اس مضمون میں یہ واضح کیا جائے گا کہ انسان کی آزادی تو حید کا لازمہ ہے اور آخرت میں انفرادی جواب دہی بھی یہی چاہتی ہے ۔ پھر اسلامی تصور آزادی کے اہم عناصر کی نشان دہی کرتے ہوئے بتایا جائے گا کہ ان کی حفاظت کس طرح کی جائے ۔ ساتھ ہی یہ بھی نوٹ کیا جائے گا کہ آزادی کے پہلو بہ پہلو توحید کا دوسرا لازمہ مساواتِ بنی آدم ہے ۔ آزادی کے ساتھ مساوات جبھی بنی رہ سکتی ہے جب آزادی سے وابستہ ذمہ داریاں پوری کی جائیں اور آزادی کو ایسے حدود کا پابند رکھا جائے جو سب کو یکساں آزادی میسر آنے کی ضامن ہو۔ انسانی آزادی انسانی فلاح و بہبود کی خادم تبھی ہو گی جب وہ بنیادی اخلاقی قدروں کی پابند ہو اور یہ پابندی رضا کارانہ ہو نہ کہ مجبوراً اس کے بعد آزادی فکر کی اہمیت جتانے کے ساتھ یہ بتایا جائے گا کہ آزادی فکر ہو گی تو اختلاف رائے بھی ہوگا اور اسے گوارا کرتے ہوئے اختلافی امور میں فیصلہ کے اسلامی طریقہ پر کار بند ہونا ہو گا پھر میں آزادی کی اقتصادی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس حقیقت کی نشان دہی کروںگا کہ معاشی ترقی کے لیے آزادی شرط ہے غلامی پر انحصار کرنے والے معاشرے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ۔ آزادی ہی وہ ماحول فراہم کرتی ہے جس میں انسان کی ساری صلاحیتیں اپنے جو ہر دکھا سکیں۔ اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے عروج کا زمانہ آزادی کا زمانہ تھا اور ہمارے زوال کا طویل سفر آزادی کے اضمحلال اور بالاخر تقریباًفقدان کی داستان ہے ۔ شریعت اسلامی میں آزادی کے اس بے مثال تصور کے ہوتے ہوئے ہم کیوں کر اس سے تقریباً محرومی تک پہنچے یہ سوچنے کی بات ہے۔ معاصر اسلامی دنیا پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے یہ بتایا جائے گا کہ جہاں آزادی جتنی کم ہے وہاں پسماندگی اتنی زیادہ ہے۔ ہم یہ رائے ظاہر کریں گے کہ اس بات کا خوف کہ غلطی نہ ہو جائے ا ور اغیار کی یورشوں سے دفاع کے تقاضے جن کے حوالے سے مسلمانوں کو خدا داد آزادیوں سے محروم کیا گیا تھا یہ دونوں منحوس سائے اب چھٹنے لگے ہیں۔ دنیائے اسلام میں ایک بار پھر خدا کی رحمت کی امید غلطی کی صورت میں اس کی سزا کے خوف پر غالب آیا چاہتی ہے جس سے پیدا ہونے والی خود اعتمادی ایک روشن تر مستقبل کی طرف لے جا سکتی ہے ۔
توحید کے تحت آزادی
توحید نام ہے اللہ کی مکمل بندگی اور غیر اللہ سے مکمل آزادی کا یہ آزادی انسان کو دوسرے انسانوں، انسانی اداروں، ان کے رسم و رواج، عادات، قوانین، افکار و خیالات مزعومات اور مسلمات سب سے بے نیازی سکھاتی ہے ۔ فرد انسانی ان میں سے کسی کا غلام نہیں، کسی کا پابند نہیں۔ غور کیا جائے تو واضح ہے کہ یہ دنیوی زندگی کی آزمائشی نوعیت کا لازمی تقاضا ہے ۔ ذیل میں درج آیات کے مطابق حیات دنیوی امتحان ہے اور آخرت کی دائمی زندگی میں جواب دہی اور حساب کتاب ہر فرد کا الگ الگ ہونا ہے۔ لہذا ہر فرد انسانی کو اپنے پروردگار کی بندگی کے سوا جو کہ اصل امتحان ہے ساری دوسری بندگیوں سے آزاد ہونا ہی چاہیے۔
’’نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تا کہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی‘‘۔ (الملک:۱،۲)
’’وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیے تا کہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے ۔بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔ (الانفال: ۵۶۱)
’’ سب قیامت کے روز فرد افراد اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔‘‘ (مریم: ۵۹)
’’دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے صحیح بات غلط خیالات سے الگ کر کے رکھ دی گئی ہے ۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط راستہ تھا م لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے ) سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ (البقرہ: ۶۵۲)
کہا جا سکتا ہے اللہ کی کتاب میں کوئی آیت صراحت کے ساتھ انسانی آزادی کا اعلان نہیں کرتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی آزادی دوسرے انسانوں کی نسبت سے آزادی ہے نہ کہ مطلق آزادی جو خود اپنے وجود کے لیے محتاج ہو وہ آزادی مطلق کا دعویدار کیسے ہو سکتاہے ؟ توحید یہ ہے کہ انسان خد کو اس کی بندگی میں دے دے جس نے زندگی دی اور سامان زندگی بھی مہیا کر دیے ۔آزادی مطلق کا دعویٰ کفر ہے اور غیر اللہ کے حق میں اپنی خداداد آزادی سے دست برداری شرک ہے۔ اسلامی تصور آزادی توحید کے اثبات اور شرک کی نفی پر مبنی ہے ۔ جہاں تک ہر فرد انسانی کا دوسرے افراد انسان کی نسبت سے آزاد ہونے کا تعلق ہے تو اوپر نقل کی گئی آیات اس کا اثبات کرتی ہیں ۔ (کسی مجبور پر تکلیف شرعی کا با رکیوں کر ڈالا جا سکتا ہے ؟ غور کیا جائے تو اصل آزادی دوسرے انسانوں سے آزادی ہے ۔ تاریخ انسانی میں آزادی کی جتنی لڑائیاں لڑی گئیں وہ اسی آزادی کے لیے تھیں انسان کی فطرت جس غلامی سے آباء کرتی ہے وہ انسانون کی غلامی ہے خدا کی بندگی تو وہ برضا و رغبت خود اختیار کرتا ہے ۔ زندگی کی امتحانی نوعیت کے پیش نظر خدا کسی بھی انسان پر اپنی بندگی زبردستی نہیں تھو پتا جیسا کہ اوپر نقل کی گئی آیت کریمہ میں صراحت ہے ۔
دوسرے انسانوں کی نسبت سے آزادی کے بارے میں اسلامی موقف کی ترجمانی سید ناعمرؓ کے بھتیجا حضرت ربیع بن عامر نے ایرانی سردار رستم کے دربار میں ان الفاظ میںکی تھی اللہ نے ہمیں اس لیے بھیجا ہے کہ جو لوگ چاہیں ان کو غلامون کی غلامی سے نکال کر خدا کی اطاعت میں لے آئیں، دنیا کی زندگی کی تنگیوں سے نکال کر زندگی کی وسعتوں سے روشناس کرائیں اور مذاہب کے ظلم و جور سے نکال کر عدل اسلامی کے زیر سایہ لے آئیں ۔
(ابن کثیر : البدایہ والنھاریہ ، جلد: ۲، صفحہ:۴۰،۹۸۸، قاہرہ دار الریان للتراث)
’’تم نے انسانوں کو کب غلام بنا لیا جب کہ ان کی مائوں نے تو انہیں آزاد جنا تھا ۔‘‘
