پِھر سے آیا ’’نقدی‘‘ کا زمانہ!
Posted on June 16, 2010 by Daniel Gross in شمارہ 16 جون 2010 // 0 Comments

سستے اور وافر کریڈٹ نے امریکی معیشت کو برسوں پروان چڑھایا ہے۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ ۲۰۰۸ء کے معاشی بحران کے بعد سے امریکا کریڈٹ کے معاملے میں ڈائٹ پر چلا گیا ہے۔ بیشتر امریکی گھرانے اب ادھار کی زندگی ترک کر کے کیش کے بَل پر جینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ کے قرضوں کی ادائیگی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ گھر میں کیش رکھنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ چھوٹے بڑے کاروباری ادارے ایسے ماحول میں کام کرنے کی عادت ڈال رہے ہیں جس میں کیش کی بادشاہت ہے۔
معیشت میں یہ تبدیلی ڈرامائی ہے۔ بینکوں سے قرضے لینے کی شرح خوفناک حد تک گر گئی ہے۔ ۲۰۰۹ء میں امریکی بینکنگ سسٹم نے فیڈرل ڈپازٹ انشورنس کارپوریشن کی تاریخ میں ریکارڈ کمی والے قرضے دیکھے۔ ۲۰۰۸ء کے موسم خزاں سے اب تک واجب الادا تجارتی اور صنعتی قرضوں کی مالیت میں ۱۹ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ قرضے اب ۲۰۰۶ء کی سطح پر چلے گئے ہیں۔ حد یہ ہے کہ مالیاتی شعبے نے بھی قرضوں پر انحصار کم کر دیا ہے۔ ۲۰۰۷ء کے وسط سے سرمایہ کاری بینک مارگن اسٹینلے نے لیوریج ایشو نصف کر دیا ہے۔
تنقید کا نشانہ بننے والے کریڈٹ بیل کے زمانے میں لوگ انفرادی حیثیت میں اور ادارے اس توقع کی بنیاد پر قرضے لیا کرتے تھے کہ قرضے جاری کرنے کی صلاحیت برقرار رہے گی۔ اب یہ لوگ کیش جمع کر رہے ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں بچتوں کی شرح صفر کے مساوی تھی۔ جنوری ۲۰۱۰ء میں یہ شرح تین اعشاریہ تین فیصد ہو گئی۔ ایس اینڈ پی ۵۰۰ میں ۳۷۶ اداروں نے (جن کا تعلق یوٹیلٹی یا مالیات سے نہیں) ۸۲۰ ارب روپے نقد کی شکل میں اپنے پاس رکھے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ۲۰ فیصد زائد ہے۔
روایتی دانش یہ کہتی ہے کہ قرضوں میں کمی سے معاشی بحالی کا عمل دشوار ہو جاتا ہے۔ بہت سے کاروباری اداروں کے لیے اور بالخصوص چھوٹے اداروں کے لیے پرانے قرضوں کو رول اوور کرنا یا نئے قرضوں کا حصول توسیعی منصوبوں میں رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ معیشت صرف قرضوں کی بیساکھی کے سہارے نہیں چلتی۔ گزشتہ سال معیشت نے پہلی سہ ماہی میں چھ اعشاریہ چار کی شرح سے سکڑنے کے بعد چوتھی سہ ماہی میں پانچ اعشاریہ نو کی شرح سے نمو بھی پائی۔ اور یہ سب ایسے وقت ہوا جب نجی شعبے کے قرضوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ خلاصہ اس بحث کا یہ ہے کہ کریڈٹ کو خیرباد کہہ کر کیش کو اپنانے سے معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ جن دنوں معیشت تیزی سے پنپ رہی تھی ماہرین قرضوں کی حد بندی اور بہتر نظم و نسق پر زور دیتے تھے۔ کاغذات پر موجود بڑے قرضے کاروباری اداروں کے انتظامی سربراہان اور مکانات پر قرضہ لینے والے عام لوگوں کو تیز رفتار فیصلوں پر مجبور کرتے ہیں۔ ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں ادارہ یا مکان کچھ بھی دائو پر لگ سکتا ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جن پر زیادہ قرضے لَدے ہوں وہ قرضے جاری کرنے والے اداروں کے لیے دودھ دینے والی گائے کی طرح ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ جن پر زیادہ قرضے چڑھے ہوں وہ نہ صرف یہ کہ رہن کے ساتھ چل دیتے ہیں بلکہ اداروں کے دیوالیہ ہونے کا سبب بھی بن جایا کرتے ہیں۔ امریکیوں کو اب اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ کیش کی صورت میں زندگی خاصے نظم و ضبط سے ہمکنار رہتی ہے۔ کیش کے استعمال سے پیدا ہونے والا حقیقی نظم و ضبط یہ ہے کہ کاروباری اداروں کے انتظامی افسران، صارفین اور سرمایہ کار کسی بھی معاملے میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے دو بار، بلکہ تین بار سوچتے ہیں۔ کسی بھی رقم کو خرچ کرنے کے طویل المیعاد اثرات کے بارے میں غور ضرور کیا جاتا ہے۔ فوری طور پر تسکین کے حصول کی خواہش یا ہوس نے موجودہ خرابیاں پیدا کی ہیں۔
امریکا کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو تیزی سے بدلتا ہے۔ بیشتر امریکی گھرانے اب نقد ادائیگی کی راہ پر گامزن ہیں۔ امریکا بھر میں ایسے ادارے تیزی سے ابھر رہے ہیں جو لوگوں کو یوٹیلٹی بلوں اور دیگر ادائیگیوں میں معاونت فراہم کرتے ہیں اور زیادہ سروس چارج بھی نہیں لیتے۔ فلوریڈا میں قائم Elay away.com ۲۰۰۵ء سے اپنے ۷۵ ہزار کسٹمروں کو آسان اقساط پر اشیا کی خریداری میں مدد دے رہی ہے۔ یہ اقساط ۱۳ ماہ کی ہوتی ہیں۔ ایپل اور ایمیزون سمیت ایک ہزار سے زائد مرچنٹس سے خریداری کی جا سکتی ہے۔ ۴۴۰ ڈالر تک کے الیکٹرانک آئٹم کو ۴ اقساط میں خریدا جاسکتا ہے۔ اس ادارے کے شریک بانی سرگیو پنون کا کہنا ہے کہ اگلے موسم سرما میں جس آئٹم کی ضرورت ہو اس کی ادائیگی ابھی سے کی جا سکتی ہے۔
ٹیکساس میں بجلی فراہم کرنے والے ادارے فرسٹ چوائس پاور نے جنوری میں کنٹرول فرسٹ کے عنوان سے خصوصی سروس فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ٹیکساس میں ۱۰ لاکھ سے زائد صارفین ایسے ہیں جن کے پاس یا تو سِلم کریڈٹ کارڈ ہیں یا پھر کارڈ سرے سے ہیں ہی نہیں۔ کسی بھی ڈپازٹ یا کریڈٹ کے بغیر کمپنی اپنے کسٹمر کو ۱۰۰ ڈالر تک کی بجلی خرچ کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ ایک اسمارٹ میٹر کے ذریعے صارفین کو استعمال شدہ بجلی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع بھی فراہم کیا جاتا ہے تاکہ انہیں اپنے بل کا درست اندازہ ہو۔ اس صورت میں وہ کم بجلی بھی زیادہ ذہانت سے استعمال کر سکتے ہیں۔
کیش پر انحصار نے کاروباری اداروں کو بڑے منصوبوں پر بے دھڑک سرمایہ کاری سے باز رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نئے پلانٹس کا قیام، نئی مشینری کی خریداری اور ایسی نوعیت کے دوسرے بڑے فیصلے اب خاصے محتاط انداز سے کیے جا رہے ہیں۔ کاروباری فیصلو ںمیں دانشمندی کے عنصر کے ابھرنے سے چند ایک فوائد بھی پیدا ہوئے ہیں۔ اب ان اداروں کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے جو کاروباری معاملات میں چند ایک فوائد دینے پر آمادہ ہوں۔ بوسٹن میں قائم پاور کمپنی اینرنوک دو طرح کا بزنس کرتی ہے۔ الیکٹرک یوٹیلٹیز کی جانب سے یہ ایسے اداروں کی رجسٹریشن کرتی ہے جو بھرپور ڈیمانڈ کے اوقات میں نقد معاوضے پر اپنی طلب میں کمی لائیں۔ یہ مائیکرو میٹرز کی تنصیب کے ذریعے پاور کے استعمال میں کمی کے حوالے سے رہنمائی بھی کرتی ہے۔ اینر نوک کے چیف آپریٹنگ آفیسر ٹم ہیلی کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ بھرپور رہنمائی کے ذریعے بجلی کے خرچ میں نصف تک کمی کی راہ ہموار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ۲۰۰۹ء میں اس کمپنی کے ملازمین کی تعداد ۳۳۰ سے ۴۰۰ تک جا پہنچی۔ آمدنی میں ۴۰ فیصد اضافہ ہوا جو اب ۷ کروڑ ۵۰ لاکھ ڈالر کی سطح پر ہے۔
معاشی بحران سے قبل بیشتر کاروباری ادارے بیلنس شیٹ کی بنیاد پر قرضے لے کر منافع ادا کرتے تھے یا پھر مزید سرمایہ کاری کرتے تھے۔ اب مالیاتی انجینئرنگ کی جگہ بزنس انجینئرنگ نے لی ہے۔ کریڈٹ بوم کے زمانے میں بہت سے مالیاتی اداروں نے غیر معمولی منافع کمایا۔ کولبرگ کریوس اینڈ رابرٹس نے کریڈٹ بوم کے دوران بڑے پیمانے پر منافع کمایا۔ اس نے ان ہائوس ریٹیل ایگزیکٹو کا ایک گروپ تیار کیا ہے جو ملکیتی اداروں کی نگرانی کرتا ہے۔
مکانات پر رہن کے شعبے میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ابتدا میں کوئی رقم نہ لینے والے اداروں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے ادارے کونسول انرجی نے ۱۵ مارچ کو اعلان کیا کہ ڈومینین ریسورسز سے قدرتی گیس کے اثاثے خریدنے کے لیے ۳ ارب ۵۰ کروڑ ڈالر کی ڈیل کرے گی۔ گیس فیلڈ میں ترقیاتی کاموں کے لیے ۴ ارب ڈالر تک جمع کیے جائیں گے۔ ایک بات طے ہے کہ کریڈٹ کے بجائے نقدی کے ساتھ کام کرنے کی صورت میں مالیاتی شعبے میں حقیقی استحکام پیدا ہو گا۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے اسکول آف بزنس کے پروفیسر اسٹیفن کیپلن کہتے ہیں کہ کریڈٹ بوم کے دوران فروخت ہونے والے اداروں پر منافع کی شرح خاصی کم ہے۔ جب بڑے پیمانے پر قرضے آسان شرائط کے تحت دستیاب ہوں تو ڈیل معمولی منافع کے تحت بھی کر لی جاتی ہے۔
ذخیرہ اندوزی اور کفایت شعاری میں نازک سا فرق ہے۔ محتاط ہو کر رقوم بچانے اور ہر حال میں پریشان ہو کر جینے میں بہت فرق ہے۔ بہت سے فائنانشل ایگزیکٹیوز کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۸ء کے مالیاتی بحران اور کریڈٹ مارکیٹ کی گِراوٹ کے نتیجے میں لوگ اب برے وقتوں کے لیے زیادہ سے زیادہ بچت پر یقین رکھنے لگے ہیں۔ ڈیوک یونیورسٹی کے فوکوآ اسکول آف بزنس میں سینٹرل فار فائنانشل ایکسلینسی کے ڈائریکٹر سیتھ گارڈنر کہتے ہیں کہ لوگ غیر معمولی محتاط ہوتے جا رہے ہیں۔
کارپوریٹ امریکا اب اپنی ڈگر تبدیل کر رہا ہے۔ آلات اور سوفٹ ویئرز میں سرمایہ کاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسٹینڈرڈ اینڈ پوٹر کے تجزیہ کار ہاورڈ سلور بلیٹ کا کہنا ہے کہ جب کاروباری اداروں کو یقین ہو جائے گا کہ معاشی بحالی اصل ہے تو وہ بچائی ہوئی رقوم کو دوبارہ اسٹاکس منافع جات کی ادائیگی اور سرمایہ کارانہ اخراجات کی مد میں خرچ کرنا شروع کر دیں گے۔ ۲۰۰۹ء میں اسنیکس کی دنیا کے بڑے ادارے پیپسی کو کی کیش ہولڈنگز دگنی ہو گئیں۔ ۱۵ مارچ کو پیپسی کو نے اعلان کیا ہے کہ وہ منافع منقسم کی شرح ۷ فیصد کرے گا۔ اور اسٹاکس میں ۱۵ ارب ڈالر لگائے گا۔ یہ اقدامات وہ ہیں جن سے معیشت میں استحکام پیدا ہو رہا ہے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘ ۲۶ اپریل ۲۰۱۰ء)
Leave a comment