فروری میں رونما ہونے والے عوامی انقلاب نے حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ کیا۔ اس کے بعد سے مصر میں ملٹری کونسل کی حکومت کام کر رہی ہے جو ملک کی نئی اور قابل قبول سمت کا تعین اب تک نہیں کرسکی ہے۔ ایسے میں فوج چاہتی ہے کہ اقتدار کے تمام مآخذ پر اپنی گرفت مضبوط رکھے۔
مصر کی ملٹری گورننگ کونسل چند ایسی تجاویز تیار کر رہی ہے جن کا بنیادی اصول نئے آئین میں اقتدار پر اس کی گرفت مستحکم کرنا اور آنے والے منتخب نمائندوں کے اختیارات میں تخفیف ہے۔ مصری عوام کو فوجی کونسل سے بہت سے توقعات تھیں مگر اب جبکہ وہ توقعات پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں، بہت سے لوگ تحریر اسکوائر واپس آ رہے ہیں۔ وہ حالات کو جوں کا توں رکھے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں ملٹری کونسل نے بنیادی اصولوں کے اعلامیے کا اعلان کیا جو نئے آئین کی تشکیل میں رہنمائی کرے گا۔ لبرل عناصر نے اس کا خیر مقدم کیا ہے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اس سے ایک طرف تو بنیادی حقوق کی پاسداری ممکن ہوگی اور دوسری طرف عام انتخابات میں اسلامی عناصر کی بھرپور فتح کے امکانات کو کمزور کیا جاسکے گا۔
اس اعلامیے کی تیاری پر فوج نے جن قانونی ماہرین کو مامور کیا تھا ان کا کہنا ہے کہ یہ اعلامیہ نئے آئین کے تحت فوج کے اختیارات کو تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا اور فوجی بجٹ کو منتخب نمائندوں کے کڑے احتساب سے بچانا ممکن ہو جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ فوج کے وسیع معاشی مفادات کو تحفظ فراہم کرنا بھی سہل ہوگا۔ تجاویز سے فوج کو سیاسی امور میں مداخلت کرنے اور ملک کے سیکولر مزاج کو برقرار رکھنے کے لیے وسیع تر اختیارات بھی مل سکتے ہیں۔ المصر الیوم نے گزشتہ دنوں ایک جرنیل کا بیان بھی شائع کیا جس میں اس نے مستقبل کے مصر کو مستحکم کرنے کے لیے اس کا سیکولر مزاج برقرار رکھنے کی وکالت کی تھی۔ اعلامیے پر کام کرنے والے قانون کے پروفیسر محمد نور فراحت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فوج کسی بھی آئین یا باضابطہ آئینی ڈھانچے کی منظوری سے قبل اس اعلامیے کو اپناکر اسے قانونی حیثیت دلانا چاہتی ہے۔ پانچ ماہ قبل حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کی راہ ہموار کرنے والی فوج کو اس اعلامیے کی قانونی حیثیت منظور ہونے سے ایک نیا رخ اپنانے میں مدد ملے گی۔ تب فوج نے وعدہ کیا تھا کہ نئے الیکشن کے تحت اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں کے حوالے کیا جائے گا۔
مجوزہ اعلامیہ لبرل عناصر کو اسلام پسندوں کے اقتدار سے بچانے میں معاون ضرور ثابت ہوگا تاہم ساتھ ہی ساتھ وہ فوج کو سویلین سیٹ اپ کے احتساب سے بچاکر جمہوریت کو محدود کرنے کا باعث بھی بنے گا۔
مصر میں فوج مجموعی طور پر خاصی آزاد اور خود مختار رہی ہے۔ فوجی بجٹ پر منتخب ایوان میں بحث نہیں کی جاتی اور اس کی جزئیات تک ظاہر نہیں کی جاتیں۔ فوج نے کئی شعبوں میں خالص کاروباری یا تجارتی ادارے قائم کیے ہیں۔ بوتل میں بند پانی، الیکٹرانک اشیاء، ہوٹل اور اشیائے صارفین کے علاوہ کاروں کی تیاری جیسے شعبوں میں فوج کی کارکردگی بڑھتی ہی جارہی ہے۔
مصر کے عالمی شہرت یافتہ ماہر قانون اور ترکی میں فوج کے اختیارات محدود کرنے والے آئین کی تیاری میں معاونت کرنے والے اسکالر ابراہیم دائورش کا کہنا ہے کہ مصر کی فوج جمہوریت کے تحفظ کے نام پر اپنے کردار میں غیر معمولی توسیع چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ۱۹۸۰ء میں ترکی میں فوج نے خود کو سیکولر ازم کی محافظ قرار دیکر وسیع تر اختیارات اپنے دامن میں ڈال لیے تھے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام کا طویل دور شروع ہوا تھا۔ مصر کی فوج بھی اِسی راہ پر گامزن ہے۔ ابراہیم دائورش کا کہنا ہے کہ آئین کو کوئی ایک ادارہ کنٹرول نہیں کرسکتا، آئین کو پارلیمنٹ بناتی ہے، آئین سے پارلیمنٹ معرض وجود میں نہیں آتا۔
فوج کے اعلامیے کی تیاری میں اہم کردار ادا کرنے والے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج نے ان سے کہا کہ نئے آئین میں ان کے اہم سیاسی کردار کی راہ متعین کرنے کے لیے تجاویز شامل کی جائیں۔ مجموعی تاثر یہ بنتا ہے کہ فوج ترکی کے نمونے پر اپنے لیے وسیع تر اختیارات کی خواہاں ہے۔
