعاون کو تقویت دینا لازم ہے۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان ۲۰۰۹ء میں قائم کردہ اعلیٰ سطحی اسٹریٹجک تعاون کونسل نے تعلقات کو ایک ادارہ جاتی رُوپ (Institutional frame) میں ڈھالا ہے۔ ہم نے اب تک اس کونسل سے طے پانے والے ۵۱ معاہدوں اور دستاویز کی بدولت طویل مسافت مختصر دورانیہ میں طے کی ہے۔ تاہم ہمارے نزدیک یہ کافی نہیں ہے،ہمیں اپنے عوام کے لیے روزگار پیدا کرنے والے منصوبوں اور نئی شراکت داری کو مشترکہ طور پر عملی جامہ پہنانا چاہیے۔

ترکی اور پاکستان انتہائی اعلیٰ سطح کی استعداد کے مالک دو ملک ہیں۔ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے ہمیں کسی قسم کی رکاوٹ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکنے چاہئیں۔ ہمیں سرمایہ کاری کو فروغ، بنیادی ڈھانچے میں نئی سرمایہ کاری، صحت اور دفاعی صنعت کے شعبہ جات میں مزید کام کو باہمی تعاون کے ذریعے پُرعزم طریقے سے جاری رکھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں پاکستانی بھائیوں کو مدد فراہم کررہا ہے۔ ۲۰۱۰ء میں پیش آنے والے سیلاب میں ہماری فلاحی تنظیمیں ’’ہلال احمر پاکستان‘‘ مدد کو پہنچ کر اپنی عملی طاقت کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ دوسری جانب مختلف سطح کی اسکالر شپ کی بدولت پاکستان کے تعلیمی تجربات کو ہمارے ملک تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے حوالے سے پاکستانی بھائیوں کو بھی مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔ میں آئندہ ماہ ہونے والے معاہدے کو قدر و قیمت کاحامل تصور کرتا ہوں، جس کے تحت پاکستانی تعلیمی اداروں کے ۵۰۰ طلبہ کو ہر برس ہمارے ملک میں پی ایچ ڈی کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

ان شاء اللہ ہر میدان میں ہمارے مشترکہ منصوبے مستقبل میں بھی جاری رہیں گے۔

محترم اسپیکر اور ممبران!

ہم پاکستان افغانستان کے درمیان اچھے ہمسایہ تعلقات کو فروغ دینے میں تعاون کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ تعاون خطے میں امن و سلامتی کے قیام کے لیے اہم اقتصادی و ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے اعتبار سے لازم و ملزوم ہے۔

ہماری گہری حساسیت کے ساتھ پیچھا کرتا مسئلہ کشمیر ۷۰ سال سے ہمارے ضمیروں کو گھائل کرتا چلا آرہا ہے۔ حالیہ ایام میں کشمیر میں پیش آنے والے دردناک واقعات نے اس مسئلے کی اہمیت اور اس کے جلد حل ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ہم کشمیری بھائیوں کے سر پر پڑنے والے مسائل و کرب سے آگاہ ہیں۔ علاقے میں تناؤ میں اضافہ پر گہرے خدشات رکھتے ہیں، سیاسی و انسانی پہلو کے حامل اس تنازع کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے لیے مزید جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسلامی تنظیم کے سیکرٹریٹ کے حوالے سے ہونے والے انتخابات میں ترکی نے سیکرٹری کا عہدہ حاصل کیا ہے۔ ترکی مسئلہ کشمیر پر اپنی کوششوں کو اس فورم کے ذریعے اقوام متحدہ کی چھت تلے آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ مسئلہ کشمیر کے لیے بین الاقوامی برادری کو مزید کوششیں کرنی چاہییں۔ ترکی مکمل تعاون اور ہر قسم کی جدوجہد کے لیے تیار ہے۔

ان خیالات کے ساتھ میں آپ کی جانب سے دی گئی محبت اور عزت کا دلی طورپرشکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کو اور تمام پاکستانی بھائیوں کو ایک بار پھر سلام محبت و خلوص پیش کرتا ہوں۔ رب کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

پاکستان زندہ باد۔ ترک پاکستان دوستی پائندہ باد۔

(تسوید: عبدالرحمن کامران)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*