افغانستان کا مستقبل اور مفادات کی جنگ

افغانستان۱۹۷۰ء کے بعد سے تباہ کن جنگوں کی لپیٹ میں رہا ہے، جس کی وجہ سے یہ خطہ تباہی کا شکار ہے۔۱۹۱۹ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد یہاں مختلف نظامِ حکومت آزمائے جا چکے ہیں۔ ان میں کمیونسٹ حمایت یافتہ جمہوریت سے لے کر آمرانہ طرز کی اسلامی امارات اور پھر امریکا سے درآمد شدہ جمہوریت بھی شامل ہے۔لیکن کوئی بھی نظامِ حکومت داخلی لڑائی اور جنگوں کے بغیر معاشرتی،نسلی اور ثقافتی حوالے سے متنوع اس ملک کو چلانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اب جب کہ موجودہ افغان جنگ کے تمام فریق ملک میں قیام امن کے لیے رضامند دکھائی دیتے ہیں،تو انھیں ماضی کی غلطیوں سے بچنے کے لیے ایک پر امن اور پائیدار نظام حکومت کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ملک اب مستقل طور پر سیاسی افراتفری، تنازعات اور لڑائی جھگڑوں کا شکار ہو چکا ہے۔ اس بحران میں قومی اور عالمی کرداروں کے عمل دخل کی وجہ سے مستقبل قریب میں کسی بھی منصوبے پر اتفاق ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔کیوں کہ اس جنگ کا ہر فریق چاہے وہ ملکی ہو یا غیرملکی، خطے میں اپنے اثر و رسوخ اور کنٹرول میں اضافے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے، جس کی وجہ سے ملک مستقل عدم استحکام کا شکار ہے۔

غیر ملکی حملے، انقلاب اور بغاوتیں:

ملک کے پہلے صدر ’’محمد داؤد خان‘‘کا قتل اور ’’انقلابِ ثور‘‘ کو ملک کے موجودہ مسائل کا نقطہ آغاز تصور کیا جا تا ہے۔۱۹۷۳ ء میں داؤد خان نے افغانستان میں بغیر خون خرابے کے بادشاہت کا خاتمہ کر دیا اور اس کی جگہ ریاستی ڈھانچہ تشکیل دیا۔ جو کہ بظاہر اصلاحی اور ترقی پسند دکھائی دیتا تھا،لیکن کمیونسٹ جماعتوں سے اختلافات ان کے قتل کا موجب بنے۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) کے ارکان نے ان کو قتل کردیا۔ پھر PDPA اقتدار میں آئی،لیکن اندرونی تنازعات نے اسے کسی بھی قسم کی پیش رفت نہ کرنے دی، اس دوران مقامی شورشوں نے سوویت یونین کو دسمبر ۱۹۷۹ء میں اپنی اتحادی حکومت بچانے کے لیے حملے کا جواز فراہم کر دیا۔

اس حملے کے نتیجے میں مجاہدین نے سوویت یونین کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ نہ صرف مجاہدین کی مقامی خطے کے بارے میں مکمل معلومات اور ان کی بہادری نے سوویت افواج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا، بلکہ ان مجاہدین کو امریکا، پاکستان، ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک نے وسائل کی مد میں اور مالی لحاظ سے بھرپور امداد دی۔ ۱۹۸۸ء میں سوویت یونین کی فوج نے افغانستان سے نکلنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔لیکن اس وقت تک ملک کی تقریبا ۹ فیصد آبادی اس جنگ کا شکار ہوچکی تھی یعنی دس سے پندرہ لاکھ لوگ اس جنگ میں مارے جا چکے تھے۔ مارے جانے والوں میں سے نصف کا تعلق فوج سے نہ تھا۔۱۹۸۶ء تک پچاس لاکھ کے قریب افغانی اپنے پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران کی طرف ہجرت کر چکے تھے۔

خانہ جنگی:

