کیا آخر ایک جنونی جیت گیا اور انسان دوستی، باہمی احترام، رواداری اور برداشت کی تمام انسانی اقدار شکست کھا گئیں۔ کیا امریکی ریاست فلوریڈا کا جنونی اور متنازع پادری ٹیری جونز قرآن حکیم جیسی مقدس کتاب کو نذر آتش کرکے کامیاب ہوگیا۔ اس سوال کا ایک جواب امریکی حکومت اور اس کی قانون پر عملداری کے تصور کو دیناہے اور دوسرا جواب انسانی وجدان اور ضمیر کے ذمے ہے۔
پاکستان میں امریکی سفارتخانے نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ قرآن پاک کے نسخے جلانے کے حوالے سے ڈو ورلڈ آئوٹ ایچ سینٹر کے ناپاک منصوبے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا تھاکہ یہ پابندی فائر آرڈیننس کے تحت لگائی گئی ہے اور اگر اس پابندی کے باوجود پادری باز نہ آیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکا اس منحوس پادری کے خلاف کیا قانونی کارروائی کرتا ہے۔
فلوریڈا کا بدنام جنوبی پادری جس نے آزادی کے تصور کو بظاہر آزادی سے پامال کیا ہے، گزشتہ برس بھی اس وحشیانہ اقدام کا اعلان کرتا رہا ہے البتہ عالمی رائے عامہ کے دبائو سے وہ وقتی طور پر اس سے باز آگیا تھا لیکن آخرکار اس نے اپنے شوم ارادے پر عمل کر ڈالا۔
جب سے ٹیری جونز نے اپنے اس ارادے کا اعلان کیا عالمی رہنما اسے اس کے عواقب سے آگاہ کرتے رہے ہیں اور اس ارادے کے منفی پہلوئوں کی طرف متوجہ کرتے رہے ہیں اور اب بھی پوری دنیا میں اس کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ایسے اقدام کی اجازت نہیں دے سکتا۔ پاکستان نے سرکاری طور پر اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ پاکستان کی سینیٹ نے متفقہ طور پر اس کے خلاف قراردا مذمت منظور کی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے نے اس کے خلاف باقاعدہ احتجاج کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ رحمن ملک کے بقول قرآن پاک کی توہین کرنے والا امریکی پادری دہشت گرد ہے۔ بھارت کے وزیراعظم من موہن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کے منصوبے کو نہ روکا گیا تو کوئی مذہب بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ برطانوی حکومت نے جنوری میں اس جنونی پادری کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔ وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھاکہ برطانوی حکومت ہر قسم کی انتہا پسندی کی مخالفت کرتی ہے اور ٹیری جونزکی برطانیہ آمد سے کمیونٹیز میں اشتعال پیداہونے کا خطرہ ہے۔ پوپ بینڈکٹ پادری ٹیری جانز کے قرآن حکیم کے بارے میں نظریات کی مخالفت کر چکے ہیں۔ پوپ کے اس بیان کی عالم اسلام میں حمایت کی گئی۔ ان سب کے علاوہ بھی مختلف چرچ کے سربراہوں اور دیگر رہنمائوں نے بھی اس اشتعال انگیز اور افسوس ناک اقدام کی مذمت کی ہے۔ پاکستان اور دیگر کئی ممالک میں اس الم انگیز سانحے کے خلاف وسیع پیمانے پر عوامی احتجاج بھی ہوا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
پادری ٹیری جونز کے اس ناپاک اقدام کی مخالفت میں جس طرح تمام ادیان و مذاہب کے لوگ ایک نظر آتے ہیں اس سے ظاہرہوتا ہے کہ انسانی ضمیر ابھی زندہ ہے اور یہ ردعمل اسی ضمیر کی زندگی کااظہار ہے۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ مغرب میں پے درپے اسلام اوراس کے مظاہر کے خلاف اس طرح کے واقعات حالیہ برسوں میں کیوںزیادہ ہوگئے ہیں اور ان کا پس منظر کیا ہے۔ علاوہ ازیں اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مغربی معاشرہ کہاں پہنچے گا۔ ہماری رائے میں یہ بہت سنجیدہ سوال ہے جس کا جائزہ مغربی دانشوروں کو لینا چاہیے۔
اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے برطانوی کابینہ کی پہلی مسلمان وزیر سعید ہ وارثی کا ایک حالیہ بیان ہماری مدد کرسکتا ہے۔ انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف حقارت آمیز رویہ اور کٹرپن برطانوی معاشرے کا جزو بن چکاہے جس کا شراب خانوں اور رات کی دعوتوں میں کھلم کھلا اظہار ہورہا ہے۔ سعیدہ وارثی جو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ میں وزیر بے محکمہ اور پارلیمان کے ایوانِ بالا کی رکن ہیں نے انگلینڈ کے ذرائع ابلاغ کے بارے میں کہا کہ وہ مسلمانوں پر معتدل یا انتہا پسند کا ٹھپہ لگاتا ہے اوراکثروبیشتر برطانیہ کی ۲۰ لاکھ کی مسلمان آبادی کے خلاف حقارت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
یہی صورتحال امریکا اور دیگر بہت سے مغربی ممالک میں بھی ہے۔ ۱۱/۹ کے بعد امریکا کے حکمران طبقے کی قیادت میں مسلمانوں کے خلاف یہی فضا پورے مغرب میں پیداکی گئی ہے۔ یہ فضا دراصل امریکا کے جدید استعماری مقاصد اور جنگی ضروریات کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ ۱۱/۹ کے بعد امریکا نے جس طرح دیگر ملکوں پر جنگیں مسلط کی ہیں اور اپنی فوجوں کو حرکت دی ہے اس کے لیے ضروری تھا کہ ایک جنگی جنون پیداکیا جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سوئزر لینڈ جیسے پرامن ملک میں بھی مساجد کے میناروں کے خلاف پراپیگنڈا کرکے ان پر پابندی عائد کردی گئی۔ جبکہ دنیامیں گرجوں، گردواروں، مندروں اور دیگر عبادت خانوںکی عمارتوں میں خاص قسم کے مینار ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس طرح امریکا نے ریکارڈ اسلحہ بیچا ہے اور اپنی طاقت کا ایک رعب دنیا کے بعض خطوں میں پیدا کردیا ہے۔ افسوس برطانیہ اور بعض دیگر ممالک نے اس وحشی گری میں امریکا کے حکمران طبقے کا ساتھ دیا ہے۔
ہمارا سوال اس صورت حال پر بہت سنجیدہ ہے اور وہ یہ کہ ایسی فضا آخر کار انسانیت کو کن المیوں سے دوچار کرے گی۔ یہ درست ہے کہ زبانی طور پر یا تحریری طور پر مشرق ومغرب کے بہت سے سیاسی، مذہبی اور سماجی رہنمائوں نے ٹیری جونز کی مخالفت کی ہے لیکن یہ امر بھی حقیقت ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر برطانیہ اوردیگر مغربی حکومتوں نے سلمان رشدی کی سرپرستی، رسولِ اسلام کے کارٹونوں کے سلسلے کی حمایت کی گئی، مسجدوں کی تعمیر پر طرح طرح کی قدغنیں عائد کرنا شروع کردی گئیں اور مسلمانوں کو مختلف طریقوںسے اذیتیں دی گئیں اور ان سے حقارت آمیز سلوک کیا گیا، یہاں تک کہ اب ایک بظاہر مذہبی رہنما کو قرآن حکیم جیسی مقدس کتاب کو نذر آتش کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگیا۔ اسی صورتحال نے ہمیں یہ سوال پوچھنے پرمجبور کیا ہے کہ کیا آخر ایک جنونی کامیاب ہوگیا اور انسان دوستی، باہمی احترام، رواداری اور برداشت کی تمام انسانی اقدار شکست کھا گئیں۔ نفسیات کے ماہرین ہمارے اس سوال کا جائزہ لیں۔ انتہا پسندی کی یہ لہر مغربی معاشرے پر کیا اثرات مرتب کرے گی۔ہماری رائے میں مغربی معاشرے کو بے خدا ظالمانہ سرمایہ داری نظام کے بے رحم شکنجوں سے آزاد کروانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو عذاب اور وحشت میں جھونک کر جو لوگ سرمایہ اکٹھا کرنے کے درپے ہیں۔ وہ اہل مشرق کے دوست ہیں نہ اہل مغرب کے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی پیدا کی گئی فضا کے نتیجے میں ٹیری جونز پیدا ہوتے ہیں اور سستی شہرت حاصل کرتے ہیں اور اْن کی شیطانی روح اس بات پرمطمئن ہوجاتی ہے کہ
ع بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
(بشکریہ: ماہنامہ ’’پیام‘‘ اسلام آباد۔ مئی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply