پاکستانی فوج کا نقطۂ ارتکاز اس وقت طالبان ہیں!

س: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج بالآخر طالبان خطرے کے تدارک میں مصروف ہے۔

ج: جی ہاں! گزشتہ ہفتے ہم نے طالبان کے حوالے سے پاکستانی فوج کے قدرے جارحانہ ردِعمل کا مشاہدہ کیا ہے خاص طور سے ضلع بونیر اور وادیٔ سوات میں۔

س: اس تبدیلی کی کیا وجہ ہے؟

ج: پاکستانی حکومت کا طالبان سے سوات امن معاہدہ کی ناکامی سے لوگوں کو ہوش آ گیا ہے۔ پاکستانی فوج نے یہ ادراک کر لیا ہے کہ طالبان خطرہ ملکی سلامتی و استحکام کے درپے ہے۔ یہ بات میں کچھ تامل کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ممکن ہے کہ یہ تبدیلی مستقل نہ ہو تاہم ابھی تک تو یہ اچھی معلوم ہو رہی ہے۔

س: اگرچہ یہ بہت واضح ہے لیکن یہ پالیسی انہوں نے پہلے کیوں نہیں اختیار کی؟

ج: پاک فوج امن معاہدے سے انکاری رہی ہے۔ اس نے زیادہ تر وقت توانائی اور وسائل بھارت کے خلاف منصوبہ بندی میں صَرف کیے یعنی اپنی مشرقی سرحد پر۔ یہ وہ جنگ ہے جس سے وہ مایوس بھی ہیں اور جس کے لیے آمادہ بھی، کیونکہ یہاں روایتی انداز کی جنگ کے لیے فوج کی بڑی تعداد میں تعیناتی درکار ہے۔ طالبان سے جنگ پیچیدہ بغاوت کے خلاف ایک پیچیدہ چھاپہ مار جنگ کا متقاضی ہے۔ پہلی بات یہ کہ درحقیقت آپ کو یہ جنگ ہندوستان کے خلاف لڑی جانے والی سرد جنگ کے برعکس لڑنی ہے۔ دوسری یہ کہ اگر آپ طالبان سے لڑتے ہیں تو شکست کھا سکتے ہیں۔ چنانچہ پاکستانی فوج نے پوری کوشش کی کہ ان سے الجھا نہ جائے۔ امن معاہدہ اسی سبب ہوا تاکہ اس صورتحال سے نکلنے کا بہتر راستہ تلاش کیا جائے۔ لیکن اب پاکستانی فوج کے لیے لمحۂ حقیقت آن پڑا ہے۔

س: کیا وہ طالبان سے نمٹنے کے لیے اچھی طرح مسلح ہیں؟

ج: اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ کیا انہیں بغاوت و دہشت گردی کو ناکام بنانے کا طریقہ معلوم ہے تو میں کہوں گا نہیں۔ میں پھر کہوں گا کہ ان کی ساری تربیت بھارت کے خلاف جنگ لڑنے سے متعلق ہے۔ انہوں نے کبھی نہیں چاہا کہ بغاوت کو ناکام بنانے والی جنگی مہارت کے حامل بنیں۔ جیسا کہ ہمیں عراق سے سبق ملا کہ یہ انتہائی مشکل اور پیچیدہ چیز ہے۔

س: ہم کچھ کر سکتے ہیں؟

ج: پاک فوج کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی بنیادی حکمت عملی کو نیا رُخ دے جس کی بنا پر وہ یہ ادراک کر سکیں کہ یہ جہادی گروپ پاکستان کے وجود کے لیے خطرہ ہیں۔ ہم پاکستانیوں کو امداد میں بہت بڑی رقم دیتے ہیں خواہ امداد کی نوعیت فوجی ہو یا غیر فوجی۔ فوج ہمیشہ مزید کی خواہش کرتی ہے۔ پاکستانی سفیر برائے امریکا حسین حقانی نے وال اسٹریٹ جرنل میں لکھا ہے کہ ’’ہم امریکا سے دہشت گردی مخالف جنگ میں جدید ٹیکنالوجی کے خواہاں ہیں، پاکستان کو نائٹ ویژن عینکیں درکار ہیں، جدید ہیلی کاپٹروں کی ایک کھیپ بھی چاہیے جس سے فوجی و زمینی کارروائی میں مدد مل سکے جو دشمن کو روکنے، پسپائی پر مجبور کرنے اور تباہ کرنے کے لیے ضروری ہے‘‘۔ انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ اس معاملے میں امریکا بہت زیادہ مددگار

ثابت نہیں ہوا ہے کیونکہ امریکا ابھی تک جدید اسلحوں کی فراہمی کے حوالے سے متامل رہا ہے اور ہمارے فوجیوں کو دہشت گردی مخالف جنگ لڑنے کے طریقوں کی تربیت دینے سے بھی گریزاں رہا ہے محض اس خدشے کی بنا پر کہ ان فوجی مہارتوں کا استعمال بھارت کے خلاف کیا جائے گا۔ یہ خدشات صحیح نہیں ہیں کیونکہ پاکستانی اس بات کو سمجھتے ہیں آج ان کے وطن کو بنیادی خطرہ مشرقی ہمسایہ کی جانب سے نہیں بلکہ فاٹا کے علاقوں سے ہے جو افغان سرحدوں سے متصل ہیں۔

س: اچھا! یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ درست ہے تو پھر ہم ان کو وہ چیزیں کیوں نہیں فراہم کرتے ہیں جن کی انہیں ضرورت ہے؟

ج: میرا خیال ہے کہ ہم اس مرحلے میں ہیں کہ ہم انہیں وہ چیز دے دیں جو ان کو مطلوب ہے۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کے ایک انٹرویو میں جب اس مسئلے کا ذکر آیا تو انہوں نے نشاندہی کی کہ ’’ہم انہیں ہر طرح کی تربیت اور تمام قسم کے اسلحے فراہم کرنے کی پیشکش کرتے رہے ہیں جو کچھ ہم فراہم کر سکتے ہیں اور جتنا کچھ وہ ہم سے لے سکتے تھے اب تک ان کی طرف سے سرد مہری رہی ہے۔ وہ پاکستان میں نمایاں طور سے امریکی فوجی نقش قدم کو متعارف کرانا نہیں چاہتے؟

س: چنانچہ وزیر دفاع گیٹس کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج کے رویئے میں تبدیلی آئی ہے؟

ج: میں اپنی گفتگو کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ ہاں۔ حتیٰ کہ رابرٹ گیٹس نے پاکستانی فوج کی جانب سے طالبان خطرے کی شناخت کا موازنہ امریکا کے اُس عمل شناخت سے کیا جس کے نتیجے میں امریکیوں نے القاعدہ کو امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کیا۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈیلی ٹائمز‘‘ کراچی۔ ۳ مئی ۲۰۰۹ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*