چودھویں صدی ہجری کا نصف آخر جدید دنیائے اسلام کی تاریخ میں اس اعتبار سے ایک نہایت اہم، یاد گار اور خوشگوار دور ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں کی بڑی تعداد نے مغربی استعمار سے سیاسی آزادی حاصل کی۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش اور ماریطانیہ تک بہت سے آزاد مسلم ممالک وجود میں آگئے۔ لیکن دو ڈھائی سو سال کی سیاسی غلامی اور فوجی و عسکری ماتحتی کے جو گہرے فکری، ذہنی، تمدنی اور تہذیبی نتائج پیدا ہوئے تھے وہ محض حکمرانوں کی تبدیلی سے دور ہونے والے نہ تھے۔ مسلمان قوم کو مکمل فکری آزادی ذہنی ہم آہنگی، تمدنی استقلال اور تہذیبی خود مختاری سے ہم دوش کرنے کے لیے ضروری تھا کہ جس طرح سیاسی و عسکری آزادی کے لیے دنیائے اسلام میں بے مثال تحریکیں چلی تھیں اور جن کو کامیاب بنانے کے لیے مسلمانوں کے ہر طبقہ نے تن من دھن کی بے بہا قربانیاں دی تھیں اسی طرح فکری آزادی، تمدنی استقلال، تہذیبی خودمختاری اور تعلیمی احیاء کی تحریکیں بھی شروع ہوں اور اُسی جذبہ سے کام لے کر آزادی کی اس تحریک کی تکمیل کی جائے۔
لیکن یہ ایک افسوس ناک امر واقعہ ہے کہ مسلمان اس نئی تکمیلی تحریک کے لیے ذہنی اور فکری طور پر تیار نہ تھے۔ مسلم ممالک میں سے بیشتر کے پاس وہ وسائل موجود نہ تھے جو اس تکمیل تحریک کی کامیابی یا کم از کم ایک کامیاب آغاز کے لیے ضروری تھے۔ مسلم ممالک کو وہ رجال کا ر دستیاب نہ تھے جن کے ہاتھوں اس کام کی کماحقہ داغ بیل ڈالی جا سکتی۔ مسلم ممالک میں بہت سے لوگوں کو یہ شعور نہ تھا کہ دور استعمار کی سیاسی تحریک آزادی اور دور آزادی کی فکری، تمدنی اور تعلیمی تحریکات کے تقاضے بنیادی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ان دونوں نوعیت کے کاموں کی جدا جدا حیثیت میں فرق نہ کرنے کا ایک نتیجہ یہ ہو ا کہ بہت سی ایسی مخلصانہ کوششیں جو اس دور جدید کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شروع کی گئیں وہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکیں اور غیر ضروری اختلافات اور ثانوی مسائل میں الجھ کر رہ گئیں۔
چنانچہ اول تو مسلم ممالک میں آزادی کے بعد احیائے اسلام کی کسی متفق علیہ اور متحدہ کوشش کا آغاز ہی نہ ہو سکا اور اگر کہیں ایسی کوشش ہوئی بھی تو وہ بھی انہی مشکلات کا شکار ہو کر رہ گئی۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ فکری، تمدنی اور تعلیمی میدانوں میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا جو کام سیاسی آزادی کے فوراً بعد شروع ہو جا نا چاہیے تھا، بلکہ جو سیاسی آزادی کا منطقی تقاضا اور اس کی بقاء اور تحفظ کی تاریخی طور پر ضمانت تھا، شروع نہ ہو سکا اور ہم وہیں کے وہیں کھڑے رہ گئے جہاں آزادی سے قبل کھڑے تھے۔ ثقافتی، تہذیبی اور تمدنی نشا ۃ ثانیہ سے بھی اہم تر کام فکری اور تعلیمی نشاۃ ثانیہ کا تھا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلمان تعلیم یافتہ اصحاب کے فکر و شعور بلکہ لاشعور اور تحت الشعور میں بھی ایک ایسا فکری انقلاب پید اکر دیا جاتاکہ ہر شخص ہر چیز کو اسلام ہی کے نقطہ نظر سے دیکھتا، ہر معاملے پر اسلام ہی کے نقطہ نظر سے غور کرتا، تعلیم و فکر ، فلسفہ و آرٹ ،تہذیب و تمدن، غرض ہر چیز اسلام کے رنگ میں اسی طرح ڈھل جاتی جیسے صد ر اسلام کے مسلم فاتحین نے ہر ملک کے نظام تعلیم، نظام حکومت، معیشت، معاشرت فکر و فلسفہ غرض ہر چیز کو اس قدر گہرے اسلامی رنگ میں رنگ دیا تھا کہ یہ تمیز کرنا مشکل تھا کہ کسی خاص ملک میں کیا چیزعرب سے آئی تھی اور کیا چیز مقامی تھی جو عربی اسلامی رنگ میں رنگ گئی۔