اسلا م کے اس موقف کا اعلان ہے کہ انسان کی اصل فطری حالت آزادی کی حالت ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام چاہتا ہے کہ ہر فرد انسانی قرآن کو براہ راست پڑھے اور ساتھ ہی اپنے ارد گرد کی دنیا کو بھی خود سمجھنے کی کوشش کرے پھر اس دنیا میں ہدایات الہیٰ کے مطابق زندگی گزارے ۔ ایسا کرنے میں نبی اکرمؐ کا اسوہ اس کی رہنمائی کرے گا۔ اس کام میں دوسرے انسانوںکی مدد تو لینی چاہیے مگر قرآن و سنت کے مطالعہ ، آیاتِ کائنات پر غور اور اردگرد کی دنیا نیز مسائل حیات کو خود سمجھنے کی کوشش سے ایک مومن دستبردار نہیں ہو سکتا۔ توحید کے تحت انسان کو جو آزدی ملتی ہے ۔ وہ اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے۔ جب یہ شرط پوری کی جائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی لوگ اس ذمہ داری سے غافل ہوئے، وہ یہ خدا داد آزادی کھو بیٹھے۔ خواہ وہ یہ سمجھ کر ہی آبائو واجداد کے نقش قدم پر چلے ہوں کہ ان کے طریقے درست تھے مگر، اپنی مذکورہ بالا ذمہ داری سے غفلت کی وجہ سے وہ بہت دور نکل جاتے اتنے دور کہ صراحتاً خلاف فطرت اور خلافِ عقل باتوں کو بھی چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ایسے میں ان کا مذہبی طبقہ بھی منفی کردار ادا کرتا ہے ۔ بلکہ اکثر مذہب کے نام پر عوام کا استحصال شروع کر دیتاہے ۔ پچھلی قوموں کی یہ کہانی قرآن کریم میں بار بار دہرائی گئی ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۃ بقر ، ۱۶۵۔۱۷۱: اعراف:۶۸؛ زخرف : ۲۱، توبہ ۳۱۔۲۴) خود انبیاء کرام انسانوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانے آئے تھے نہ کہ اپنی بندگی کی طرف (سورۃ: آلِ عمران: ۷۹)
خدا کے بھیجے ہوئے آخری رسول کے بعد اب کسی انسان کو خدا داد اتھارٹی کی بنیاد پر انسانوں پر حکم چلانے کا اختیار نہیں ،یہ اختیار انہی افراد کو حاصل ہو گا جنہیں لوگ باہم مشورے سے حکمراں بنائیں۔ پچھلی قوموں کی گمراہی کا سبب اکثر یہ رہا کہ لوگ اس نکتہ سے غافل ہو گئے اور انہی میں سے کچھ افراد مذہب کے نام پر ان پر حکم چلانے لگے ۔
آزادی اور اخلاق
دنیا اور آخرت دونوں میں فلاح کے لیے ضروری ہے کہ افراد انسانی با اخلاق ہوں۔ صداقت ، دیانت، رحم وکرم اور شفقت، سماحت، Generousity ایثار،عفوودرگزر ہمدردی ،حیا اور عفت و غیرہ معروف اخلاقی قدروں کا پاس و لحاظ ہو تو معاشرہ خوش حال ہی نہیں امن و سکون کی دولت سے بھی مالا مال ہو گا، ان قدروں کا فقدان ہو تو مادی وسائل کی فراوانی بھی امن وسکون کی ضامن نہ ہو سکے گی ۔ سماج کی بنیادی اکائی خاندان کا ادارہ قانون کے سہارے نہیں اخلاقی بندھنوں کے سہارے پنپتا ہے ۔
مذکورہ بالا فضائلِ اخلاق کی ضد وہ رذائل ہیں جو خاندانی رشتوں، انسانی تعلقات اور سماجی اداروں کی جڑیں کھو د سکتے ہیں جھوٹ، بددیانتی، شقاوت و ستم رانی، حرص اور خود غرضی اور بزرگی یا خوردی کسی کا لحاظ نہ کرنے والی انانیت، اباحیت اور فحش رانی، ان رحجانات پر کسی صالح اور کامیاب معاشرہ کی تعمیر ممکن نہیں ۔ قرآنِ کریم میں خاص طور پر ان سورتوں میں جو مکہ میں نازل ہوئیں، اخلاقی قدروں پر زور دیا گیا ہے ۔ اور نبی کرمؐ نے فرمایا: بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ان اخلاق میں سب سے زیادہ زور ان پر ہے جن کا تعلق خاندان سے ہے ۔
’’تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں ہونہہ تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔ اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو۔ اور دعا کیا کرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت وشفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘ (اسراء:۲۳:۲۴)
احادیث میں اسی سے ملتی جلتی تعلیمات پڑوسی، سفر کے ساتھی اور عام انسانوں کے سلسلہ میں بھی آئی ہیں۔ اس سیاق میں ان کے ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ آزادی کا استعمال بے مہابہ اور موقع محل کے لحاظ کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ ضبط نفس اور ادب شناسی کے بغیر استعمال آزادی کو وبالِ جان بنا سکتا ہے ۔ وقتی میلنات اور خواہشات کے پیچھے بھاگنے والے آزاد نہیں کہے جا سکتے ۔ اسلام کی نظر میں ہوائے نفس کی غلامی دوسرے انسانوں کی غلامی سے کم نقصان دہ نہیں ۔
’’بھلا کہیں ایسا ہو سکتاہے کہ جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف و صریح ہدایت پر ہو، وہ ان لوگوں کی طرح ہو جائے جن کے لیے ان کا برا عمل خوش نما بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیرو بن گئے ہیں۔ ‘‘ (محمد: ۱۴)
خواہشات نفس کی پیروی اور عارضی مفادات کے پیچھے دوڑنا انسان کے طویل المیعاد مصالح کے خلاف ہے ۔ حقیقی آزادی انہی لوگوں کے نصیب میں ہے جو آزادی سے وابستہ ذمہ دار یوں کا شعور رکھتے ہوں اور خدا داد آزادی کو اس طرح استعمال کریں کہ ان کا بھی بھلا ہو اور دوسروں کا بھی ۔
آزادی کے عناصر
آزادیٔ ضمیر، آزادی، فکر، اظہار خیال اور تبادلۂ افکار کی آزادی، ہم خیالوں کے ساتھ مل کر انجمن سازی کی آزادی، اس آزادی کے لازمی عناصر ہیں جس کی اساس پر اسلام کا شورائی معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔ اسلام میں کوئی چرچ نہیں، نہ اللہ کے آخری رسول کے بعد کوئی معصوم عن الخطا ہے جس کے فہم کتاب و سنت کا ہر ایک پابند ہو۔ فردِ مومن کسی دوسرے انسان کے فہم قرآن و سنت کا پابند نہیں۔ ہدایاتِ الہیٰ کو سمجھنے اور ان کی اپنے مسائلِ زندگی پر تطبیق میں وہ کسی کی مدد لے سکتا ہے لیکن اس کی اندھی تقلید نہیں کر سکتا۔
جب لوگ آزادانہ سوچیںگے تو مختلف آراء تک پہنچ سکتے ہیں۔ ان اختلافات کا تعلق کتاب و سنت کے فہم سے بھی ہو گا اور مسائل زمانہ کے تجزیئے سے بھی۔ اسلامی معاشرہ میں ایسے اختلاف کو دہانے کی کوشش نہیں کی جا سکتی۔ اگر مسائل کی نوعیت علمی ہے، ان پر کسی اجتماعی فیصلہ یا پالیسی یا ضابطہ بندی کا انحصار نہیں، تو اختلاف بڑھتا گھٹا بالاخر یا تو کسی ایک رائے پر مرکوز ہوجائے گا یا چند حد میں بٹا رہے گا۔ اگر مسئلہ علمی ہے مگر ایسا کہ مختلف افراد یا گروہوں کے مختلف طریقے اختیار کرنے سے اجتماعی مصالح مجروح نہیں ہوتے تو آزادئیے فکرو عمل کے دھارے کو اپنے راستے خود نکالنے کا پوار موقع دینا چاہیے ۔ اگر مسئلہ کی نوعیت ایک اجتماعی فیصلہ کی طالب ہو تو اسلام نے ہمیں یہ سیکھایا ہے کہ شوریٰ کے ذریعہ فیصلہ کیا جائے۔ بہر صورت یہ ضروری ہے کہ معاشرہ میں اختلاف رائے گوارا کرنے کا چلن ہوا،اسے ایک قدرتی مظہر سمجھا جائے اور ایک رائے کا حامل دوسری رائے کے حاملین کے ساتھ حسنِ ظن سے کام لے۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی زرّیں ادوار میں حسنِ ظن اور رواداری کی ایسی ہی فضا قائم رہی، جس سے ہم آج تک فیض یاب ہو رہے ہیں۔
