فتح اللہ گولن نے سوچا کہ اب ایردوان کو چند جھٹکے دیے جانے چاہییں۔ ممکنہ طور پر انہی کی ایما پر بیورو کریسی میں موجود گولن نواز عناصر نے انٹیلی جنس کے سربراہ حکان فدان پر بدعنوانی کا الزام لگاکر ان کی گرفتاری کا وارنٹ نکلوایا۔ اس کے بعد ایردوان اور ان کے اہل خانہ پر بدعنوانی کا الزام عائد کرکے مواخذے کا مطالبہ کیا گیا۔ اور اس کے بعد ۱۷ دسمبر ۲۰۱۳ء کو حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی، جو یکسر ناکام رہی۔
لطیف ایردوان کہتے ہیں کہ فتح اللہ گولن نے ٹائمنگ کی غلطی کی اور اس کا انہیں افسوس بھی رہا۔ ایردوان نے عدلیہ، سول سروس اور سیکورٹی فورسز سے گولن کے معتقدین اور حامیوں کو نکالنا شروع کیا۔ ترک عوام کی واضح اکثریت نے گولن تحریک کو مسترد کردیا تھا۔ اب فتح اللہ گولن کے پاس مغلظات بکنے اور ایردوان کے خلاف جاکر اپنے مقاصد حاصل کرنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ انہوں نے ایردوان کو مغربی طرز کی جمہوریت اور جدید طرز زندگی کے لیے خطرہ قرار دینا شروع کردیا! انہوں نے ایردوان پر ملائیت والا حکومتی نظام لانے کا الزام بھی عائد کیا۔ مغرب کو یہ یقین دلانے کی بھرپور کوشش کی گئی کہ ترکی میں اس کے مفادات کا کوئی نگران اگر ہے تو وہ فتح اللہ گولن ہیں، جو معتقدین کے ساتھ مل کر جدیدیت کی مخالف حکومت کے خلاف بہت کچھ کرسکتے ہیں۔
فتح اللہ گولن نے ۲۵ جولائی ۲۰۱۶ء کو امریکا کے معروف اخبار نیو یارک ٹائمز کے ادارتی صفحے پر ایک مضمون میں لکھا : ’’مغرب کو اسلامی دنیا میں ایک واضح اعتدال پسند آواز کی ضرورت ہے۔ میں نے اور میرے ساتھیوں نے نائن الیون کے بعد القاعدہ اور دیگر جہادی گروپوں کے خلاف واضح اور سخت موقف اپنایا ہے۔ ایردوان نے حال ہی میں ہزاروں سرکاری ملازمین، پولیس اہلکاروں، ججوں اور اساتذہ کو فارغ کیا ہے۔ کردوں کے خلاف انتہائی غیر لچک دار کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ ایردوان نے اپنے خیالات سے اختلاف رکھنے والوں کو ریاست کا دشمن اور باغی قرار دینے کی روش پر سفر جاری رکھا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کو بچانے کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ امریکا ایک ایسے مطلق العنان حکمران کو برداشت نہ کرے، جو ایک ناکام بغاوت کو آئین کی حکمرانی کے خلاف سست رفتار بغاوت میں تبدیل کر رہا ہے‘‘۔
نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اس مضمون کے مندرجات پڑھنے کے بعد کسی کے ذہن میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ فتح اللہ گولن اور ان کے معتقدین مغرب سے جاملے ہیں۔
فتح اللہ گولن کیا چاہتے ہیں؟
فتح اللہ گولن اور ان کے معتقدین ترکی میں ایک ایسا حکومتی نظام چاہتے ہیں، جو لبرل اقدار کا حامل اور اسلام کی حقیقی تعلیمات اور دینی روح سے عاری ہو۔ خاکسار کولمبو میں گلین کے معتقدین کی طرف سے منعقد کیے جانے والے ایک ایسے پروگرام میں شریک ہوچکا ہے، جس میں افطار کے وقت اذان کے ساتھ ساتھ بدھ ازم، ہندو ازم اور عیسائیت کی تعلیمات پر مبنی ریکارڈ بھی بجایا گیا۔ ہم سری لنکا میں اقلیت کی حیثیت سے رہتے ہیں مگر اس کے بعد کسی بھی تقریب میں ہم نے مذہبی رسوم کا ایک ملغوبہ نہیں دیکھا۔ پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کولمبو کی اس تقریب میں اذان کے ساتھ دیگر مذاہب کی رسوم کا ادا کیا جانا فتح اللہ گولن کی اجازت اور حکم کے بغیر نہیں ہوا ہوگا۔ اس میں کیا شک ہے کہ اسلام رواداری کا درس دیتا ہے اور دیگر مذاہب کے لوگوں سے میل جول پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کرتا۔ مگر عبادات اور نمائندہ رسوم کا معاملہ مختلف ہے۔ یہ معاملہ غیر معمولی احتیاط کا طالب ہے۔ اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت اپنی شناخت کا قائم رکھنا بھی ہے۔ دیگر مذاہب کی تعلیمات کے ساتھ خلط ملط ہو جانا اسلامی تعلیمات کا منشاء نہیں۔ دیگر مذاہب کے لوگوں نے اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات اور رسوم کو رواداری کے نام پر اس قدر خلط ملط کردیا ہے کہ اب ان کے لیے اپنے اپنے مذہب کی اصل تعلیمات کو الگ سے شناخت کرنا اور اس شناخت کو برقرار رکھنا انتہائی دشوار اور بعض معاملات میں تو ناممکن ہوگیا ہے۔ اس معاملے میں سب سے واضح مثال دینِ الٰہی کی ہے۔ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے تمام مذاہب کی تعلیمات کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر ایک نیا مذہب ایجاد کرنے کی کوشش کی تھی۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ یہ سب کچھ رواداری کو فروغ دینے کے لیے ہے مگر نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اپنے اپنے مذہب کو بھی بھول گئے۔ تمام مذاہب کی تعلیمات لے کر ایک ایسا ملغوبہ تیار کیا گیا، جو کسی بھی اعتبار سے معقول یا قابل قبول نہ تھا۔
فتح اللہ گولن میں ہر ترک حکومت کے ساتھ مل کر چلنے کی صلاحیت تو بہرحال رہی ہے۔ انہوں نے کنعان ایورن اور سلیمان دیمرل کے ساتھ چل کر دکھایا۔ اور پھر ایردوان کے ساتھ بھی چلے۔ طریقہ یہ ہے کہ حکومت پر قبضہ کرنے یا اس میں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے مناسب موقع کا انتظار کیا جائے۔ اور جب موقع آئے تو کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے میں تساہل سے کام نہ لیا جائے۔ ۱۵؍جولائی ۲۰۱۶ء کو بھی یہی ہوا۔ خود کو امام کے منصب پر فائز سمجھنے والے فتح اللہ گولن یہ سمجھے کہ ایردوان کا تختہ الٹ کر تمام امور اپنے ہاتھ میں لینے کا وقت آگیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ تجرّد کی زندگی بسر کرنے اور بظاہر عیش و آرام سے دور، ایک کونے میں زندگی بسر کرنے والے فتح اللہ گولن کون سے دنیوی فوائد بٹورنا چاہتے ہیں۔ وہ عالم ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف بھی۔ ان کی ظاہری مصروفیت صرف یہ ہے کہ اپنے عقیدت مندوں کو مختلف امور پر مشوروں اور ہدایات سے نوازیں۔ کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ ایسے، بظاہر بے ضرر شخص نے، حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ تیار کیا ہوگا؟ اب ذرا ابن ملجم اور جہیمن کے کیس پر غور کیجیے۔ انہیں کس نے یہ بتایا کہ چوتھے خلیفۂ راشد کو شہید کرنا اور خانہ کعبہ پر متصرّف ہونا بالکل جائز ہے؟ یہ دونوں خوارج میں سے تھے۔ یہ بھی نمازی تھے، اللہ کی کتاب کے پڑھنے والے اور اس کے احکام کے ماننے والے تھے۔ پھر بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کو ان کے خلاف جہاد کرنا پڑا اور طاقت کے ذریعے انہیں کچلنے کی کوشش کی گئی جو بالکل درست تھی۔
اسلامی دنیا میں ایسے مسلک ابھرتے رہے ہیں، جنہوں نے تشدد کی راہ پر گامزن ہوئے بغیر اپنی بات کہی اور معتقدین پیدا کیے۔ سوال نیت اور ارادے کا ہے۔ کوئی بھی محض اپنے نیک ارادے کی بنیاد پر اللہ کے نیک بندوں میں شمار نہیں کیا جاتا بلکہ اسے عمل کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ بوکو حرام، داعش اور الشباب جیسی تنظیموں کے سربراہان جو سوچ اپنے معتقدین میں پیدا کرتے ہیں وہی سوچ بالآخر پورے گروپ کی سوچ کہلاتی ہے۔ اور سوچ کی بنیاد پر جو کچھ وہ کرتے ہیں وہی بالآخر حقیقی شناخت بن کر سامنے آتا ہے۔ اللہ کے نزدیک وہی قابل قبول ٹھہرتا ہے جو نیک ارادہ لے کر اٹھے، اس کے اعمال بھی جائز ہوں اور مقاصد بھی۔ (النساء :۱۱۴)
