کرد بحران: پُرامن حل کی جانب پیش قدمی

یکم مئی ۱۹۲۰ء کو ترکی کی نوزائیدہ پارلیمنٹ میں مصطفی کمال اتاترک نے اعلان کیا کہ ملک کے شمال میں آباد کرد بھی دوسروں کی مانند ترک باشندے ہیں اور ان سے کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آٹھ عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران کردوں سے بدترین امتیاز برتا گیا ہے۔ ترکی کے ایک کروڑ ۴۰ لاکھ کردوں نے جب جب اپنی شناخت کا سوال اٹھایا ہے، انہیں کچلا گیا ہے، آبائی علاقوں سے نکال باہر کیا گیا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، قید و بند کی صعوبتیں دی گئی ہیں اور قتل کیا گیا ہے۔ اپنے وجود کو منوانے کے لیے کردوں نے پے در پے بغاوتیں کی ہیں۔ ان میں سب سے خونریز بغاوت کردستان ورکرز پارٹی کی جانب سے تھی جو ۱۹۸۴ء میں شروع کی گئی۔ ریاستی مشینری کی دہشت گردی میں اب تک کردستان ورکرز پارٹی کے ۴۰ ہزار سے زائد کارکن مارے گئے ہیں، حکومت کے اربوں ڈالر خرچ ہوئے ہوئے ہیں، بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے اور ملک میں حقیقی جمہوریت متعارف کرانے کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اب تک متعدد منتخب حکومتوں نے کرد مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے تاہم جرنیلوں نے ان کوششوں کی راہ میں دیواریں کھڑی کی ہیں۔ اب وزیر اعظم طیب اردگان کی قیادت میں اس مسئلے کے ایک پائیدار اور منصفانہ حل کی امید نمودار ہوئی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ طیب اردگان نے اس مسئلے کے حل کے لیے اپنے سیاسی کیریئر کو دائو پر لگادیا ہے۔

ماہ رواں کے اوائل میں پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے طیب اردگان نے شورش کے دوران جگر گوشوں سے محروم ہوجانے والی ترک اور کرد ماؤں کے دکھوں کا ذکر کرکے سامعین کو رُلا دیا تھا۔ ترک وزیر داخلہ بصیر اتالے سیاسی اور سماجی رہنمائوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ کرد مسئلے کے حل کے لیے اتفاق رائے حاصل کرسکیں۔ حکومت نے اس حوالے سے اب تک کوئی باضابطہ منصوبہ تیار نہیں کیا ہے۔ طیب اردگان نے کردستان ورکرز پارٹی کے سیاسی بازو کی حیثیت سے کام کرنے والی پارٹی ’’ڈیموکریٹک سوسائٹی‘‘ کو بہت پہلے مسترد کردیا تھا تاہم گزشتہ ماہ انہوں نے اپنی رائے بدلی اور ڈیموکریٹک سوسائٹی کے لیڈر احمد ترک سے ملاقات کی۔

کرد بحران کو حل کرنے کے لیے حکومت جو منصوبہ تیار کر رہی ہے اس میں ممکنہ طور پر کرد براڈ کاسٹنگ پر عائد پابندیاں نرم کرنا، کرد دیہاتوں کو اصل نام دوبارہ اختیار کرنے کی اجازت دینا، ملک بھر کی جامعات میں کرد زبان اور ادب سے متعلق شعبوں کا قیام اور محض نعرے لگانے یا پولیس پر پتھراؤ کے جرم میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ہزاروں کرد نوجوانوں کی رہائی کے علاوہ متعلقہ قوانین میں ترامیم بھی شامل ہیں۔ کردوں سے متعلق امور کے امریکی ماہر ہنری بارکی کہتے ہیں کہ اس مرتبہ ترک حکومت کرد بحران کو حل کرنے کے معاملے میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔

مفید اگایا کا تعلق سب سے بڑے کرد شہر بتمان سے ہے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں جب کرد بحران عروج پر تھا تب ان کا جواں سال بیٹا لاپتا ہوگیا تھا۔ اب انہیں امید ہے کہ ان کا بیٹا زندہ یا مردہ واپس ضرور ملے گا اور کرد بحران کسی نہ کسی شکل میں حل ضرور ہوگا۔

جس دور میں کرد بحران عروج پر تھا تب سیکیورٹی فورس کے بدمعاش عناصر نے غیر قانونی طور پر کرد باغیوں کو ہلاک کیا تھا۔ ان کے قتل عام سے متعلق شواہد اب منظر عام پر آرہے ہیں۔ کرد خطے کے حقیقی دارالحکومت دیاربکر میں کسی زمانے میں قیدیوں کو اپنا فضلہ کھانے پر مجبور کیا جاتا تھا! اس شہر میں اب کردوں کی جانب سے بینرز آویزاں ہیں جن پر کہا گیا ہے کہ وہ ایسی کوئی زبردستی کسی حال میں برداشت نہیں کریں گے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب اس نوعیت کے بینرز آویزاں کیے جانے پر افسران کو قید کا سامنا ہوسکتا تھا۔

طیب اردگان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ کردستان ورکر پارٹی کو اس کے اسیر لیڈر عبداللہ اوجلان سے مذاکرات سے قبل لڑائی روکنے پر آمادہ کرنا ہے۔ عبداللہ اوجلان آج بھی اپنی پارٹی کے علاوہ لاکھوں کردوں کے لیے حقیقی رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ترکی میں اپوزیشن کی متعدد جماعتوں نے طیب اردگان پر مبینہ بغاوت کا الزام عائد کیا ہے۔ ترک وزیر اعظم کے پاس بہترین آپشن یہ ہوگا کہ ڈیموکریٹک سوسائٹی کو فرنٹ پر رکھا جائے اور اسے اسی طرح استعمال کیا جائے جس طرح برطانوی حکومت نے شمالی آئر لینڈ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے آئرش ری پبلکن آرمی کے سیاسی ونگ شن فین کو استعمال کیا تھا۔ مشکل یہ ہے کہ عبداللہ اوجلان خطرناک حد تک انا پرست ہیں اور لائم لائٹ سے دور رہنا برداشت نہیں کرسکتے۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اب وہ امن کے حوالے سے اپنے روڈ میپ کا اعلان کریں گے۔ رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ ۴۵ فیصد ترک باشندے چاہتے ہیں کہ طیب اردگان کرد بحران حل کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کریں تاہم کردستان ورکر پارٹی سے کوئی بھی خفیہ ڈیل ترک وزیر اعظم کے لیے مشکلات پیدا کرے گی۔

ایک بات قدرے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کرد بحران کو حل کرنے کے معاملے میں اس مرتبہ حکومت کو فوج کی حمایت حاصل ہے۔ چیف آف جنرل اسٹاف الکر باسبغ قومی وحدت کو دائو پر لگانے اور آئین میں نسلی پہلو شامل کرنے کے حوالے سے تحفظات کا شکار رہے ہیں۔ کردستان ورکر پارٹی کے خلاف کریک ڈائون اور فوج میں بغاوت کی کوششوں سے متعلق خبروں کے منظر عام پر آنے سے جنرل باسبغ کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے۔ جن لوگوں نے کرد ڈیل کو ناکام بنانے کی کوشش کی ہے ان پر حکومت مخالف سازش مرتب کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ جنرل باسبغ کہتے رہے ہیں کہ کرد بحران کو فوج تنہا حل نہیں کرسکتی۔

عراق سے امریکی افواج کا انخلا بھی کرد علاقوں میں امن کے قیام کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ عراق میں امریکیوں نے عراقی کردوں کو سرپرست کی حیثیت سے ڈیل کیا تھا۔ اب عراقی کرد تحفظ کے لیے ترکی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس کے جواب میں وہ اپنے علاقوں میں سرگرم کردستان ورکر پارٹی کے ۳ سے ۵ ہزار ارکان کی سرگرمیوں کو محدود کرنے، انہیں غیر مسلح کرنے اور عام معافی کے تحت انہیں ترکی بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔

کرد بحران کو حل کرنا ترکی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ سوال صرف طیب اردگان کے سیاسی کیریئر کا نہیں بلکہ ترکی کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ نئی نسل کے غیر مطمئن اور انقلابی کرد ایک ایسی خونیں تحریک شروع کرسکتے ہیں جسے کنٹرول کرنا شاید کردستان ورکر پارٹی کے لیے بھی ممکن نہ ہو۔ دل کی ڈھارس بندھانے والا نکتہ یہ ہے کہ کرد بحران کے حل کی کوشش یورپی یونین کے دبائو کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ پودا ترک سرزمین پر اُگا ہے! اس کی کامیابی کی جس قدر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اسی قدر کردستان ورکر پارٹی اور اس کے اتحادیوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ دیارِبکر میں انسانی حقوق کے وکیل سیزگن تینریکولو کا کہنا ہے کہ طیب اردگان کامیابی سے آگے بڑھے تو کرد بڑے پیمانے پر ان کی حمایت کریں گے اور ایسی حالت میں کمال اتاترک کے الفاظ کھوکھلے محسوس نہیں ہوں گے۔

(بحوالہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۲۹ اگست ۲۰۰۹)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*