ال مغرب کے لیے مشرق وسطیٰ صدیوں سے ایک بڑا معمہ ہے جسے حل کرنے کی کوشش میں وہ مصروف رہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹر رابن رائٹ نے مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں تیس سال گزارے ہیں۔ اپنے مشاہدات اور خیالات کو انہوں نے ’’ڈریم اینڈ شیڈوز‘‘ میں قلمبند کیا ہے۔ یہ ایک منفرد کتاب ہے۔ زیر نظر مضمون اسی کتاب کے اقتباسات پر مشتمل ہے۔ رابن رائٹ نے سات مختلف زاویوں سے مشرق وسطیٰ کا جائزہ لیا ہے۔
پہلا زاویہ
میں نے مشرق وسطیٰ میں پہلی بار ۶ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو قدم رکھا۔ پہلی منزل بیروت تھی۔ انہی دنوں میں مشرق وسطیٰ کی چوتھی جنگ شروع ہوئی تھی۔ عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کردیا تھا۔ ایک امریکی سیاح نے سرگوشی کی ’’مصر کی افواج نے نہر سوئز عبور کرلی ہے۔‘‘
اس زمانے میں خام تیل کی قیمت ۳ ڈالر ۱۲ سینٹ فی بیرل تھی۔ تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستوں میں بھی پس ماندگی پر قابو نہیں پایا جاسکا تھا۔ معیار زندگی خاصا پست تھا۔ سعودی عرب میں لڑکیوں کے اسکولوں کی ابتدا ہوئے صرف ۹ سال گزرے تھے اور سات سال قبل ہی ملک کا واحد ٹی وی چینل آن ایئر ہوا تھا۔ دونوں معاملات کو علما کی شدید مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
۱۹۷۳ء میں ایران کو امریکی سفارت کاری میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ ۴۰ہزار سے زائد امریکی فوجی افسران، سرکاری مشیر، کاروباری شخصیات، امن کے لیے کام کرنے والے رضاکار، امدادی کارکن اور سیاح ہر سال ایران جاتے تھے۔ ایران میں امریکی انٹیلی جینس سسٹم بھی خاصا سرگرم تھا۔ عرب دنیا پر نظر رکھنے کے معاملے میں ایران کی جانب سے امریکا کو غیرمعمولی مدد حاصل ہوا کرتی تھی۔ ایرانی ایجنٹوں کی تربیت بھی امریکی حکام ہی کیا کرتے تھے۔ ۱۹۷۳ء میں ایران کے دورے میں میرا قیام تہران کے ہلٹن ہوٹل میں تھا جس میں کچھ دن قبل ہی مس ایران کے مقابلے میں حصہ لینے والی حسینائوں نے قیام کیا تھا۔
لبنان کی حیثیت پلے گرائونڈ کی سی تھی۔ اس شہر میں نائٹ کلبس اور جوئے خانے تھے۔ لبنان کے ساحلوں پر ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی بھیڑ رہتی تھی۔ بغداد میں بعث پارٹی کی حکومت اُبھر رہی تھی۔ ایران کے ساتھ ساتھ عراق سے بھی امریکا کے تعلقات خوشگوار تھے۔
دوسرا زاویہ
۱۹۸۱ء میں مجھے لیبیا کے دورے میں مالی امداد کے حصول کے لیے یاسر عرفات کی سرگرمیوں کی کوریج کا موقع ملا۔ لیبیا کے حکمران کرنل معمر قذافی نے یاسر عرفات کے ہمراہ ٹریپولی میں ایک بڑے جنرل اسٹور کا افتتاح کیا جو فرانس کی فیشن ایبل اشیا، جرمن کھلونوں، اطالوی برقی آلات اور جاپانی مصنوعات سے بھرا ہوا تھا۔ بعد میں ایک شاندار عمارت کی چھت پر دونوں نے مل کر عبادت کی اور کھجوروں اور بکری کے دودھ پر مشتمل ناشتہ کیا۔ اس کے بعد تحائف کا تبادلہ ہوا۔ یاسر عرفات نے قذافی کو اونٹوں کا دلکش کجاوہ دیا اور قذافی نے انہیں جدید ترین سوٹ کیس دیے۔
یاسر عرفات کے ایک معاون نے بتایا کہ قذافی سے ہمیں امداد کے حوالے سے خاصی توقعات تھیں۔ انہوں نے لاکھوں ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا مگر ایک سینٹ بھی نہیں دیا۔ دو عشروں کے بعد یہی معاملہ عراق کا تھا۔ عرب دنیا نے عراق کی تعمیر نو کے لیے اربوں ڈالر دینے کا وعدہ کیا مگر عملی طور پر کچھ نہ کیا۔ عرب قائدین کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ عراق کا عدم استحکام پوری عرب دنیا کو متاثر کر رہا ہے مگر اس کے باوجود وہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
تیسرا زاویہ
’’کیا واقعی ایسا ہورہا ہے؟ عرب دنیا پر سے خزاں کا دور گزر چکا ہے اور بہار آرہی ہے؟‘‘ قاہرہ میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن سعدالدین ابراہیم نے مجھ سے پوچھا۔ وہ تین بار جیل جاچکا ہے اور جیل میں ڈھائے جانے والے مظالم کے باعث معذور ہوچکا ہے۔ اس کا کہنا ہے ’’ہمارا خطہ صحرائی ہے اور اس میں سراب عام ہیں۔ مگر اب حقیقی تبدیلی رونما ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔‘‘
سعدالدین ابراہیم کا استدلال تھا ’’عرب دنیا میں مطلق العنان حکمرانوں کے لیے اب کائونٹ ڈائون شروع ہوچکا ہے۔ اقتدار بچانے کے لیے وہ کچھ بھی کر گزریں گے۔ مگر اب ان کی دال گلنے والی نہیں۔ لوگوں میں خوف کی سطح گرچکی ہے۔ اب وہ زندگی کے بیشتر معاملات کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے دوران مشرق یورپ کے لوگوں نے خود کو تبدیلی کے لیے تیار کیا تھا۔ یہی حال اب عرب دنیا کے لوگوں کا ہے۔ ۱۹۷۰ء میں یہی کیفیت لاطینی امریکا کے لوگوں کی تھی۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے۔ اب ہمارا لمحہ آچکا ہے۔‘‘
سعد الدین ابراہیم خواہشات اور توقعات کی دنیا میں رہتا ہے۔ اس نے جو کچھ سوچا تھا وہ سب نہ ہوسکا۔ عرب دنیا میں موسم بہار ۲۰۰۵ء میں شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ختم بھی ہوگیا۔ مشرقی یورپ میں دیوارِ برلن کا گرنا انقلاب کی نوید تھا مگر عرب دنیا میں کوئی بھی دیوار نہ گرائی جاسکی۔ تبدیلی کی کوئی بڑی لہر پیدا نہ کی جاسکی۔ مشرق وسطیٰ میں تبدیلی دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے کے مقابلے میں بڑا چیلنج ہے۔
چوتھا زاویہ
جمہوریت کی روح یہ ہے کہ اختلافات کو بیان اور قبول کیا جائے۔ جب لوگوں کو بولنے کا موقع دیا جاتا ہے تو ان میں حقیقی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ آمریت کے خلاف بولنے والے جب خود اقتدار میں ہوتے ہیں تو مختلف شکل کی آمریت قائم کر بیٹھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اقلیتوں کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ ایسے میں کھلی سیاست کبھی کبھی معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھادیتی ہے۔ عراق کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ جمہوریت متعارف کرائے جانے پر وہاں کئی نسلی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں کے لیے بقا کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
پانچواں زاویہ
تبدیلی کے ادوار میں ایک طرف تو وہ جمہوری کارکن ہیں جو ناتجربہ کاری کے باعث کمزور ہیں اور دوسری طرف وہ تجربہ کار اور مستحکم آٹو کریٹس ہیں جو اقتدار سے محرومی گوارا نہیں کرسکتے۔ اور ان کے ساتھ وہ اسلامی عناصر ہیں جو ہر معاملے کو رب کا مشن سمجھتے ہیں۔ ان کی پیروی کرنے والوں کی کمی نہیں۔ ایسی جنگ ابتدا ہی سے عدم مساوات پر مبنی ہوگی۔ کوئی بھی تبدیلی تیزی سے رونما نہیں ہوتی۔ جو حکومتیں جمہوریت کی ضرورت محسوس کرتی ہیں وہ بھی بتدریج کام کرتی ہیں تاکہ لوگ جمہوری عمل کو سمجھ سکیں۔ اردن کے سابق وزیر خارجہ مروان موشر نے کہا تھا ’’تبدیلی مستقبل کا معاملہ ہے۔ فنکاری یہ ہے کہ اسے موجودہ زمانے کے مطابق بنایا جائے۔‘‘
چھٹا زاویہ
۱۹۹۵ء میں شیخ حماد بن خلیفہ الثانی نے نوجوانی میں قطر کا اقتدار سنبھالا۔ انہوں نے اپنے والد کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ وہ خطے کے سب سے سخت گیر حکمرانوں میں سے تھے۔ اور قطر کا شمار ان معاشروں میں ہوتا تھا جو ہر اعتبار سے بند تھے۔ شیخ حماد بن خلیفہ الثانی نے اسرائیل کو قونصلیٹ کھولنے اور امریکا کو سینٹرل کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر قائم کرنے کی دعوت دی۔ عربی زبان کا پہلا مکمل ٹی وی نیوز چینل الجزیرہ بھی قطر ہی میں قائم کیا گیا۔ یہ تمام متنازع اقدامات تھے۔ مگر ہاں سیاسی سطح پر اس قدر تیز رفتار تبدیلیاں دکھائی نہیں دیں۔ شیخ حماد بن خلیفہ الثانی کا کہنا تھا ’’ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں۔ تبدیلیاں مرحلہ وار ہی آتی ہیں۔ معاشرے کو راتوں رات تبدیل کرنے سے صرف خرابیاں پیدا ہوں گی۔ ہم نے تبدیلی کے معاملے میں اعتدال کی راہ اپنائی ہے۔ ہر معاملہ منصوبہ بندی کا پابند ہے۔ تبدیلی اس رفتار سے واقع ہونی چاہئے جو ہمارے معاشرے کی رفتار سے ہم آہنگ ہو۔ قطر کا معاشرہ بھی ہزاروں سال کی تاریخ رکھتا ہے۔ ہم مذہبی روایات و اقدار سے کنارہ کش نہیں ہوسکتے۔‘‘
ساتواں زاویہ
مشرقِ وسطیٰ کسی ایک مقام یا ملک کا نام نہیں۔ وہاں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے کئی چہرے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کسی بھی دوسرے خطے کے مقابلے میں زیادہ جامد اور روایات کا پابند ہے۔ اس خطے کے لوگوں میں نسل، تاریخ، سیاسی نظام، معیشت اور مذہب کا فرق واضح ہے۔ یہ فرق صرف ممالک کے درمیان نہیں، بلکہ ایک ہی ملک کے مختلف طبقات کے درمیان بھی پایا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جس میں دو بر اعظم ملتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں جزیرہ نما عرب کے قبائلی معاشرے بھی شامل ہیں جن میں اسلام نے جنم لیا۔ اس میں بیروت جیسا جدید بین الاقوامی اور دمشق جیسا قدیم شہر بھی شامل ہے۔ مشرق وسطیٰ میں فلسطینی بھی ہیں جنہوں نے نصف صدی پناہ گزین کیمپوں میں گزار دی ہے۔ اسی مشرقِ وسطیٰ میں خلیج فارس کے شہزادے بھی ہیں جنہوں نے تیل کی دولت سے عالی شان محل تعمیر کرائے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں بدو اور بربر بھی ہیں جو آج بھی خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرنا پسند کرتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں کرد بھی ہیں جو کسی ریاست کے بغیر زندگی بسر کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ کرد عرب نسل کے نہیں، مگر عراق، شام، ترکی اور ایران میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
{}{}{}
Leave a Reply