اُردن: خطرات کے دوراہے پر!

اُردن میں ہونے والے حالیہ مظاہروں سے ظاہر ہوتاہے کہ خطے میں جاری جغرافیائی سیاست اور معاشی بحران نے اُردن پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔اس بحران میں شامی مہاجرین کی آباد کاری، جنوبی شام میں افواج کی تعیناتی پر اتفاق،مسئلہ فلسطین کے ممکنہ حل کے نتائج او ر کچھ دہشت گر د تنظیموں کی کامیابی کے کم ہوتے ہوئے امکانات شامل ہیں۔اسی دوران مقامی اور علاقائی جماعتیں ان مظاہروں سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔

بحران کی وجوہات:

اُردن جغرافیائی لحاظ سے ایسے خطے میں واقع ہے جہاں ایک عرصے سے کشیدگی جاری ہے۔ عرب اسرائیل جنگ سے لے کر عراق پر امریکی حملے اور شام میں جاری بحران تک،سب نے اُردن کی سالمیت،مفادات اور داخلی استحکام پر بلاواسطہ اثرات مرتب کیے ہیں۔

لیکن گزشتہ دہائیوں میں اُردن ان اثرات کو کم کرنے میں کچھ حد تک کامیاب ہو گیا ہے۔اس کے لیے اُردن نے سیاسی راستہ اپنایا اور چیلنجز کو اپنے لیے مواقع میں بدل دیا،جس کے ذریعے کئی سیاسی فوائد حاصل ہوئے۔لیکن اُردن کے اندر اور باہر ہونے والی حالیہ پیش رفت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ توازن کی موجودہ حالت اب ختم ہونے والی ہے۔ اور اُردن کو مستقبل قریب میں سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

خطے کی صورتحال:

اُردن میں ہونے والے مظاہروں نے وزیراعظم حانی مُلکی کو مستعفی ہو نے پر مجبور کیا۔ جس کے بعد عمر الرزاز نے وہاں نئی حکومت بنائی ۔اُردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ دوم نے ۴ جون ۲۰۱۸ء کو ایک بیان میں کہا کہ’’ ملک میں ہونے والے مظاہروں اور ملکی سرحد پہ، خاص طور پر شام کے بحران کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کا آپس میں کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔‘‘ ان کا یہ بیان مبالغہ آرائی نہیں تھا۔

یہ تعلق مندرجہ ذیل عوامل کی روشنی میں خاص اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔

احتجاج پھیلنے کے امکانات:

کچھ اندازوں کے مطابق اُردن میں ہونے والے حالیہ مظاہرے ایک خطرناک موڑ لے کر ملک کو تاریک سرنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔ ان اندازوں کے مطابق حالیہ واقعات مظاہروں اور احتجاج کی ایک نئی لہر کو شروع کرسکتے ہیں جو کہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی متاثر کر سکتی ہے، خاص طور پر ان ممالک کو جو شدید معاشی بحران کا شکار ہیں ۔مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک بہت سخت اندرونی بحران اور مظاہروں کا سامنا کر چکے ہیں جس کی بڑی وجہ معاشی دباؤ تھا۔

اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کہ حالیہ واقعات اُردن کے علاوہ دیگر ممالک پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ چنانچہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان واقعات کے نتائج اُردن سے دیگر ممالک تک پھیل سکتے ہیں۔

خطے کی صورتحال کا دباؤ:

اُردن خطے کے ان ممالک میں سے ایک تھا جو سب سے پہلے شامی بحران سے متاثر ہوا۔ شامی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے اُردن کا رُخ کیا،جس کی وجہ سے ملک شدید مالی دباؤ کا شکار ہوا۔اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے گزشتہ حکومت نے غیر مقبول اصلاحات نافذ کیں، جو حالیہ مظاہروں کا سبب بنی۔

گزشتہ حکومت کے وزیر برائے منصوبہ بندی نے ۸ مارچ کو کہا کہ اُردن میں ۱۳ لاکھ شامی مہاجرین مقیم ہیں اور پچھلے سات سالوں میں ان کی آباد کاری پر ۵ء۱۰ ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ یہ رقم سالانہ ۵ء۱ ؍ا رب ڈالر بنتی ہے جو کہ اُردن کے جی ڈی پی کا ۴ فیصد اور حکومت کی سالانہ آمدنی کا ۱۶ فی صد ہے۔

بیرونی خطرات کے اثرات:

خطے میں جاری بحران کی وجہ سے اُردن کی حکومت کے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ ان بحرانوں کے اُردن کی داخلی معاملات پر پڑنے والے نتائج پر خاص توجہ دے۔ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ہونے والی اُس بات چیت میں بھی اُردن بہت احتیاط سے کام لے رہا ہے جسے ’’صدی کی سب سے اہم ڈیل‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ کئی اندازوں کے مطابق یہ ڈیل اُردن کی واضح حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور یہ بات یروشلم کے مسئلے اور اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات میں اُردن کے روایتی کردار کے باعث کہی جا رہی ہے۔

اُردن کا موقف اس معاہدے کو مسترد کرنے کے مترادف ہے۔ اُردن چاہتا ہے کہ وہ اس معاہدے کے منفی اثرات سے محفوظ رہے۔ اس وقت اُردن نے امریکا، روس، اسرائیل اور ممکنہ طور پر شامی حکومت کے ساتھ سیاسی اور دفاعی معاہدے کیے ہوئے ہیں، جن کا مقصد جنوبی شام سے ایران کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کا انخلا ہے ۔اُردن سمجھتا ہے کہ یہ اقدامات شام کے ساتھ اس کی سرحد پر سیکورٹی معاملات کو بہتر بنانے میں مدد کریں گے۔کیوں کہ اس سے ایران اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں کے امکانات کافی حد تک کم ہوگئے ہیں۔اور اس کا بلا واسطہ اثر اُردن پر بھی پڑے گا۔

اُردن کی کوششوں سے اس بات کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کہ اب شام میں موجود کوئی دہشت گرد تنظیم سرحد پار کر کے اُردن میں دہشت گردی کی کوئی بڑی کاروائی انجام دے سکے۔اُردن کی حکومت ملک سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو مکمل طور پر توڑ چکی ہے۔

ان اقدامات کے ساتھ ساتھ حکومت نے کچھ معاشی اصلاحات بھی نافذ کی ہیں تاکہ خطے میں موجود افراتفری اور بد نظمی کو ملک پر اثر انداز ہونے سے روکا جائے۔

پڑوسیوں کی نظر:

خطے کے دیگر ممالک نے بھی اُردن کی صورت حال پر توجہ دینی شروع کردی ہے۔وہ حالیہ واقعات اور خطے کے دیگر معاملات میں تعلق قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔تاکہ اُردن میں ہونے والے مظاہروں سے سیاسی مفادات حاصل کر سکیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ ان مظاہروں کے ذریعے عرب ممالک کے درمیان اختلافات کومزید ہوا دیں اور اُردن پر دباؤ ڈالیں کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے مستحکم ہوتے کردار کو ترک کر دے۔

اُردن میں ہونے والے مظاہروں کو خطے کی مجموعی صورتحال سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ علاقائی تبدیلیوں اور اندرونی استحکام کے درمیان روایتی توازن اب ختم ہو چکا ہے۔ کیوں کہ یہ خطہ اب بہت تیزی سے بحران کی صورتحال کی طرف جارہا ہے جس میں کئی بیرونی طاقتوں کا بھی کردار ہے۔

(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)

“The dictatorship of geography”. (“futureuae.com”. June 10, 2018)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*