جب زمین ہلکے ہلکے ہلنا شروع ہوئی،غیر محسوس طریقے سے اس وقت ایک اچٹتی سی نگاہ بھی کسی انہونی کو محسوس کرنے کے لیے کافی تھی۔گھروں میں موجود الماریاں لرز رہی تھیں۔ ایک سیکنڈ، دو سیکنڈ اور پھر تین۔۔۔ سکوت گہرا سکوت جیسے ہر چیز رک گئی ہو، اس کے بعد ایک زور دار دھماکا زمین کو لرزا دینے والا دھماکا۔۔۔!
اس وقت پوری عمارت لرزنے لگی لیکن دھماکے کی آواز اس قدر زور دار تھی کہ جس کا بیان کرنا ممکن نہیں ہے، دھماکے سے ۱۰ کلو میٹر سے زیادہ فاصلے تک یہ آوازسنی گئی،لبنان کے دارالخلافہ سے اٹھتے ہوئے دھویں کو دیکھنے کے لیے لوگ گھروں کی کھڑکیوں پر جمع ہوگئے اور دھماکے سے کچھ فاصلے پر بھی لوگوں کا جم غفیر تھا۔ بیروت کے لوگوں کے مطابق ایسا خوفناک دھماکا زندگی میں پہلی بار ہوا۔
بیروت میں شمال کی طرف ہائی وے پر زیادہ ٹریفک کی وجہ سے ایمبولینسیں رینگ رہی تھیں، دھماکے کی جگہ کے ارد گرد گاڑیوں کا ایک جم غفیر تھا جو اپنے دوستوں،رشتہ داروں اور عزیزوں کو ڈھونڈنے اور محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لیے دھماکے کی سمت بڑھ رہا تھا۔جبکہ دوسری طرف گاڑیاں بہت تیزی سے دھماکے کی مخالف سمت جارہی تھیں تاکہ جلد از جلد وہ اس جگہ سے دور جاسکیں۔ اس رکے ہوئے ٹریفک میں ریڈیو چینل اور موبائل فون خوفناک خبریں دے رہے تھے کہ ہسپتال بھر چکے ہیں ہزاروں زخمی ہیں اور آگ بھڑکتی چلی جارہی ہے۔جو گاڑیاں بیروت کی طرف بڑھ رہی تھیں انہیں آرمی واپس مڑنے پر مجبور کررہی تھی یا وہ واپس جائیں یا گاڑیوں سے اتر کر پیدل اپنا سفر طے کریں۔
بیروت میں داخلی راستے سے کچھ پہلے ہی سڑک کے آخری کنارے پر ملبے کی شکل میں ہر طرف کانچ بکھرے ہوئے پڑے تھے، جو پیروں کے نیچے آرہے تھے ایک ٹریکٹر زور دار آواز کے ساتھ ملبہ صاف کررہا تھا۔ عمارتیں ناقابل شناخت ہوچکی تھیں کھڑکیاں ٹوٹ چکی تھیں صرف ان کے فریم لٹک رہے تھے، ہر طرف اندھیرے کا راج تھا۔کچھ لوگ اندھیرے میں نظر آرہے تھے کچھ زخمی چل رہے تھے اور کچھ زمین پر پڑے خاموشی سے خلاء میں گھور رہے تھے ہر طرف اندھیرا تھا۔۔ گھٹاٹوپ اندھیرا۔۔! یہ سب کچھ بندرگاہ پر آگ لگنے سے شروع ہوا، ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آگ کس وقت بھڑکی۔۔!
مقامی وقت کے مطابق شام ۵ بج کر ۵۴ منٹ پر لاس اینجلس ٹائم نے پہلی ٹوئیٹ کی، جس میں دھواں آسمان کی طرف جاتادکھائی دیا اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک کہ بعد ایک ویڈیو پوسٹ ہونا شروع ہوگئیں۔ یہ پہلا دھماکا تھا جس میں گہرا کالا دھواں ملبے کے ساتھ ہوا میں بلند ہوتادکھائی دیا۔ہر تھوڑی دیر بعد آگ کا شعلہ نمودار ہوتا نظر آتا جیسے فائر ورک یاایک کے بعد ایک ہوا میں پھٹتے ہوئے پٹاخے۔۔! پہلے دھماکے کے ۳۵ سیکنڈ بعد دوسرا دھماکا، بڑا اور خوفناک، گہرا سرخ یا براؤن دھویں کا ایک ستون سا اوپر کی جانب جاتا دکھائی دیا، جسے آسمانی رنگ کے دھویں نے گھیرا ہوا تھا۔ ہلاک ہونے والوں کی خاصی تعداد، ہزاروں زخمی، شہر کا مرکز تباہ ہوچکا تھا۔ اور اس کے وسط میں۳۰۰۰ ٹن امونیم نائیٹریٹ کا گودام تھا امونیم نائیٹریٹ دھماکے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
۲۰۱۴ء میں بیروت کے ساحل کی کھینچی گئی ایک تصویر میں ایک معمولی جہاز کے عرشے پر دو آدمیوں کو مسکراتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جن کے پیچھے بے ضرر نظر آنے والی سفید بوریوں کا ایک ڈھیر بھی پڑا ہے۔ یہ بوریاں ۳۰۰۰ ٹن کی غیرمعمولی طاقت رکھنے والے امونیم نائٹریٹ پر مشتل تھیں۔ اس تصویر میں نیلی شرٹ میں ملبوس آدمی ہاتھ میں موبائل پکڑ ے ہوئے ہے لیکن اس کی نظریں چاروں طرف گھوم رہی ہیں، کیمرے میں یہ ایک پراسرار اور چالاک شخص دکھتا ہے۔ کیپٹن بورس بروکوشیف Boris Prokoshev اور ان کا عملہ کئی مہینوں سے بندرگاہ میں پھنسے ہوئے تھے۔
MV Rhosus نامی کشتی ستمبر ۲۰۱۳ میں جارجیا کے شہر Batumi سے نکلی اوراس نے موزمبیق کے شہر بیرا کے ساحل پر قیام کیا۔یہ کشتی ۱۹۸۶ میں بنی اس کا زیادہ تر سفر بحیرہ روم میں ہی طے ہوا۔۲۰۱۳ میں سیئول کی بندر گاہ پر اس کا معائنہ کیا گیا اور ۱۴ جگہوں سے اس میں موجود نقائص کی نشاندہی کی گئی۔ اس کے عرشے پر جگہ جگہ زنگ لگ چکا تھا اور آگ بجھانے کا نظام بھی ناقص ہوچکا تھا۔
۲۰۱۲ء میں روسس کا احوال
مئی ۲۰۱۲ میں روسس کو ایک نیا مالک ملا جو کہ قبرص میں مقیم ایک روسی تاجر تھا Igor Grechushkin اس نے یہ کشتی خرید لی، کہا جاتاہے کہ یہ اس روسی تاجر کی پہلی کشتی تھی جو اس نے خریدی۔ Batumi میں سامان کو وصول کرنے کی دستاویزات اور سامان کی وصولی کو تسلیم کرنے کی رسیدیں موجود ہیں۔ فہرست میں Rustavi Azot LLC کا نام درج ہے جسے امونیم نائیٹریٹ فراہم کی جارہی ہے، اس کا صارف موزمبیق کا بین الاقوامی بینک ہے، یہ موزمبیق میں ایک چھوٹی فرم کے طور پر کام کرتا ہے، جس کا کام مہارت کے ساتھ تجارتی بنیادوں پر دھماکا خیز مواد یعنی امونیم نائیٹریٹ کی تیاری ہے۔
کیپٹن بورس نے روسس نامی کشتی پر ترکی میں کام شروع کیا، بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کام شروع کرتے ہی اس میں بڑے بڑے مسئلے نظر آنا شروع ہوگئے۔کشتی کے پرانے عملے نے فوراً کام چھوڑ دیا ان کا کہنا تھا کہ انہیں کافی مہینوں سے تنخواہ ادا نہیں کی گئی تھی۔بورس کے مطابق نئے عملے نے کام شروع کیا تو انہیں غذا اور دوسرا سامان سپلائر کوواپس کرنا پڑا کیونکہ کشتی کا مالک اس کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ بٹومی میں اس کشتی نے ۴ ہفتے گزارے، اس کے مالک نے مزید سامان کشتی میں لادنے کا ارادہ کیا تاکہ سوئزکینال کے راستے کا کرایہ ادا کیا جاسکے۔ Boris Prokoshev نے بی بی سی کو مزید تفصیلات بتائیں کہ مزید سامان میں سڑک تعمیر کرنے کے سامان کے ساتھ ساتھ لوہے کے بھاری رولر بھی شامل تھے۔کسی نے بھی سامان کے وزن کا حساب نہیں کیا جب سامان مشینوں کے ذریعے کشتی کے عرشے پر لادا جانے لگا توانہوں نے فوری طور پر سامان کو باندھنا شروع کردیا۔کیپٹن کے مطابق کشتی کے دروازے زنگ آلود تھے کیپٹن بورس نے کہا کہ ہم اس سامان کو نہیں لے جا سکتے، یہ سامان کشتی کو توڑ دے گا، کیپٹن کی بات پر توجہ نہیں دی گئی اور کشتی کو ایک خطرناک راستے سے بیروت کی طرف بھیجا گیا۔ کیپٹن نے اپنی کوششیں ترک کر دیں۔ نئے آنے والے عملے کو بھی تنخواہیں نہیں دی جارہی تھیں، عملے میں جب تنخواہ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پریشانی شروع ہوئی تو Boris Prokoshev نے قبرص میں موجود انتظامیہ کے دباؤ کے ذریعے کشتی کے مالک سے معاملات کا حل نکالنے کا سوچا لیکن جب اس نے کشتی پربیروت سے واپسی کا سفر شروع کرنا چاہا تو لبنا ن کی انتظامیہ نے اس معاملے میں مداخلت کی۔
للوڈی انٹیلی جنس ڈیٹا بیس کے مطابق کشتی ۴ فروری ۲۰۱۴ سے بیروت کے ساحل پر موجود تھی، ایک لاکھ ڈالر کی رقم اس کے مالک کے ذمہ واجب الادا تھی۔۔! عملے کے کچھ افراد کو اجازت دی گئی کہ وہ کشتی چھوڑ سکتے ہیں مگر کیپٹن اور چیف انجینئر کو کشتی چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی یہ سب کے سب یوکرائن کے باشندے تھے۔کیپٹن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’انہوں نے ہمیں کشتی چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گویا انہوں نے ہمیں یرغمال بنا لیا۔‘‘
Boris Prokoshev نے بتایا کہ اس نے مدد کے لیے روسی صدر کو ہر مہینے خط لکھے۔لبرٹی ریڈیو کو دیے گئے ایک انٹر ویو میں انہوں نے بتایا کہ انہیں روسی صدر کی جانب سے سخت جواب موصول ہوا۔جوابی خط میں ان سے پوچھا گیا کہ آخر وہ پیوٹن سے کیا چاہتے ہیں، کیا پیوٹن انہیں آزاد کروانے کے لیے کوئی اسپیشل فورس بھیجیں۔ انٹر نیشنل ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریشن نے عملے کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔آئی ٹی ایف کی انسپکٹر Olga Ananyina نے مارچ ۲۰۱۸ میں لکھا کہ عملے کے پاس کھانے پینے کا ضروری سامان بھی نہیں عملہ زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ Grechushkin کمپنی کے پاس ادائیگی کے لیے پیسے نہیں ہیں وہ عملے کی تنخواہیں بھی نہیں ادا کرسکتے ان کا خط ذمہ داروں کو خبردار کررہا تھا۔ انسپکٹر نے اس مسئلے کو مزید اجاگر کرتے ہوئے لکھا کہ عملے کی زندگیاں روسس میں خطرے میں ہیں، روسس میں موجود سامان خطرناک ہے یعنی اس میں امونیم نایٹریٹ موجود ہے۔بندرگاہ پر موجود انتظامیہ سامان کو اتارنے یا کسی اور کشتی پر ڈالنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی یہ صورتحال سمندری مسافروں کی مشکلات میں مزید ا ضافہ کردیتی ہیں۔ انسپکٹر نے صرف ایک بار ہی خبردار نہیں کیا بلکہ چار مہینے بعد ایک تجارتی ویب سائٹ ’’فلیٹ مون‘‘ پر شہہ سرخیوں میں ایک آرٹیکل بھی لکھا جس میں خطرے سے آگاہ کیا گیا تھا اس کا عنوان تھا ’’عملہ تیرتے ہوئے بم میں قید‘‘ اس آرٹیکل میں روسس اور اس میں موجود عملے کا المیہ بیان کیا گیا تھا۔
بندرگاہ کی انتظامیہ لاوارث کشتی کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چا ہتی تھی۔یہ کہا جاتا تھا کہ ’’پڑے رہنے دو خطرناک سامان سمیت‘‘۔ پرانی روسس صحیح حالت میں نہیں تھی،ہر روز اس بات کا اطمینان کیا جاتا کہ پانی کہیں کشتی کہ اندر تو نہیں آیا۔ Boris Prokoshev کے مطابق انہیں کشتی پر لدے سامان کی فکر تھی۔انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پانی سامان میں جا کر اسے خراب نہ کردے سامان خشک رہے۔اگر آپ کشتی میں رہ رہے ہوں تو اس کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے، آپ نہیں چاہتے کہ کشتی ڈوبے۔
کشتی کے عملے نے قانونی کارروائی کو مکمل کرنے کے لیے فیول کو بیچ کر رقم ادا کی، عدالتی کارروائی مکمل ہونے میں تین مہینے لگے۔لبنان کے وکلاء نے عملے کو رہا کروایا۔
Boris Prokoshev نے مزید بتایا کہ ہم نے تمام کمپاٹمنٹ بند کیے انہیں تالا لگایااور چابیاں بندر گاہ پر موجود امیگریشن کے حوالے کر دیں ’’آئی ٹی ڈبلیو ایف‘‘ کے مطابق Boris Prokoshev اور ان کے ساتھ عملے نے ستمبر ۲۰۱۴ میں بیروت چھوڑ دیاتھا۔ کشتی کے مالک نے عملے کے اڈیسا تک کے سفر کے اخراجات ادا کیے، کیپٹن کے مطابق اس ادائیگی کے بعد بھی کشتی کے مالک پر ۶۰،۰۰۰ ڈالر تنخواہ کی مد میں واجب لادا تھے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد شاید خطرناک دھماکا خیز موادکشتی سے ہٹا لیا گیا۔ Boris Prokoshev کے مطابق کشتی پانی میں کھڑے کھڑے بالآخر ڈوب گئی۔تجزیہ کاروں کے مطابق روسس دھماکے کی جگہ سے ایک میل سے بھی ایک تہائی کم فاصلے پر پانی میں تھی،انٹیلی جنس کے ریکارڈ کے مطابق کشتی پانی میں ساحل کے قریب ہی فروری ۲۰۱۸ میں ڈوب گئی تھی۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
(مترجم: سمیہ اختر)
“The inferno and the mystery ship”.(“bbc.uk”. August 8, 2020)