محمد نور فراحت کا کہنا ہے کہ فوج کو وسیع تر سیاسی اختیارات دیکر جمہوریت کو محدود کرنا تو سمجھ میں نہیں آتا، فوجی بجٹ کو عوامی احتساب سے محفوظ رکھنا البتہ منطقی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں قومی سلامتی کے معاملات صیغہ راز میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
ایک اور ماہر تہانی الجبالی کا کہنا ہے کہ مصر میں فوج کو سیاسی امور پر تھوڑی سی برتری دینے میں کچھ ہرج نہیں۔ مصر کی فوج اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ سیاسی امور سے بالکل الگ تھلگ نہیں۔ ایسے میں اگر سویلین سیٹ اپ کے تحفظ کی ذمہ داری بھی کسی حد تک اسے سونپ دی جائے تو کچھ ہرج نہیں۔ تہانی چاہتی ہیں کہ اس اعلامیے کو ریفرینڈم کے ذریعے منظور کیا جائے۔
فوج کی جانب سے اعلامیے کی تیاری اخوان المسلمون کے لیے دھچکا ہے۔ عوامی انقلاب کے بعد مصر کی سیاست میں اخوان کا کردار وسیع اور مستحکم ہوکر ابھرا ہے۔ ایسے میں نئے عام انتخابات میں اس کی بھرپور کامیابی کی پیش گوئی بھی کی جاتی ہے۔ اخوان چاہتی ہے کہ عام انتخابات سے قبل نیا آئین مرتب اور منظور نہ کیا جائے۔ انتخابات موسم خزاں میں متوقع ہیں۔ اخوان انتخابات کو کسی بھی طور موخر کرنے کے حق میں نہیں۔
لبرل رہنما اور ممکنہ صدارتی امیدوار محمد البرادعی نے بھی اعلامیے کو ریفرینڈم کے ذریعے عوام کے سامنے رکھنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اخوان چاہتی ہے کہ انتخابات پہلے ہوں اور لبرل عناصر کی خواہش ہے کہ پہلے نیا آئین مرتب کرلیا جائے۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان خود کو متوازن رکھنا محمد البرادعی کی صلاحیتوں کا حقیقی امتحان ہے۔
یہ تجویز بھی غیر متعلق محسوس نہیں ہوتی۔ مصر کی فوج پر سیاسی مخالفین کے خلاف کاررائیوں، صحافیوں کو دھمکانے اور عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے حوالے سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔ حسنی مبارک اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات کی کارروائی میں تاخیر سے بھی عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
فوج کی قیادت میں قائم عبوری حکومت سے مطالبات منوانے کے لیے لوگ دوبارہ تحریر اسکوائر کا رخ کر رہے ہیں۔ عبوری حکومت چند ایک رعایتوں کا اعلان کرکے مظاہرین کو رام کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کے رہنماؤں کو عبوری حکومت میں شامل کرکے عوام کو خوش کرنے کی کوشش بھی نمایاں ہے۔ اب حسنی مبارک اس کے دو بیٹوں اور ان کے رفقائے کار کے خلاف مقدمے کی کارروائی کا آغاز بھی اس مقصد کے لیے ہے کہ مخالفین اور مظاہرین کو پرسکون رکھا جاسکے۔ گزشتہ ہفتے عبوری حکومت نے بہت سے مخالفین کو رہا کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ فروری میں عوام کو خون میں نہلانے کے ملزم پولیس افسران کو ہٹانے کی پیشکش بھی کی گئی ہے۔ مگر اس بار مظاہرین کچھ سننے کے لیے تیار نہیں۔ ملٹری گورننگ کونسل کے ایک رکن جنرل طارق مہدی نے گزشتہ دنوں مظاہرین سے تحریر اسکوائر میں خطاب کرنے کی کوشش کی مگر ان کے خلاف شدید نعرے بازی ہوئی اور خطاب سے روک دیا گیا۔ فروری کے انقلاب کے ایک نمایاں قائد شاذی الغزالی حرب کا کہنا ہے کہ لوگ عبوری فوجی حکومت سے بھی مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ فوج عوام کی بات ضرور ماننا چاہتی ہے مگر بہت محدود پیمانے پر۔
عوام کو اختیارات دینے کے حوالے سے فوج پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ۲۴ سیاست دانوں اور صدارت کے پانچ ممکنہ امیدواروں نے نوجوانوں کی جانب سے یہ مطالبہ فوج کے سامنے رکھا کہ نئے آئین یا نئے عام انتخابات کا انتظار کرنے کے بجائے سویلین اداروں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیے جائیں۔
یہ صورت حال فوج کے لیے پریشان کن ہے۔ عبوری فوجی کونسل کے ایک رکن جنرل محمود شاہین نے گزشتہ دنوں ایک نیوز کانفرنس میں یاد دلایا کہ مصر کو تبدیلی کی طرف لانے میں فوج نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حقیقی نمائندہ سویلین حکومت کے قیام تک فوج نہیں جائے گی۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلح افواج کی سپریم کونسل اقتدار میں نہیں رہنا چاہتی۔
(بشکریہ: ’’نیو یارک ٹائمز‘‘۔ ۱۶ جولائی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply