سعودی عرب :بادشاہت کے لیے ممکنہ چیلنج

برقع پوش خواتین اپنے اسمارٹ فون پر ان کی تصاویر لگا کر خوش ہو رہی ہیں،صحافی ان کے ہر اقدام پر تعریف کے پل باندھ رہے ہیں،سفارت کار ان کے بارے میں چھوٹی چھوٹی خبریں حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف نظر آتے تاکہ اپنے دارالحکومتوں کو با خبر رکھ سکیں۔وہ نوکر شاہی جو کبھی سارا دن میزوں پر سر رکھے اونگھتی تھی، اب راتوں کو جاگ کر ان کے احکامات کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف نظر آتی ہے۔ان سب باتوں کی وجہ ہیں محمد بن سلمان،سعودیہ کے وزیر دفاع اور بادشاہ سلمان کے شاہی فرمان کے مطابق نائب ولی عہد،جنہوں نے غیر معروف ہوتے دارالحکومت ریاض کو دوبارہ شہ سرخیوں میں جگہ دلا دی ہے۔

جنوری میں بننے والے بادشاہ سلمان جو کہ شاہ عبدالعزیز بن سعود (جدید بادشاہت کے بانی)کے چھٹے بیٹے ہیں نے حیرت انگیز طور پر اپنے بھتیجے پچپن سالہ محمد بن نائف(جن کا کوئی بیٹا نہیں) کو ولی عہد اور اپنے بیٹے محمد کو نائب ولی عہد بنا کر یہ واضح کر دیا ہے کے وہ اپنی نسل کے آخری بادشاہ ہوں گے،ان کے بعد بادشاہت محمد بن نائف اور پھر محمد بن سلمان کو منتقل ہو گی جن کی عمر تیس سے چالیس سال کے درمیان ہے،اس عمر میں بادشاہت کے لیے نامزدگی پالیسی میں واضح تبدیلی کی آئینہ دار ہے۔ لیکن محمد بن سلمان ضعیف بادشاہوں میں ایک نوجوان چہرہ ہی نہیں بلکہ ایک بامقصد اور متحرک انسان نظر آتے ہیں۔کچھ ماہ کی مختصر مدت میں انہوں نے نہ صرف یمن میں جنگ چھیڑی اورکیمپ ڈیوڈ میں صدر اوباما سے ملاقات کی بلکہ تیل کی سرکاری کمپنی آرامکو کی سربراہی بھی سنبھال لی ہے۔سعودی عالم اور سابقہ حکومت کے ناقد محسن الواجی کا کہنا ہے کہ ــــــــ’’ملک کی صورتحال گہرے بادلوں میں گھرے ہوئے بے سمت بحری جہاز کی سی تھی، ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن اب آسمان پر تارے نظر آنے لگے ہیں‘‘۔

اگر ایسا ہے تو یہ سعودی عرب کی خوش قسمتی ہے کیونکہ جن حالات کا ملک کو اب سامنا ہے وہ پچھلی دہائیوں سے کہیں زیادہ گھمبیر ہیں۔ملک خانہ جنگی اور ناکام ریاستوں سے گھرا ہوا ہے،اور تیل کی تیزی سے گرتی ہوئی قیمتیں معیشت کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہیں۔ایسے میں دشمن ملک ایران پراکسی جنگ کے ذریعے خطے کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ موسم گرما کے اختتام تک ایران کی امریکا،روس اور یورپ سے ا یٹمی پروگرام پر ہونے والے ممکنہ معاہدے کے نتیجے میں ایران کی دولت اور اس کے اثر رسوخ میں مزید اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔

یہ حالات سعودی عرب کے لیے ایک نئی حکمت عملی کا تقاضا کر رہے ہیں۔سعودی عرب نے ایک طویل عرصے تک اپنی کوششوں کا نہیں بلکہ صرف اسلام کے مقدس مقامات اور تیل کے بڑے ذخائر کا بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن اب ان کی قیادت یہ محسوس کرتی ہے کہ انہیں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر کے ایران کا سامنا کرنا ہو گا اور خطے میں جاری فرقہ وارانہ جنگ میں سنی گروپوں کا ساتھ دے کر اپنی حیثیت کو منوانا ہو گا۔ سب سے اہم بات یہ کہ سعودی قیادت کا خیال ہے کہ وہ امریکا پر پہلے جتنا انحصار نہیں کر سکتے۔اوباما کی صدارت میںامریکا خانہ جنگی میں گھرے ہوئے خطے میں مداخلت سے گریزاں ہے۔امریکا میںشیل انرجی کی بڑے پیمانے پر پیداوار نے سعودی عرب پر اس کا انحصار بہت کم کر دیا ہے۔اور امریکا اب ایران سے معاہدے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔

سعودی عرب نے مارچ میں یمن میں مداخلت کر کے ایک آپریشن کا آغاز کیا (جس میں اسے امریکا کی انٹیلی جنس اور لاجسٹک مدد حاصل ہے) جس کی قیادت وہ خود کر رہا ہے، بظاہر تو اس آپریشن کا مقصدایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو تباہ کرنا ہے،لیکن اس کا عظیم مقصد ایران کو یہ باور کروانا ہے کہ سعودیہ ایک دفعہ پھر قیادت کے لیے تیار ہے۔ جان جینکن جو کہ ریاض میں برطانیہ کے سفیر رہے ہیں، اور آج کل انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ برائے اسٹریٹجک اسٹڈیز کی ایک شاخ کے سربراہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’اس جنگ کا یمن سے کوئی لینا دینا نہیں، بلکہ اس کا مقصد تو ایران کو اپنی فوجی قوت اور طاقت دکھانا ہے‘‘۔

گریگوری جو کہ ایک علمی شخصیت ہیں وہ بھی اس بات سے متفق ہیں کہ سعودیہ کا مقصد صرف ایران کو اشارہ دینا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ و ہ یہ پیغام کس طرح دیتے ہیں۔

شاہی خاندان کے مشیر کا کہنا ہے کہ معاملہ بہت واضح ہے،سعودی عرب اور خلیجی ممالک کسی صورت بھی فارسیوں کو اور فرقہ واریت کو اپنے ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ان کا کہنا ہے کی اس ساری کاروائی کوسعودیہ کی قیادت میں خلیجی ممالک کے نیٹو طرز پر ایک نئے فوجی اتحاد کی کو شش کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔اس طرح کی تجاویز کو عرب لیگ میں پہلے بھی زیر بحث لایا جا چکا ہے لیکن سعودی قیادت کو اتنا سرگرم کبھی نہیں دیکھا گیا۔ بیشک یہ کام موجودہ حالات میں سعودی قیادت کے علاوہ کوئی کر بھی نہیں سکتا۔مصر جو کبھی اپنے تجربے اور زیادہ آبادی کی وجہ سے علاقائی طاقت کہلایا کرتا تھا، لیکن اب مصر کو جمہود کا شکار معیشت،بوسیدہ سیاسی نظام اور دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔اس لیے مصر کے حکام اس بات کا اندازہ لگانے کی کو شش کر رہے ہیں کہ کیا واقعی سعودیہ کے’’بدّو‘‘،قیادت کرنے کے لائق ہیں؟ اور کیا سعودیہ کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ ایسے مسائل سے نمٹ سکے جن کا شکار کبھی ان کا پڑوسی لیبیا ہوا کرتا تھا۔عراق جو کبھی ایران کے سامنے ایک مضبوط دفاع سمجھا جاتا تھااب مکمل طور پر ایران کے زیر اثر ہے۔شام تباہ و برباد ہو چکا ہے، اورترکی کااثر و رسوخ عربوں پر بہت کم ہے۔