امام ابن رجب الحنبلی کہتے ہیں کہ اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے نام پر خیرات کی جائے یعنی لوگوں کی مدد کی جائے، ان سے اچھا سلوک روا رکھا جائے اور مفاہمت کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے زندگی بسر کی جائے۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ ایسا کرنے سے لوگوں کا بھلا ہوتا ہے۔ اللہ کے نزدیک ہر وہ عمل غیر معمولی پسندیدہ ہے جو بہبودِ عامہ کی روح لیے ہوئے ہو۔ یہی سبب ہے کہ اگر کوئی شخص اچھا عمل کرتا ہے تو وہ عمل خود اس کے لیے بھی اتنا ہی اچھا ہے، جتنا اس کے لیے جس کے لیے وہ عمل کیا گیا ہو۔ اور اگر کوئی شخص دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے عمل میں کوئی خفیہ مقصد رکھتا ہو تو پھر اس کا یہ عمل تضیعِ اوقات سمجھئے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے افکار و اعمال مجموعی طور پر اہل ایمان کے خلاف ہوں اور انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہوں تو پھر امت کا فرض ہے کہ اس کا قلع قمع کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہو اور شریعت میں دیے گئے اصولوں کے مطابق سخت ترین اقدامات کرے۔
گولن تحریک کے بنیادی اصول :
فتح اللہ گولن نے کبھی کھل کر نہیں کہا مگر ان کے معتقدین انہیں مہدیٔ موعود کا درجہ دیتے ہیں۔ جو کچھ وہ کہہ دیں اس پر عمل لازم ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے فتح اللہ گولن نے ہمیشہ خاموشی اختیار کی ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ معتقدین کو انہوں نے گرین سگنل دیا ہے کہ وہ اس راہ پر گامزن رہیں۔ ان کے بیشتر معتقدین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ (فتح اللہ گولن) ان کی شہ رگ سے بھی نزدیک ہیں۔ فتح اللہ گولن کا جاری کردہ کوئی بھی فتویٰ ان کے لیے حرفِ آخر کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں کسی کے لیے چوں، چرا کی کوئی گنجائش نہیں۔ گولن کے معتقدین خود نہیں سوچتے۔ انہوں نے سوچنے کا کام گولن پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ بس آنکھ بند کرکے چلتے چلے جارہے ہیں۔ گویا بھیڑ چال کا عالم طاری ہے۔
جرنلسٹس اینڈ رائٹر ایسوسی ایشن کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے سابق چیئرمین حسین گلرز اور روزنامہ زمان کے ڈائریکٹر جنرل نے ۲؍اگست ۲۰۱۶ء کو روزنامہ صباح سے انٹرویو میں کہا تھا کہ معتقدین کے لیے تو فتح اللہ گولن نبی کی طرح محترم ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کا عقیدہ یہ ہے کہ گولن ہر جمعرات کو نبیٔ اکرمؐ سے کلام کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ فتح اللہ گولن کہتے ہیں وہ دراصل نبیٔ اکرمؐ کے الفاظ ہیں! گولن کے معتقدین عطیات بھی اس تصور کے ساتھ جمع کرتے ہیں کہ ان کے اس عمل کے نگران نبیٔ اکرمؐ ہیں۔
ترکی میں کم و بیش ۹ عشروں سے بنیادی دینی تعلیمات اس کی روح کے ساتھ دیے جانے کا عمل منقطع ہے۔ کئی نسلیں اسلامی تعلیمات سے یکسر محروم رہی ہیں۔ ایسے میں اگر گولن کے حامی بھی اسلامی تعلیمات اور ان کی روح سے بے بہرہ ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات کیل کی طرح ٹھونک دی گئی ہے کہ جو کچھ فتح اللہ گولن کہتے ہیں وہ مکمل طور پر درست ہے اور اس میں شک کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں۔ اگر وہ اپنے بعض معتقدین کے فراہم کردہ سرکاری راز افشا کرتے ہیں یا خفیہ معلومات کی روشنی میں ماضی کے کسی واقعے کی تشریح اور پھر کوئی پیش گوئی کرتے ہیں تو ان کے چاہنے والے سمجھتے ہیں کہ ان میں ما فوق الفطرت صلاحیتیں اور قوتیں پائی جاتی ہیں۔
اعلیٰ سطح کے بہت سے سول اور ملٹری افسران نے (جو ماسٹر اور پی ایچ ڈی کیے ہوئے ہیں) اپنی شہادتوں میں تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے دینی معاملات میں سوچنا چھوڑ دیا ہے اور جو کچھ بھی فتح اللہ گولن نے کہہ دیا ہے اسی کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔ یہ اسلام کی روح کے سراسر منافی ہے۔ اسلام واضح طور پر ہدایت کرتا ہے کہ انسان کو دینی معاملات میں غور کرنا چاہیے، بالخصوص توحید کے بارے میں۔ اس حوالے سے قرآن مجید میں واضح ہدایات اور احکام موجود ہیں۔ سورۃ البقرۃ میں درج ہے کس طور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مردہ کو دوبارہ زندہ کرنے کے بارے میں جاننا چاہا اور پھر اللہ نے انہیں اپنی قدرتِ کاملہ کا نمونہ دکھایا۔
