مغرب میں ایک عرصے سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ وہاں کے بنیاد پر ست عیسائی حلقے اسلام کے بڑھتے ہوئے اثرات سے شدید خوف محسوس کر رہے ہیںان کے خوف کو دو آتشہ کرنے میں یہاں کے صہیونیوں کا کردار مرکزی ہے۔ در حقیقت یہ صہیونی ہی ہیں جو عیسائیوں کو مسلمانوں سے ڈرا کر انہیں مسلمانوں سے لڑانے کی نت نئی کوششیں کر رہے ہیں۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد اس خوف اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اقدامات میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا ہے اسی لیے اب مغربی ماہرین، جن میں اکثر متعصب یہودی ہیں ، حساب کتاب میں مصروف ہیں کہ اگر اسلام اسی رفتار سے فروغ پاتا رہا تو آنے والے برسوں میں اسکے کہاں کیا، اثرات مرتب ہوں گے۔ حال ہی میںایک مغربی جریدے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی انقلابی اور اسلامی جماعت ’’اخوان المسلمون‘‘ تیزی سے یورپ فتح کرنے میں مصروف ہے۔ اس رپورٹ کے خالق واشنگٹن کے دہشت گردی مخالف تحقیقی ادارے کے انویسٹی گیٹو پراجیکٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر لورنز وویڈینو (Lorenzo Vidino) ہیں۔
۱۹۲۸ء میں قائم ہونے والی یہ جماعت اس وقت مشرق وسطیٰ کی سیاسی زندگی پر غلبہ پا چکی ہے۔ ’’اللہ ہمارا مقصود ہے، حضرت محمدﷺ ہمارے قائد ہیں، قرآن مجید ہمارا دستور ہے، جہاد ہمارا راستہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہادت ہماری سب سے بڑی آرزو ہے‘‘۔ یہ ہے اس جماعت کا ماٹو ، گزشتہ دو عشروں سے اخوان المسلمون کے نظریات اس قدر مقبول ہوئے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد یہی نظریات اختیار کر چکی ہے اس کے اثرات صرف مسلم ممالک ہی میں نہیں پھیلے بلکہ اب یورپ بھی اس کے قدموں تلے ہے۔ یورپ میں اس کے بڑھتے ہوئے اثرات نے یورپی ماہرین کو سر جوڑنے پر مجبور کر دیا ہے اور وہ ان وجوہات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اخوان نے کیسے اور کیوں یورپ کا رخ کیا اور ان کے آگے کیسے بند باندھا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اپنے قیام اور نمو کے بعد مشرق وسطیٰ میں اسے دو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے اولاً یہاں کے حکمرانوں نے اپنے اپنے ملک میں اخوان المسلمون پر نہ صرف پابندیاں عائد کیں بلکہ اسے بدترین اذیتوں سے دو چار کیا ثانیاً عالمی سامراجی طاقتوں اور ان کے وفادار عرب حکمرانوں کی انتہا پسندی نے عرب نوجوانوں کو بھی اعتدال کا دامن چھوڑ کر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر مجبور کر دیا یوں یہ نوجوان نسل اخوان المسلمون کے ہاتھ سے نکل گئی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اخوان المسلمون سے بے زار ہوگئی ہے بلکہ اس نے اخوان المسلمون کے نظم و ضبط سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھ کر جدو جہد کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان دونوں چیزوں نے پوری دنیا بالخصوص مغرب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں پہلے اخوان المسلمون صرف مشرق وسطیٰ۔۔۔ جو اسلامی دنیا کا ایک حصہ ہے، ہی تک محدود تھی لیکن اب اس کے اثرات نے یورپ کا بھی رخ شروع کر دیا ہے۔ اپنے حکمرانوں کی سختیوں سے تنگ آکر نہ صرف اخوان نے بلکہ ان کے سخت گیر ساتھیوں نے یورپ میں داخل ہونا شروع کر دیا اس کے نتیجے میں آج یورپ میں بھی اسلامی عناصر اور نظریات نے تیزی سے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ یہاں کے اصل باشندے بھی ان اثرات کے گھیرے میں آرہے ہیں ۱۹۶۰ء کے اوائل سے اخوان المسلمون کے ارکان اور اس کے حامیوں نے یور پ میں منتقل ہونا شروع کر دیا اور وہاں آہستہ آہستہ لیکن پوری ثابت قدمی کے ساتھ مساجد، خیراتی اداروں اور اسلامی اداروں کا ایک منظم نیٹ ورک قائم کر لیا شکا گو ٹر یبون کے ڈینیل پائپس کے مطابق یورپ میں اخوان کی مدد کا مقصد مسلمانوں کو اچھا شہری بنانا نہیں تھا بلکہ پورے یورپ اور امریکا میں اسلامی شریعت کا نفاذ تھا۔
