صنعتی اور سائنسی انقلاب تک امن کی بحالی کا کام کچھ زیادہ پیچیدہ نہ تھا مگر اب موجودہ صدی میں جب کہ دنیا کی آبادی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، زندگی کافی ایڈوانس ہو چکی ہے۔ انسانی قدریں رفتہ رفتہ رخصت ہو رہی ہیں اور ان کی جگہ حیوانی قدریں انسانی معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہیں۔ آج کے انسان کی ترجیحات میں یہ بات شامل ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ حاصل کرے۔ زن، زر اور زمین جنہیں کسی زمانے میں جھگڑے کی بنیاد کہا جاتا تھا اور انسان کو ان سے بچنے کی تلقین کی جاتی تھی آج کے انسان نے ان ہی چیزوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔ اگر کسی کو یہ چیزیں حاصل ہیں تو وہ مہذب انسان ہے اور اگر کسی کو یہ چیزیں حاصل نہیں ہیں تو پھر چاہے اس کا ذاتی کردار کتنا بھی اجلا اور شفاف کیوں نہ ہو وہ مہذب انسانوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ ان سب چیزوں کے باعث امن کی بحالی قدرے پیچیدہ عمل بن کر رہ گیا ہے۔
موجودہ دور میں امن کی بحالی کی دو سطحیں ہیں ایک سطح وہ ہے جس پر عام لوگ کھڑے ہوئے ہیں اور دوسری سطح وہ ہے جہاں پرمذہبی اور سیاسی رہنما کھڑے ہیں۔ عام لوگوں سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے نفس سے لے کر اپنے گھروں اور اپنے اپنے معاشروں تک میں اپنی بساط کی حد تک امن کی بحالی کے لیے کوششیں کریں اور کوئی ایسی بات یا واقعہ پیش نہ آنے دیں جس سے امن متاثر ہوتا ہو۔ دوسری سطح پر کھڑے ہوئے مذہبی اور سیاسی نمائندوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اپنے زیر اثر حلقوں میں اور پھر اپنے اپنے ملکوں میں امن و امان کو بحال رکھنے کی بھرپور کوشش کریں۔
عالمی امن اور اسلامی تعلیمات
شریعت میں دو اصطلاحی لفظ ہیں۔ اسلام اور ایمان، ایک کا مادّہ ’سِلْم‘ ہے اور دوسرے کا ’امن‘ سے اور ان دونوں کے ایک ہی معنیٰ ہیں، یعنی امن و سلامتی۔ اسی طرح مسلمانوں کے تعارف کے لیے بھی دو لفظ استعمال کیے جاتے ہیں ’مسلم‘ اور ’مومن‘۔ جو پہلے دو لفظوں ہی سے مشتق ہیں اور ان کے معنی بھی تقریباً وہی ہوتے ہیں۔ یعنی امن و سلامتی ہی کے دوسرے دو نام ہیں ’اسلام‘ اور ’ایمان‘۔ اور اسی طرح جو شخص خود اپنی اور دوسروں کی سلامتی چاہتا ہے وہ ’مسلمان‘ ہے اور جو خود اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ’امن‘ چاہتا ہے وہ ’مومن‘ ہے۔
خطبۂ حجتہ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان اور مومن کی وضاحت اس طرح فرمائی تھی:
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں‘‘۔
’’مومن وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کا جان و مال امن و عافیت میں رہے‘‘۔
پرامن بقائے باہم (Coexistance) کے سلسلے میں قرآن کی ہدایات نہایت صاف اور واضح ہیں، چند تعلیمات درج ذیل ہیں:
’’دین میں کسی طرح کی کوئی زبردستی نہیں۔ اب ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے‘‘۔ (البقرۃ: ۲۵۶)
’’تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین‘‘۔ (الکافرون: ۶)
’’جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، ان کے خدائوں کو بُرا مت کہو، نہیں تو وہ بھی نادانی اور دشمنی میں اللہ کو بُرا کہیں گے‘‘۔ (انعام: ۱۰۸)
اس سے بڑھ کر پرامن بقائے باہم (Coexistance) کی تعلیمات اور کیا ہوسکتی ہیں۔ ان دونوں آیتوں کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کی تبلیغ میں کسی قسم کی کوئی زبردستی جائز نہیں۔ اور ویسے بھی ایمان وہی معتبر ہوتا ہے جس میں قلبی اطمینان شامل ہو۔ اگر کسی کو زبردستی مسلمان بنا بھی لیا گیا اور اس نے ظاہراً کلمہ پڑھ بھی لیا اور وہ دل سے مسلمان نہیں ہوا تو اس کا مسلمان ہونا یا نہ ہونا دونوں برابر ہے۔
’’اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو بلائو انتہائی دانشمندی اور ہمدردی کے ساتھ، اوران کے ساتھ بہتر طریقے پر مباحثہ (Dialogue) کرو‘‘۔
پہلی آیت میں دنیا کے تمام انسانوں کو ان مشترک باتوں اور ان مسلمات کی دعوت دی جارہی ہے جن کے قبول کرنے میں کسی کو کوئی عار نہیں۔ جبکہ دوسری آیت میں مسلمانوں کو تلقین کی جارہی ہے کہ وہ اپنی بات دوسروں کے سامنے نہایت حکمت اور موعظت کے ساتھ رکھیں۔ یعنی دانشمندی اور ہمدردی کے ساتھ۔
رہی تیسری بات کہ دہشت گردی (Terrorism) از اول تا آخر اسلام کے خلاف ہے تو اس سلسلے میں بھی قرآن میں صاف وضاحت ملتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کہیں سے کہیں تک بھی جائز نہیں۔ قرآن میں ہے:
’’جس نے کسی انسان کو بلاوجہ قتل کیا یا دنیا میں فساد پیدا کیا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کر ڈالا۔ اور جس نے ایک انسان کی زندگی بچالی اس نے گویا پوری انسانیت کی زندگی بچالی‘‘۔ (المائدہ: ۳۲)
’’اور زمین میں فساد مت پھیلائو کیونکہ اللہ فساد پھیلانے والوںکو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ (القصص: ۷۷)
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں اور بطورِ خاص اسرائیل کے فوائد اسی میں مضمر ہیں کہ دنیا میں انتشار موجود رہے، دہشت گردی کا خوف لوگوں کے ذہنوں پر ہمیشہ مسلط رہے تاکہ وہ پسِ پردہ اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ یہ بات یقینی طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ اسرائیل اور امریکا دنیا میں امن ہرگز نہیں چاہتے، اگر دنیا میں امن قائم ہو جائے گا تو ان کا کاروبار ماند پڑ جائے گا۔
’’آئو ہم سب ایک ایسے ’کلمہ‘ پراتفاق کرلیں جو ہمارے درمیان برابر ہے [یعنی پہلے ہی سے تسلیم شدہ ہے] اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کریں۔ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ کے بجائے ہم خود آپس ہی میں ایک دوسرے کو معبود نہ بنالیں‘‘۔ (آل عمران:۶۴)
اس آیت کو ہم صرف دعوتی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں اور اسی لیے ہم سب کو اپنی طرف بلاتے ہیں تاہم اس میں دعوتی نقطۂ نظر کے بعد ایک اور نکتہ بھی پوشیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اس کو تاریخی نقطۂ نظر سے دیکھیں۔ یعنی ابتدا میں تو سب کا دین ایک ہی تھا، سب لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام نبی اور خلیفہ بنا کر دنیا میں بھیجے گئے تھے۔ وہ تو بعد میں لوگوں نے الگ الگ راہیں نکال لیں۔ تو اس آیت میں وضاحت ہے کہ پہلے تو ہم سب ایک ہی ’نقطے‘ اور ایک ہی ’کلمہ‘ پر جمع تھے۔ آئو پھر اسی کلمہ کی طرف لوٹ چلیں۔ اور اسی نقطے پر جمع ہو جائیں۔ قرآن میں ہے:
’’لوگ ابتدا میں ایک ہی امت تھے [یعنی ایک ہی طریقے پر کاربند تھے] بعد میں لوگوں نے اختلاف پیدا کیا اور وہ گروہ در گروہ ہو گئے‘‘۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ماں اپنے بیٹے کو گرچہ وہ باغی اور سرکش ہو اپنی طرف بلائے اور اس کی آنکھوں میں اس کے لیے محبت اور پیار نہ ہو۔ اسی طرح ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام دوسروں کو اپنی طرف بلائے اور اس کی نگاہوں میں ان کے لیے پیار نہ ہو، ہمدردی نہ ہو۔ اس کے لہجے میں محبت کے جذبات کی گرمی نہ ہو اور انسیت و اپنائیت کا شائبہ نہ ہو۔
ذرا درج ذیل تعلیماتِ نبویؐ پر ایک نظر ڈالیے:
۱۔ ’’رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اللہ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ وہ شخص ہے جو بلاوجہ کسی کا خون بہاتا ہے‘‘۔ (بخاری، رواہ عبداللہ بن عباسؓ)
۲۔ ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام ٹھہرا لیا ہے، تم بھی آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو‘‘۔ (مسلم، رواہ ابوذرؓ)
۳۔ ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ گناہ کبیرہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ہلاک کر دینا اور جھوٹی قسم کھانا‘‘۔ (بخاری و مسلم، رواہ عبداللہ بن عمرؓ)
۴۔ ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب سے پہلے لوگوں کے جن معاملات کا فیصلہ فرمائے گا وہ قتل کے معاملات ہوں گے‘‘۔ (بخاری و مسلم، رواہ عبداللہ بن مسعودؓ)
۵۔ ’’رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اللہ اس شخص پر رحم فرمائے گا جو بیچنے، خریدنے اور تقاضا کرنے میں نرمی کرتا ہے‘‘۔ (بخاری، رواہ جابرؓ)
۶۔ ’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اس کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہے‘‘۔ (البیہقی)
انسان کے ساتھ محبت و مؤدت کا سلوک کرنے اور اس کی عظمت کا اعتراف کرنے کی آسمانی ہدایت پر درج ذیل حدیث سے بڑھ کر اور کوئی دلیل اور ثبوت شاید ہی مل سکے۔ حضرت ابوہریرہؓ آپﷺ سے روایت کرتے ہیں:
’’قیامت کے دن اللہ تبارک تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں بیمار ہوا اور تو نے میری مزاج پرسی نہ کی۔ بندہ کہے گا: اے اللہ تو تو دونوں جہان کا پالنہار ہے، بھلا میں تیری مزاج پرسی کس طرح کرسکتا تھا؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے اس بات کا علم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تب بھی تو اس کی عیادت کے لیے نہیں گیا؟ کیا تو یہ نہ جانتا تھا کہ اگر تو اس کی عیادت کو جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا؟۔ اللہ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا اور تو نے نہ کھلایا۔ وہ کہے گا: اے اللہ! تو تو دونوں جہان کا پالنہار ہے، بھلا میں تجھے کیسے کھلا سکتا تھا؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو بھول گیا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تو نے انکار کر دیا تھا۔ کیا تجھے اس بات کا علم نہ تھا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو اسے میرے پاس پاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا اور تو نے مجھے پانی نہ دیا تھا۔ وہ کہے گا: اے اللہ! تو تو دونوں جہان کا پالنہار ہے، بھلا میں تجھے کیسے پانی پلا سکتا تھا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا اور تو نے منع کر دیا تھا۔ کیا تجھے اس کا علم نہیں تھا کہ اگر تو پانی پلاتا تو اس کو میرے پاس پاتا؟۔ (رواہ مسلم)
(بحوالہ: ماہنامہ ’’افکار ملّی‘‘ دہلی۔ اکتوبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply