بھارتی حکومت نے وزیراعظم نریندر مودی کی دوسری مدت کے لیے تقریب حلف برداری میں پڑوسی ممالک کی قیادت کو مدعو کرکے ’’سب سے پہلے پڑوس‘‘ کی پالیسی پر کاربند رہنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔مودی نے دوسری مدت کے لیے وزیراعظم بننے کے بعد سب سے پہلے مالدیپ اور سری لنکا کا دورہ کرکے پڑوس میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے، لیکن یہ سب کچھ ہر روایتی بھارتی وزیراعظم کرتا رہا ہے۔ وزیراعظم مودی کی پہلی اور دوسری تقریبِ حلف برداری میں فرق تھا، ۲۰۱۴ء میں مودی نے آٹھ رکنی سارک ممالک کی قیادت کو تقریبِ حلف برداری میں مدعو کیا تھا، جبکہ۲۰۱۹ء میں مودی نے خلیج بنگال کی سات رکنی تنظیم ’’بی آئی ایم ایس ٹی ای سی‘‘ کی قیادت کو تقریبِ حلف برداری میں مدعو کیا۔اس تنظیم میں سارک کے پانچ ممالک بنگلادیش، انڈیا، نیپال، بھوٹان، سری لنکا سمیت تھائی لینڈاور میانمار بھی شامل ہیں، اپنے جغرافیے کی وجہ سے پاکستان، افغانستان اور مالدیپ خلیج بنگال کی تنظیم میں شامل نہیں ہیں۔
سارک کاقیام
یہ اندازہ لگانا کہ خلیج بنگال کی تنظیم سارک کی جگہ لے گی یا مودی حکومت کا سارک کی قبر پرنئی تنظیم کی بنیاد رکھنا انتہائی غیرمنطقی ہوگا، یہ دونوں تنظیموں کے اصولوں سے انحراف بھی ہے۔ سارک تنظیم جنوبی ایشیا ئی ممالک کی قدرتی جغرافیائی شناخت، تاریخ اور اقوام کے ہم عمر ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں اقوام کے درمیان ثقافتی، لسانی اورمذہبی تعلق بھی موجود ہے،ان ممالک کے دریا اور موسم بھی ایک جیسے ہیں، جبکہ فلم، شاعری،مزاح، تفریح اور کھانے میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے۔اس کے نتیجے میں۱۹۸۵ء میں سارک چارٹر پر دستخط ہونے کے بعد سے تنظیم نے زراعت، تعلیم، صحت، ماحولیاتی تبدیلی، سائنس اور ٹیکنالوجی، ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں تعاون کے مشترکہ مقاصد وضع کیے، جس کے بعد ہر شعبے میں معمولی لیکن پائیدار ترقی دیکھی گئی۔ مثال کے طور پر جب ۲۰۱۰ء میں دہلی میں ساؤتھ ایشیا یونیورسٹی کا آغازہواتو۱۷۰ سیٹوں کے لیے۲۴۰ درخواستیں موصول ہوئیں۔سارک کی سب سے بڑی ناکامی سیاسی ہے، پاکستان بھارت کشیدگی کی وجہ سے تنظیم کے سربراہان مملکت ۳۴ برس میں محض۱۸بار ملے ہیں اور ایسی آخری ملاقات پانچ برس قبل کھٹمنڈو میں ہوئی تھی۔
دوسری جانب خلیج بنگال کی تنظیم کی کوئی مشترکہ قومی شناخت نہیں ہے، بس خلیج بنگال کے گرد واقع ممالک نے ۱۹۹۷ء میں ایک تنظیم بنالی، بھوٹان اور نیپال نے اس تنظیم میں ۲۰۰۴ء میں شمولیت اختیار کی، اس تنظیم کا کوئی سیکریٹریٹ ۲۰۱۴ء تک موجود نہیں تھا۔ ان ممالک نے کچھ تکنیکی شعبہ جات میں بہتر ی حاصل کی ہے، ۲۲ برس میں اس تنظیم کے محض چار سربراہی اجلاس ہوسکے ہیں۔ پاکستان بھارت کشیدگی کی وجہ سے خلیج بنگال کی تنظیم کے مزید مضبوط ہونے کا امکان ہے، لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر خلیج بنگال کی تنظیم سارک کا متبادل نہیں بن سکتی ہے۔خلیج بنگال کی تنظیم کے بنیادی اصول کے مطابق تنظیم کے ممبران کے درمیان تعاون ایک اضافی معاملہ ہوگا، جو دوطرفہ، علاقائی اور کثیرالملکی تعاون کا متبادل نہیں ہوگا۔ تنظیم خود کو جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان ایک پل قرار دیتی ہے۔ تنظیم کی دستاویزات کے مطابق تنظیم سارک اور آسیان کے درمیان علاقائی تعاون کا پلیٹ فارم ہے۔ مودی کی تقریب حلف برداری میں شریک سری لنکا کے صدر میتھر یپال سریسینا اور نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما کا اس بات پر زور دینا کہ خلیج بنگال کی تنظیم سارک کامتبال نہیں بن سکتی بہت اہم ہے۔
بھارت کا سارک کو بدنام کرنا
بھارت میں سارک کی شدید مخالفت کرنے کی کیا وضاحت دی جاتی ہے، بھارتی حکومت پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کو سب سے بڑی رکاوٹ قرا ر دیتی ہے۔ ۲۰۱۶ء میں ’’اڑی‘ میں بھارتی فوج پر حملے کے بعدوزیراعظم مودی نے اسلام آبادمیں ’’سارک سمٹ ‘‘ میں شرکت سے انکار کردیاتھا۔ بنگلا دیش اور بھوٹان نے بھی سارک سمٹ میں شرکت سے انکار کیا تھا، لیکن بھارت کا یہ اصولی موقف شنگھائی تعاون تنظیم جیسے دیگر عالمی فورمز کے لیے برقرار نہیں رہ پاتا۔ پاکستان اور بھارت نے۲۰۱۷ء میں شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت حاصل کی۔ سارک نے کبھی بھی اپنے رکن ممالک کے درمیان دوطرفہ تنازع حل کرنے کی بات نہیں کی ہے، اس کے برعکس شنگھائی تعاون تنظیم علاقائی سلامتی سے متعلق تنظیم ہے،جو خطے میں تنازعات حل کرنے کے لیے کام کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس کے ارکان مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرتے ہیں۔بھارت سارک میں سب سے بڑا ملک ہے،اس لیے جب بھارت سارک اجلاس میں شرکت سے انکار کرتا ہے تو مصالحت کرانا مشکل ہوجاتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی قیادت چین اور روس کررہے ہیں اور دونوں ممالک ہی پاک بھارت مذاکرات کے لیے کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ ’’بشکیک اجلاس ‘‘کے دوران روس اور چین ان کوششوں میں کتنا کامیاب ہوتے ہیں،بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم کے جون کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان اور مودی دونوں شرکت کررہے ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی ہر رکن ملک باری باری کرتا ہے،امکان ہے کہ اگلے سال بھارت یا پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کریں گے،یعنی مودی یاتو عمران خان کی میزبانی کریں گے یاپھرو ہی صورتحال ہوگی جس کی وجہ سے سارک اجلاس اسلام آباد میں نہیں ہوسکا۔سارک کو غیر فعال رکھنے کی ایک اور وجہ پاکستان کی جانب سے اہم منصوبوں کی مخالفت بیان کی جاتی ہے، جس میں خطے کو جوڑنے کا موٹر وہیکل معاہدہ، توانائی کے مشترکہ منصوبے اور مودی کی جانب سے پیش کردہ جنوبی ایشیا سیٹلائٹ جیسے منصوبے شا مل ہیں۔ لیکن اس طرح کے منصوبوں پر تو دیگر علاقائی تنظیموں میں بھی عمل نہیں ہوسکا۔بنگلادیش، بھوٹان، بھارت اور نیپال میں علاقے کو جوڑنے کے لیے موٹر وہیکل معاہدہ بھوٹان کی مخالفت کی وجہ سے نہیں ہوسکا،حالانکہ بھارت کئی برس سے توانائی کی ترسیل کے لیے سرحدی راہداری فراہم کررہا ہے، جس کے ذریعے بھوٹان اور نیپال آسانی کے ساتھ بجلی بنگلادیش جیسے دیگر ممالک کو فروخت کررہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کو جنوبی ایشیا میں آزاد تجارت کامعاہدہ نہ ہونے کا ذمہ دار قرار دینا اور بھارت کو تجارت کے لیے پسندیدہ قوم کادرجہ نہ دینے پر ناراضی کا اظہار درست ہے، پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے بھی پاکستان سے تجارت کے لیے پسندیدہ ملک ہونے کا درجہ واپس لے لیا۔بہرحال نئی دہلی کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ خطے میں معاشی شراکت داری کے لیے قائم آسیان جیسی تنظیم کو بھی آزاد تجارت کے معاہدے میں شدید رکاوٹ کا سامنا ہے، جب کہ خلیج بنگال کی تنظیم بھی کسی آزاد تجارت کے معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہی ہے۔آگے بڑھنے کا راستہ یہ ہے کہ سارک تنظیم بھی آسیان کی طرح ’’مائنس ایکس‘‘ فارمولا اپنا سکتی ہے، یعنی جو ملک آزادتجارت کے معاہدے پر متفق نہیں، اس کو بعد میں اس معاہدے میں شامل ہونے کا اختیار دیا جائے۔ جب کہ باقی جو ارکان ممالک تجارت اور ٹیکنالوجی میں تعاون کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔سارک کی مخالفت کا کچھ تعلق تنظیم کی تاریخ کے ساتھ بھی ہے۔بنگلا دیش کے سابق ’’بھارت مخالف‘‘ آمر ضیا الرحمان نے چھوٹے اور غیر ترقی یافتہ پڑوسی ممالک کوساتھ ملا کر بھارت کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ نوے کی دہائی میں جب بھارت خود کو خطے میں اقتصادی قائد اور ایشیائی طاقت کے طور پر دیکھنے لگا اور نئی دہلی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست دینے کا مطالبہ کیا توسارک تنظیم غیر متعلقہ فورم بن کر رہ گئی۔پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی نظریں بھی ہمیشہ مغربی ایشیا پر رہیں اورانہوں نے سارک سے کم ہی توقعات وابستہ کیں،کیوں کہ یہاں بھارت کا کردار سب سے بڑا تھا۔بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ بھارت کو سارک کی قیادت کرنے میں فائدہ نظر آنے لگا،تاکہ پڑوسی ممالک کو ساتھ ملا کر بھارت کی طاقت کو کئی گنا بڑھا یا جاسکے۔ بنگلادیش اور سری لنکا معاشی اور انسانی ترقی میں بھارت کو پیچھے چھوڑگئے ہیں، ان کے ساتھ شرکت داری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔
سارک کی بحالی
سارک کے لیے ابھی امکانات باقی ہیں،پورا خطہ چینی سرمایہ کاری اور قرضوں کے نشانے پر ہے۔ سارک ایک ایسا پلیٹ فارم بن سکتا ہے، جس سے پائیدار اور متبادل ترقی کا مطالبہ کیاجاسکتا ہے۔تجارتی ٹیرف کا مشترکہ مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور جنوبی ایشیا کے مزدوروں کے لیے دنیا بھر میں بہتر شرائط پر نوکری حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سارک اور جنوبی ایشیا کے لوگوں کو بغیر کسی رکاوٹ ترقی کی اجازت نہیں دی جاتی۔سارک کے امکانات کو ابھی تک پوری طرح بروئے کار نہیں لایا جاسکا ہے، جنوبی ایشیا میں دنیا کی آبادی کاایک چوتھائی حصہ رہائش پذیر ہے، جو اکٹھے ہوکر ہی اپنی منزل حاصل کرسکتاہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“The immediate neighbourhood”. (“thehindu.com”. June 5, 2019)
Leave a Reply