اس ضمن میں جو کام سب سے پہلے کرنے کا ہے وہ نظام تعلیم کی تشکیل جدید ہے۔ نظام تعلیم کی اسلامی خطوط پر تشکیل نوکر کے ہی ہم اس فکری اور ثقافتی انقلاب کی طرف قدم بڑھاسکیں گے جو ا س وقت پوری دنیائے اسلام کا مقصود ہے۔ اس کام کے لیے ہمیں ایک ایسی ہمہ گیر علمی اور فکری تحریک کی ضرورت ہے جو ہمارے قلب و دماغ کو بدل کر رکھ دے۔
یہ علمی تحقیق اور فکری کاوش نہ کوئی وقتی چیز ہے اور نہ محض کچھ سر پھرے لوگوں کی ذہنی تفریح کا مشغلہ ہے یہ کسی قوم کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ دنیا میں وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو علمی میدان میں دوسروں سے آگے ہوں جن کواوروں پر فکری برتری حاصل ہو۔ جو کائنات کے اس نظام قدرت کو دنیا والوں سے بہتر طور پر سمجھتی ہوں۔ دنیا کی زندہ اقوام میں ایسے لوگوں کی ایک قابل ذکر اور موثر تعداد ہمیشہ موجود رہتی ہے جو علمی اور فکری اعتبار سے کائنات میں کام کرنے والی قوتوں کو سمجھتے ہوں۔ جن کی انگلیاں ہر وقت تاریخ کی نبض پر رہتی ہوں۔ مشہور انگریز مفکر ہکسلے نے لکھا ہے کہ کسی معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ازحد ضروری ہے کہ کم از کم اس میں سوچنے اور فکر کرنے والوں کی تعداد ضرور موجود ہے۔
پھر علمی تحقیق کا کام ان اقوام کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے جو اپنا مخصوص نظام حیات اور اپنا جداگانہ نظریہ فکر و عمل رکھتی ہیں۔ ان قوموں کے لیے ضروری ہے کہ تمام علوم کو اس طرح مرتب کریں کہ ان کے مخصوص نظام حیات اور نظریہ فکر عمل کا نہ صرف ساتھ دے سکیں بلکہ اس کی خدمت کریں اور اس کو ترقی دے سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام علوم چاہے وہ علوم اجتماعی ہوں یا علوم انسانی، علوم طبیعی ہوں یا علوم مابعد الطبیعی وہ سب کے سب کچھ نظریات اور معلومات کے ایک مجموعے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان علوم کے ماہرین ان نظریات ومعلومات کو اپنے اپنے خیالات، اپنے اپنے مزاج اجتماعی ماحول کے مطابق مرتب کر لیتے ہیں اور ان سے وہی نتائج اخذ کرتے ہیں جو ان کے انداز فکر کے مطابق ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انہی علوم عمرانی و طبیعی سے کام لے کر مختلف قوموں نے مختلف تہذیبیں قائم کیں، مختلف نظام ہائے فکر و عمل مرتب کیے۔