افغانستان، امریکا، سوویت یونین اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدوں کے نتیجے میں ایک تنازع کا تو خاتمہ ہو گیا،لیکن بہت جلد ہی ملک دوسرے تنازعات کی لپیٹ میں آ گیا۔ سوویت یونین کی حمایت یافتہ کٹھ پتلی حکومت، جس کی سربراہی افغان خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ محمد نجیب اللہ کر رہے تھے،نے اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے بہت جدوجہد کی۔کمزور نظام حکومت کی وجہ سے مجاہدین جو کہ اپنے مشترکہ دشمن کو شکست دے چکے تھے، اب چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہو کر ملک کے اہم حصوں پر قابض ہونے لگے۔ نجیب اللہ حکومت کے خاتمے پر پشاور میں مجاہدین کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں نگراں حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔لیکن یہ حکومت داخلی لڑائی کی وجہ سے آغاز ہی سے مشکلات کا شکار رہی، بعد ازاں جمعیت اسلامی سے تعلق رکھنے والے نگراں حکومت کے صدربرہان الدین ربانی نے اپنی تین ماہ کی مدت پوری ہونے پر استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا،جس کے نتیجے میں حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار نے کابل پر چڑھائی کر دی۔ یاد رہے کہ حزب اسلامی نے پشاور میں ہونے والے معاہدے میں فریق بننے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ ان کے گروہ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

کابل پر کنٹرول کے لیے مجاہدین کے درمیان چار سال تک شدید لڑائی جاری رہی۔ انفراسٹرکچر کی تباہی کے ساتھ ساتھ بہت سے عام شہری بھی اس خانہ جنگی کا شکار ہوئے۔ ۱۹۹۲ء تا ۱۹۹۶ء جاری رہنے والی اس خانہ جنگی میں گلبدین حکمت یار کے گروہ نے بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا، اس بنیاد پر انھیں “Butcher of Kabul” بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے نمایاں مخالف احمد شاہ مسعود تھے جو ’’پنجشیر کے شیر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں سوویت یونین سے لڑائی کی وجہ سے احمد شاہ مسعود مشہور ہوئے اور پھر نگراں حکومت میں وزیر دفاع بھی رہے۔ جمعیت اسلامی اور حزب اسلامی نے افغان خانہ جنگی میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ دونوں گروہ آپس میں لسانی بنیادوں پر لڑ رہے تھے۔ جمعیت اسلامی میں اکثریت تاجکوں کی تھی(تاجک افغانستان کی دوسری بڑی لسانی اکائی ہیں)۔ جبکہ حزب اسلامی پشتون اکثریتی جماعت تھی۔ بھارت، جو کہ سوویت افغان جنگ سے دور رہا تھا، نے صدر ربانی کی نگراں حکومت سے اپنے تعلقات مضبوط کرنا شروع کر دیے۔ عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ بھارت نے بھی طالبان مخالف شمالی اتحاد کے رہنما احمد شاہ مسعود کی مکمل حمایت کی۔ احمد شاہ مسعود نے ۲۰۰۱ء کے شروع میں یورپی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری سے کہا کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان عوام کی مدد کریں، مزید یہ کہ پاکستان اور اسامہ بن لادن کی حمایت کے بغیر طالبان ایک سال بھی اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکتے۔ اس خطاب کے دوران احمد شاہ مسعود کے ساتھ افغانستان کی تمام لسانی اکائیوں کے راہنما بھی موجود تھے۔ شروع میں پاکستان نے پشتون اکثریتی جماعت ہونے کی وجہ سے حزب اسلامی کی حمایت کی لیکن بعد ازاں طالبان کی مالی اور فوجی امداد کرنے لگا۔

طالبان اور امریکی حملہ:

جس دوران حزب اسلامی، جمعیت اسلامی اور مجاہدین کے دیگر گروہ آپس میں لڑ رہے تھے اس دوران سرحد پار پاکستان میں طالبان مضبوط ہو رہے تھے۔ ملا عمر نے پاکستانی مدرسوں میں پڑھنے والے طالب علموں اور پرانے مجاہدین کو بھرتی کیا، جن میں سے اکثر پشتون تھے۔ طالبان کا بنیادی مقصد افغانستان میں اسلامی قوانین کا سختی سے نفاذ اور ملک سے تمام غیر ملکی عناصر کا صفایا کرنا تھا۔ طالبان نے کئی دہائیوں کی جنگ، غیر ملکی مداخلت اور ناکام حکومتوں سے تنگ آئے ہوئے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ افغان خانہ جنگی کے دوران طالبان پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے افغان علاقوں پر قبضہ کرتے گئے اور آخر کار ستمبر ۱۹۹۶ میں طالبان نے کابل میں قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد طالبان نے اسلامی امارت افغانستان قائم کرنے کا اعلان کیا، جسے صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا۔

احمد شاہ مسعود کو شمالی افغانستان تک محدود کر دیا گیا، اور وہاں سے انھوں نے طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کے نام سے مزاحمت جاری رکھی۔ طالبان کے نافذکردہ سخت قوانین کو دنیا مختلف مواقع پر تنقید کا نشانہ بناتی رہی،لیکن ۱۱ ستمبر کے حملوں کے بعد ان کے خلاف سخت کارروائی کی گئی۔۱۱ ستمبر کے حملوں کے بعد جب طالبان نے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تو امریکا نے افغانستان پر حملوں کا آغاز کیا اور طالبان کا تختہ الٹ دیا۔ اس کے بعد یہاں ایک نگراں حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا،لیکن اس کے ساتھ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہی۔ اگرچہ طالبان اپنی حکومت تو نہ بچا سکے لیکن اب بھی ملک کے پچاس فیصد حصے پر ان ہی کا کنٹرول ہے۔ اب بھی افغانستان کے بہت سے علاقوں میں طالبان کو ہی جائز حکمراں تسلیم کیا جاتا ہے،کیوں کہ طالبان عوام کو وہ تمام سہولیات مہیا کر رہے ہیں، جن کی فراہمی میں کابل حکومت ناکام رہی۔ طالبان نے انصاف کی فراہمی کے لیے شرعی عدالتیں قائم کیں۔ اور اب تو لڑکیوں کے لیے بھی تعلیمی سہولیات مہیا کر رکھی ہیں۔ لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ طالبان تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ملک میں اپنی عسکری کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ ان کا خوف اور اثر و رسوخ برقرار رہے۔ اس کے علاوہ ان کے ملک میں موجود دیگر عسکری تنظیموں سے بھی مضبوط تعلقات ہیں۔ طالبان کی مستقل مزاحمت کے باوجود امریکا اب اس۱۸ سالہ طویل جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے کا خواہاں ہے، اسی سلسلے میں ایک امن معاہدے کے لیے اس نے طالبان سے براہ راست مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ بہت سے تجزیہ کار اس پر حیر ت زدہ ہیں کہ چار دہائیوں کی تباہی اور جنگ کے بعد کیا اب بھی افغانستان میں امن کا انحصار طالبان پر ہی ہے؟

امریکا طالبان مذاکرات:

قومی اتحاد کی کمی، دہائیوں سے جاری خانہ جنگی،لسانی بنیادوں پر معاشرے کی تقسیم اور عالمی و مقامی قوتوں کے آپس میں متصادم مفادات کے ہوتے ہوئے کسی مشترکہ ایجنڈے پر متفق ہونا تقریبا نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔فی الحال ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ افغانستان کے مستقبل میں جو دو مقامی طاقتیں اہم کردار ادا کریں گی وہ طالبان اور اشرف غنی کی حکومت ہوگی۔ لیکن اب تک تو ان دو طاقتوں کے درمیان خاطر خواہ روابط قائم نہیں ہو سکے ہیں،کیوں کہ طالبان اشرف غنی کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور نہ ہی افغان حکومت طالبان کے دیگر ممالک کے ساتھ سیاسی تعلقات کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ طالبان کے غیر ملکی حکومتوں اور افغان عمائدین کے ساتھ مذاکرات سے ان کے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے،جب کہ ان اقدامات سے افغان حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

قطر میں طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ اگرچہ دونوں فریق ۱۸ سالہ جنگ کا جلد از جلد خاتمہ چاہتے ہیں،تاہم فریقین کے درمیان امریکی فوج کے انخلا کے معاملے پر واضح اختلاف پایا جا تا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ اس وقت تک فوجی انخلا شروع نہیں کرنا چاہتی، جب تک طالبان ملک میں موجود دیگر جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی کے حوالے سے کوئی واضح موقف اختیار نہ کرلیں۔ امریکا کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ فوجی انخلا سے پہلے طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہو جائیں۔ اور اس مطالبے پر طالبان کا موقف ہے کہ وہ فوجی انخلا کے بعد ہی افغان حکومت سے مذاکرات کا آغاز کریں گے۔

اگر صدر ٹرمپ امریکی فوج کے انخلا کے حوالے سے جلد بازی میں طالبان سے کوئی کمزور معاہدہ کرتے ہیں اور دوسری طرف طالبان بھی امریکی فوج کے انخلا کے بعد طے شدہ معاہدے سے انحراف کرتے ہیں تو ملک کے حالات ابتری کا شکار ہو جائیں گے۔خطے میں افغانستان کا جو موجودہ قابل قدر ’’اسٹیٹس‘‘ہے اس کی وجہ امریکا کی افغانستان میں موجودگی ہے۔ اگر امریکا ان حالات میں افغانستان کو چھوڑ کر جائے گا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ خطے کی اور دیگر عالمی طاقتیں اپنے اپنے تزویراتی (Strategic) مفادات کے حصول کے لیے ہر قانونی اور غیر قانونی راستہ اختیار کریں گی۔ جس سے ملک میں ایک اور خانہ جنگی شروع ہوجائے اور افغانستان کے پڑوسی ممالک صرف اسی صورت میں فوائد حاصل کر سکتے ہیں جب یہاں نہ صرف سیاسی استحکام ہو بلکہ امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہو، ورنہ ملک میں ہونے والی خانہ جنگی سے یہ پڑوسی ممالک بھی متاثر ہوتے ہیں۔کچھ ممالک خاص کر ایران اور پاکستان نے جہاں اس پورے عمل میں مشکوک کردار ادا کیا ہے وہیں انھوں نے ماضی میں افغان جنگ کے بعد ہجرت کرنے والے لاکھوں لوگوں کو بھی پناہ دی ہے۔ اس کے علاوہ ان ممالک کو اس ہجرت کی وجہ سے دہشت گردی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔لسانی بنیادوں پر دہشت گردوں نے اپنے اپنے گروہ قائم کیے،خاص کر پشتونوں نے کیوں کہ سرحد کے اس طرف بھی بڑے پیمانے پر پشتون آباد تھے۔ اسی طرح بلوچ بھی پاکستان، ایران اور افغانستان میں موجود تھے۔ اگر افغانستان کی سیاسی قوتیں عسکری گروہوں کوقابو کرنے میں ناکام ہوتی ہیں تو ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی یہ گروہ پڑوسی ممالک میں جا کر پنا ہ لے سکیں گے اور کارروائیاں بھی کریں گے۔

افغان حکومت اور طالبان کے علاوہ امن مذاکرات کے دیگر فریقین کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغان حکومت کو اس عمل میں شریک کروانے کی ذمہ داری لیں۔ بصورت دیگر ملک مشکلات کا شکار رہے گا۔ طالبان نے دوحہ میں امریکی نمائندہ خصوصی سے ملاقات کے علاوہ افغانستان کے سیاسی زعما سے بھی ملاقاتیں کیں ہیں،جن میں سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی شامل ہیں، جن سے فروری میں ماسکو میں ملاقات کی گئی۔ اگرچہ روسی حکومت براہ راست ان مذاکرات کی میزبانی نہیں کر رہی تھی بلکہ روس میں موجود افغانیوں نے ان مذاکرات کا اہتمام کیا تھا،تاہم کریملن نے ان مذاکرات کے لیے تمام وسائل اور سہولیات کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کیا۔ ان مذاکرات کا اہتمام ’’پریزیڈنٹ ہوٹل‘‘میں کیا گیا،جو کہ ایک سرکاری ہوٹل ہے۔ ماسکو نے طالبان کو۲۰۰۳ء سے ’’دہشت گرد‘‘تنظیم کا درجہ دے رکھا ہے، اس کے باوجود دس رکنی طالبان وفدکو ملک میں داخلے کی اجازت دی گئی۔ مذاکرات کے اس دور میں بھی قانونی اور جمہوری طور پر منتخب ہونے والی افغان حکومت کویکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ اس کا یقینا مطلب یہ تھا افغان حکومت کی رضامندی کے بغیر ہونے والا کوئی ممکنہ معاہدہ قابل عمل نہیں ہو سکتا۔

مذاکرات کے حوالے سے افغان حکوت کا موقف یہ ہے کہ مذاکرات افغانیوں کی مرضی اور ان کی شمولیت کے بغیر نہیں ہونے چاہییں۔ امریکی حکومت ایک طرف تو طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری طرف ان کے زیر قبضہ علاقوں میں کارروائیاں بھی کر رہی ہے، اس کے علاوہ امریکا طالبان سے مذاکرات کے دوران افغان حکومت کو یکسر نظر انداز کر چکا ہے۔ کابل حکومت اپنے اتحادی کی اس پالیسی کو دھوکا دینے کے مترادف سمجھتی ہے اور اس حکمت عملی سے افغان حکومت کے سیاسی اثر و رسوخ اور قانونی حیثیت میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔

اشرف غنی کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے ملک کی سلامتی و معاشی صورت حال بگڑتی جا رہی ہے،جس کی وجہ سے یہ حکومت عوام اور بین الاقوامی برادری کی نظروں میں اپنی اہمیت کھوتی جا رہی ہے۔ اگر اشرف غنی دوبارہ منتخب ہونے کی خواہش رکھتے ہیں تو انھیں امریکا طالبان مذاکرات کاحصہ بننا ہوگا۔دیگر ممالک بھی طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے حامی ہیں۔تاہم طالبان کو براہ راست مذاکرات کا حصہ بنا کر عالمی برادری نے طالبان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس سے طالبان کا یہ موقف کہ وہ اشرف غنی کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، مزید مستحکم ہو گیا ہے۔ طالبان کو عسکری کارروائیوں سے روکے بِنا،عالمی برادری اور امریکا کا ان سے مذاکرات جاری رکھنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ افغان حکومت کو بھی ان مذاکرات کا حصہ بنایا جائے۔ جہاں افغانستان سے ہر کوئی اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، ایسے میں افغان حکومت اور عوام سخت ترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

افغانستان کے امن مذاکرات کے کامیاب ہونے کی امیدیں روشن ہونے کے بعد سے خطے کے بہت سے کردار فعال ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ خطے کے سارے کردار افغانستان میں استحکام چاہتے ہیں لیکن اپنے اپنے مفادات کے حصول کے عوض۔ اس امن عمل کے دوران ایک منظر نامہ جس کو پیش نظر رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ پاکستان،چین، بھارت، ایران اور روس افغانستان میں اپنے اپنے اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کریں گے۔

پاکستان:

پاکستان کے طالبان سے قریبی تعلقات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔فرض کریں کہ افغان حکومت اور طالبان کے مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں اور طالبان حکومت کا باقاعدہ حصہ بن جاتے ہیں،تو طالبان کے سیکڑوں لڑاکا کارکنان کہاں جائیں گے؟کیا ان کو افغان آرمی میں ایڈ جسٹ کیا جائے گا؟کیا سارے ظلم و بربریت کے بعد ان کو دوبارہ معاشرے کا حصہ بنایا جائے گا۔ یا پھر پاکستان میں موجود جہادی تنظیمیں ان کو کشمیر میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کریں گی؟جیسا کہ ماضی میں کیا گیا۔سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جب یہ تجربہ کار عسکریت پسند فارغ ہوں گے تو کیاکریں گے؟امکان یہ پایا جاتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ، جموں کشمیر اور وسطی ایشیا میں موجود جہادی تنظیموں میں شامل ہونے کی کوشش کریں گے۔

پاکستان اور طالبان کے درمیان فوجی تعلقات کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات بھی زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان افغانستان کو بھارت تک جانے کی راہداری فراہم کر سکتا ہے،جیسا کہ افغانستان پاکستان کو وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔لیکن ایسے کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے دونوں حکومتوں کے درمیان اچھے تعلقات کا ہونا بہت ضروری ہے۔لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا، کیوں کہ پاکستان طالبان کی مستقل حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔

بھارت:

بھارت یہ چاہتا ہے کہ افغانستان پر پاکستان کے اثر و رسوخ کو جتنا زیادہ ممکن ہو، کم کیا جاسکے۔ اس مقصد کے پیش نظر بھارت افغان امن عمل کو ’’افغان قیادت کی زیر نگرانی‘‘ (Afghan Owned and Afghan Led) کے موٹو کے ساتھ جاری رہنے پر زور دیتا ہے۔لیکن بھارت طالبان اور دیگر جہادی تنظیموں پر پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ سے بہت زیادہ خائف ہے۔ بھارت کے افغانستان کے ساتھ بہت سے معاشی مفادات بھی وابستہ ہیں۔ کیوں کہ افغانستان بھارت کوتوانائی کے ذخائر سے مالا مال وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ بھارت افغانستان کوانفرا اسٹرکچر کے منصوبوں کی مد میں بڑے پیمانے پر امداد بھی دے رہا ہے۔ بھارت افغانستان میں ایک طاقتور مرکزی حکومت کے قیام کا حامی ہے جو کہ پاکستان کے اثر و رسوخ کوکم کر سکے۔ نئی دہلی امریکا طالبان مذاکرات کا بھی مخالف ہے، اس کا موقف ہے کہ یہ مذاکرات ایک منتخب حکومت کی کمزوری کا باعث بن رہے ہیں۔

چین:

چین اس صورتحال پر مکمل نظر رکھے ہوئے ہے۔چین کو یہ تشویش لاحق ہے کہ کہیں افغانستان میں پائی جانے والی اسلامی انتہا پسندی اس کے ملک میں موجود مسلمان اکثریتی علاقے سنکیانگ پر اثر انداز نہ ہونے لگے۔ جہاں بیجنگ نے پہلے سے ہی مسلمانوں پر سخت ترین پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ اور ’’ایغورمسلمانوں‘‘ پرظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف چین کا ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘منصوبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ جنوبی اور وسط ایشیائی ریاستیں مستحکم ہوں۔ ابھی تک تو چین اس بات کا حامی ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ وہ اس بات کی بھی حمایت کرتا ہے کہ امن مذاکرات میں افغانستان کی مقامی سیاسی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ بیجنگ اس بات سے بہت اچھی طرح واقف ہے کہ اگر امریکی فوج یکدم ملک سے انخلا کرے گی تو ملک پھر سے خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے،خاص طور پر ایسے وقت میں جب اس کے ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے کا مستقبل اس خطے کے استحکام سے وابستہ ہو۔ اس مسئلہ کاحل چین کے پاس یہ ہے کہ سفارتی سطح پر اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کا کام تیز تر کیا جائے اور اس کام کے لیے وہ شنگھائی تعاون تنظیم کا استعمال کر رہا ہے۔

ماحصل:

افغانستان کی تعمیر نو کے لیے ملک کے تمام حلقے چاہے وہ مذاکرات میں شامل ہیں یا نہیں، ان کی جانب سے بے مثال یکجہتی اورتعاون درکار ہو گا۔ جلد بازی میں کیا گیا کوئی بھی معاہدہ، جس کے نتیجے میں مستقبل کی منصوبہ بندی کیے بنا ہی غیر ملکی افواج ملک سے نکل جائیں، ملک کو ایک بار پھر داخلی انتشار کی طرف دھکیل دے گا۔

غیر ملکی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ افغان مسائل کا اپنے مفادات پر مبنی حل تھوپنے کے بجائے افغان عوام کو اختیار دیں کہ وہ اپنے لیے بہتر حکومتی نظام کا انتخاب کریں۔کسی بھی ممکنہ حکومت کے قیام کے وقت یہ بات پیش نظر رہنی چاہے کہ وہ حکومت سب کی نمائندہ ہو اور سب کے لیے ہو۔کسی بھی گروہ کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ایک اور خانہ جنگی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

افغانستان کی تعمیر نو، اس کے عوام کی مرضی اور سلامتی کے عوض نہیں کی جانی چاہیے۔ افغان عوام نے گزشتہ چالیس برس خانہ جنگی اور بیرونی مداخلتوں کا سامنا کیا ہے۔ اس لیے کسی بھی قسم کے ’’امن عمل‘‘ اور’’معاہدے‘‘ کے وقت عوام کے تحفظات اور خدشات کو مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔

“The future of peace in Afghanistan is rooted in lessons from the past”. (“efsas.org”. May 2019)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*