قرآن مجید میں اللہ نے ہم سے یعنی تمام اہل ایمان سے کہا ہے کہ وہ دینی تعلیمات کو، اللہ کے فرمان کو سنتے ہی محض قبول نہ کریں بلکہ اس پر غور بھی کریں، اس کی حکمت کی گہرائی کا اندازہ بھی لگائیں تاکہ اس پر عمل کرتے وقت ذہن میں کسی نوع کا کوئی شک یا تذبذب نہ رہے اور عمل اپنی روح کے ساتھ انجام کو پہنچے۔ سورۃ الفرقان میں بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ اہل ایمان کے سامنے جب اللہ کی آیات پیش کی جاتی ہیں تو وہ گونگوں اور بہروں کی طرح قبول نہیں کرلیتے بلکہ غور کرتے ہیں اور خوب سوچ سمجھ کر، ہر بات کی حکمت کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اس پر اعتقاد و عمل کی منزل سے گزرتے ہیں۔
فتح اللہ گولن کے معتقدین کی مثال اُن لوگوں کی سی ہے، جو بت پرستی میں مبتلا ہیں۔ بت کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ پتھر کی مورت کو پوجنا ان کے لیے یکسر بے معنی ہے۔ یہ مورت سن سکتی ہے نہ جواب دے سکتی ہے۔ اور انہیں کسی مشکل سے بچانے کے لیے کچھ کر بھی نہیں سکتی۔ بت پرستی انسان کی سوچ اور مزاج میں عجیب و غریب تبدیلیاں پیدا کرتی ہے۔ ہندوؤں کے نزدیک چونکہ خالق یا رب کا ظہور ہر مخلوق میں ہے اس لیے ہر مخلوق محترم ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج بھی بھارت میں بہت سے راسخ العقیدہ ہندو گائے کا پیشاب پیتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کی رُو سے کسی بھی ایسی شخصیت سے عقیدت رکھنا اور اس سے وفاداری کا حلف اٹھانا درست نہیں جو ریاست کے خلاف جاکر کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ فتح اللہ گولن کی مہربانی سے ترک ریاست کے بہت سے اہم راز دشمنوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔
استنبول سیہر یونیورسٹی کے کہرامن سُکل نے ۲؍اگست ۲۰۱۶ء کو ایل مانیٹر ویب پورٹل پر لکھا : ’’کسی بھی خفیہ نیٹ ورک سے جڑے ہوئے تمام لوگوں کو خفیہ طریقے سے ملنے والے احکام پر عمل کرنا ہی ہوتا ہے۔ گلین سے عقیدت رکھنے والے باوردی افسران اور سویلین حکام کو اپنے جیسے نظریات رکھنے والے دوسرے افراد کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا۔ فورسز میں کام کرنے والوں کو سویلین ’’بڑے بھائیوں‘‘ کی طرف سے جو ہدایات ملتی تھیں ان پر عمل کیا جاتا تھا۔ وزیراعظم کے پرائیویٹ سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے محمد اُسلو کی گواہی اس حوالے سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ وہ ٹرکش چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل اکار کے ذاتی معاون لیفٹیننٹ کرنل لیونٹ ترکان کا ’’بڑا بھائی‘‘ بھی تھا۔ ہمارے لیے یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ محمد اُسلو کو چیف آف جنرل اسٹاف کے آفس کی یومیہ ریکارڈنگ ملتی تھی اور یہ ریکارڈنگ وہ ایک ایسے شخص کو دے دیا کرتا تھا، جسے وہ جانتا تک نہ تھا۔
کسی بھی خفیہ نیٹ ورک میں کسی بھی دوسری بات سے بڑھ کر یہ بات ہوتی ہے کہ جو حکم دیا جارہا ہے اسے قبول کرتے ہوئے اس کے مطابق عمل بھی کیا جائے۔ کسی بھی حکم کے بارے میں کسی سوال کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جو کچھ بھی ہدایات یا احکام کی شکل میں دیا جاتا ہے وہ بس آگے بڑھانا ہوتا ہے اور اس پر عمل لازم ہوتا ہے۔ رازداری شرطِ اول ہے۔ یہی سبب ہے کہ خفیہ نیٹ ورکس میں بہت سے لوگ ایک دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے یا زیادہ نہیں جانتے۔ ریاست سے وفاداری کا عہد اسی وقت توڑا جاسکتا ہے جب وہ مستقل بنیاد پر خرابیوں کی طرف مائل ہو اور اللہ کی طے کردہ حدود کو چھوڑ کر اپنی مرضی کے مطابق معاملات چلانا چاہتی ہو۔ مگر یہ سب بھی کوئی انفرادی سطح پر طے نہیں کرے گا بلکہ واقعات و حقائق کا حقیقی علم رکھنے والے ماہرین اور علمائے کرام یعنی الرائے مل بیٹھ کر بحث و تمحیص کے بعد کسی نتیجے تک پہنچیں گے۔ ریاست سے وفاداری کی شرائط اور متعلقہ امور پر بہت سے جیّد علماء نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ان میں علامہ یوسف القرضاوی نمایاں ہیں۔ ان کی تحریروں سے استفادہ کرکے اس موضوع پر بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔
گولن تحریک ریاست سے عدم وفاداری کے اصول پر قائم ہے اور یہ بات اسلام کی بنیادی تعلیمات کے یکسر منافی ہے۔ کسی بھی شخص کی تعلیمات کو قبول کرنا اور اس سے وفاداری کا عہد نبھانا کسی بھی طور بری بات نہیں اگر یہ سب کچھ ریاست کے خلاف نہ ہو۔
سورۃ انفال کی ستائیسویں آیت میں اللہ نے اہل ایمان کو تاکید کی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے کیے ہوئے عہد کو نبھاتے رہیں۔ اور ساتھ ہی ان تمام ذمہ داریوں کو بھی جو ایمان کا حامل ہونے کی صورت میں ان پر عائد ہوتی ہیں۔ اس آیت کی تشریح کے ذیل میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں کہ اللہ نے اہل ایمان کو ان تمام ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا ہے، جو ایمان لانے کے بعد ان پر عائد ہوتی ہیں۔ یہ ذمہ داریاں رازداری کی صورت میں بھی ہوسکتی ہیں اور کسی منظم جماعت کی طرف سے سونپے جانے والے فرائض پر مشتمل بھی ہوسکتی ہیں۔
امریکی قومی باسکٹ بال ایسوسی ایشن کے ترکی نژاد کھلاڑی اینیس کینٹر نے ۱۵ جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد کہا کہ وہ فتح اللہ گولن کے لیے جان بھی قربان کرنے کو تیار ہے۔ گولن تحریک سے وابستہ ہونے پر جب والدین نے اس سے قطع تعلق کرلیا تو اس نے اپنا نام تبدیل کرکے اس میں گولن کا اضافہ کرلیا۔ اس نوع کی عقیدت انسانی فطرت اور سرشت سے بالا نہیں۔ یہ عقیدت لازمی طور پر مذہبی رنگ لیے ہوئے نہیں ہوتی۔ ویت نام میں امریکی قابض افواج کے خلاف اور سری لنکا میں لڑنے والے تامل باغیوں کا یہی کیس ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جانباز جاپانی بم یا دھماکا خیز مواد جسم سے باندھ کر اتحادی جہازوں میں کود جاتے تھے۔ وہ اپنی جان دے کر دشمن کو نقصان پہنچاتے تھے۔ دنیا بھر میں چھاپہ مار یا رضا کار پائے جاتے ہیں، جو کسی بھی کاز کے لیے جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ لوگ لازمی طور پر مذہب کے لیے یہ سب کچھ نہیں کرتے۔ سوال برین واشنگ کا ہے۔ جب کسی انتہائی جذباتی انسان کو کسی بھی کاز کے لیے بھرپور توجہ سے تیار کیا جائے تو وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتا ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو کسی بھی متنازع یا غیر متنازع کاز کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ جان دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے میں اینیس کینٹر کی فتح اللہ گولن کے لیے غیر معمولی عقیدت کچھ حیرت انگیز نہیں۔
گولن جیسے لوگوں کے لیے ان معاشروں میں اپنی مرضی کے لوگ تیار کرنا آسان نہیں جہاں اسلامی تعلیمات گہری اور مضبوط جڑیں رکھتی ہیں اور مختلف مکاتب فکر کے ماننے والے بڑی تعداد میں ہیں اور ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کا احترام بھی کرتے ہیں۔
اہرامی ڈھانچا
فتح اللہ گولن نے بہت سے لوگ تیار تو کیے ہیں اور ان سے کام بھی لیا جارہا ہے تاہم اب بھی وہی مرکزی شخصیت ہیں، اور انہوں نے بیشتر معاملات اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں۔ اہرامی ڈھانچے کے تحت زیریں سطح پر تو بنیاد وسیع ہے تاہم بالائی سطح پر سب کچھ ایک شخصیت میں مرتکز ہوکر رہ گیا ہے۔ روزنامہ زمان ہی کی مثال لیجیے۔ اس اخبار میں نیچے سے اوپر تک سب ہی کچھ فتح اللہ گولن کے ہاتھ میں رہا ہے۔ معمولی خبروں سے شہ سرخی تک سبھی کچھ ان کی مرضی کے مطابق ہوتا آیا ہے۔ وہ امریکا میں ہیں مگر ترکی میں روزنامہ زمان کا پورا مواد ان کی مرضی سے طے ہوتا ہے۔
لطیف ایردوان نے الجزیرہ کو بتایا کہ دسمبر ۲۰۱۳ء اور جولائی ۲۰۱۶ء میں ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے حوالے سے سبھی کچھ فتح اللہ گولن کا طے کردہ تھا یعنی اسکرپٹ انہوں نے لکھا تھا۔ صرف عثمان سمسیک اور سیودیت توکویولو کو کسی حد تک معلوم ہو پاتا ہے کہ فتح اللہ گولن کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ اور کسی کو کچھ بھی خبر نہیں کہ گولن کب کیا کریں گے۔
گولن تحریک میں ’’امامی نظام‘‘ کا ڈھانچا یہ ہے کہ سب سے بڑا امام یونیورسل امام کہلاتا ہے۔ اس کے بعد کونٹینینٹ امام، کنٹری امام، گرانڈ ریجنل امام، پراونشل امام، ریجنل امام اور ہاؤس امام ہوتا ہے۔
۱۹۹۹ء کی ایک وڈیو کلپ میں فتح اللہ گولن کو اپنے معتقدین کو یہ ہدایت دیتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ نظام کا حصہ بن جاؤں، جس طور جسم کا حصہ نسیں اور رگیں ہوتی ہیں۔ اور یہ سب کچھ اتنی خاموشی سے ہونا چاہیے کہ کسی کو کچھ پتا نہ چلے۔ اس ایک بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گولن تحریک کی نوعیت کیا ہے اور فتح اللہ گولن دراصل چاہتے کیا ہیں۔ اگر کوئی تحریک اسلامی تعلیمات اور اصولوں کی بنیاد پر کام کر رہی ہے تو اس کا خفیہ رکھا جانا کیا مفہوم رکھتا ہے؟ یہی کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔
انسان خطا کا پتلا ہے۔ وہ تمام کام خود نہیں کرسکتا۔ جب تک موزوں رہنمائی میسر نہ ہو، وہ کوئی بھی ڈھنگ کا کام نہیں کرسکتا۔ مگر یہ بات فتح اللہ گولن کی سمجھ میں نہ آئی۔ انہوں نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے۔ تمام فیصلے خود کرنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ وہ غلطی پر غلطی کرتے گئے اور کوئی اس پوزیشن میں بھی نہ تھا کہ انہیں ٹوکتا۔ بین الاقوامی سطح پر چند اداروں کو کامیابی سے چلاکر گولن یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ کچھ بھی کر گزریں گے اور کوئی روکنے والا نہ ہوگا۔ سی آئی اے، ترک ریاست اور اپنے مغربی سرپرستوں کو دھوکا دینے کے بعد گولن اور ان کے ہم نوا خود سر ہوگئے اور انہوں نے چاہا کہ وہ سب کچھ کر گزریں جس کا وہ ارادہ کیے بیٹھے ہیں۔ چند معاملات میں مکمل کامیابی نصیب ہونے کی صورت میں گولن کے معتقدین یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ (گولن) مافوق الفطرت قوت رکھتے ہیں اور وہ جو بھی حکم دیں گے اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوگی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ گولن کے احکام کو وہ سوچے سمجھے بغیر قبول کرتے گئے اور ان پر عمل پیرا بھی رہے۔
یہ حد سے بڑھی ہوئی خوداعتمادی ہی تھی، جس نے ۱۵ جولائی ۲۰۱۶ء کو فتح اللہ گولن سے ایک غلط فیصلہ کروایا اور اس کے نتیجے میں ان کے خوابوں کی پوری سلطنت دھڑام سے زمین پر آ رہی۔
چانکیہ اور میکیاولی کی تعلیمات سے متاثر ہونے والے عمومی سطح پر ایسی ہی سوچ اپناتے ہیں۔ ان کے خیال میں غلط طریقوں سے کچھ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اور جب کچھ حاصل کر ہی لیا جائے تو نتیجے کی روشنی میں طریق کار کو درست قرار دینے پر بضد رہنے میں کوئی ہرج نہیں۔ یہ سب کچھ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والوں کے طریق سے بہت مختلف ہے۔ اللہ کو یہ بات پسند نہیں کہ کوئی بھی کام غلط اور ناجائز طریقے سے کیا جائے۔ اہل ایمان کے لیے لازم ہے کہ ہر معاملے میں اللہ کی رضا اور ہدایت کو سامنے رکھیں۔ اللہ نے انسان کو افکار و اعمالِ صالح کے لیے خلق کیا ہے۔ جو لوگ اللہ کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر شیطان کی بتائی ہوئی راہوں پر گامزن رہتے ہیں انہیں اللہ کی رضا اور حمایت حاصل نہیں ہوتی۔
اللہ نے انسان کو اس لیے خلق کیا ہے کہ وہ اپنے خالق کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ایک ایسا نظام وضع اور نافذ کرے جس کی کوکھ سے سب کی جائز بہبود جنم لیتی رہے۔ دنیوی فوائد کو سب کچھ گرداننے والوں کی بتائی ہوئی کسی بھی بات پر عمل کرکے اسلامی تعلیمات کو نافذ کرنے کی راہ ہموار نہیں کی جاسکتی۔ اسلامی نظام محض دنیوی فوائد کا حصول یقینی بنانے کے لیے قائم نہیں کیا جاتا۔ اللہ کا نظام اللہ کی کتاب میں دی ہوئی ہدایات کی روشنی ہی میں قائم کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سے ہٹ کر بھی وہ اسلامی اطوار اپناسکتا ہے تو اس کی عقل کا ماتم کیا جانا چاہیے۔ چانکیہ اور میکیاولی جیسے دانشور کہتے ہیں کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے اسے کسی نہ کسی طور حاصل کرلینا ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی کہتے ہیں کہ ’’انجام ہی سے طریق کار درست ثابت ہوتا ہے‘‘ کا نظریہ اسلامی شریعہ کا نہیں ہوسکتا۔ اسلامی تعلیمات کی رُو سے نتائج اسی وقت اچھے ہوسکتے ہیں جب طریقے بھی درست اختیار کیے جائیں۔ کسی برے ذریعے سے کیا جانے والا کام برے ہی نتائج پیدا کرے گا۔ مادّہ پرست اس بات کو کس طور سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کی رُو سے تقیہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ تقیہ یہ ہے کہ انسان ہو کچھ اور دکھائی کچھ دے۔ اس سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ جملہ یاد رکھنے کا ہے کہ ’’اگر تم میں سے کوئی کسی مشرک کو دھوکا دے کر قریب بلائے اور جب وہ اُس پر بھروسا کرتے ہوئے قریب آئے اور قتل کردیا جائے تو میں اس طور دھوکے سے قتل کرنے والے کو قتل کردوں گا‘‘۔
فتح اللہ گولن اور ان کے ساتھی تقیہ سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے نظریات، عقائد اور طریق کار کو چھپاکر رکھا اور جب کبھی گنجائش پیدا ہوئی وہ کھل کر سامنے آئے اور وہ کچھ کرنے کی کوشش کی، جو ان کے ذہن میں پنپتا رہا ہے۔
اللہ نے سورۃ آل عمران میں تقیہ اختیار کرنے کی اجازت صرف اس حالت میں دی ہے کہ اپنی اصلیت چھپانے کی صورت میں جان کی سلامتی یقینی بنائی جاسکتی ہو۔ عام حالات میں مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ غیر مسلموں سے اتحاد پر اپنے اہل ایمان بھائیوں سے اتحاد کو ترجیح دیں۔ ابن کثیر اور دیگر کبار مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لیے غیر مسلموں کے درمیان اپنی شناخت چھپانے کی اجازت صرف اس صورت میں ہے کہ اس کی جان خطرے میں ہو۔ عام حالات میں اسے یہ بتانا چاہیے کہ وہ مسلم ہے اور اس کے خیالات یا عقائد کیا ہیں۔
اسلامی دنیا میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ شیطانی اطوار رکھنے والوں نے چند بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو ساتھ ملایا اور پورے کے پورے معاشرے کو تباہ کردیا۔ فری میسن اور دیگر خفیہ تنظیمیں چلانے والوں نے مسلم معاشروں میں بگاڑ پیدا کرنے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
القرطبی کی بھی یہی رائے ہے کہ جب تک جان جانے یا جسم کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ نہ ہو، کسی بھی مسلم کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی شناخت چھپائے۔
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں کہ حالات یکسر مخالف ہوں تو کسی بھی اہل ایمان کو اسلامی تعلیمات کی رُو سے اس امر کی اجازت ہے کہ وہ اپنی شناخت چھپائے اور اگر ضرورت محسوس ہو تو وہ واضح طور پر یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ وہ اہل ایمان میں سے نہیں ہے۔ اگر کسی غیر مسلم ماحول میں مسلم کا جان و مال محفوظ ہو تو وہ معاملات کو درست رکھنے کے لیے غیر مسلموں سے دوستانہ رویہ بھی رکھ سکتا ہے کہ یہ بنیادی معاشرتی ضرورت ہے۔
٭ جرنلسٹس اینڈ رائٹر فاؤنڈیشن کی طرف سے برطانوی پارلیمان کے ایک رکن کو ایک لاکھ پاؤنڈ سے بھی زائد رقم دی گئی تاکہ وہ گولن تحریک کے خلاف ایردوان حکومت کے کریک ڈاؤن کے بارے میں تحقیق کرے اور ترک حکومت پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کرنے کی بنیاد تیار کرسکے۔
٭ سینئر سرکاری افسران، کاروباری شخصیات، اداکار، صحافی، غیر سرکاری تنظیموں کے سربراہان و اہلکار اور دوسرے بہت سے لوگ جب تعاون سے انکار کرتے ہیں تو گولن تحریک کی طرف سے ان پر الزامات عائد کرنے اور انہیں بات بات پر مطعون کرنے کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔
٭ گولن تحریک سے وابستگی رکھنے والے پراسیکیوٹرز نے بہت سے فوجی افسران کے خلاف مقدمات دائر کیے اور پھر جعلی شواہد فراہم کرکے انہیں فارغ کرادیا۔
٭ گولن تحریک میں خفیہ طریقے سے کام کرنے کی بہت اہمیت ہے۔ رازداری ہر حال میں قائم رکھنے کا حلف بھی لیا جاتا ہے۔ خفیہ زبان اور اشاروں میں ابلاغ کا بھی طریقہ عام ہے۔ مختلف سیریل نمبر کے کرنسی نوٹ بھی استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ گولن تحریک کے وابستگان ایک دوسرے کو جان، پہچان سکیں۔
٭ حلف کی خلاف ورزی کرنے والوں سے بہت گندا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انہیں گولن تحریک سے نکالنے ہی پر معاملہ ختم نہیں کردیا جاتا، بلکہ مختلف طریقوں سے نفسیاتی اور معاشی ایذا رسانی کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
٭ گولن تحریک سے وابستہ افراد کو ہر حال میں نیٹ ورک سے جڑے رکھنے کے لیے انہیں بہت سی ترغیبات دی جاتی ہیں۔ ملازمتیں دلانے کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر بہت سی مراعات کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
فتح اللہ گولن معاشرتی انتشار پھیلانے سے جاسوسی اور غداری تک کے الزامات کے تحت ۵۵ سے زائد مقدمات میں مطلوب ہیں۔ ان پر اور ان کی تحریک سے جڑے ہوئے دوسرے بہت سے لوگوں پر انفرادی معلومات کو غیر قانونی طریقے سے محفوظ کرنے، سرکاری دستاویزات کی نقلیں تیار کرنے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ یہ تمام کام مختلف جرائم کے ارتکاب کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ان سب پر شواہد مٹانے اور منی لانڈرنگ کے بھی الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
گولن تحریک سے وابستہ افراد پر مختلف جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ ان میں ایک ترک نژاد امریکی صحافی ہرانت دنک کے قتل کا الزام بھی شامل ہے۔
یہ ہیں وہ حالات جن کا رجب طیب ایردوان کو سامنا ہے۔ ان کی صورت میں امت مسلمہ کو ایک بڑا رہنما ملا ہے۔ ہمیں مغربی مادّہ پرستی کا سامنا ہے۔ یہ بنیادی طور پر نظریاتی جنگ ہے۔ معاشی مفادات سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو ترکی کو مغرب سے نظریات کے محاذ پر شدید کشمکش کا سامنا ہے۔ گولن تحریک اگر اپنے ارادوں اور منصوبوں میں کامیاب ہوجائے تو ترکی میں اعتدال پسند اور اخلاقی اقدار کا احترام کرنے والے نظام کا خاتمہ یقینی ہوجائے گا۔ مغرب نظریاتی سطح پر کھوکھلا ہوچکا ہے۔ اگر وہ نظریات اور عقائد کے معاملات میں کھوکھلے اور بھربھرے پن کا شکار نہ ہوتا تو اسلامی تہذیب کے احیا کی کوششوں کا محض تشدد سے جواب نہ دیتا بلکہ دانش کی سطح پر آکر بات کرتا، دلائل سے اپنا کیس پیش کرتا اور پوری دنیا سے فیصلہ کرنے کو کہتا۔ مغربی طاقتوں کا ہر معاملے کو طاقت کے استعمال سے درست کرنے کا رویہ ہی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کے ہاں نظریات کی سطح پر اب کچھ بھی نہیں بچا۔ جب دلائل ختم ہو جاتے ہیں تب ہی تشدد کی راہ پر گامزن ہوا جاتا ہے۔
گولن تحریک مغربی طاقتوں کی پروردہ ہے۔ یہ تحریک چاہتی ہے کہ ترکی میں احیائے دین سے متعلق تمام کوششیں یکسر ناکامی سے دوچار ہوں۔ فتح اللہ گولن اور ان کے ساتھیوں کا ایجنڈا یہی ہے کہ نظام کی جڑ میں بیٹھ کر اپنی جڑیں مضبوط کی جائیں تاکہ نظام کی جڑیں زیادہ مضبوط نہ رہیں۔ اس اعتبار سے رجب طیب ایردوان کو بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ ترک قوم نے اب تک یہی ثابت کیا ہے کہ وہ گولن تحریک کو اپنا آئیڈیل نہیں سمجھتی۔ جولائی ۲۰۱۶ء میں ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی گولن تحریک کی کوشش کے ردعمل میں ترک قوم کا ریسپانس بہت اچھا اور حوصلہ افزا رہا ہے۔
(The Gulen Movement by Mohammad Asim Alavi)
Leave a Reply