اب جو قوم اس علمی اور فکری معرکے میں دوسروں پر بازی لے جائے گی دنیا کی سروری کا جھنڈا اسی کے ہاتھ میں ہوگا۔ کائنات کے بارے میں اسی کا پیش کردہ نقطہ نظر دنیا میں مانا جائے گا۔ لوگ اسی کے مرتب کردہ نظام فکر و عمل کو قبول کریں گے اور اس کے نتیجہ میں جو تہذیب و تمدن قائم ہوگا اسی کی دنیا میں پیروی کی جائے گی۔ دنیا میں جتنے علوم وفنون پیدا ہوں گے وہ اسی رنگ میں رنگے ہوں گے۔ ان میں وہی روح رچی بسی ہوگی۔ مثال کے طور پر آج کل کے مغربی علوم و فنون کو لیجیے۔ اس وقت مغربی تہذیب و تمدن کے پیدا کردہ جو علوم دنیا میں رائج ہیں وہ تمام تر مغرب کے مخصوص فکری سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں، مغرب کا استعماری رنگ ان میں مکمل طور پر رچا بسا ہوا ہے۔ علوم طبیعی اور علوم حسّی تو خیرخدا بیزار اور وحی والہام کی راہنمائی سے برگشتہ ہیں ہی، علوم عمرانی وا جتماعی بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں۔ مغرب کے علوم طبیعی جس مفروضہ کی بنیاد پر مرتب ہو رہے ہیں وہ یہ ہے کہ علم دراصل وہی ہے جس کو ہم اپنے حواس سے معلوم کر سکیں، ہر وہ چیز جو غیر محسوس ہے وہ غیر موجود بھی ہے، تاوقتیکہ اس کا موجود ہونا ہمارے حواس خمسہ میں سے کسی ایک کی گرفت میں آجائے۔ اس مفروضے کو اگر ہم ایک لمحہ کے لیے بھی صحیح تسلیم کر لیں تو بتائیے کہ و حی و الہام سے لے کر توحید و معاد تک کون سا عقیدہ ہے جس پر ضرب نہیں پڑتی۔
یہی حال آج کل کے علوم اجتماعی کا بھی ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنی ایک مخصوص روح اور مخصوص مزاج رکھتا ہے۔ اس روح اور اس مزاج کی تشکیل میں بہت سے عوامل نے حصہ لیاہے۔ تاریخی روایات، مخصوص مذہبی پس منظر، تہذیبی اقدار، ثقافتی ماحول، یہ سب مل کر علوم و فنون کی تشکیل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
مختلف زبانوں اور ان کی ادیبات کی کیفیت بھی دوسرے علوم سے مختلف نہیں ہوتی۔ جس طرح کسی قوم کے خیالات کا اس کے مذہب، اس کی تہذیب، اس کی ثقافت اور اس کے اجتماعی علوم میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اسی طرح یہ سب چیزیں اس کی زبان وادبیات میں بھی رچی بسی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر انگریزی زبان کو لیجیے اس زبان کے الفاظ، جملے، تراکیب، محاورے اور استعمالات ہر چیز میں انگریز قوم کا اپنا مزاج جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ مادہ پرستی اور ڈپلومیسی جس طرح انگریز قوم کا خاصہ ہے اسی طرح انگریزی زبان بھی ان خصائص سے معرّا نہیں۔ مشرقی زبانوں میں ہندی اور سنسکرت کی مثال لے لیجیے۔ ان دونوں زبانوں میں ہندوئوں کے اساطیری خیالات اور ہندو علم الاصنام اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا تقریباً ناممکن ہے، ان زبانوں کی پرورش ہی ہندو اساطیر کی غذا سے ہوئی ہے۔
لیکن اس کے برعکس مسلمانوں کے پیدا کردہ علوم کو دیکھئے۔ ان سب میں اسلامی تہذیب و تمدن کا اپنا مزاج نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ اجتماعی اور فکری علوم کی تو خیر بنیاد ہی قرآن و سنت کی تعلیمات پر رکھی گئی، خالص دنیوی اور تجرباتی علوم میں بھی اسلام کی روح موقع بہ موقع جلوہ گر رہتی ہے۔ مسلمانوں کی مرتب کردہ کوئی بھی سائنس کی کتاب لے لیجیے۔ وہ خطبہ مسنونہ اور دورد سلام کے بعد اللہ کی ان صفات کے ذکر سے شروع ہوگی جن میں اس کی قدرت،شان و ربوبیت، رزاقیت اور اسی طرح اس کی متعلقہ صفات بیان کی گئی ہوں۔ پھر ہر مرحلے پر یہ اسلامیات قاری کی راہنمائی کرتی نظر آئے گی۔
آج اگر مسلمان مغرب کی تہذیبی اور سیاسی برتری سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تو اس کے لیے جو کام بنیادی اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بیسویں صدی کے ماحول میں اسلامی تہذیب و تمدن کا احیاء کریں۔ اپنے تمام علوم و فنون، اپنے ادیبات اور سب چیزوں کی اسلامی بنیادوں پر تشکیلِ جدید کریں اور سب سے پہلے اس اصول کا انکار کریں کہ جو مغرب سے جنتا قریب ہے اتنا ہی کا مل ہے اور جتنا دور ہے اتنا ہی ناقص ہے یا علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں کافر افرنگ اور مومن خود ہوں۔ مغرب کے علمی، فکری اور تہذیبی استیلاء سے اسلامی فکر و دانش کے جو چشمے خشک ہو گئے ہیں۔ ان کو از سر نو جاری کیا جائے۔ اسلامی علوم و فنون کو دوبارہ متحرک اور فعال بنایا جائے۔
اس کام کی اہمیت نہ فرضی ہے نہ محض وہمی۔ اس وقت یہی عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جدید علوم و فنون اور جدید تہذیب کے بارے میں کوئی واضح، متفق علیہ اور اسلامی تعلیمات کے مطابق نقطہ نظر قائم کیا جانا اس وقت اولین اہمیت رکھا ہے۔ یہ کام ایک وسیع اور ہمہ گیر علمی اور فکری تحریک کا متقاضی ہے اور اسلامی تحقیق اسی علمی وفکری تحریک کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ اسلامی تحقیق کے کام کو تین بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ پہلی تحقیق وہ ہے جس کو ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے میکا نکی اسلامی تحقیق کا نام دیا ہے۔ یعنی وہ کام جو مقصود بالذات نہ ہو لیکن تحقیق و تفکیر میں مدد دے سکے۔ مثلاً قوامیس کی ترتیب، فہرستوں کی تیاری، قدیم محظوطات کی نشر واشاعت وغیرہ
۲۔ دوسری قسم کو ہم تطہیر فکر کا نام دے سکتے ہیں۔ رائج الوقت علوم و فنون کا اسلامی نقطہ نظر سے تنقیدی جائزہ لے کر کھرا اورکھوٹا الگ کر دینا اس میں شامل ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے مغرب کی فکری امامت کے وہم و طلسم کو پاش پاش کر دیں، انہوں نے جو نظام فکر وعمل مرتب کیا ہے اس کا باطل اور برسر غلط ہونا دلائل و براہین سے ثابت کر دیں۔ یہ کام عالم اسلام کی فکری آزادی اور ثقافتی بقاء کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے، عالم اسلام کو سیاسی آزادی حاصل کیے چوتھائی صدی کے قریب گزر چکا، لیکن فکری طور پر مسلمان آج پہلے سے زیادہ غلام ہیں۔ اس وقت مغرب اور معصومیت ہمارے نزدیک دو مترادف الفاظ ہو کر رہ گئے ہیں۔ مغرب سے نسبت حق و انصاف کا معیار ہے، کسی چیز کی صداقت اور حقانیت کو پر کھنے اور جانچنے کے لیے آج اس کا مغرب کے رائج الوقت تصورات کے مطابق ہونا کافی سمجھا جاتا ہے۔
اس اندازِ فکر کو تبدیل کرنا اور مغرب کی عصمت سے انکار کرنا ہی اس راہ میں پہلا قدم ہے۔ مولانا ابولحسن علی ندوی کے الفاظ میں ہمیں مغربی علوم کو خام مال (Raw Material) سمجھنا چاہیے اور وہی سلوک کرنا چاہیے جو ہر خام مال کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ نہ تو ہم اس کو جوںکا توں اپنے کام میں لے سکتے ہیں اور نہ محض نا کارہ قرار دے کر پھینک سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی اقدار کی روشنی میں ان کو پرکھنا چاہیے۔ جو چیزیں حقائقِ ثابتہ کا درجہ رکھتی ہوں ان کو ہم قبول کر لیں۔ جو چیزیں حقائق ثابتہ نہ ہوں اور ہماری اقدار سے معارض ہوں ان کو ہم رد کردیں اور باقی ماندہ کی اصلاح کر کے ان سارے علوم کو اپنے مقاصد کے لیے تیار کریں۔