یمن پر حملے کے فیصلے کے کچھ ہی گھنٹوں میں سعودی عرب اپنے ساتھ دس سنی ممالک کو اتحادی بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا، جن میںاردن، مراکش، مصر اور خصوصی طور پر قطر شامل ہیں (جس سے کچھ عرصے پہلے تک سعودی عرب کے معاملات کشیدہ چل رہے تھے)۔ سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی کے باوجود سعودیہ نے اپنے اقدام کی سلامتی کونسل سے توثیق بھی کروالی۔ لیکن جنگ شاید ہی کبھی سفارتی یا فوجی کامیابی کہلائے۔ سعودیہ دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ برآمد کرتا ہے، اور اس کی فوج بھی باقی ممالک سے کافی بہتر ہے، لیکن اس کے با وجود شاید انہیں اس طرح کی مہمات کی منصوبہ بندی کی عادت نہیں رہی۔ سعودی فوج کو غیر ضروری بمباری اور یمن کی بحری ناکہ بندی (جس کی وجہ سے ملک میں رسد و تیل کی سپلائی بند ہو گئی ہے) کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اتحاد میں شامل باقی ممالک (جن میں سے زیاد ہ تر اپنی مرضی سے نہیں بلکہ حکم کی پابندی کرتے ہوئے شامل ہوئے ہیں) بھی بہت محدود کردار ادا کر رہے ہیں، صرف تین ممالک ہیں جو بمباری میں حصہ لے رہے ہیں۔ پاکستان اپنی فوج بھیجنے سے انکار کرچکا ہے۔ مصر بھی ساتھ دینے کے بجائے صرف سعودیہ کے ارادوں پر نظر رکھے ہوئے ہے، جس سے اس کی رضامندی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب سے باہر اس پر وسیع اتفاق رائے ہے کہ یہ جنگ خطرناک حد تک غلط سمت میں جا رہی ہے۔حوثیوں کی پیش قدمی مسلسل جاری ہے۔ امدادی اداروں اور اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق اب تک ۱۸۴۹ ؍افراد مارے جا چکے ہیں، جبکہ قحط سے متاثرہ لو گوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یمن نے سعودیہ پر الزام لگایا ہے کہ سعودیہ نے حوثی باغیوں کو پیچھے دھکیلنے کی خاطر القاعدہ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے، اور ان کے پاس مسئلے کے سیاسی حل کا کوئی منصوبہ نہیں اسی وجہ سے مذاکرات سے بھی انکار کر دیا ہے۔ سعودیہ کی شامی با غیوں کی پشت پناہی بھی غیر دانش مندانہ فیصلہ ثابت ہوئی ہے۔ سعودیہ نے بیش بہا دولت ہونے کے باوجود اپنے حمایتی گروہوں پر بہت کم خرچ کیا، اس کے مقابلے میں ایران نے بشارالاسد کی حکومت بچانے کے لیے کہیں زیادہ خرچ کیا۔

لیکن اب معاملات تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں۔شاہ سلمان نے ماضی کے اختلافات بھلا کر ترکی سے تعلقات بہتر بنانے کی کو شش کی ہے، جو کہ ایک مثبت تبدیلی ہے، سعودیہ، ترکی اور قطر کے بڑھتے ہوئے باہمی تعاون کی وجہ سے باغیوں نے شام کے شمال مغربی علاقے میں خاصی پیش قدمی کی ہے۔ لیکن داعش کی وجہ سے سعودیوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں، وہ داعش کے حملوں کی وجہ سے کافی نقصان اٹھا چکا ہے۔ اس لیے سعودیہ نے داعش کی مالی معاونت روکنے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کیے ہیں۔ محمد بن نائف انسداد دہشت گردی کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہیں، انہوں نے ۲۰۰۱ء کے بعد سعودیہ سے القاعدہ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے داعش میں شمولیت اختیار کرنے والے سعودیوں کی مکمل معلومات امریکا کو فراہم کیں۔

لیکن ان حالات میں سعودیہ کے لیے داعش سے لڑنا انتہائی مشکل ہو گا، (جب ریاست کے وہابی مسلک اور داعش کے مذہبی خیالات بہت زیادہ مشترک ہوں)۔ شاہی خاندان نے بادشاہت کی قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے علماء سے جو معاہدہ کیا تھا اس کے نتیجے میں علماء نے انتہا پسندانہ خیالات کی تبلیغ کر کے ریاست کے لیے یہ مشکل بنا دیا ہے کے وہ مذہب کی نرمی کو استعمال کر کے داعش کی تعلیمات کی نفی کر سکے۔ وہاں مذہبی وقار کو برقرار رکھنے کے لیے سخت نگرانی کے نظام کے علاوہ کوئی خاص طریقے نہیں۔

قدیم مصر کی بڑی فلمی صنعت اور دبئی کے دلکش فن تعمیر کے بر عکس سعودیہ میں ثقافت کا کوئی اثرورسوخ نہیں۔ اور یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ قوتِ فیصلہ کی شدید کمی ہے، جس کا اندازہ ریاض کے معاشی مرکز میں خالی عمارتوں اور نامکمل منصوبوں کی بڑی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔ ریاض کا موازنہ چمکتے دمکتے دبئی سے تو کیا بحرین کے دارالحکومت مانامہ سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ایسا کچھ نہیں کہ کوئی یہاں آنے کی خواہش کرے۔

سعودی عرب کو علاقائی طاقت بنانے کا یہ منصوبہ جہاں دنیا کو متاثر کرنے میں ناکام رہا ہے، وہیں سعودیہ کے عوام میں بھی نوجوان قیادت کے اس منصوبے کے حوالے سے بے چینی نظر آتی ہے۔ یمن کی جنگ ملک میں خاصی پزیرائی بھی حاصل کر رہی اور ملک کی ثقافت میں فوج کے لیے محبت بڑھتی محسوس ہو رہی ہے۔

زین جو کہ موبائل کی دکان کا مالک ہے اس نے فوجیوں کے لیے پچاس فیصد رعایت کا اعلان کیا ہے۔ خواتین بہت جوش اور ولولے کے ساتھ ٹویٹر پر جاری ایک ہیش ٹیگ کا مثبت جواب دیتی نظر آرہی ہیں، جس میں وردی والوں (یعنی فوجیوں) سے شادی کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ (یاد رہے سعودی دنیا میں سب سے زیادہ ٹویٹ کرنے والوں میں شامل ہیں)۔ باقاعدہ منصوبے سے کیے جانے والے یہ کام بادشاہ اور اس کے ولی عہد خاص طور پر محمد بن سلمان (جو کہ فوج کی قیادت کررہے ہیں) کی مقبولیت میں اضافہ کر رہا ہے۔ شاہ سلمان نے جانشینی کے عمل کی تشکیل نو کر کے نہ صرف تیسری نسل کے ۸۰۰۰ شہزادوں کے درمیان جاری کشمکش کا ْخاتمہ کر دیا، بلکہ خاندانی طاقت کو بھی ایسے یکجا کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنے سوتیلے بھائی شہزادہ مقرن کو ہٹا کر اپنے بھتیجے (جو مشکل کام کرنے کے حوالے سے عوام میں کافی شہرت رکھتے ہیں) اور بیٹے کے لیے جگہ بنائی ہے۔ بیعت کونسل جو کہ عبدالعزیز کے ۴۵ بیٹوں کی ترجمانی کرتی ہے، وہ بھی ان فیصلوں میں ربر اسٹمپ ثابت ہوئی ہے۔ اطلاعات ہیں شہزادہ مقرن جو کہ کافی مایوس تھے ان کو بھی مطمئن کر دیا گیا ہے۔

ان تمام کمیٹیوں کو جہاں کبھی فیصلے ہوا کرتے تھے دو انتہائی اہم کونسلوں سے تبدیل کر دیا گیا ہے، جن کے زریعے تمام اختیارات نئے ولی عہد، ان کے کزن اور ڈپٹی کے پاس چلے گئے ہیں۔ محمد بن نائف ملک کی سیکیورٹی اور داخلی معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ محمد بن سلمان ملک کی معیشت، تیل اور ترقی کے معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ گزشتہ بادشاہ عبداللہ روایتی طریقے سے فیصلے کیا کرتے تھے، یعنی کسی اقدام سے پہلے لوگوں میں جاکر، اجتماعات میں تبادلہ خیال کر کے اتفاق رائے پیدا کیا کرتے تھے، اب اس طریقے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ ایک سرکاری افسر کا کہنا ہے کہ اب ہمیں صرف اوپر سے حکم ملتا ہے۔

