بخارسٹ میں ہونے والا نیٹو کا اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا جب نیٹو اتحادی افغانستان میں اپنے مستقبل کے حوالے سے تنائو کا شکار تھے۔ وہ نئی پاکستانی حکومت کی افغان پالیسی کے حوالے سے تذبذب میں مبتلا ہیں۔ پاکستانی حکومت کا مبنی بر تعاون رویہ ہی افغانستان کے روشن مستقبل کا ضامن ہو گا۔
پاکستان میں نیٹو افواج کے مضبوط اتحادی صدر پرویز مشرف کا بتدریج کمزور ہونا، ان کی جگہ نئے سیاسی چہرے اور ان کی افغانستان کے حوالے سے غیریقینی پالیسیاں اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی نے نیٹو کے تمام رکن ممالک کی گویا سانسیں اکھاڑ کر رکھ دی ہیں۔ ایک ماہ کے دوران خود کش حملوں کی پے در پے کارروائیوں نے پاکستان کو گڑھے کے دہانے پر لاکھڑا کیا تھا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جاپ ڈی ہوپ شیفر بھی جلد ہی پاکستان کے دورے کے خواہاں ہیں۔ ویسے بھی بخارسٹ کانفرنس کے بعد نیٹو کے لیے افغانستان میں اپنی پالیسیوں کو ازسرِ نو تشکیل دینے کا بہترین موقع آگیا ہے۔
افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے سے اس پیچیدہ طریقے سے جڑے ہیں کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں کسی بھی قسم کی کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مستقبل میں دونوں ملکوں کے استحکام اور سلامتی کا انحصار اس امر پر ہو گا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں زور پکڑتے طالبان اور القاعدہ تحریک کو ختم کرنے کے لیے کس قسم کی مشترکہ حکمتِ عملی مرتب کرتے ہیں۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی بھرپور کوششوں (جس پر بعض لوگوں کو اعتراض بھی ہے) کے باوجود قبائلی علاقے طالبان اور القاعدہ کا مضبوط گڑھ بنتے جارہے ہیں۔ یہ دہشت گرد ان علاقوں سے نہ صرف افغانستان میں اتحادی افواج پر براہِ راست حملوں میں ملوث ہیں بلکہ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کی اپنی سلامتی بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ یہ عناصر انہی علاقوں میں بیٹھ کر امریکا سمیت دنیا بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی بھی کرتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باہم مربوط ان مشکلات اور مسائل کا حل کیا ہونا چاہیے؟
چلیے ہم سرحد پار دہشت گردی کی کارروائیوں سے آغاز کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کی بآسانی سرحد کے آرپار آمد و رفت نے پاکستان، افغانستان اور نیٹو افواج پر مشتمل سہ فریقی فوجی کمیشن کو ناکوں چنے چبوائے ہوئے ہیں۔ تینوں فریق اس کو روکنے کے لیے اپنے سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ چنانچہ افغانستان میں آنے والی امریکی فوج کی نئی کمک کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا جو پاکستان، افغان اور پاک افغان بارڈر پر اتحادی افواج کے پہلے سے موجود مشترکہ انٹیلی جنس سینٹر کی مدد کرے گی۔ واضح رہے کہ پاک افغان سرحد پر اس نوع کے مزید پانچ انٹیلی جنس سینٹر بنائے جائیں گے۔ واشنگٹن میں بش انتظامیہ ان سینٹروں میں پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی شدید طور پر خواہاں ہے تاکہ دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کامیابی سے اپنے انجام کو پہنچ سکیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس طرح کا تعاون خارج از امکان بھی نہیں ہے۔ کیونکہ سالِ رواں کے ابتدا میں شمالی وزیرستان میں ایک میزائل حملے میں القاعدہ کے سینئر رہنما ابو لیث لیبی کی ہلاکت بھی اسی مشترکہ حکمتِ عملی کا ہی نتیجہ تھی۔ مگر اس طرح کے حساس آپریشن قبائلی علاقہ جات کی مخصوص سیاسی فضا کے باعث مکمل رازداری کے ساتھ ہونے چاہییں اور اس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو اعتماد میں لینا کسی صورت نہیں بھولنا چاہیے۔
میں اس امر سے خبردار کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت یا فوجی کارروائی کی صورت میں پاکستان کی قومی سلامتی اور امریکا کے لیے اپنے مفادات دائو پر لگ جائیں گے۔ ویسے بھی ایسی کوئی بھی کوشش کسی بھی صورت مسئلے کا ٹھوس اور پائیدار حل کا باعث نہیں بنے گی۔ لہٰذا بہتر حل یہی ہو گا کہ پاکستان کی نئی سیاسی قیادت پر قبائلی علاقوں کو سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لیے زور دیا جائے اور اس سلسلے میں اس کی بھرپور معاونت کی جائے۔ ورلڈ بینک، یورپی یونین اور دیگر امدادی اداروں کے تعاون سے پاکستان کے قبائلی علاقوں کو مستحکم اور مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی اصلاحات کرنا ضروری ہیں۔ جن کے لیے امداد دینے والے اداروں کا کردار بہت اہم ہو گا۔
جیسا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر محمود علی درانی کہتے ہیں کہ ’’قبائلی علاقوں میں ایک کثیر الجہتی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جس کے تحت فوجی طاقت، ترقیاتی منصوبوں اور قبائلیوں کو بااختیار بنانا ہو گا، محض طاقت کے استعمال سے معاملات کسی طور درست نہیں ہوں گے‘‘۔
اسی مسئلے کے حل کے لیے دور رس حکمتِ عملی کے تحت پاکستان، افغانستان کو اپنے سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی کے معاملات کا ازسرِ نو جائزہ لینا ہو گا۔ اور نہ صرف خطے کی طاقتوں بلکہ عالمی طاقتوں کو بھی اس ضمن میں غیرجانبدارانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس مقصد کے لیے اقوامِ متحدہ کو پہل کرتے ہوئے ایک عالمی کانفرنس بلانی چاہیے جس میں پاکستان اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے علاوہ اس معاملے سے جڑی تمام بڑی طاقتوں کو بھی بلانا چاہیے۔ افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے نئے مندوب نارویجن سفارتکار مسٹر کے ایڈی کو اس سلسلے میں پیشرفت کرنی چاہیے۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں ایک ایسا متفقہ معاہدہ سامنے لایا جانا چاہیے جیسے جنیوا کے معاملے میں کانگریس آف ویانا نے کیا تھا۔ معاہدے کے تحت پاک افغان سرحد (ڈیورنڈ لائن) کو تسلیم کیا جائے اور تمام شرکا سے اس بات کا عہد لیا جائے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ افغانستان کو عالمی سطح پر ایک خودمختار، آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے اور یہاں عالمی برادری کی حمایت یافتہ ایسی حکومت ہو جس کی وجہ سے افغانستان عالمی تجارت کی محفوظ گزرگاہ بن جائے جس کا سارے خطے کو فائدہ ہو گا۔
اس معاہدے کا سب سے بڑا فائدہ خود امریکا کو ہو گا کیونکہ ایک عالمی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی موجودگی اور مضبوط مستحکم افغانستان سے امریکا اور اتحادی افواج کو بتدریج وہاں سے نکلنے کا محفوظ راستہ بھی مل جائے گا۔
(مضمون نگار سابق نائب امریکی وزیرِ خارجہ)
(بشکریہ: ’’بوسٹن گلوب‘‘۔ ترجمہ: علی زیب حسین)
Leave a Reply