اس ضمن میں پہلے جن علوم و نظاماتِ فکری کی تطہیر کرنی ہے ان میں فلسفہ اور اس کی ساری شاخیں، علمِ سیاسیات، قانون و دستور، نفسیات، معاشیات، عمرانیات، انسانیات وغیرہ شامل ہیں۔ اس معاملہ میں ہم کو بلا جھجک کمیونسٹ ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہوں نے گزشتہ نصف صدی میں سارے علوم و فنون کی تدوین جدید کر کے ان کو مکمل طور پر کمیونسٹ فلسفہ اور پرولتاری نظامِ فکر سے ہم آہنگ کر لیا ہے۔ کمیونسٹ انقلاب سے قبل کے سارے علوم کو انہوں نے بورژ و اقرار دے کر مسترد کر دیا اور اپنے مقاصد کے لیے ناکارہ ٹھہرایا۔ حتیٰ کہ انہوں نے سائنس جیسے خالص مادی علم کی بھی دو قسمیں قرار دیں۔ ایک بورژ و اسائنس قرار پائی ایک کمیونسٹ سائنس۔ انہوں نے دنیا بھر کی تاریخ تک بدل ڈالی۔کمیونسٹ علمائے تاریخ نے دنیا بھر کی تاریخ کی مادی تعبیر کر کے اس کو از سر نو مرتب کر کے رکھ دیا۔ اس طرح کمیونسٹ اصولوں پر معاشیات، سیاسیات، قانون، فلسفہ غرضیکہ ہر علم و فن کی ترتیب نوکی۔ پھر آخر ہم مسلمانوں کو یہ کام کرنے سے کیا چیز مانع ہے۔ کمیونسٹوں کے مقابلے میں تو ہم کہیں کم مدت میں اور نہایت بہتر عقلی اور علمی انداز میں یہ کام کر سکتے ہیں۔
مزید برآں علوم وفنون کی یہ تطہیر ایک مسلسل عمل ہے جو کبھی بھی ختم نہ ہوگا۔ اس لیے کہ علم ایک ترقی پذیر قدر ہے۔ جوں جوں کائنات اور اس کے مختلف شعبے اپنے آپ کو انسانی عقل و فکر کے سامنے کھولے جائیں گے۔ علوم کی ترقی ہوتی رہے گی۔ اگر علوم وفنون کی اس پیہم ترقی اور ہر دم تغیر کے ہر مرحلے میں ان کا از سر نو جائزہ نہ لیا گیا اور ان کی مرحلہ وار جانچ پڑتال نہ کی گئی تو جلد ہی ہماری تہذیبی اقدار اور معاشرتی علوم میں خلا اور تباہی پید اہو جائے گا اور ایک زبردست فکری اختلال معاشرے میں جنم لے گا۔ علوم و فنون کی اسی تطہیر و تنقیحِ مسلسل کی ضرورت کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ’’ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم انسانی فکر کے ارتقاء پر نہایت محتاط انداز میں نظر رکھیں اور اس کے بارے میں ایک تنقیدی نقطہ نظر کو بھی قائم رکھیں‘‘۔
۳۔ تطہیر فکر کے بعد اسلامی تحقیق کا تیسرا سب سے بڑا کام تعمیر فکر کا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے تمام علوم وفنون کی ترتیب نو اور تشکیل جدید۔ اس میں جدید علوم کی تشکیل بھی شامل ہے اور قدیم اسلامی علوم کی تعمیر نو بھی۔ قرآن و سنت کے غیر متغیر اور ناقابل تبدل اصولوں کی روشنی میں علوم کو اس طرح مرتب کرنا کہ وہ عصر حاضر میں ہمارے لیے کارآمد ثابت ہو سکیں اور ایک ایسے نظام فکر وعمل اور تہذیب و تمدن کی تعمیر میں مدد دے سکیں جو عصر حاضر میں دنیا کے سامنے اللہ کے دین کی گواہی دے سکے۔
’’تاکہ اللہ کی حجت دنیا والوں پر تمام ہو سکے اور کوئی شخص اللہ کے خلاف کوئی حجت پیش نہ کر سکے۔‘‘
علوم کی تشکیل جدید کے اس کام کو برصغیر میں سب سے پہلے شاید علامہ اقبال ہی نے محسوس کیا تھا۔ فلسفہ اور مابعد الطبیعیات کے میدان میں علامہ مرحوم کی تطہیری اور تعمیر مساعی اسلامی فکر کی تاریخ کا نمایاں باب ہیں۔علامہ کے بعد یہ میدان تقریباً خالی ہی نظر آتا ہے۔ بعض افراد نے مختلف علوم میں کچھ قابل ذکر کام کیا لیکن یہ کام ایک دو اشخاص کے کرنے کا نہیں۔ اس کے لیے ایک ہمہ گیر اور بھر پور تحریک کی ضرورت ہے۔ ایک ہمہ گیر اور بھر پور مہم کے طور پر علوم کی تشکیلِ جدید کا یہ کام کامیابی کے ساتھ جبھی ہو سکتا ہے،جب ہمارا تعلیمی نصب العین متعین ہو اور ہم پوری سنجیدگی کے ساتھ فی الواقع ایسے ارباب فکر و دانش کی ایک جماعت پیدا کرنا چاہتے ہوں جو قرآن مجید کی روشنی میں سارے رائج الوقت علوم و معارف کا جائزہ لیں اور کھرا کھوٹا الگ کر دکھائیں۔ ابھی تک تو ہمارے ہاں کوئی ایسا مربوط نظامِ تعلیم بھی نہیں ابھر سکا جو سارے اسلامی، عمرانی اور طبیعی علوم کا جامع ہو اور اس کے ہر ہر جز میں خدا پرستی اور اسلامیت کی قرآنی روح جاری و ساری ہو۔ ابھی تک جو ایک دو کوششیں ہوئی ہیں وہ غیر مربوط پیوند کاری کے مترادف ہیں۔
علوم کی تنقید وتنقیح کے اس عظیم الشان کام کے لیے اب تاریخ ہم کو مزید مہلت شاید نہ دے۔ اگر مستقبل قریب میں بھی ہم کچھ کر لینے میں کامیاب ہو گئے تو خیر ورنہ اسلامی اقدار اور اسلامی تہذیب کا احیاء ایک خواب و خیال ہو کر رہ جائے گا۔ بلکہ تغیر پیہم کی اس دنیا میں ہمارے لیے اپنا وجود باقی رکھنا بھی ممکن نہ رہے گا۔ علامہ اقبالؒ نے آج سے پچاس سال قبل جو بات اسلامی اصول فقہ کے بارے میں کہی تھی وہ آج سارے علوم و فنون پر صادق آرہی ہے۔ اُس وقت اِس کی جتنی اہمیت تھی آج اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ علامہ نے فرمایاتھا۔
’’میرا عقیدہ ہے کہ جو شخص زمانہ حال کے جورس پروڈنس (اصولِ قانون) پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا وہی اسلام کا مجدد ہو گا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم بھی وہی شخص ہو گا۔ تقریباً تمام ممالک اسلامیہ میں مسلمان یا تو اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں یا قوانین اسلامیہ پر غور کر رہے ہیں … غرض یہ وقت عملی کام کا ہے کیونکہ میری ناقص رائے میں مذہب اسلام گویا زمانے کی کسوٹی پر کسا جا رہا ہے اور شاید تاریخِ اسلام میں ایسا وقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا‘‘۔
لیکن علوم وفنون کی تدوینِ نو کے اس عمل کے انتظار میں ہم دوسرے شعبوں میں اسلامی نقطہ نظر سے اصلاحات کے کام کو نہ تو ملتوی کر سکتے ہیں اور نہ موخر کر سکتے ہیں۔ ہماری رائے میں یہ دونوں کام ایک ساتھ ہی ہونے چاہییں۔ بلکہ اگر یہ دونوں کام ایک ساتھ شروع کیے جائیں تو دونوں ایک دوسرے کے ممدومعاون اور تکمیل کنندہ ثابت ہوں گے اور ایک کی راہ میں حائل دشواریوں کو دور کرنے کی ہر کوشش دوسرے کی راہ میں حائل دشواریوں کو ختم کرنے میں بھی مدد دے گی۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’افکارِ معلم‘‘ لاہور۔ شمارہ: اپریل ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply