معروف امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ کی آفیشل ویب سائٹ پر ۸؍اکتوبر ۲۰۲۰ء کو رافیلو پینٹوشی (Raffaello Pantucci) کا ایک مضمون شائع ہوا۔ ’’انڈینز اینڈ سینٹرل ایشینز آر دی نیو فیس آف دی اسلامک اسٹیٹ‘‘ (داعش کا نیا چہرہ بھارتی اور وسط ایشیائی باشندے) کے زیر عنوان شائع کیے جانے والے اس زہریلے مضمون میں بدنامِ زمانہ انتہا پسند تنظیم دی اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (آئی ایس آئی ایس) کے بڑھتے اور پھیلتے ہوئے اثرات سے خبردار کیا گیا تھا۔ اس تنظیم کو عربی میں دولتِ اسلامیہ عراق و شام (داعش) کہا جاتا ہے۔ جیسے ہی یہ مضمون متعلقہ ویب سائٹ پر نمودار ہوا، پاکستان کی تمام بڑی اردو خبر ایجنسیوں نے جیسے تیسے اور خاصی عجلت میں اِس کا ترجمہ کرایا اور پورے مضمون کو خبر کی شکل میں یوں جاری کیا گویا کوئی نعمتِ غیر مترقبہ ہاتھ آگئی ہو! پاکستان بھر کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا آؤٹ لیٹس نے اس خبر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ماتھے سے لگاتے ہوئے اپنے ناظرین و قارئین کے سامنے یوں پیش کیا گویا بھارت کے خلاف کوئی فردِ جرم آگئی ہو اور بس اب کارروائی شروع ہی ہوا چاہتی ہے! پاکستان بھر میں صفِ اول کے اخبارات میں اور ٹی وی چینلز پر رافیلو پینٹوشی کے مضمون کو خبر کی شکل میں کچھ اِس طرح پیش کیا گیا جیسے مضمون نگار نے بھارت اور داعش کا گٹھ جوڑ ثابت کردیا ہو، اور یہ کہ بھارت عالمی برادری کے سامنے برہنہ کردیا گیا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ سہ ماہی فارن پالیسی میں شائع ہونے والا رافیلو پینٹوشی کا مضمون میڈیا کی زبان میں planted کہلائے گا۔ پورا کا پورا مضمون خالص ایجنڈے کا نمونہ ہے اور نِرے فرمائشی آئٹم کا درجہ رکھتا ہے۔ اِکّا دُکّا (sporadic) واقعات کو بنیاد بناکر فاضل مضمون نگار نے وہی پرانا امریکی راگ الاپا ہے، یعنی یہ کہ مسلم انتہا پسند ایک بار پھر پنپ رہے ہیں اور اس بار اُنہوں نے بھارت اور وسطِ ایشیا کے ممالک میں پناہ لی ہے۔ مضمون کے ابتدا ہی میں مضمون نگار نے باریک کام کی ابتدا اس نکتے سے کی ہے کہ دنیا بھر میں انتہائی دائیں بازو کی سیاست کے حوالے سے سفید فام نسل کو مطعون کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ داعش ایک بڑے خطرے کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور یہ کہ اِس خطرے کا ادراک کم ہی لوگوں کو ہے۔ یہ نکتہ باریک کام کا درجہ یوں رکھتا ہے کہ امریکا میں سفید فام باشندے جو حرکتیں کر رہے ہیں اُس کی بنیاد پر نسل پرستی کو ہوا مل رہی ہے اور سفید فام امریکی بدنام ہو رہے ہیں۔ امریکی ڈونلڈ ٹرمپ نے نسل پرستی کی آگ بھڑکانے کے حوالے سے جو کچھ کیا ہے اُسے کسی حد تک کاؤنٹر کرنے کے لیے کوئی تگڑا تجزیہ درکار تھا اور یہ کمی فارن پالیسی کے لیے رافیلو پینٹوشی نے پوری کی ہے۔
مضمون کے لیے وقت کا انتخاب بہت اہم ہے۔ امریکا میں حال ہی میں مرکزی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے ریاست مشی گن کی گورنر مسز گریچن وٹمر کو اغوا کرکے خانہ جنگی چھیڑنے کی سازش بے نقاب کی۔ اس حوالے سے ۶ سفید فام باشندے گرفتار کرلیے گئے ہیں، جبکہ اُن کے سات سہولت کاروں پر بھی فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے رواں سال جون میں کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہوئے ریاستی دارالحکومت لینسنگ میں حکومتی عمارتوں پر دھاوا بولا تھا۔ تب صدر ٹرمپ نے مظاہرین کی حمایت کرتے ہوئے ایک ٹوئیٹ میں ’’مشی گن کو آزاد کراؤ‘‘ کا نعرہ لگایا تھا! مشی گن میں خانہ جنگی برپا کرنے کی سازش ناکام بناتے ہوئے ایف بی آئی نے گرفتاریاں کیں تو میڈیا میں نسلی بنیاد پر برتری کی خواہش رکھنے والے سفید فام امریکیوں کے خلاف شور بھی اٹھا۔ امریکی صدر بھی تمام معاملات میں برتری کو سفید فام امریکیوں کا پیدائشی حق قرار دیتے ہوئے نسل پرستی کو ہوا دے رہے ہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ سفید فام امریکیوں کی غالب اکثریت کے ووٹ اُنہیں مل جائیں۔ رافیلو پینٹوشی کے مضمون کے ابتدا ہی میں انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی کے حوالے سے سفید فام نسل کی بات کرکے صدر ٹرمپ اور اُن کے کور سرکل کی حماقت کے اثرات زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دنیا کو ایک بار پھر باور کرایا جارہا ہے کہ سفید فام نسل کی حماقتوں کو بھول جایے اور مسلمانوں پر توجہ دیجیے، جن کی صفوں میں موجود جہادی عالمی امن کو داؤ پر لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں!
رافیلو پینٹوشی کے مضمون کی بنیاد پر ہمارے چھوٹے بڑے اخبارات میں شائع ہونے والی خبر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کے نیٹ ورک فروغ پارہے ہیں جبکہ مصنف نے درحقیقت بھارت میں داعش کے پھیلتے ہوئے اثرات کی ڈفلی بجاکر پوری دنیا کو اس طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مضمون کا اصل مقصد تو بھارت کے مسلمانوں میں نام نہاد جہادی کلچر کے فروغ پانے کا ڈھول بجانا تھا اور یہ ڈھول عمدگی سے بجایا گیا ہے۔ اور ہاں، دال تو صرف بھارتی مسلمانوں کی پیش کرنی تھی، مگر اس دال کو تھوڑا سا مختلف اور لذیذتر بنانے کے لیے وسط ایشیا کا تڑکا لگایا گیا ہے! داعش کے نیٹ ورک سے تاجکستانی، ازبکستانی اور کرغیزستانی نوجوانوں کے جُڑنے کی بات کرکے اِن تینوں مسلم ممالک کو بھی متنازع بنانے پر توجہ دی گئی ہے۔ یہ ’’نکتہ‘‘ زور دے کر بیان کیا گیا ہے کہ تاجکستان، ازبکستان اور کرغیزستان سے تعلق رکھنے والے جنونی نوجوان اب عالمگیر جہاد کے اگلے مورچوں پر ڈٹے ہوئے ہیں!
رافیلو پینٹوشی نے سری لنکا میں گزشتہ برس ایسٹر کے موقع پر، ۲۰۱۶ء میں ترکی کے کمال اتا ترک ایئر پورٹ پر اور کابل کے گردوارے پر فائرنگ اور دھماکوں میں جبکہ ۲۰۱۷ء میں نیویارک اور اسٹاک ہوم (سوئیڈن) میں ہجوم پر ٹرک چڑھانے اور استنبول (ترکی) کے مشہور نائٹ کلب پر سالِ نو کی تقریب کے دوران فائرنگ اور دھماکوں کے واقعات میں داعش کے جنگجوؤں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ حملے بھارت اور وسط ایشیا سے تعلق رکھنے والے جنونی مسلمانوں یعنی نام نہاد جہادیوں نے کیے! مضمون کو خاطر خواہ توجہ سے پڑھنے پر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی (بہت حد تک کامیاب) کوشش کی گئی ہے۔ کابل کے گردوارے پر حملے کا ذکر کرکے سِکھوں کو مسلمانوں سے برگشتہ کرنے کی سعی فرمائی گئی ہے۔ سوئیڈن کے دارالحکومت اور نیو یارک کا ’’ذکرِ خیر‘‘ صرف اس لیے ہے کہ دونوں ممالک کے عوام خصوصی طور پر داعش سے اور عمومی طور پر مسلمانوں سے بدظن و بددل ہو جائیں۔
ہماری اردو خبر ایجنسیوں نے رافیلو پینٹوشی کے مضمون کا جو ترجمہ کیا اُس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ بھارت کے ’’دہشت گرد‘‘ افغانستان، عراق اور شام کی لڑائیوں میں شریک رہے ہیں اور اب ترکی کے علاوہ مغربی دنیا کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ خبر سے یہ تاثر بھی پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عالمی برادری یا ’’غیر جانب دار‘‘ تجزیہ نگاروں نے بھارت کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا نوٹس لے لیا ہے! خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت طالبان کے نظریات کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ پورے مضمون میں مضمون نگار نے کسی ایک مقام پر بھی اپنی نیت چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ جگہ جگہ کہا گیا ہے کہ بھارت میں داعش کا نیٹ ورک پنپ رہا ہے جس کے تحت بھارت کے مسلم نوجوان تیزی سے انتہا پسندی کی طرف لپک رہے ہیں۔ پورے مضمون میں کسی ایک مقام پر بھی خفیف سا اشارہ بھی موجود نہیں کہ کسی اور ملک میں واقع ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کی انتہا پسند ہندو سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت یا بھارت کی ریاستی مشینری (اسٹیبلشمنٹ) ملوث ہے۔ ہماری اردو خبر ایجنسیوں سے وابستہ مترجمین اور سب ایڈیٹرز نے غُچّہ کھایا اور پوری قوم کو وہ خبر پڑھوائی جو رافیلو پینٹوشی کے مضمون میں کہیں تھی ہی نہیں! حقیقت یہ ہے کہ رافیلو پینٹوشی کا مضمون امریکا و یورپ کی رائے عامہ کو مسلمانوں سے مزید برگشتہ کرنے اور اِس سانڈ کو لال کپڑا دکھانے کے لیے تھا۔ اس لال کپڑے کو ہم نے خواہ مخواہ ہرا جھنڈا سمجھ لیا!
خبر میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی دہشت گردوں نے کشمیر میں مرنے والے ساتھیوں کا اپنے جریدے میں ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہادی نظریات کے فروغ کے نام پر قائم داعش نے اپنے جریدے ’’النباء‘‘ میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے تین ایسے نام نہاد جہادیوں کا ذکر کیا ہے، جو اس کی طرف سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہارے تھے۔ مضمون میں تین کشمیریوں کا ذکر دانستہ کیا گیا ہے تاکہ دنیا کو تاثر ملے کہ داعش کی صفوں میں کشمیری نوجوان بھی موجود ہیں اور یہ کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی ریاستی مشینری نے سوا سال کے دوران جو انسانیت سوز کریک ڈاؤن کیا ہے وہ بالکل درست ہے بلکہ وقت کا تقاضا ہے!
ہمارے اخبارات میں شائع ہونے والی خبر میں یہ ’’عظیم نکتہ‘‘ بھی شامل تھا کہ نائن الیون کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد سے بھارت کے ایک ہندو نے رابطہ کیا تھا۔ اس مرحلے پر خبر کے قارئین کو یہ تاثر ملا کہ نائن الیون میں ہندو بھی ملوث رہے ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ مضمون کا یہ حصہ بھی صرف مسلمانوں کی تذلیل کے لیے تھا۔ اردو خبر ایجنسیوں کے مترجمین نے مضمون کے اس حصے کا ترجمہ کرنے میں ایک بنیادی غلطی یہ کی کہ خالد شیخ محمد سے رابطہ کرنے والے (ممکنہ طور پر گجراتی بولنے والے) دِھرین باروٹ کے بارے میں یہ بتانا بھول گئے کہ وہ نومسلم تھا۔ اصل مضمون میں دِھرین باروٹ کو برطانیہ کے ہندو گھرانے میں پیدا ہونے اور وہیں پرورش پانے والا نومسلم ہی بتایا گیا ہے۔
خبر میں اس بات پر بھی بغلیں بجائی گئی ہیں کہ اقوامِ متحدہ نے بھی کہا ہے کہ جنوبی بھارت کی ریاستوں کیرالا اور کرناٹک میں انتہا پسند گروپ موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے (بظاہر امریکا اور بھارت کے زیرِ اثر) یہ کہا تھا کہ کیرالا اور کرناٹک میں داعش یعنی نام نہاد جہادیوں کے نیٹ ورک موجود ہیں جو نوجوانوں کو تیزی سے جہادی کلچر اپنانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
ہمارے اخبارات میں جو کچھ شائع ہوا اُس سے قطعِ نظر حقیقت یہ ہے کہ رافیلو پینٹوشی نے اپنے مضمون میں کولمبو، کابل، انقرہ، استنبول، نیویارک اور اسٹاک ہوم میں دہشت گردی کے واقعات میں داعش سے جُڑے ہوئے بھارتی اور وسط ایشیائی باشندوں کا ملوث ہونا ثابت کرنے کی کوشش کے ذریعے دراصل امریکا اور اس کے اتحادیوں کو بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ایکشن لینے کی راہ دکھائی ہے! مضمون نگار نے بھارتی جہادی نیٹ ورکس کے پاکستانیوں سے رابطوں کا ڈول ڈال کر پاکستان پر بھی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے تاکہ دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہو کہ نام نہاد جہادیوں کے نیٹ ورک سے پاکستان بھی فعال طور پر جُڑا ہوا ہے۔
رافیلو پینٹوشی کا مضمون کس حد تک ایجنڈے کا حصہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کسی جواز کے بغیر مضمون میں معروف مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بھی ایک متنازع شخصیت کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ پینٹوشی نے اپنے ’’فرمائشی پروگرام‘‘ میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو یہ کہتے ہوئے مطعون کرنے کی کوشش کی ہے کہ تقریروں اور سوالوں کے جوابات سے ابھر کر سامنے آنے والے اُن کے خیالات سے دنیا بھر بالعموم اور بھارت میں بالخصوص مسلم نوجوان جہادی ذہنیت میں کشش محسوس کر رہے ہیں۔ یہ صریحاً بھارتی لائن ہے۔ گویا ڈاکٹر ذاکر نائیک کا انتہائی منفی انداز سے ذکر کرکے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو بھی خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک زمانے سے تبلیغ کر رہے ہیں۔ انہوں نے بھارت میں بھی بڑے تبلیغی اجتماعات سے خطاب کیا ہے۔ انہوں نے بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ہندو اِزم سے تعلق رکھنے والی معروف علمی و روحانی شخصیات بھی اُن کے پروگرامات کا حصہ رہی ہیں۔ یو ٹیوب پر موجود کلپس کے ذریعے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اجتماعات سے شنکراچاریہ کا خطاب بھی سُنا جاسکتا ہے۔
ہمارے اخبارات میں اس misquoted مضمون کی بنیاد پر بنائی گئی خبر کی اشاعت کے بعد حکومتی سطح سے بھی آواز اٹھائی گئی اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ چلیے، بھارت بھی کسی حد تک تو ’’بے نقاب‘‘ ہوا! وزیر اعظم نے بھی کچھ ایسی ہی بات کہی۔ یہ گویا حد ہوگئی۔ حکومتی مشینری کے کسی پُرزے نے وزیر اعظم کے سامنے فارن پالیسی کے اصل مضمون کا تین چار صفحات کا پرنٹ آؤٹ رکھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔ انہیں بتایا ہی نہیں گیا کہ پورا کا پورا مضمون مسلمانوں کے خلاف ہے اور ترجمے یعنی ادراک کی غلطی سے بات کسی اور ہی رنگ میں ابھر کر سامنے آئی ہے!
میڈیا کے محاذ پر مغرب کے ہتھکنڈوں کو سمجھنے کے لیے زبان و بیان کا ادراک لازم ہے۔ امریکا اور یورپ کے بیشتر اخبارات و جرائد بالعموم باریک کام کرتے ہیں۔ وہ بات کو اس طور لپیٹ کر پیش کرتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے خلاف ہے وہ بھی دشمنوں کے خلاف جاتا دکھائی دیتا ہے۔ ادراک کی غلطی ایسے ہی گُل کھلاتی ہے۔ پورے مضمون میں صرف ایک مقام پر یہ کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کی قوم پرستانہ پالیسیوں سے بھارت کے مسلم نوجوانوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ جہادی کلچر کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ یہاں بھی نریندر مودی اور اُن کی ٹیم کی سوچ کو انتہا پسند یا انسانیت سوز کہنے کے بجائے محض قوم پرستانہ کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ کیا یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں بھارت کے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو کھل کر ہوا دی گئی ہے؟ نریندر مودی کے اب تک کے دور میں (گائے کا ذبیحہ روکنے کے نام پر اور جہادی کلچر کی راہ مسدود کرنے کی آڑ میں) بھارتی مسلمانوں سے جو انسانیت سوز سلوک روا رکھا گیا ہے اُس کے بارے میں رافیلو پینٹوشی کے پورے مضمون میں کہیں ایک لفظ بھی موجود نہیں۔ اور ہو بھی کیسے سکتا تھا، جبکہ پورا مضمون ہی بھارت کو خوش کرنے اور مغرب کو بھارت کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کے لیے ہے!
فارن پالیسی کے مضمون کو خبر کی شکل میں پیش کیے جانے سے یہ بات تو بالکل واضح ہوگئی کہ ہمارے میڈیا آؤٹ لیٹس میں خبر نگاری کا شعبہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، جو عمومی سطح پر کسی بھی مضمون یا خبر میں موجود زہر کو شناخت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ خبر نویسی یا خبر نگاری کے نام پر مکھی پر مکھی بٹھانے کے سے انداز سے کام کیا جارہا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مالکان کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ معیاری خبر نویسی انتہائی بنیادی ضرورت ہے اور اس کے لیے اعلیٰ معیار کی تربیت سے آراستہ مستعد افرادی قوت بھی ناگزیر ہے۔
پہلے اصل مضمون کا اردو ترجمہ کیا جاتا ۔ ۔ ۔ اس کے بعد تبصرہ کیا جاتا تو زیادہ مفید ہوتا۔ ۔ ۔ کیر پھر بھی اچھا کام ہے۔ ۔ ۔