اس مضبوط بادشاہت کے لیے ضروری ہے کے وہ اپنی طاقت کو معاشی اصطلاحات کے ذریعے طویل عرصے تک قائم رکھے۔ تیل کی قیمتیں جو کہ مئی میں ۱۱۰؍ ڈالر فی بیرل تھیں اب ۶۵ ڈالر پر آچکی ہیں،اس کمی نے ابھی تک وہ معاشی بحران پیدا نہیں کیا جو کہ ۱۹۹۰ء میں ہواتھا،اس کی بڑی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جن کی مالیت۶۹۷ ؍ارب ڈالر ہے۔ ملک کا جی ڈی پی اتنا ضرور ہے کہ قیادت ان حالات میں بھی پراعتماد نظر آتی ہے، لیکن یہ اتنا نہیںکہ مشکل وقت میں کوئی بڑا سہارا بن سکے۔ پچھلے سال دسمبر میں منظور ہونے والے بجٹ میں چھتیس اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کا خسارہ تو تھا، لیکن اخراجات میں کمی کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔ شاہ سلمان نے ذمہ داری سنبھالتے ہی سرکاری ملازمین کے لیے ایک بڑے بونس کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ دیگر مراعات بھی دی گئیں جن کے اخراجات جی ڈی پی کا تین سے چار فیصد مزید ہوں گے۔ تیل جو کے ملکی آمدنی کا نوے فیصد ہے، اس کی قیمتیں پہلے کی طرح کم تو نہیں لیکن اب ۶۵ ڈالر سے مزید بڑھتی نظر نہیں آرہی، اس لیے شاید یہ سخاوتیں برداشت کرنا ممکن نہ ہو۔ پچھلی دہائی میں ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی وجہ سے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی پیش گوئی کے مطابق رواں مالی سال کا خسارہ ۱۰۰ ؍ارب ڈالر کے قریب ہو گا جو کہ جی ڈی پی کا پندرہ فیصد بنتا ہے۔ ریاض سے تعلق رکھنے والے معاشی ماہر کا کہنا ہے کہ ’’تیل کی قیمت ۶۵ ڈالر فی بیرل ہے اور حکومت کے اخراجات سو ڈالر فی بیرل کے حساب سے ہیں، اور پھر یمن کا معاملہ بھی ہے، اگر حالات ایسے ہی رہے تو زرمبادلہ کے ذخائر بہت جلد ختم ہو جائیں گے۔ سعودی شہزادے ولید بن طلال جو کہ اپنے آپ کو سعودیہ کا وارن بینفٹ سمجھتے ہیں، پچھلے سال ٹویٹر پر اپنے دوستوں سے کہا کہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں تباہ کن ہے۔ کچھ سرمایہ دار بھی غیر یقینی کا شکار ہیں۔ جنوری میں ریال کی قیمت سرکاری طور پر متعین کی گئی قیمت سے نیچے آگئی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سرمایہ ملک سے باہر جا رہا ہے۔جنوری سے لے کر مارچ تک سعودی عرب کے زرمبادلہ کے ذخائر میں پانچ فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس تناسب سے زرمبادلہ کے ذخائر صرف تین سال میں ختم ہو جائیں گے۔ اگر حکومت کرنسی کو مستحکم رکھنے کے لیے رقم خرچ نہ کرے تو شاید یہ ذخائر لمبے عرصے تک خسارے کوبرداشت کر سکیں۔ ریاست کی بیلنس شیٹ ۱۹۹۰ء کے مقابلے میں کافی مضبوط ہے، حکومت نے تقریباً اپنے تمام اندرونی قرضے ادا کر دیے ہیں۔ لیکن مسلسل سو ارب ڈالر کے سالانہ خسارے سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو جائیں گے بلکہ اندرونی قرضے بڑھ کر جی ڈی پی کے پچاس فیصد تک پہنچ جائیں گے۔ ریاست ان خساروں کو مزید دس سال برداشت کر سکتی ہے،لیکن اس میں بھی اسے سمندر پا ر موجود تیل کے گاہکوں سے مدد کی ضرورت پڑے گی، جیسا کہ چین۔

یہ دس سالہ معاشی حالت کی پیش گوئی مغربی وزرائے خزانہ اور تیل کے تاجروں کی ہے۔ لیکن سعودی قیادت کے لیے اصل زندگی سیاسی زندگی ہے۔ شاہ سلمان نے اخراجات کنٹرول کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں، اس کے لیے انہوں نے کچھ سفید ہاتھیوں کی نشاندہی کی ہے جیسا کہ بڑی تعداد میں تعمیر ہونے والے فٹبال اسٹیڈیم۔غیر استعمال شدہ زمین پر ٹیکس لگانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے،دوسری طرف ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی بات بھی کی جا رہی ہے۔حج کی فیس میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔لیکن یہ سب کرنے کے باوجود بھی تیل کی موجودہ قیمت پر حکومت اتنے اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے توانائی کے گھریلو استعمال میں (جو کہ ابھی پیداوار کا ایک چوتھائی ہے) خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آبادی ۲۸ ملین سے بڑھ کر ۲۰۵۰ء میں ۴۵ ملین تک پہنچ جائے گی۔ کچھ اندازوں کے مطابق ۲۰۳۰ء تک تیل کی درآمد ختم ہو جائے گی۔

معیشت کو تنوع دینے کی کوششیں پہلی دفعہ ۱۹۹۰ء میں کی گئی جب تیل کی قیمت میں غیر معمولی کمی ہوئی تھی،اس وقت کے ولی عہد شاہ عبداللہ نے اعلان کیا تھا کہ ’’کثیر اخراجات کا دور ا ختتام کو پہنچا‘‘۔لیکن جیسے ہی تیل کی قیمت مستحکم ہوئی تو وہ تمام کوششیں مدھم پڑ گئیں۔ نجی شعبے میں پیٹرو کیمیکل اور ایلومینیم کی صنعتوں کا غلبہ ہے جو کہ توانائی کے رعایتی نرخوں پر انحصار کرتی ہیں۔ ریاست اگرچہ تعلیم پر کافی خرچ کرتی ہے لیکن پھر بھی نوجوانوں کے لیے نوکریاں بہت کم ہیں، خاص طور پر خواتین کے لیے جو لیبر فورس کا بیس فیصد ہیں۔ ان حالات سے نمٹنے کے لیے اور سسٹم میں بنیادی اصطلاحات کے لیے قدامت پرست شاہی خاندان کوایسے ولولے اور عزم کا اظہار کرناہو گا جو پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ ریاست کو شاید کچھ رعایتیں ختم کرنا پڑیں اور خاص طور پرخواتین کے حقوق کے حوالے سے اپنے موقف میں تبدیلی لانی ہوگی، جس سے سیاسی مسائل میں اضافہ ہو گا،اورریاست ایسے کسی مسئلہ کا سامنا نہیں کرنا چاہتی۔لیکن اسطر ح ریاست کی تشکیل نو سے بچنا اور زرمبادلہ کے ذخائر کا کم ہونا ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

بدامنی کے حوالے سے ممکنات کوآسانی سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔سعودی عرب کی اکثریت عرب بہار کے نتیجے میں جو کچھ ہوا اس کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔ حتیٰ کہ شیعہ اقلیت اور اصطلاحات کی حمایت کرنے والے کاکنان جنہیں جیلوں میں بند کر دیا گیا، وہ بھی اپنے آپ کو شام اور لیبیا کے عوام سے بہتر سمجھتے ہیں۔ نوجوان طبقہ جو کہ عالمی طور پر مربوط اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے وہ اپنے ملک میں ہی وہ تمام سہولیات چاہتا ہے جنہیں حاصل کرنے کے لیے ان کو مغربی ممالک جانا پڑتا ہے۔ شاید وہ ملک میں مکمل جمہوریت کے خواہش مند تو نہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ان کی آواز بھی سنی جائے۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو مذہب پسند طبقہ آزاد خیال طبقے کے مقابلے میں بادشاہت کے عدم استحکام کا زیادہ ذمہ دار رہا ہے۔اس کے باوجود شاہی خاندان علما کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جنہوں نے وہابی نظریہ کو ٹھیک کرنے کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا (سنیوں سمیت بہت سے لوگ وہابیت کو متشدد جہاد کی بنیاد سمجھتے ہیں)۔ شاہی خاندان اس معاملے میں خود تقسیم ہے، یا پھر وہ ایسا ظاہر کر رہے ہیں، کہ سرکاری علما کے پیروکاروں کی تعداد مستقل کم ہو رہی ہے، اور وہ اپنا رتبہ بھی کھو رہے ہیں۔ لیکن لگتا ہے شاہ سلمان نے علما کو کھلی چھوٹ دے دی ہے، کہا جا رہا کہ اب علما پر شاہ عبداللہ کے دور کی طرح داعش کے خلاف بولنے پر زیا دہ زور نہیں دیا جاتا، اہل تشیع کے خلاف خطبوں پر بھی زیادہ نظر نہیں رکھی جارہی۔ جنوری میں مذہبی پولیس کے اس سربراہ کو برطرف کر دیا گیا، جو علما پر زیادہ سختی کیا کرتا تھا۔

سعودی عرب کو معتبر ملک بنانے کے لیے شاہ سلمان اور ان کی کابینہ کو معاشی اصطلاحات کرنا ہوں گی اور اس کے لیے انہیں انتہا پسند علما کے حوالے سے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ دونوں کام کافی مشکل اور بڑے ہیں اور پہلا کام یعنی معاشی اصطلاحات، مذہبی اصطلاحات کے کام کو مشکل بنا سکتا ہے کیونکہ معاشی اصطلاحات کے نتیجے میں ہونے والی گڑبڑ کو مذہبی رنگ دیا جاسکتا ہے۔ خاندان کی ایک خاص شاخ میں عہدوں کی تقسیم بھی شاہ سلمان کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کے شاہ عبداللہ کے بیٹے جو کہ محمد بن سلما ن کے بڑے بھائی ہیں وہ شاہی خاندان کی اس تشکیل نو سے بہت خوش ہیں۔وہ سمجھتے ہیں اگر معاملات خرابی کی طرف جاتے ہیں تو ان تبدیلیوں سے فائدہ اٹھانا ان کے لیے بہت آسان ہو گا۔محمد بن سلمان کو ہوشیار رہنا ہو گا،کیونکہ جس طرح ان کے والد نے ان کو نائب ولی عہد بنایا ہے،یہی طریقہ آنے والے دور میں کوئی ان کو ہٹانے کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اس لیے ولی عہد اور نائب ولی عہد کوہٹائے جانے کے امکانات بھی موجودرہیں گے۔

سعودی کچھ عرصے تک تو شاید اپنے نوجوان ولی عہد کو دیکھ کر مسحور رہیں۔ محمد بن سلمان کے پختہ ارادے اور منصوبہ بندی شاید سعودی عرب کو کھویا ہوا اثرورسوخ واپس دلوا دے۔ اگر آنے والی دہائیوں میں وہ کبھی بادشاہ بنتے ہیں تو ان کی طرف سے ریاست کی بہتری کے لیے کی گئی تبدیلیاں ان کے بادشاہ بننے کی سب سے بڑی وجہ ثابت ہوں گی۔ لیکن ایسا ہو، یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا۔

(مترجم: حافظ محمد نوید نون)

“Saudi Arabia: The challenged kingdom”.
(“The Economist”. May 21, 2015)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*