دھرنا ختم ہوا، عوام نے سکھ کا سانس لیا، بیشتر کو خدشہ تھا کہ کہیں تصادم خونی نہ ہو جائے۔ مولوی خادم رضوی اپنے ساتھیوں سمیت گھروں کو لوٹ گئے۔
فیض آباد والا دھرنا ختم ہوا تو ایک دوست کا ٹیکسٹ پیغام آیا ’’ایسے ہی موقعوں پرکہا جاتا ہے، تمت بالخیر‘‘۔ یہ دوست مذہبی تنظیموں اور مذہبی جماعتوں کے حامی نہیں، خادم رضوی صاحب کی آتش فشاں گفتار کے باعث ان سے سخت ناخوش تھے، اس کے باوجود انہیں دھرنے کے خلاف وحشیانہ حکومتی آپریشن اور میڈیا کے بدترین بلیک آؤٹ پر صدمہ پہنچا۔ بات ہوئی تو کہنے لگے ’’یہی دعا ہے کہ معاملہ زیادہ نہ بگڑے، کہیں ایسا نہ ہو کہ فیض آباد میں کوئی المناک سانحہ ہو جائے اور پھر تلافی کی کوئی صورت ہی نہ رہے‘‘۔ اس طرح کا ردعمل ہر جگہ دیکھا جارہا تھا۔ لوگوں کی اکثریت دل و جاں سے یہ چاہتی تھی کہ ڈیڈ لاک ختم ہو جائے اور جانی نقصان سے بچا جائے۔ حیرت اس پر ہے کہ پچھلے تین چار دنوں سے وطن عزیز کے بعض حلقے ایسے بھی ہیں جو صف ماتم بچھائے ہیں۔ کئی نامی گرامی تجزیہ کار منہ سے کف اڑاتے ہوئے شعلے برسا رہے ہیں۔ ایک خاتون جو ماتھے پر بندیا لگانے کی شائق ہیں ذہنی طور پر وہ خود کو بھارتیوں سے قریب پاتی ہیں، قومی چینلز پر مذہب اور مذہبی حلقوں کے خلاف زہر اگلنا انہیں ازحد مرغوب ہے۔ بی بی نے ایک ازکار رفتہ انگریزی اخبار میں چیختا چنگھاڑتا مضمون لکھا، جس میں اس معاہدے کو سقوطِ پاکستان سے تشبیہ دی۔ ان کے خیال میں ریاست نے ۱۹۷۱ء کی طرح ایک بار پھر سرنڈر کر دیا۔ اس حلقہ فکر سے تعلق رکھنے والے دیگر ممتاز لبرل، سیکولر افراد بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ انہیں شدید صدمہ پہنچا کہ ریاست نے اپنی قوت استعمال کرتے ہوئے اس مٹھی بھر گروہ کو ’’خاک‘‘ میں کیوں نہ ملا ڈالا اورمعاہدہ کے ذریعے پُرامن حل کیسے نکل آیا؟
آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ یہ لوگ کس دنیا کے باسی ہیں۔ کیسے لوگ ہیں جو ایک طرف مغربی اخلاقیات کے مطابق کتوں کو انسانوں سے زیادہ عزیز جانتے اور حیوانات کے لیے قوانین بنانے کے حامی ہیں، دوسری طرف انہیں اندازہ نہیں کہ مغرب میں انسانی جان کی کیا اہمیت ہے اور ہر قیمت پر ایسے کسی سانحے سے بچنے کی سعی کی جاتی ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ کیسی قیامت ٹل گئی اور اگر خدانخواستہ وہ احمقانہ آپریشن جسے اس صدی کے عظیم ترین ’’دانشور‘‘ اور بدقسمت پاکستانی قوم کے وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال نے ترتیب دیا، اگر وہ کامیاب ہو جاتا اور فیض آباد میں لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے تو ملک کے ہر گلی کوچے میں کیسا خونریز احتجاج شروع ہوجاتا۔ اس پورے نظام کی چُولیں ہل کر رہ جاتیں۔ دھرنا ختم ہونے پر تین طرح کے لوگ ناخوش ہوئے۔ سب سے زیادہ صدمہ سیکولروں کو پہنچا۔ ایک بار پھر یہ بات واضح ہوگئی کہ اس ملک میں ختم نبوتؐ کے حوالے سے قوانین میں کوئی ترمیم نہیں کرسکتا، درحقیقت اب تو اس بارے میں سوچنے کی جرأت بھی کوئی سیاسی جماعت نہیں کرے گی۔ ہمارا لبرل، سیکولر کیمپ ہمیشہ سے توہین رسالت قانون اور احمدیوں کے غیر مسلم ہونے کی آئینی ترمیم پر ناخوش رہا۔ مختلف حیلوں، بہانوں سے یہ ان آئینی ترامیم پر تنقید کرتے آئے ہیں، سوال اٹھانے کے بظاہر معصوم مطالبے کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما ہے کہ کسی طرح ان ایشوز کو دوبارہ سے زیر بحث لایا جائے۔ دھرنے نے اس امکان کو ہمیشہ کے لیے نہ سہی، خاصے عرصے کے لیے دفن کر دیا ہے۔ خالص مذہبی سوچ رکھنے والے کسی گروہ کا احتجاج کامیاب ہوا اور وہ اپنے مطالبات منوانے میں کامران ٹھہرے، یہ بات بھی لبرل سوچ رکھنے والوں کے لیے ذہنی اذیت کا باعث ہے۔ دوسرا بڑا حلقہ جسے شدید مایوسی ہوئی وہ مسلم لیگ ن کے سیاسی اور صحافتی ساتھی ہیں۔ ن لیگ کو سپورٹ کرنے والوں کو دو اعتبار سے دھچکا پہنچا۔ ایک تو (ن) لیگی حکومت کی نااہلی اور نان گورننس بُری طرح ایکسپوز ہوگئی۔ وزیر داخلہ احسن اقبال جسے مسلم لیگی مُدَبّر بنا کر پیش کرتے تھے وہ پرلے درجے کے نااہل، ویژن سے عاری شخص نظر آئے۔ وزیراعظم سمیت پوری کابینہ میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو ایشو کو ہینڈل کر پاتا۔ پنجاب حکومت کی خودغرضی اور نالائقی ایک بار پھر آشکار ہوگئی، جس نے اپنی جان چھڑاتے ہوئے مظاہرین کو اسلام آباد پہنچنے دیا۔ میڈیا میں جو لوگ ن لیگ کی ترجمانی کر رہے ہیں یا ان کا مقدمہ لڑنے کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، ان کے لیے دھرنے کی مس ہینڈلنگ، ناکام آپریشن اور میڈیا کے شرمناک بلیک آؤٹ کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا۔ ن لیگ کو بڑا دھچکا یہ لگا کہ لبیک یا رسول اللہ تحریک کی سیاسی قوت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا قوی امکان ہے کہ آئندہ انتخابات میں یہ تنظیم پنجاب کی چالیس پچاس قومی اسمبلی اور نوے پچانوے صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر (ن) لیگ کو ہرانے کا باعث بن جائے۔ تیسرا وہ حلقہ ہے جو فوج یا اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ ان کے نزدیک ملک کی تمام تر خرابیوں کی ذمہ دار پاک فوج ہے اور اسے ہر صورت مطعون کرتے رہنا چاہیے۔ دھرنے کی کامیابی سے پاک فوج سرخرو ہوئی اور اس کا امیج بہتر ہوا۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ فوج مظاہرین پر گولیاں چلا کر عوامی نفرت کا سامنا کرے گی، انہیں یہ افسوس ہے کہ آرمی چیف نے مداخلت کرا کر یہ معاہدہ کیوں کرا دیا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل کیانی کی مداخلت سے میاں نواز شریف نے لانگ مارچ روکا اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ججوں کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت کسی مسلم لیگی دانشور یا لکھاری نے نہیں کہاکہ فوج نے کیوں ثالثی کرائی، حالانکہ وہ تو سول حکومت کے ماتحت ہے، اسے تو وفاقی حکومت کے حکم کے تحت لانگ مارچ روکنا چاہیے تھا۔ اس کے بجائے ان سب نے فوج اور اس وقت کے آرمی چیف کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے عدلیہ کی بحالی کی راہ ہموار کی اور یوں ملک بڑے تصادم سے بچ گیا۔ اس بار چونکہ فوج کی اس ثالثی سے مسلم لیگ ن کو سیاسی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ اس کی نااہلی واضح ہوئی اس لیے فوج ہدفِ تنقید ہے۔
فیض آباد کا دھرنا ختم ہونا یقیناً خوشگوار رہا کہ ملک سے غیر یقینی، کنفیوژن اور خوف کے بادل چھٹ گئے۔ ابتدائی آپریشن میں جانی نقصان تو ہوا لیکن اگر فوج کو آپریشن کرنا پڑتا تو لال مسجد کی لہو رنگ کہانی دہرائے جانے کا خدشہ تھا۔ اس اعتبار سے بچت ہوگئی اور قیمتی جانیں بچ جانے کی ہر ایک کو خوشی ہوئی۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ریاست اس ایشو میں ناکام ہوئی۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ملک کے چار ستون ہیں۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، حکومت اور عوام… اور یہ چاروں ستون ناکام ہوئے اور ریاست کو رسوائی اٹھانا پڑی، اسے یوم شکست کہا جائے، وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے خیال میں ایسا نتیجہ نکالنا درست نہیں، دراصل یہ نری جذباتیت ہے۔ اسے مزید گہرائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ انتظامیہ ناکام ہوئی، عدلیہ نے اس معاملے کو بھی عدالتی فعالیت کی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی، جس سے معاملہ الٹا الجھ گیا۔ پارلیمان بھی زیادہ فعال کردار ادا نہ کرسکی۔ سیاسی جماعتیں گومگو کی کیفیت میں رہیں، عوام بھی دم بخود بیٹھے رہے۔ اس سب کچھ کے ساتھ مگر سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ ایسا اس لیے ہوا کہ بنیادی ایشو ختم نبوتﷺ کا تھا۔ ہر مسلمان کے لیے اپنی جان، مال، اپنے ماں باپ، اولاد سب سے زیادہ افضل اور محبوب جناب رسالت مآبﷺ کی ذات ہے۔ اس ایشو کے تقدس اور احترام میں پارلیمان کی جماعتیں، سیاسی اور عوامی حلقے ایک سائیڈ پر رہے۔ مولانا خادم رضوی کے ساتھ دھرنے کے آخری لمحوں تک دو تین ہزار لوگ ہی رہے، باقی لوگوں نے ان کے طریقہ کار سے اختلاف کے باعث ان کے ساتھ شامل ہونے سے گریز کیا، اگرچہ وہ ان کے مقاصد سے متفق تھے۔ یہ وہ نزاکت ہے جسے سمجھنا چاہیے۔ عمران خان یا اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے اس نازک موقع کو حکومت کے گرانے کے لیے استعمال نہیں کیا، اس پر انہیں سراہنا چاہیے۔ فوج نے مسئلہ کا حل نکالا، حالانکہ مظاہرین کو اشتعال دلایا جاتا تو سول حکومت کو دبانے بلکہ گرانے کا سنہری موقع تھا، جس سے فوج نے فائدہ نہیں اٹھایا۔ پاکستانی ریاست کا کردار مجموعی طور پر تسلی بخش رہا۔ کچھ غلطیاں اور کمزوریاں رہیں، مگر بہرحال فساد پھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا اور پُرامن حل نکال لیا گیا۔ یہ یوم شکست کے بجائے یوم تشکر ہے۔ فتح خادم رضوی کی نہیں ہوئی، بلکہ ختم نبوتﷺ کے ایشو کی ہوئی۔ایسے معاملات میں شکست کھانے والے، سر جھکانے والے سرخرو تصور ہوتے ہیں، ناکام نہیں۔ ہم کیا اور ہماری عزت کیا؟ شان، عزت، وقار اور تقدس سب اس کالی کملی والےﷺ کو زیب دیتا ہے، ہماری جانیں، مال، اولاد، سب اللہ کے آخری رسولﷺ پر قربان۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’۹۲نیوز‘‘ کراچی۔ یکم دسمبر ۲۰۱۷ء)
وہی مخصوص نقطہء نظر.