یہ خدا داد آزادی اسی فرد کے لیے بامعنی ہو گی جس کو فقر و فاقہ سے نجات حاصل ہو، جس کے پاس سر چھپانے کی جگہ ہو۔ اسلام کے تصور آزادی کی عملی تعبیر کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کی ضمانت دی جائے، البتہ اس کے لیے ایسے طریقے نہیں اختیار کیے جانے چاہیں جو ان آزادیوں سے محرومی پر منتج ہوں ۔ اس کے علاوہ ایک فعال حرکی شورائی نظام کے لیے خواندگی کا عام ہونا اور تعلیم کا معیار اچھا ہونا بھی ضروری ہے ۔ انسانی فیصلوں کا مدار صرف حسن نیت پر نہیں ہوتا۔متعلقہ امور کے بارے میں صحیح معلومات میسر ہونا بھی ضروری ہے۔ عوام میں خواندگی جتنی عام ہو گی اور تعلیم کا معیار جتنا اونچا ہو گا۔ اسی قدر فیصلوں کا صحیح ہونا متوقع ہوگا۔
آزادی کا بے جا استعمال
آزادی کی اخلاقی حدود کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ۔ یہ وہ حدود ہیں جنہیں خارج سے نافذ کرنا نہ تو اکثراحوال میں ممکن ہے نہ مفید ۔ خداداد آزادیوں کے بے جا استعمال کے سلسلہ میں صحیح موقف جسے اسلام نے اختیار کیا ہے ۔ یہ ہے کہ اگر اس سے کسی دوسرے فرد یا معاشرہ کو نقصان پہنچ رہا ہو تو اس پر روک لگائی جائے ، آزادی کا ایسا استعمال نہ ہونے دیا جائے اور حسب ضرورت ایسا کر گزرنے والوں کو سزا دی جائے ۔ آزادی کا مضر ت رساں استعمال جرم ہے ۔ چنانچہ اسلامی قانون میں حدود کا تعلق ایسے ہی جرائم سے ہے ۔ آزادی کا ایسا استعمال جس کا نقصان اسی فرد تک محدود ہو جو ایسا کر رہا ہے ۔ اس سے روکنے کے لیے فہمائش اور سر زنش پر اکتفا ء کیا گیا ہے ۔ الا یہ کہ اس فرد کی جان کو خطرہ ہو ۔ واقعہ یہ ہے کہ سماجی بہبود کی خاطر انفرادی آزادی کی حد بندی ایک بہت نازک مسئلہ ہے ۔ اس بارے میں نقطہ اعتدال ہر معاشرہ کو خود تلاش کرنا ہوگا۔ایسے ضابطے نا قابلِ تصور ہیں جو ہر مقام اور ہر زمانہ پر یکساں لاگو کیے جا سکیں ۔ زندگی کی آزمائشی نوعیت کا لحاظ فیصلہ کے شورائی طریقہ کا التزام اور طویل المیعاد مصالح کو وقتی مفادات سے زیادہ اہمیت دینا، اس باب میں رہنما اصول ہونے چاہئیں۔
آزادی اور اقتصاد
آج دنیا میں ترقی کا مدار قدرتی وسائل کی کثرت پر نہیں بلکہ انسانوں کی فکری اپج، فنی ایجادوں ہنر مندی اور آزادی کاروبار پر ہے۔ اسلام نے اول دن سے واضح حقوق ملکیت دیے ہیں۔ وعدہ وفا کرنے اور کیے گئے معاہدوں کی تکمیل کا واجب ہونا طے کیا ہے۔ نیز معروف اخلاقی پابندیوں اور شورائی پر مقرر کیے جانے والے حدود کے اندر آزادیٔ کاروبار کی ضمانت دی ہے۔ ترقی کی ان بڑی بڑی شرطوں کی تکمیل کے باوجود اگر موجودہ مسلم ممالک ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے بہت پیچھے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں عام لوگوں کو وہ ماحول نہیں میسر ہے جس میں انسانی صلاحیتیں کھل کر اپنے جوہر دکھا سکیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ’’ زیادہ تر مستبدانہ معاشروں میں اقتصادی کاکردگی معمولی بلکہ بسا اوقات بہت بری رہی ہے یہ بات ماضی کی تاریخ پر بھی منطبق ہوتی ہے اور حالیہ ادوار پر بھی‘‘ (منکور اولسان: پاور اینڈ پراسپیرٹی: آوٹگر وئنگ کمیونسٹ اینڈ کیپیٹلسٹ ڈکٹیٹرشپس۔ نیو یارک بیسک بکس، ۲۰۰۰ صفحہ ۹۹) نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین نے بجا کہا ہے کہ’’ انسانی آزادی کا فروغ ترقی کا اصل مقصد بھی ہے اور اس کا اولین ذریعہ بھی (امر تیہ سین۔ ڈیولپمنٹ ایز فریڈم۔ نیویارک بیسک بکس۔ ۲۰۰۰ صفحہ ۵۳) نیز یہ کہ آزادی ایک طریقِ کار (Process) کے طور پر بھی میسر ہونی چاہیے اور مواقع ِعمل یا امکانات (Oppertunity) کے طور پر بھی طریق کار والے پہلو کا تعلق اس سے ہے کہ فرد کو بطور خود فیصلہ کا اختیار ہو اور امکانات والے پہلو کا تعلق اس سے ہے کہ جو کام ہم کر سکتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں اس کے کرنے کے مواقع واقعی کھلیہون (امرتیہ سین، ریشنا لیٹی اینڈ فریڈم،ہارورڈ۔ یونیورسٹی پریس۔ ۲۰۰۳ ء صفحہ: ۵۰۶)
مواقع میسر ہونے اور آزادی کار کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ترقیاتی عمل کے محرکات پائے جاتے ہوں۔ جیسا کہ ایک نامور معاصر دانشور نے لکھاہے روسی نظام کی ناکامی کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ لوگوں کے لیے کام کرنے کا کوئی ذاتی محرک عمل نہ باقی رہا۔ (فرانس فوکویاما۔ دی اینڈ آف ہسٹری اینڈ دی لاسٹ مین ۔۔۔ نیو یارک، فری پریس۔ ۱۹۹۴، صفحہ: ۹۴۔۹۶) یہی وجہ ہے کہ جب تک پیداواری عمل کا انحصار غلاموں کی محنت پر رہا انسانی معاشروں کی اقتصادی کارکردگی کم رہی کیوں کہ غلامی حسن عمل کے محرک کو کمزور کر دیتی ہے ۔ گائل نیس: دی سوشیا لو جی آف ایکونامک ڈیویلپمنٹ۔ اے پرائمر۔ نیو یارک اور لندن۔ ہار پر اینڈ راو۔ ۱۹۷۰، صفحہ: ۱۹۵)۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام آیا تو غلامی رائج تھی۔ اسلام نے ایک طرف تو متعدد ایسے ضابطے بنائے کہ غلامی رفتہ رفتہ ختم ہو جائے اور دوسری طرف لوگوں کو تاکید کی کہ اپنے غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کریں ۔ اسلامی تعلیمات پر اگر ٹھیک سے عمل کیا گیا ہوتا تو مسلمان معاشروں سے غلامی کا خاتمہ اس سے بہت پہلے ہو گیا ہوتا جب کہ وہ واقعتاً ہوا۔
اسلامی تاریخ میں اقتصادی کاکردگی کی ابتداء بہت اعلیٰ درجہ کی رہی کیونکہ قوانین چند تھے ۔ اور واضح تھے ربا اور قمار کی حرمت غرر کثیر اور جہل مفصی الیٰ النزاع سے دور رہنے کی تاکید اور احتکار ،بخش ،غبن، تدلیس جیسی کھلی بد دیانتی کے طریقوں کی ممانعت نیز فریقین معاملہ کی آزادانہ رضا مندی کا ضروری ہونا۔۔۔ یہی چند امہات الا صول تھے۔ ان قوانین کی پابندی کی جارہی ہو تو حکمران کو آزاد کاروباری سرگرمیوں میں مداخلت سے شریعت مانع تھی۔ اس اسلامی اسپرٹ کا ایک مظاہرہ حضرت عمر کا وہ رجوع ہے جو آپ نے کھجور کے تاجر حاطب ابن بلتعہ کو بازار نرخ سے کم پر کھجور بیچنے سے منع کرنے کے بعد کیا تھا (ملاحظہ ہو: الموسوعۃ الفقھیۃ۔ جلد ۱۱: صفحہ: ۳۰۳۔ شائع کردہ: وزارتِ اوقاف کویت پہلا ایڈیشن ۔ یہ درست ہے کہ حسبہ کا محکمہ پھرتی سے تجارتی معاملات سے متعلق اسلامی قوانین کا نفاذ کرتا تھا۔ لیکن جب بھی حکمران نئی پابندیاں عائد کرنا چاہتے یا چنگی وغیرہ کے نام پر ٹیکس وصول کرنا چاہتے تو علماء ان کی مخالفت کرتے تھے ۔ واضح حقوق ملکیت، عام فہم گنے چنے قوانین رشوتوں اور کرپشن سے پاک انتظامیہ اور عام طور پر نسبتاً اچھے اخلاقی معیار کے ساتھ آزادی کاروبار نے ایک ایسا ماحول بنا دیا کہ نہ صرف مقامی لوگ جی جان سے پیداواری عمل میں سر گرم ہوئے بلکہ دور دراز سے اہل ہنر نے بغداد دمشق اور دوسرے اسلامی مراکز صنعت و تجارت کی راہ لی کیونکہ دارالاسلام میں نقل و حرکت اور مواصلات پر کوئی پابندی نہ تھی۔ نیز امن عامہ کی حفاظت اچھی سڑکوں اور راستہ میں سرائے خانوں کی تعمیر اور ڈاک کا انتظام سر کاری اہتمام میں ہر خاص و عام کی خدمت کے لیے مہیا تھا۔
فکری آزادی کی اہمیت
اسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں آزادی صرف معاشی میدان تک محدود نہیں تھی۔ سب سے بڑی آزادی فکری آزادی تھی۔ کسی سے زبان کھولنے سے پہلے یہ نہیں پوچھا جاتا تھا کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ معاملہ دین کا ہو یا دنیا کا، اسلامی معاشرہ کو اپنے اوپر یہ بھروسہ تھا کوئی غلط بول بولا گیا تو اس پر گرفت کرنے والے سامنے آئیں گے کوئی کم نتیجہ اقدام کیا گیا تو نا کامیاں اصلاح حال پر مجبور کریں گی۔ چنانچہ یہی ہوا، اس زمانہ کی تاریخ پڑھیے تو کتنے ہی مکاتب فکر مذاہب فقیہ اور ادبی حلقوں کا ذکر آتا ہے جو زیادہ عرصہ نہ چل سکے لیکن ان کے ظہور و عروج نے ایک ایسی فضا بنانے میں مدد دی جس کے طفیل ہمیں علم و اداب اور فقہ و کلام کے وہ اسکول ملے جو آج بھی زندہ تابندہ ہیں۔ ان مکاتب و مذاہب کا ظہور بعینہ اسی طور پر ہو اتھا جس طرح تاریخ کے اوراق کی زینت بن کر رہ جانے والے مکاتب و مذاہب کا، مگر یہ قبول عام پاگئے جب کہ دوسرے عدم التفات عوام کے سبب ختم ہوگئے ۔ باقی رہ جانے والوں کی بقا کسی حکمراں کے فرمان کی مرہونِ منت نہیں نہ مٹ جانے والوں کے مٹنے میں کسی اتھارٹی کو دخل تھا۔ معاملہ تمام تر بقائے اصلح کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کی بندگی کا عہد کرنے والے انسانوں کو اس کی ضرورت نہیں کہ حکمران یا کوئی اور ان کو انگلی پکڑ کر بندگی کے راستوں پر چلا ئیں وہ اپنے راستے خود پہنچا ن سکتے ہیں۔ معاشرہ کا بھلا اس میں ہے کہ بندی رب کا عہد کر چکے افراد کے آزاد فکر و عمل کے نتائج بے روک ٹوک سامنے آنے دے عاجلانہ ضابطہ بندیوں کے بجائے صبر سے اصلاح ذات اور مسابقت اور تعاون کی قوتوں کی کار فرمائی کا مطالعہ کرے ۔ مداخلت آخری چارہ کار ہو وہ بھی جب کسی ضرر شریافساد کے ازالہ کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہو جائے۔