یہاں کے متعصب ماہرین کہتے ہیں ک چار عشروں کی تعلیم و تربیت اورمحنت اب رنگ لا چکی ہے۔ وہ طلباء جو چالیس سال پہلے یورپ میںمنتقل ہوئے تھے۔ آج یورپی شہری بن کر سیاسی زندگی میں یہاں کے اسلامی طبقات کی قیادت کر رہے ہیں خلیجی ممالک سے آنے والے فنڈز سے اب ہر یورپی ملک میں ان کا نیٹ ورک قائم ہو چکا ہے۔ یہ تنظیمیں یہاں مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں وہ آج بھی اخوان کے نظریات پر چل رہے ہیں۔ یہ ماہرین ان کے قدم روکنے کے لیے یہ پروپیگنڈہ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے کہ ان لوگوں کے دنیا کی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ بھی تعلقات استوار ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ جدت پسند نہیں ہیں۔ جرمن ڈچ اور فرنچ زبانوں میں مہارت رکھنے کی وجہ سے یہ حکومتی اداروں اور میڈیا میں مکمل رسائی رکھتے ہیں۔ جب ان ممالک میں انتخابات کا مرحلہ در پیش ہو یا کوئی ایسامسئلہ اٹھے جو مسلمانوں سے متعلقہ ہو تو یورپ کے سیاست دان ان لوگوں ہی سے رابطے کرتے ہیں۔ وہ ان کے بغیر ایک قد م بھی اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے۔
مغربی ماہرین الزام عائد کرتے ہیں کہ جب یہ لوگ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ عربی اور ترک زبانوں میں گفتگو شروع کرتے ہیں تو وہ جدت پسندی چھوڑ کر بنیاد پرستی پر اتر آتے ہیں جس وقت ان کے نمائندے مذاہب کے درمیان مکالمے کی بات کر رہے ہوتے ہیںن۔ عین اسی وقت ان کی مساجد میں مغربی طرز زندگی کی برائیاں بیان ہو رہی ہوتی ہیں اور آئمہ کرام اپنے سامعین کو ان سے بچ کر چلنے کی تلقین کر رہے ہوتے ہیں عوامی سطح پر وہ میڈرڈبم دھماکوں اور روسی اسکول میں بچوں کی ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ حماس اور دوسری مزاحمتی تحریکوں کی مالی معاونت بھی کر رہے ہو تے ہیں۔
جر منی کی صورت حال زیادہ قابل ذکر ہے یورپ کے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت یہاں اخوان المسلون زیادہ طاقتور ہے اور سیاسی قبولیت رکھتی ہے۔ اب یورپ کے دوسرے ممالک کی اسلامی تنظیموں نے بھی جرمنی کے اخوانیوںکی تقلید شروع کر دی ہے۔
۵۰ء اور ۶۰ء کی دہائی میں مشرق وسطیٰ کے ہزاروں مسلمان جرمن یونیورسٹیوں میں تعلیم کی غرض سے داخل ہوئے۔ وہ یہاں صرف تیکنیکی تعلیم حاصل کرنے ہی نہیں آئے تھے بلکہ ان کی یہاں آمد کا اصل مقصد اپنے حکمرانوں کے مظالم سے بچنا تھا۔ مصری حکمران جمال عبدالناصر کے دور میں اسلامی اپوزیشن کی جڑیں خاص طور پر اکھاڑنے کی کوشش کی گئی۔ ۱۹۵۴ء کے شروع میں اخوان المسلمون کے متعدد ارکان گرفتار اور قتل ہونے سے بچنے کے لیے جرمنی آگئے جہاں ان کو مغربی جرمنی کی حکومت نے پناہ فراہم کی۔ اُن دنوں مغربی جرمنی کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ ان ممالک کے ساتھ تعلقات ختم کر دے گی جو مشرقی جرمنی کو تسلیم کریں گے۔ چنانچہ جب مصر اور شام نے مشرقی جرمنی کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تو مغربی جرمنی نے دونوں ممالک سے فرار ہو کر آنے والے لوگوں کو سیاسی پناہ فراہم کر دی۔ ان میں سے اکثر اخوان تھے۔ فرار ہو کر یہاں آنے والے اکثر اخوان جرمن ماحول سے شناسا تھے۔ ان میں سے سیکڑوں نے دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ ان میں سے بعض نے تو بوسنیائی ہینڈ شر ڈویژن میں شامل ہو کر بھی عسکری خدمات سر انجام دی تھیں۔
جر منی میں اخوان المسلمون کے ارکان میں سے ایک سعید رمضان بھی تھے۔ یہ اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء کے پرسنل سیکریٹری تھے۔ مصر سے تعلق رکھنے والے سعید رمضان ۱۹۴۸ء میں فلسطین میں اخوانیوں کی قیادت بھی کر چکے تھے۔ ۱۹۵۸ء میں وہ جینوا پہنچ گئے اور پھر کولون کے ایک تعلیمی ادارے میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ پھر انہوں نے جرمنی میں اسلامک سوسائٹی آف جرمنی قائم کی جو بعد ازاں جرمنی کی تین بڑی اسلامی تنظیموں میں سے ایک بن گئی۔ سعید رمضان ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۸ء تک اس کے صدر رہے۔ یہ وہی شخص ہیں جنہوں نے مسلم ورلڈ لیگ قائم کرنے میں بھی اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق مسلم ورلڈلیگ سعودی حکومت کے تعاون سے چلنے والا ایک ادارہ ہے جس کا کام پوری دنیا میں ریڈیکل اسلام کی تبلیغ و اشاعت ہے۔ آج کل امریکی حکومت مسلم ورلڈ لیگ کی سرگرمیوں کا قریب سے مشاہدہ کر رہی ہے۔ کیونکہ اس پر دہشت گردی کے لے مالی تعاون فراہم کرنے کا الزام ہے۔ مارچ ۲۰۰۲ء میں ایک امریکی سرکاری ادارے کے ہاتھ کچھ ایسے کاغذات لگے جو ثابت کرتے تھے۔ کہ مسلم ورلڈ لیگ کے القاعدہ حماس اور فلسطینی اسلامک جہاد کے ساتھ تعلقات ہیں۔ جنوری ۲۰۰۴ء میں امریکی سینیٹ کی فنانس کمیٹی نے انٹرنل ریونیوسروس سے کہا کہ وہ مسلم ورلڈ لیگ کے حوالے سے ریکارڈ پیش کرے۔ کمیٹی دیگر غیر سرکاری تنظیموں اور مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ اس کے تعلقات کا جائزہ لینا چاہتی تھی۔
تیل کی دولت سے مالا مال ایک ریاست نے سعید رمضان کو فنڈزفراہم کیے جو انہوں نے جنیوا میں ایک بڑا اسلامی مرکز قائم کرنے میں خرچ کر دیے۔ سعید رمضان کے بیٹے ہانی رمضان اس وقت یہ مرکز چلا رہے ہیں اس کے بورڈ آف گورنر میں سعید رمضان کے دوسرے بیٹے طارق رمضان بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ طارق رمضان گزشتہ دنوں امریکا میں اخبارات کی شہ سرخیوں میں رہے ہیں، کیونکہ امریکی ادارے ہوم لینڈ سیکورٹی نے ان کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔
سعید رمضان کے دس سالہ دور صدارت کے بعد ایک پاکستانی فضل رمضان صدر بن گئے۔ ان کے دور صدارت میں ایک شامی باشندے غالب ہمت جو دراصل اٹلی کی شہریت رکھنے والا شخص تھا ، کو یہاں پناہ دی گئی غالب ہمت نے یہاں اپنے قیام کے دوران اٹلی آسٹریا جرمنی ، سوئٹزر لینڈ اور امریکا کے متعدد دورے کیے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں پوری دنیا میں غالب ہمت کے عسکریت پسندوں کے ساتھ تعلقات کا سراغ لگاتی رہیں۔ وہ بنک التقویٰ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ اطالوی انٹیلی جنس اسے اخوان المسلمون کا بینک قرار دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 90ء کی دہائی کے اوائل ہی سے یہ بینک عسکریت پسندوں کو مالی معاونت فراہم کرتا رہا ہے۔ ہمت نے اخوان المسلمون کے فنانشل ماسٹر مائنڈ یوسف ندا کے ساتھ تعاون کیا۔ یوسف ہی بینک التقویٰ اور چند دیگر کمپنیاں چلاتے رہے ہیں۔ یہ دونوں اشخاص مبینہ طور پر فلسطین کی حماس اور الجزائر کی اسلامک سالویشن فرنٹ کو بڑی بڑی رقوم فراہم کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے اسامہ بن لادن کے ایک بڑئے ساتھی کی بھی بعض معاملات میں مدد کی تھی۔
نومبر ۲۰۰۱ء میں امریکی حکام نے دونوں اشخاص کو دہشت گردی میں مالی معاونت کا مرتکب قرار دیا اطالوی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق التقویٰ بنک کا نیٹ ورک پورے یورپ میں قائم اسلامی مراکز کو فنڈ ز فراہم کرتا رہا ہے۔ امریکی حکام کے الزامات کے بعد غالب ہمت نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کے جانشین ابراہیم الزیت تھے۔
جو۳۶سالہ ایک مصری نژاد نوجوان تھے۔ وہ ایک کرشماتی شخصیت کے حامل تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سعید رمضان اور غالب ہمت ہی اخوان المسلمون کی وہ نمایاں شخصیات تھیں،جنہوں نے جرمن مسلم تنظیم اور اخوان المسلمون کے درمیان تعلقات گہرے بنائے رکھے۔ متعدد جرمن انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھی کہا ہے کہ جرمنی کی اسلامک سوسائٹی دراصل اخوان المسلمون ہی کی ایک شاخ ہے۔ اس پر اخوانیوں ہی کا غلبہ ہے۔
سعید رمضان اور غالب ہمت ہی نے ۱۹۶۰ء میں میونخ میں اسلامی مرکز قائم کیا تھا۔ اس کے قیام میں مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کی مالی معاونت کا اہم کردار رہا ہے۔ بالخصوص سعودی عرب کے سابق فرمانروا شاہ فہدبن عبدالعزیز کا کردار اہم ترین رہا ہے۔ یہ ۱۹۶۷ء کی بات ہے۔ انہوں نے ۸۰ ہزار مارک فراہم کیے تھے کہا جاتاہے کہ میونخ کا اسلامی مرکز یورپ میں اخوان المسلمون کے بڑے ہیڈ کوارٹرز میں سے ایک ہے۔ یہاں سے ایک اسلامی میگزین ’’الاسلام‘‘ شائع ہوتا ہے۔ اطالوی ایجنسیوں کے مطابق اس کے پیچھے بھی تقویٰ بینک ہی کا ہاتھ ہے۔ یہ پرچہ بتاتا ہے کہ کس طرح جرمن مسلمان سیکولر ریاست کے نظریے کے مخالف ہیں۔ اپنی ایک اشاعت میں پرچہ لکھتا ہے کہ زیادہ عرصہ تک یہاں کے مسلمان جرمن سیکولر نظام کے تحت نہیں جی سکیں گے ، اس لیے ان کے اور جرمن حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہونا چاہئے جس کے مطابق وہ اپنے معاملات کے بارے میں فیصلے کر سکیں۔
اس تناظر میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہ اخوان المسلمون کو یورپ کے اندر کس قدر طاقت اور اثر و رسوخ حاصل ہو چکا ہے۔ اسلامک سوسائٹی نے یہ طاقت چند برسوں ہی میں حاصل کر لی اسی اثنا میں اس کے بطن سے یہاں کئی دیگر اداروں نے بھی جنم لیا جو اس وقت پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جرمنی کے تیس سے زائد شہروں میں اسلامی مراکز موجود ہیں لیکن وہ سب ایک ہی چھتری تلے کام کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ مسلمان نوجوانوں کی کئی ایک تنظیموں سے بھی وہ ہر قسم کا تعاون کرتی ہے۔ دراصل اب اس کی ساری توجہ آنے والی جرمن نسل پر ہے اس کے لیے وہ جرمن مسلم نوجوانوں کی تنظیموں کے ساتھ کھلا تعاون کر رہی ہے۔
یورپ میں اسلام سے خائف یہ طبقہ اب کوشش کر رہا ہے کہ وہ اسلام کو مختلف اقسام میں تقسیم کردے یہ سامراجی طاقتوں کا ایک پرانا حربہ ہے کہ وہ اپنے نا قابلِ شکست دشمنوں کو تقسیم کرتی ہیں اور مزے سے راج کرتی ہیں اس رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان نوجوانوں کی تنظیموں کی سرگرمیاں بھی مشکوک ہیں۔ ان کے ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (وامی) کے ساتھ رابطے ہیں وامی کے بارے میں جرمن ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک سعودی این جی او ہے، جو مبینہ طور پر پوری دنیا میں اپنے لٹریچر اور تعلیمی اداروں کے ذریعے وہابیت پھیلا رہی ہے۔ ’’وامی‘‘ مسلم ورلڈ لیگ کی چھتری تلے کام کرتی ہے۔ اس تنظیم کا نصب العین مسلمان نوجوان کو دوسرے نظاموں کے مقابلے میں اسلامی نظام کے اندر پورے اعتماد کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ ’’وامی‘‘ اس وقت مسلمان نوجوانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ وہ نت نئے ذرائع کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے ۱۹۹۱ء میں ’’وامی‘‘ نے ایک کتاب ’’توجیہاتِ اسلامیہ‘‘ شائع کی رپورٹ کے مطابق اس میں بتایا گیا ہے کہ اپنے بچوں کویہودیوں اور ظالموں کے ساتھ انتقام لینے والوں سے محبت کرنے کی تعلیم دیجیئے، ان کو بتائیے کہ ہمارے نوجوان ہی فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کو آزاد کروائیں گے۔ اس کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اسلام کی طرف رجوع کریں اور اللہ کی راہ میں جہاد کو اپنا شعار بنائیں اس کتاب میں ایک ہی سبق دیا جا رہا ہے کہ مسلمان ہی اس دنیا پر حکمرانی کے لیے ہیں۔ اس طرح کی دیگر کتابیں بھی مبینہ طور پر یہودیوں اور عیسائیوں سے نفرت سے بھری ہوئی ہیں۔
جرمن خفیہ ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ انہوںنے زیت نامی ایک فرنچ اسلامی اسکول کا سراغ لگایا ہے ،جہاں ائمہ تیار کیے جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق متعدد سخت گیر علماء یہاں آکر لیکچر دیتے ہیں۔ یورپ کی متعدد خفیہ ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ یہ اسکول مذہبی نفرت پھیلا رہا ہے۔ جرمن حکام کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ کئی منی لانڈرنگ کیسوں میںبھی ملوث ہے رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ زیت کے بارے میں ایسا کوئی اشارہ نہیں مل سکا کہ وہ دہشت گردی کی کسی سرگرمی میںملوث ہو، البتہ وہ ایسی تنظیموںاور اداروں کے ساتھ مالی اور دیگر حوالوں سے منسلک ہے جن کا کام مذہبی نفرت پھیلانا ہے۔ جرمن اسلامک سوسائٹی نے امریکی حکام کی تنقید کے بعد اپنی قیادت تو تبدیل کر لی لیکن اپنے مقاصد میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی۔
رپورٹ کے مطابق مصر کی اخوان المسلمون نے میونخ کے اسلامی مرکز کو پورے جرمنی میں اپنا آپریشنل ہیڈ کوارٹر بنایا ہواہے۔ جبکہ شام کی اخوان المسلمون نے ہالینڈ کی سرحد پر واقع جرمن شہر آکین کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا ہے۔ اس شہر میں اب مسلمانوں کی ایک بری تعداد آباد ہے۔ ان میں شامی نژاد العطار فیملی سب سے نمایاں ہے۔سب سے پہلے عصام العطاری آکین میں آئے تھے۔ وہ شام کی اخوان المسلون کے سربراہ تھے اور ۱۹۵۰ء میں شامی حکمرانوں کی طرف سے تعذیب کا سلسلہ شروع ہونے پر یہاں آگئے تھے۔ یوں دنیا بھر کے مسلمانوں نے بھی عصام عطار کے مرکز ہلال کا رخ کر نا شروع کردیا۔ امریکا اور دنیا بھر کی دوسری خفیہ ایجنسیوں کا بھی کہنا ہے کہ یہاں کی اسلامی سوسائٹی کے الجزائر کے مسلمان انقلابیوں سے لے کرفلسطین کی حماس تک سب سے رابطے ہیں۔ یہاں سے ان کی ہر قسم کی ضروریات کا خیال رکھا جاتاہے۔ یاد رہے کہ شام کی اخوان المسلمون کے مصر کی اخوان المسلمون کے ساتھ بھر پور اور مضبوط تعلقات ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے اخوانیوں نے آپس میں خاندانی تعلقات بھی قائم کر لیے ہیں۔ مثلاً عصام العطار کے بیٹے کی شادی التقویٰ بینک کے یوسف ندا کی بیٹی کے ساتھ ہوئی ہے۔ تاہم ان دونوں جماعتوں کے درمیان ایک شادی ہی کا تعلق نہیں ہے بلکہ تعلقات اس سے بھی گہرے ہیں۔ آکین کا اسلامی مرکز تقویٰ بینک ہی سے فنڈ حاصل کرتاہے۔ اسی طرح میونخ اور آکین ، دونوں شہروں کے اسلامی مراکز آپس میں افرادی قوت کا تبادلہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً میونخ سے شائع ہونے والے ’’الاسلام میگزین‘‘ کے ایڈیٹر احمد وان ڈینفر آکین ہی سے آئے ہیں۔ شامی اخوانیوں نے کبھی جرمنی کی اسلامک سوسائٹی میں بھی شمولیت اختیار نہیں کی ہے۔ وہ اپنے آپ کو آزاد رکھنا چاہتے ہیں۔ زیت کی مالی سرگرمیوں نے جرمن حکام کو اس وقت اپنی طرف متوجہ کر لیا ، جب اس کے روابط ترکوں کے نیشنل وژن سے نظر آئے نیشنل وژن کے ۳۰ہزار ارکان ہیں جب کہ حامیو ں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ ترک نژاد جرمنوں کے حقوق کی علمبردار ہے۔لیکن جرمن ماہرین کے مطابق اس جماعت کاایجنڈا کچھ اور ہی ہے اندرون خانہ وہ مغربی جمہوریت اور اقدار کی مخالف ہے اور غیر ملکی ایجنڈے پر چل رہی ہے اس کے مقاصد میں یہاں اسلامی ریاست کا قیام اور اسلامی شریعت کا نفاذ ہے۔ اگر اس جماعت کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو بخوبی اندازہ ہو جاتاہے کہ یہ ریڈیکل کیوں ہے؟ ترکی کے سابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان کو یہ جماعت آج بھی اپنا قائد تسلیم کرتی ہے۔ یاد رہے کہ نجم الدین اربکان کی جماعت رفاہ پارٹی پر ۱۹۹۸ء میں ترکی کی مقتدر قوتوں نے پابندی عائد کروادی تھی۔ ترک عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اس جماعت کی سرگرمیاں ملک کے سیکولر نظام کے منافی ہیں۔ اربکان کے بھتیجے صابر اربکان اس جماعت کے سربراہ ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں ہالینڈ کے شہر ارحم میں ایک اجلاس ہوا جس میں نجم الدین اربکان نے اہم ترین خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے مغربی معاشرت کی برائیاں گنواتے ہوئے اور امریکی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب سے دیوار برلن گری ہے، مغرب نے اسلام کو اپنا دشمن تصور کرنا شروع کر دیا ہے۔ نیشنل وژن کے اصل مقاصد کی بابت ایک جرمن خفیہ ایجنسی کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ یہ جماعت اپنے ارکان کو سکھاتی ہے کہ انہیں جرمن معاشرے میں کس طرح اپنے آپ کو سنبھال اور بچا کر رکھنا ہے۔ انہیںکس طرح شرعی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنی ہے۔ نیشنل وژن کا ایجنڈا بھی جرمن اسلامک سوسائٹی جیسا ہی ہے تا ہم یہ کچھ محدود ایجنڈا ہے یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے باہمی رابطے معمولی نہیں ہیں حتیٰ کہ دونوں جماعتوں کے افراد کے درمیان خاندانی روابط بھی قائم ہو چکے ہیں مثلاً زیت کی شادی صبیحہ اربکان کیساتھ ہوئی ہے صبیحہ محمد صابر اربکان کی بہن ہیں۔ ان کی والدہ بھی جرمنی کی اسلامی خواتین تنطیموں میں سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اسی طرح زیت کے گھر والے بھی خاصے سرگرم ہیں۔ ابراہیم الزیت جو اس خاندان کے سربراہ ہیں وہ ماربرگ کی مسجد کے امام ہیں۔ ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی مختلف اسلامی تنظیموں میں سرگرم ہیں۔ جرمن انٹیلی جنس ماہرین کہتے ہیں کہ اربکان خاندان اور زیت خاندان دونوں جرمنی میںترک اور عرب طبقات کی قیادت کر ہے ہیں۔ یہ لوگ جرمنی میں اپنا سیاسی اثر ورسوخ مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔
لیکن خفیہ ایجنسیوں اور سیاست دانوں کو ایک مسئلہ یہ درپیش ہے کہ وہ نیشنل وژن اور جرمن اسلامک سوسائٹی کو اب بھی مسلمانوں کی نمائندہ محسوس کرتے ہیں۔
ہر طبقے کے سیاست دان ان لوگوں کے پاس پہنچتے ہیں، انہیں اپنے ہاں بلاتے ہیں۔ مثلاً ۲۰۰۲ء میں برلن کیتھولک اکیڈمی نے اپنے پروگرام میں زیت کو مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر دعوت دی۔ اس پروگرام میں انہوں نے مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کے لیے مذہبی نمائندوں کو بلایا تھا اسی طرح تمام جرمن اور عیسائی ادارے اپنے ہاں باقاعدگی سے نیشنل وژن والوں کو بلاتے ہیں۔
اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ جرمن پارلیمنٹ میں جب مذہبی تحمل اور بردباری کے حوالے سے بحث ہوئی تو اس میں مسلمانوں کی طرف سے احمد الخلیفہ نے نمائندگی کی جو جرمن اسلامک سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ اس سے اخوان المسلمون کی اس کامیابی کا بخوبی اندازہ لگایا جاستا ہے جو اس نے جرمن مسلمانوں کے اندر اپنا اثر و نفوذ پیدا کرنے میں حاصل کی ہے۔
۱۹۸۹ء میں سعودی عرب کی ابن سعود یونیورسٹی ریاض کے مضبوط ترین ڈین عبدالللہ الترکی کی سر پرستی میں ایک ادارہ اسلامک کونسل آف جرمنی قائم ہوا۔ انہوں نے اس کی سربراہی کے لیے دو شخصیات کا انتخاب کیا۔ ان میں سے ایک ابراہیم الزیت او دوسرے نیشنل وژن کے حسن ارزگان تھے۔ ایک نام انہوں نے احد الخلیفہ کا بھی لیا۔ احمد الخلیفہ کا تعلق میونخ کے اسلامی مرکز سے ہے۔ اس ادارے کے حوالے سے جرمن پارلیمنٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کی کوششوں سے جرمن مسلمانوں اور سعودی حکومت کے درمیاں خطرناک حد تک تعلقات قائم ہو جائیں گے۔
۱۹۹۴ء میں جرمن مسلمانوں میں ایک نیا رحجان اس وقت دیکھنے میں آیاجب ۱۹ اسلامی تنظیموں نے سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے باہمی اتحاد قائم کر لیا۔ ان میں میونخ کی جرمن اسلامک سوسائٹی ا ٓکین کا اسلامی مرکز بھی شامل ہے۔ایک سینئر جرمن اہلکار کے مطابق ان ۱۹تنظیموں میں کم از کم ۹ تنظیموں کا تعلق اخوان الامسلمون سے ہے۔ اس اسلامک سیاسی اتحاد کے سربراہ ندیم الیاس ہیں جو بنیادی طور پر سعودی ڈاکٹر ہیں لیکن انہوں نے جرمنی میں تعلیم حاسل کی ہے۔ان کا تعلق آکین کے اسلامی مرکز سے ہے۔ ایک جرمن خفیہ ادارے کے مطابق ندیم الیاس کا تعلق القاعدہ کے ایک کمانڈر گا نشر سکی کے ساتھ رہا ہے جو ۲۰۰۲ ء میں تیونس میں ہونے والے واقعات میں ملوث رہا ہیگانشر سکی ایک پولش عیسائی نوجوان تھا جس نے اسلام قبول کیا تو اس نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کر لی جب اس نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کی تو وہ مدینہ کی اسلامی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔
جب ندیم الیاس سے اس نوجوان سے تعلقات کی بابت استفسار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں یا دنہیں ہے کہ اس کے ساتھ کب اور کیسے ملاقات ہوئی۔ گانشر سکی کی تعلیم وغیرہ کے سارے اخراجات سعودی مخیر حضرات نے ادا کیے تھے۔ اس سعودی یونیورسٹی میں صرف گا نشر سکی ہی نہیں گیا تھا بلکہ اس کے ساتھ ہزاروں دیگر جرمن نوجون بھی تھے۔
اس رپورٹ میں سعودی عرب کو خاص طور پر مطعون کیاگیاہے کہ وہ اخوان المسلمون کے ساتھ ہر حوالے سے تعاون کر رہا ہے۔ حال ہی میں جرمنوں نے جب سنا کہ سعودی ریالوں سے چلنے والے تعلیمی اداروں اور مساجد میں کیا پڑھایا اور سکھا یا جاتا ہے، تو وہ لرز کر رہ گئے ۲۰۰۳ء میں ایک جرمن ٹیلی ویژن اے آر ڈی نے شاہ فہد اکیڈمی بون کے ایک خفیہ کیمرے سے ریکارڈ کیا کہ اس اکیڈمی میں مسلمان بچوں کو کیا سکھایا جاتا ہے۔ وہاں ایک استاد کہہ رہا تھا کہ کافروں کے خلاف جہاد کرنا چاہیئے۔
رپورٹ کے مطابق اخوان المسلمون کا اثر و رسوخ صرف جرمنی تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر یورپی ممالک میں بھی یہی حالات ہیں اخوان نے پورے یورپ کی اسلامی تنظیموں کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔ فرانس میں یونین اف اسلامک آرگنائزیشن آف فرانس حکومتی اداروں میں دخیل ہو چکی ہے۔ اسی طرح اٹلی میں یونین آف اسلامک کمیونیٹز اینڈ آرگنائز یشینز حکومت کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے مسائل پر مکالمے کے انتظامات کر تی رہتی ہے۔
گزشتہ پندرہ برسوں میں اخوان المسلمون نے بہت سے دیگر اسلامی اتحاد بھی کھڑے کیے ہیں۔ ان میں ایک فیڈریشن آف اسلامک آرگنائزیشنز آف یورپ بھی ہے۔ اس کا کا م تنظیموں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا اور ان کے مشترکہ اجتماعات کا انعقاد ہے۔ تاہم اخوان المسلمون نے سب سے اہم کام کیا ہے کہ ۱۹۹۶ ء میں اس نے سویڈن، فرانس اور انگلینڈ کے مسلمان نوجوانوں کی تنظیموں کو بھی ’’فیڈریشن آف اسلامک آرگنائزیشنز ان یورپ‘‘ کی صورت میں اکھٹا کر دیا اسی طرح ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ نے بھی یورپین اسلامک یوتھ آرگنائزیشن قائم کر دی تین ماہ بعد لیسٹر میں گیارہ ممالک کے۳۵وفود کا ایک اجتماع ہوا اور ایک گرینڈ ’’اتحاد فورم آف یورپین مسلم یوتھ اینڈ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن‘‘ تشکیل دے دیا گیا جس کا ہیڈ کوارٹر برسلز میں قائم کیا گیا ہے۔
اس اتحاد کے لٹریچر کے مطابق یہ ۲۶ممالک کی ۴۲نیشنل اور انٹرنیشنل تنظیموں کا ایک اتحاد ہے۔ ۲۰۰۳ء میں اس تنظیم نے اس بات پر فخر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ یورپی مسلمان نوجوانوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت ہے۔ اس نے یورپی پارلیمنٹ ، کونسل آف یورپ، اقوام متحدہ، یورپین یوتھ فورم سمیت یورپ کی متعدد غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ نہایت مفید تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ صہیونی ذرائع کہتے ہیں کہ اگر چہ اس جماعت کا نعرہ ہے کہ وہ ہر سطح پر تعصب کے خلاف جنگ کر رہی ہے تاکہ یورپ کا مستقبل یہاں پر بسنے والی مختلف اقوام کے لیے پر امن اور شاندار بن سکے ،تاہم اس قسم کے نعرے ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ کے نعروں سے مطابقت نہیں رکھتے جس کا کہنا ہے کہ یہودی خدا اور اس پر ایمان رکھنے والوں فرشتوں اور انسانیت کے دشمن ہیں اور مسلمانوں کو جو بھی نقصان پہنچتا ہے اس کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔
مصنف آخر میں لکھتا ہے کہ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا نے صرف یہی خواب دیکھا تھا کہ ان کی جماعت مصر سمیت پورے عالم اسلام میں ایک انقلاب برپا کر دے گی لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اخوان المسلمون کے اثرات یورپ تک بھی پہنچیں گے۔
امریکی ادارے کی جاری کردہ رپورٹ اس بات کی خبر دے رہی ہے کہ مغرب کا متعصب طبقہ اسلام کے فروغ و اشاعت کے حوالے سے کس قدر پریشان ہے ، گزشتہ دنوں ایک پادری نے بھی اسی لیے خود کشی کر لی تھی، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایک بنیاد پرست عیسائی پادری تھا اور وہ اسلام کی مقبولیت ہضم نہیں کر سکا تھا۔ یہ ایک احمقانہ اور اوچھی حرکت ہے کہ کسی نظریے کی مقبولیت سے خائف ہو کر اس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جائے۔ اس کے بجائے اگر آپ کے پاس دلائل اور حقائق ہیں تو وہ دنیا کے سامنے پیش کیے جائیں۔دنیا میں بسنے والے اب کسی کے غلام نہیں ہیں کہ وہ کسی کی زور زبردستی کے سامنے حقائق سے صرف ِنظر کرلیں۔ دنیا حقیقت کی متمنی ہے۔ جس کے پاس حقیقت ہو گی، دنیا اسی کے ساتھ ہے۔ خودکشیاں کرنے اور غلط پروپیگنڈہ کر نے سے بات نہیں بنے گی۔
(بشکریہ ندائے ملت)
Leave a Reply