ترکی میں سال ۲۰۱۶ء کی ناکام بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں فوجی اہلکاروں اور شہریوں کے خلاف سیکڑوں مقدمات اپنے اختتامی مراحل میں ہیں۔ ترک حکومت نے بغاوت کا ماسٹر مائنڈ ایک عالم فتح اللہ گولن کو قرار دیتے ہوئے ان کی مذہبی تحریک حزمت موومنٹ کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ترک حکومت نے ۸۰۰ کمپنیوں، ۱۱۰۰؍اسکولوں، ۸۵۰ رہائشی تعلیمی اداروں کو بند کردیا تھا، جبکہ ۱۴۰۰؍ دیگر فلاحی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی اور۳۸ ہزار افراد کو جیل بھیج دیا گیا۔ پولیس، عدلیہ، تعلیم اور صحت کے محکموں سے ایک لاکھ افراد کو برطرف کردیا گیا، اس دوران تاجروں، بینکاروں اور صحافیوں کو بھی پکڑا گیا۔ دیگر اسلامی تحریکوں کی طرح گولن نے بھی فلاحی کاموں کے ذریعے ہی شہریوں کی حمایت حاصل کی، سال ۲۰۱۶ء کی بغاوت کے بعد حکومت کی قابل اعتماد معلومات کے مطابق فلاحی کاموں پر گولن تحریک کا کنٹرول قابل ذکر تھا۔
ہم نے ترکی کے ۹۰۰ اضلاع میں گولن تحریک کے اثر و رسوخ کااندازہ لگانے کے لیے ایردوان حکومت کے فراہم کردہ اعدادوشمار کا جائزہ لیا ہے، لیکن ہم ان فہرستوں میں موجود ہر تنظیم اور فرد کے گولن تحریک سے تعلق کی تصدیق نہیں کرسکے ہیں۔ بہرحال ہم ان اعدادوشمار کے ذریعے ترکی کے مختلف اضلاع میں گولن تحریک کے اثرات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے تعلیم، صحت، عبادت گاہوں کی تعمیر پر حکومت کی سرمایہ کاری کے اعداد و شمار، گولن تحریک کے علاوہ دیگر تنظیموں کی فنڈنگ، ترکی کی مردم شماری اور انتخابات سے متعلق اعداد وشمار بھی اکٹھے کیے ہیں۔ ہماری تحقیق کے مطابق گولن تحریک کی مختلف سماجی خدمات کے شعبوں میں موجودگی کچھ اس طرح ہے۔ ۵ء۱ فیصد سے لے کر ۳ء۱۱ فیصد تک سرکاری ملازم گولن تحریک سے متاثر ہیں۔ تعلیم کے شعبہ میں گولن تحریک کی موجودگی بہت زیادہ ہے۔ ترکی میں ۱۸ فیصد رہائشی تعلیمی ادارے اور ۱۱ فیصد نجی اسکول گولن تحریک کے ماتحت ہیں۔ گولن تحریک سے وابستہ تعلیمی اداروں نے زبردست ترقی کی اور ملک کو اعلیٰ کارکردگی کے حامل طلبہ فراہم کرنے کی شہرت حاصل کی۔ گولن تحریک نے بنیادی طور پر مذہبی اور سائنسی تعلیم ایک ساتھ فراہم کرنے پر زور دیا۔ یہ تعلیمی ادارے بڑی تعداد میں نوجوانوں کی وفاداری حاصل کرنے اور گولن کے نظریات کو فروغ دینے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ پولیس اور عدلیہ میں گولن تحریک کے اثرات سب سے زیادہ تھے، عدلیہ میں ۳۰ فیصد اور پولیس میں ۵۰ فیصد افسران گولن کے نظریات سے متاثر تھے۔ مشرقی اناتولیا اور ایجن کے علاقوں میں تحریک کے اثرات سب سے زیادہ دیکھے گئے۔
تحقیق سے قبل ہمارے لیے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ گولن تحریک نے زیادہ تر سماجی کام قدامت پسندوں کے علاقوں میں انجام دیے۔ اختلافات حکومت کو مضبوط نہیں کرتے بلکہ دوسروں کے لیے مواقع پیدا کرتے ہیں، جہاں بھی حکومتی خدمات میں کوئی کمی ہوتی گولن تحریک آگے بڑھ کر اس کمی کو پورا کردیتی، یہ سب کچھ کاروباری اشرافیہ کی مدد سے ہوتا، جو گولن تحریک کا ایک فعال حصہ تھی۔ اس بات کا مزید اندازہ جولائی ۲۰۱۶ء کی بغاوت سے قبل فتح اللہ گولن کے اقدامات سے کیاجاسکتا ہے، جب اس نے اپنی تحریک کے ابتدائی زمانے میں فری مارکیٹ اکانومی کی حمایت کی تاکہ اس کے ذریعے دولت کما کر سماجی تنظیموں پر خرچ کی جاسکے۔گولن تحریک نے مذہبی شناخت رکھتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے لیے جگہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا، ۸۰ کی دہائی میں ترکی کی جانب سے آزاد معاشی پالیسی اپنانے کے بعد کاروبار کو فروغ حاصل ہوا۔ محقق جبرائل پیپر نے گولن تحریک کے مذہبی تاجروں اور عیسائی دنیا میں پروٹیسٹنٹ کاروباری افراد کا تقابلی جائز ہ لیا ہے۔ ابتدائی طور پر گولن تحریک نے پہلے سے موجود مذہبی حلقوں کا استعمال کیااورکاروباری ذہن رکھنے والے مذہبی افراد کو اپنا تجارتی شراکت دار بنالیا، جس کے بدلے وہ توقع رکھتے تھے کہ یہ کاروباری افراد تحریک کے مقاصد پورے کرنے کے لیے فنڈ فراہم کریں گے۔ اس دوران یہ کاروباری ادارے تحریک کے ممکنہ ممبران کے اجلاس اور تقاریب کے لیے ادارہ جاتی ماحول فراہم کرتے رہے،ان کاروباری اداروں کو مکمل قانونی تحفظ حاصل تھا، جس کی وجہ سے گولن تحریک کے رہنماؤں کے لیے سماجی کاموں کے نام پر فنڈ کا حصول آسان ہوگیا۔گولن تحریک جیسی غیر جمہوری تنظیم کا بیورو کریسی اور سماجی خدمات کے شعبوں میں بے انتہا بااثر ہوجانا کسی بھی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے۔ سول سوسائٹی کی آزادی، کاروبار کو آسان بنانا اورشفاف انداز میں سرکاری نوکریوں کی فراہمی اچھی طرز حکومت کے لیے بہت ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی گولن تحریک جیسی غیر جمہوری تنظیم مذکورہ شعبوں پر کنٹرول حاصل نہ کرلے، ترکی کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اسے کئی بحرانوں کا سامنا ہے، جس میں معاشی بحران کرنسی لیرا کی بے قدری اور شام اور عراق میں جاری تنازعات کی وجہ سے ملک کو درپیش سیکورٹی خدشات شامل ہیں۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“The Geography of Gulenism in Turkey”. (“Foreign Policy”. MARCH 18, 2019)
Leave a Reply