زوال کی صدیوں میں مسلمان کی خود اعتمادی سے محروم ہونے لگے۔ پھر جب انہیں یہ نظر آیا کہ دوسری قوموں کے عقائد و افکار اور ان کی ثقافت مسلمانوں کو متاثر کر رہی ہے۔ تو انہوں نے اپنے ارد گرد حفاظتی بند باندھنے شروع کر دیے۔ اجتہاد کا دروازہ بند ہوا تقلید ضروری قرار پائی اور اباحت اصلی کی جگہ سد باب ذریعہ کو زیادہ قابل بھروسہ سمجھا گیا ۔ عام مسلمانوں کے لیے محفوظ راستہ یہ طے پایا کہ وہ ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں مفتیان کرام کی انگلیاں پکڑ کر بندگی رب کے راستے پر چلیں۔ پھر جب مسلمان مغربی اقوام کے زیر حکمرانی ہوئے اور ان پر عیسائی مشنریوں کی یلغار شروع ہوئی اور ساتھ ہی مقامی اسلام دشمن طاقتوں نے بھی انہیں تر نوالہ سمجھ کر حملے شروع کیے تو بچائو اور تحفظ کی اسٹراٹیجی کے سامنے سارے مصالح ہیچ نظر آئے، طویل المعیاد اصولِ ترقی پسِ پشت چلے گئے، فوری طاقت دفاع تقاضائے دین قرار پایا۔
انسانی زندگی ایک اکائی ہے، ایک دائرہ میں احتیاط کا غلبہ اور جھجک اور دوسرے دائرہ میں ذہنی اپج تخلیقی میلان ایجاد و اختراع۔۔۔ ایساممکن نہیں۔ چنانچہ فکری آزادی سے محرومی کے بعد مسلمان صنعت وتجارت میں بھی پیچھے رہنے لگے۔ اسلام کا پھیلائو رک گیا، دارالاسلام کے مختلف گوشے استعمار کی بھینٹ چڑھتے گئے یہاں تک کہ بیسویں صدی کے ربیع الثانی میں جزیرۃ العرب کے سوا دنیا کے تمام سابقہ مسلم علاقے دوسروں کی غلامی میں چلے گئے ۔ آج تقریباً ۱۰۰ سال بعد صورت حال یکسر مختلف ہے، مگر مسلمان اکثریتی علاقے ہوں یا اقلیتی گروہ، سب مل کر، اور الگ الگ دوسروں سے تقریباً ہر معاملہ میں پیچھے ہیں۔ اس مختصر مقالہ میں ہم اس کے اسباب کا تجزیہ نہیں کر سکتے، البتہ صورت حال پر ایک طائرانہ نظر اس سیاق میں ڈال لینا ضروری ہے کہ کیا اس کا اسلام کے تصور آزادی سے دوری سے بھی تعلق ہے؟
ہمارے خیال میں مسلمان ممالک کی موجودہ صورت حال اس بات پر شاہد ہے کہ جہاں اسلام کے تصور آزادی سے عملاً جتنی دوری ہے وہاں پس ماندگی اتنی زیادہ ہے۔ افریقا کے سارے اسلامی اکثریتی ممالک، وسط ایشیائی اسلامی جمہوریتیں اور سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں کا شمار پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے حالانکہ ان میں سے بعض تیل کی دولت اور دوسرے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ اس کے برعکس ملائیشیا انڈونیشیا اور ترکی اور کسی حد تک بنگلہ دیش پاکستان اور ایران ترقی کی راہ میں آگے بڑھتے شمار کیے جاتے ہیں۔ اس بات کا راست تعلق ان آزادیوں سے ہے جو ان ممالک میں افراد کو حاصل ہیں۔ رہی یہ بات کہ کس ملک کے افراد بندگی رب کی راہ میں کس سے آگے ہیں تو اس کا جائزہ تفصیل طلب ہے مگر ایک بات کہی جا سکتی ہے: مذکورہ بالا کسی ملک میں بھی آزادیوں سے محرومی نے لوگوں کو زیادہ خدا ترس نہیں بنایا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: فروری ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply