امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے حال ہی میں کہا ہے کہ ان کا ملک مسلم دنیا کی اسلامی جماعتوں سے مل کر کام کرے گا۔ تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو امریکا کو ایسا کرنے پر مجبور کرنے والے بہت سے عوامل ہیں۔ مغرب میں بہتوں کو اندازہ ہوچکا ہے کہ اسلامی دنیا میں لادینی جابرانہ آمریت کی معاونت کرتے رہنا مالی اور سیاسی دونوں اعتبار سے بہت مہنگا پڑتا ہے۔ دوسری جانب خود امریکا بھی یہ محسوس کرتا ہے کہ اسلامی جماعتوں کو کم از کم جزوی سطح پر نظام میں شامل رکھنے سے ان میں تبدیلی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ سیاسی عمل میں شریک رہنے سے ان کی اصلاح کی گنجائش نکلتی ہے۔ حقیقی عزائم خواہ کچھ ہوں، اسلامی جماعتوں کو عرب دنیا میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر میں کام کرنے کا موقع تو ملے گا۔
۲۰۰۰ء سے اب تک ترکی نے امریکا کو اسلامی جماعتوں کے بارے میں رائے تبدیل کرنے کی تحریک دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسلامی پس منظر رکھنے کے باوجود جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے بیشتر معاملات میں امریکا سے اس قدر تعاون کیا ہے کہ مبصرین یہ کہنے لگے ہیں کہ ترکی تو خطے میں امریکا کا ذیلی ٹھیکے دار ہے۔ اردگان نے ایرانی سیاست کے اثرات زائل کرنے کی ایسی بھرپور کوشش کی ہے کہ اسلامی ریاست کے حوالے سے پائی جانے والی منفی رائے اب ختم ہو چلی ہے۔
مگر خیر، اسلام نواز ذہن رکھنے والے سیاست دانوں کے لیے یہ عمل خاصا خطرناک بھی ہے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی اسلامی جماعت انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کی اہل نہیں۔ تیونس میں بھی النہضہ کو حکومت بنانے کے لیے شراکت دار کی ضرورت پڑے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد اسلامی جماعتوں کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان پر توقعات کے حوالے سے بہت دباؤ ہوگا۔ ۲۰۱۰ء میں تیونس میں بیروزگاری ۱۴ فیصد تھی۔ کچھ یہی حال مصر کا بھی تھا۔ دونوں ممالک میں اسلامی جماعتوں سے توقعات بہت بلند ہوں گی۔ ایسے معاشروں میں حکومت چلانا آسان نہیں۔ مسائل حل کرنے میں ناکامی کی صورت میں اسلامی جماعتوں کے لیے طویل المیعاد بنیاد پر پہنچنے والا نقصان غیر معمولی ہوگا۔ النہضہ جیسی جماعت اگر اپنے معاشرے کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی تو اس سے وابستہ توقعات بھی چکنا چور ہو جائیں گی۔ النہضہ کے قائد راشد الغنوشی نے انتخابات کے فوراً بعد کہا کہ وہ دیگر تمام جماعتوں سے تعاون کے لیے تیار ہیں۔
عرب دنیا میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر کے حوالے سے لٹریچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ تیونس، مصر اور لیبیا میں جو کچھ ہوا اس کا اصل سبب ان ممالک کے حکمرانوں کا اقتصادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہنا تھا۔ مذہبی اور لسانی بنیاد پر بھی مسائل تھے مگر اصل مسئلہ معاشی ہی تھا اور اسی نے مختلف عناصر کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کیا۔ ایران کے روحانی پیشوا امام خمینی نے ایک بار متعدد ٹریڈ یونینوں کے عہدیداروں سے گفتگو کے دوران ایران کی معاشی مشکلات سے متعلق شکایات سننے کے بعد کہا تھا ’’مجھے یقین نہیں آتا کہ جو قربانیاں ہم نے دی ہیں ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ لوگوں کو سستے تربوز کھانے کو ملیں۔‘‘
خمینی کا پیغام واضح تھا۔ ایران میں جو تبدیلی آئی تھی وہ مذہب کی بنیاد پر تھی۔ تیونس، مصر اور لیبیا میں لوگ مذہب یا ثقافت سے زیادہ معاشیات کو اہمیت دیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ معاشی مسائل حل ہو جائیں۔ بہت جلد عرب دنیا کی نئی حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ افراطِ زر اور بیروزگاری کی شرح میں کمی کے حوالے سے کیا جانے لگے گا۔ دیگر الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھا جانے لگے گا کہ تربوز سستے ہوئے یا نہیں۔
عرب دنیا میں قائم ہونے والی نئی حکومتوں کے لیے دو باتیں بہت اہم ہوں گی۔ ایک تو یہ کہ اسلامی جماعتیں دیگر لادینی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گی تاکہ مسائل کا مل کر مقابلہ کیا جاسکے اور ذمہ داری میں دوسروں کو بھی شریک کیا جاسکے۔ اور دوسرے یہ کہ تیونس اور لیبیا میں اسلامی جماعتیں عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے اپنے تعلقات کو بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں بہتر بنائیں گی۔ اہم سوال یہ ہے کہ اسلامی جماعتوں کا عالمی سطح پر شراکت دار کون ہوگا؟ کیا یہ سمجھا جائے گا کہ النہضہ اور اخوان روس اور چین سے زیادہ قربت محسوس کریں گی؟ آج کی دنیا میں غیر جانبدار رہنے والوں کو کچھ نہیں ملتا۔ النہضہ اور اخوان بھی حالات کا جائزہ لے کر خود کو عالمی سیاسی و معاشی نظام سے ہم آہنگ کرتی جائیں گی۔
یہ تمام مسائل بھی پریشان کن تو ہیں مگر ان سے کہیں زیادہ پریشان کن مسئلہ اندرونی تناؤ کا ہے۔ النہضہ سمیت تمام اسلامی جماعتوں اور گروپوں کو اس وقت ایک بنیادی مسئلے کا سامنا ہے۔ ایک طرف حقیقت کی دنیا ہے اور دوسری طرف مثالی دنیا۔ توقعات جو ہیں سو ہیں اور حقیقت کی دنیا بھی موجود ہے۔ جو لوگ حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں وہ دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں، نئے ایجنڈے کے لیے تیار ہیں۔ مثالی (خیالی) دنیا میں رہنے والے اب تک اپنے پرانے ایجنڈے سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اسلامی سیاست کو عالمگیر نظام سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی کشمکش پر بھی قابو پانا ہوگا۔
(بشکریہ: ’’ٹوڈیز زمان‘‘ ترکی۔ ۴ نومبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply