ایک گیلپ سروے کے مطابق ۱۹۵۵ء میں ۶۰فیصد امریکیوں کا خیال تھا کہ ممالک متحدہ (یو ایس اے) دنیا کا عظیم ترین اور دوسرے ممالک سے ہرطور پر بہتر ملک ہے۔ مگر ۱۹۹۱ء میں یہ شرح ۳۷ فیصد تک گر گئی۔ پانچ سال بعد بھی یہ شرح قائم رہی مگر جب سوال کو ذرا بدل کر پوچھا گیا تو ۵۵ فیصد امریکیوں نے اس خیال سے اتفاق کیا کہ امریکا دنیا کا بہترین اور سب سے بہتر ملک ہے۔
غالباً ممالک متحدہ (امریکا) اس لیے نمایاں ہے کیونکہ تمام سیاسی خطیب اسی مفروضہ پر قائم ہیں کہ ان کا ملک دنیا کا عظیم ترین ہے۔ ہمیشہ سے بڑا ہے بلکہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ بہت سی قدیم اقوام جنہوں نے تاریخ کے بہت سے نشیب و فراز جھیلے ہیں۔ اس پر حیرت بھی کرسکتی ہیں کہ کیا یہ دعویٰ تاریخ کے اسٹیج پر دیر میں نمودار ہونے کی تلافی کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ ان اقوام کے پس منظر میں چونکہ طویل اور نمایاں تاریخ ہے‘ اس لیے وہ اس مبالغہ آمیز قومی عظمت کو تسلیم نہیں کرتیں۔
یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ امریکا کی معاشی برتری قطعی محفوظ ہے۔ ڈالر کے پیمانے سے ناپنے اور تقابلی قوت خرید کے طور پر۔ امریکا کی فی کس آمدنی ۲۰۰۲ء میں ۰۸۰ء۳۵ ڈالر تھی جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ تھی۔ صرف دو ممالک کلمبرگ اور ناروے کی فی کس آمدنی امریکا سے زیادہ تو تھی جو بالترتیب ۰۶۰ء۵۱ اور ۸۹۰ء۳۷ ڈالر تھی۔ مگر یہ دونوں بہت چھوٹے ممالک ہیں جن کی آبادی محض ۰۰۰ء۴۴۴ اور پانچ ملین ہے۔ اس لیے امریکی اس پر بجاطور فخر کر سکتے ہیں کہ ان کا ملک دنیا کا امیرترین ملک ہے۔
امریکا کی معیشت بھی دنیا میں سے زیادہ مستحکم ہے۔ امریکا کی کل قومی آمدنی ۱۱۰ء۱۰ بلین ڈالر ہے جو دنیا کی کل آمدنی کی ۵/۱ سے ذرا زیادہ ہی ہے۔ یورپین یونین اس سے قریب ترین ہے۔ اس کی آمدن ۵۲۰ء۹ بلین ڈالر ہے اور اس کی رکنیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس لیے وہ جلدی آگے نکل جائے گا۔ بڑی معیشت میں چین تیسرے نمبر پر ہے‘ جس کی قومی آمدنی ۸۰۷ء۵ بلین ڈالر ہے۔ خیال ہے کہ اگر جلدی نہیں تو زیادہ سے زیادہ بیس سال میں چین ان دونوں سے آگے نکل جائے گا۔
ممالک متحدہ (امریکا) عسکری قوت میں سب سے آگے ہے۔ ۲۰۰۳ء میں اس کا دفاعی بجٹ ۱ء۳۹۶ بلین ڈالر تھا۔ ۲۰۰۲ء میں امریکا کے دفاعی اخراجات ۷ ’’بدمعاش‘‘ (امریکا کی رائے میں) ممالک (ایران‘ عراق‘ لیبیا‘ شمالی کوریا‘ سوڈان‘ شام اور کیوبا) کے دفاعی بجٹ سے ۳۷% سے زیادہ تھے۔
شخصی آزادی کے معاملے میں بیشتر امریکی اپنے ملک کو پورے اعتماد سے سب سے آگے رکھتے ہیں۔ اگست ۱۹۹۵ء کے ایک گیلپ پول میں امریکیوں سے پوچھا گیا تھا کہ ایک ۱۰ نکاتی پیمانے پر مندرجہ ذیل اقوام کو وہ شخصی آزادی کے معاملے میں کہاں رکھیں گے (۱۱۰ سب سے زیادہ) فہرست میں تقریباً سب ہی ترقی یافتہ اقوام کو شامل کیا گیا تھا۔ اس پول میں امریکا اول رہا۔ ۷۴فیصد نے امریکا کو سب سے زیادہ نمبر دیے (۱۰‘۹‘۸) کینیڈا اور برطانیہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔
ماہرین نے آزادی کو ذرا مختلف انداز میں دیکھا۔ نیویارک کی ایک قدامت پرست تنظیم (Freedom House) نے اپنی ۲۰۰۱۔۲۰۰۰ والی سالانہ رپورٹ میں مختلف اشاروں سے شہری اور سیاسی آزادیوں کو پرکھا تو بھی امریکا سرفہرست رہا مگر یہی اعزاز دوسری ۱۴ اقوام کو بھی عطا کیا گیا‘ جن میں پرتگال‘ یوراگوے‘ یمن کو شامل کیا گیا۔ برطانیہ کا نمبر۳۴ رہا جو پولینڈ اور پانامہ سے بھی پیچھے تھا اور اسرائیل کا نمبر۴۱ رہا جو جویوبا اور بینن سے پیچھے رہا۔
کیا امریکا صحافتی آزادی میں دنیا کا رہبر ہے۔ یہ بھی خام خیالی ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء میں Reportors without Border, نے دنیا کی آزادیٔ صحافت کی دوسری درجہ بندی شائع کی جو انہوں نے ایک سوالنامے کی مدد سے مرتب کی تھی۔ اس سوالنامے میں انہوں نے ہر ملک میں آزادی صحافت کی کیفیت کو جانچنے کے لیے ۵۳ معیارات مقرر کیے تھے۔ اس درجہ بندی میں امریکا ہنگری‘ جمیکا‘ بینن اور مشرقی تیمور سے بھی پیچھے ۳۲ویں نمبر پر رہا۔ بدترین صورت یہ ہے کہ امریکا نے عراق کو ایک ’’آمر‘‘ سے نجات دلانے کے لیے اس پر قبضہ کر لیا اب اس کا نمبر ۱۳۵واں ہے۔ شاید اس سے کچھ تسلی ہو کہ عراق اسلامی دنیا میں امریکا کے قریب ترین حلیف سعودی عرب سے آگے ہے۔
کسی ملک میں غلامی اور نسل پرستی کو سمجھنے کے لیے یہ اشارہ اکثر اہم اور مددگار ہوتا ہے کہ قیدیوں کی شرح کیا ہے۔ ایک عرصے تک یو ایس ایس آر اپنے سائیبیریا کے عقوبت خانوں کی وجہ سے سب سے آگے رہا مگر اب امریکا سب سے آگے ہے۔ اب امریکا میں فی ہزار ۴۱ء۶ قیدی ہیں۔ اگر اس شرح میں حالیہ پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت پکڑے جانے والے ’گوانتاناموبے‘ عراق اور افغانستان کے قیدیوں کو شامل کر لیا بلکہ ان ’’دوست ممالک‘‘ کے فرمائشی قیدیوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو صورتحال اور بھی خراب ہو جائے گی۔
۱۹۹۳ء میں صدر کلنٹن نے افتتاحی تقریر کرتے ہوئے امریکا کو دنیا کی قدیم ترین جمہوریت قرار دیا تھا۔ کیا واقعی ایسا ہے۔ غالباً جمہوریت کو ۱۷۸۷ سے شروع کیا جاتا ہے جب آئین کی توثیق ہوئی تھی مگر بہت سے لوگ اسے نہیں جانتے کیونکہ اس آئین میں ملک کی ۶/۱ غلام آبادی کو تمام شہری حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ پھر کیا ۱۸۶۵ء سے شروع کرنا چاہیے جب غلامی کو کالعدم کر دیا گیا تھا یا ۱۸۶۸ء سے جب علیحدہ ہو جانے والی ریاستیں دوبارہ اتحاد میں اس یقین سے شامل ہو گئیں کہ تمام شہریوں کے یکساں حقوق ہوں گے‘ یہ بھی مشکوک ہی ہے۔
مزید ایک سو سال گزرنے کے بعد بھی ممالک متحدہ تمام شہریوں کے لیے جمہوریت نہیں تھی۔ ابتدا میں دہشت گردی کے طریقوں سے اور بعد میں جنوبی ریاستوں نے ۱۸۹۰ء میں آئین میں ترامیم کر کے سیاہ فام لوگوں کو سیاسی عمل سے الگ کرنے کی کوشش کی۔
بہ دل نخواستہ ہم ۱۹۶۰ء سے شروع کرسکتے ہیں جب سیاہ فام لوگوں نے اپنے سیاسی حقوق حاصل کرنے کی تحریک شروع کی جو تاحال مکمل نہیں ہوئی۔ کیونکہ اب تک ۷ء۴ امریکیوں کو حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا ہے اور حال ہی میں صدر بش نے اعلان کیا کہ ’’ہم ہمدرد و غمگسار ملک ہیں اور ہم اپنے شہریوں پر مہربان ہیں‘‘ یہ دونوں پارٹیوں کے سیاسی لیڈروں کا محبوب اور مخصوص انداز ہے۔
اگر اس پر توجہ کی جائے کہ امریکا کی رحم دلی اور غمگساری کی شرح دوسرے ممالک کے لیے کیا ہے اور فی الحال اس سے صرفِ نظر کیا جائے کہ حملہ کرنے‘ حکومت کو الٹنے‘ بم گرانے‘ انقلاب برپا کرنے یا پابندیاں لگانے میں امریکا کا کیا کردار ہے اور صرف اسی پر توجہ مرکوز کی جائے کہ وہ ’بیرونی فنڈ‘ کیا ہے‘ جن کا اکثر امریکی غریب اقوام کی طرف اپنی رحم دلی اور مہربانی کا تزکرہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ رقم امریکا کی کل قومی آمدنی کا صرف ۱۱ء۰ فیصد ہے اور اس کا بھی ایک تہائی اسرائیل کو دیا جاتا ہے کہ وہ امریکا سے جدید ترین ہتھیار خریدے۔
لہٰذا ممالک متحدہ (امریکا) نہ سب سے عظیم ملک ہے اور نہ ہی سب سے بہتر ملک ہے۔ امریکا کے منفرد اور برتر ہونے کے دعوے اور امریکا کے اندر عدم مساوات پر سے توجہ ہٹانے بلکہ اس عدم مساوات کو حق بجانب ثابت کرنے اور امریکا سے باہر اسی عدم مساوات کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی کوشش میں ایک گہرا دوطرفہ ربط ہے۔ ہر وقت امریکی لیڈر امریکا کے عظیم ترین ملک ہونے کی بات کرتے ہیں جبکہ ان میں سے بیشتر کو اسکولوں سے زیادہ جیل خانے بنانے میں‘ اساتذہ سے زیادہ پولیس والوں کو لینے میں‘ سائنسدانوں سے زیادہ خفیہ ایجنٹوں کی تربیت میں زندگی بچانے والی ادویات سے زیادہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی ایجاد میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ان کارپوریشنوں کے ساتھ کاوشوں میں مشغول رہتے ہیں جو میڈیا کے اجارہ دار ہیں اور جو اپنے منافع کو ہماری زندگی سے ہمارے بچوں‘ ہمارے تحفظ اور دنیا کی اس خوبصورتی سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں‘ جس میں وہ رہتے ہیں۔ یہ سیاستدان اپنی پُرفریب کوششوں سے امریکا کو دنیا کا عظیم ترین ملک بنا دیں گے (اگر بنا سکے تو) مگر جس کی بیشتر آبادی مفلس‘ غیرتعلیم یافتہ‘ غیرصحت مند‘ لاپروا اور اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرنے والی ہو گی۔ امریکی طاقت سے تمام دنیا میں کسان بے دخل ہو رہے ہیں۔ مزدوروں پر تشدد ہو رہا ہے۔ انہیں جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ عوامی انقلابوں کو کچلا جارہا ہے۔ مکر و فریب سے دولت حاصل کی جارہی ہے اور یہ سب کارپوریشنوں کو تحفظ دینے اور پیسہ کمانے کی کھلی چھٹی دینے کے لیے ہو رہا ہے۔
ہر وقت یہ دعویٰ کیا جاتا رہتا ہے کہ امریکا ’’دنیا کی آخری امید ہے‘‘ دنیا بھر میں لوگ جانتے ہیں کہ ان الفاظ کے بعد کیا ہو گا‘ وہی جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ یعنی نیپام بم بارودی سرنگیں‘ کروزمیزائل‘ ڈیزی کٹر۔ اب دنیا کے لوگ محض خطابت کے زور پر دنیا کی قدیم ترین جمہوریت کا دھوکا نہیں کھائیں گے۔
وہ صرف اس وقت امریکا کو عظیم ترین مانیں گے جب وہ انسانی اقدار کے پیمانے پر پورا اترے گا جب امریکا کے لوگ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے وہی کچھ چاہیں گے جو اپنے لیے چاہتے ہیں۔ تب لوگ امریکیوں کو اپنا جانیں گے۔ اچھے اور مہربان لوگ سمجھیں گے جو اپنے حصے سے یادہ صرف کر کے دنیا کو ہر ایک کے لیے بہتر جگہ بنا دیں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ کراچی‘ یکم مئی ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply