مارکیٹ کو آزاد کرنا
کمیونسٹ پارٹی دسمبر میں چین کو تبدیل کرکے رکھ دینے والی اصلاحات اور آزاد معیشت کی پالیسیوں کی۴۰ ویں سالگرہ منائے گی، چینی حکومت فتح مندی کا جشن منانے کے لیے پروپیگنڈے کا آغاز کرچکی ہے اور صدر شی قوم کی اس کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے کے لیے خود کو مرکزی رہنماکے طور پر پیش کررہے ہیں۔ ڈینگ کے بعد شی پارٹی کے طاقتور ترین رہنما بن کر ابھرے ہیں، لیکن انہوں نے ڈینگ کی وراثت کو لپیٹ دیا ہے، شی نے خود کو اہم ترین راستے سے الگ کردیا ہے، ڈینگ نے بیرون دنیا سے مدد اور مہارت حاصل کرنے کے لیے پارٹی کی حوصلہ افزائی کی تھی، لیکن شی نے خودانحصاری پر زور دیتے ہوئے غیر ملکی دشمن طاقتوں کے خطرے سے خبردار کیا ہے، دوسرے الفاظ میں وہ ڈینگ کی پالیسی معیشت کو آزاد کردو کا استعمال کم کرتے جارہے ہیں۔ ماضی میں پارٹی نے ترقی کرنے کے لیے جو سب سے بڑا خطرہ مول لیا تھا وہ غیر ملکی سوچ، سرمایہ کاری اور تجارت کو اپنانا تھا، اس وقت چین نے ایک غیر معمولی جوا کھیلا تھا، حالانکہ وہ شمالی کوریا کی طرح تنہا تھا، اس ترقی کے لیے چین نے غیر معمولی قیمت بھی ادا کی ہے، چین دنیا میں گلوبلائزیشن کی لہر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی کارخانے کے طور پر ابھرا، چین نے کچھ پابندیوں کے ساتھ انٹرنیٹ کو اپنالیا، جس نے اس کو ٹیکنالوجی کا لیڈر بننے میں مدد کی، غیر ملکیوں کے مشوروں سے چین نے اپنے بینک اور قانونی نظام کو ازسر نو تشکیل دیا اور جدید کاروباری کارپویشنز قائم کیں، لیکن آج کل پارٹی مختلف بیانیے کو ترجیح دے رہی ہے، بے پناہ اقتصادی ترقی کو چین کی مقامی آبادی اور قیادت کی کوششوں کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے، یہ مغالطہ چین کی ترقی کے گرد زبردست شکنجہ کس دے گا۔ پارٹی کی جانب سے امریکا اور جاپان کے خلاف شدید پروپیگنڈا معمول کا حصہ بن گیا ہے، حالانکہ امریکا اور جاپان چین کے سب سے بڑے تجارتی شراکت ہیں اور بیجنگ کو مہارت اور سرمایہ کاری کی فراہمی کا اہم ترین ذریعے بھی ہیں۔ حقیقی گیم چینجر ٹونی لین جیسے فیکٹری منیجر ہیں، جنہوں نے چین کا پہلا دورہ ۱۹۸۸ء میں کیا تھا۔ ٹونی لین تائیوان (خانہ جنگی کے دوران چین سے الگ ہونے والا علاقہ) میں پیدا ہوئے، ان کو اسکول میں پڑھایا گیا کہ چین تائیوان کا دشمن ملک ہے، تائیوان کے وسط میں موجود ٹونی کی جوتے بنانے کی فیکٹری ۸۰ کی دہائی کے آخر میں افرادی قوت کے شدید بحران کا شکار ہوگئی۔ ٹونی کے مال کے سب سے بڑے خریدار نائیکی نے انہیں پیداواری یونٹ چین منتقل کرنے کا مشورہ دیا، جس کے بعد ٹونی نے تمام خوف کو ایک طرف رکھتے ہوئے چین کا دورہ کیا، وہ بڑی تعداد میں پرعزم اور باصلاحیت افرادی قوت دیکھ کر حیران رہ گئے، بیجنگ کے حکام بھی سرمایہ کاری کے لیے بے قرار تھے، حکام جانتے تھے کہ کس طرح ریاستی کارخانے کو مفت استعمال کرنے اور پانچ سالہ ٹیکس چھوٹ کی پیشکش کرنی ہے۔ جس کے بعد ٹونی لین نے اگلی پوری دہائی جنوبی چین میں اپنا کاروبار کھڑا کرنے میں گزار دی، وہ مہینے میں ایک بار بیوی بچوں کی دیکھ بھال کے لیے واپس گھر جاتے، اس دوران انہوں نے جوتے بنانے کے پانچ کارخانے قائم کیے، جس میں نائیکی کو سپلائی دینے والی سب سے بڑی چینی کمپنی بھی شامل تھی۔ ٹونی کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت چین کی پالیسیاں بہت شاندار تھیں، یہاں پیسہ، ٹیکنالوجی سب کچھ موجود تھا، چین سرمایہ کاری کو پانی جذب کرنے والے فوم کی طرح جذب کر رہا تھا‘‘۔ ٹونی لین اس زبردست سرمایہ کاری کا حصہ تھے، جس نے چینی النسل علاقے ہانگ کانگ، تائیوان، سنگاپور اور مجموعی طور پر پورے چین کی ترقی میں شاندار کردار ادا کیا ہے، جس سے کئی ترقی پذیر ممالک کو بھی فائدہ ہوا۔ معاشی ماہرین کے مطابق بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری کے بغیر چین صرف انڈونیشیا اور میکسیکو جتنی ہی ترقی کرسکتا تھا۔ وقت چین کے ساتھ تھا، چین نے جب پالیسیاں تبدیل کیں تو تائیوان عالمی مینوفیکچرنگ کی صنعت میں انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کررہا تھا، چین کو تائیوان کے سرمائے، انتظامی تجربے، ٹیکنالوجی اور دنیا بھر میں موجود خریداروں کے ساتھ تعلقات کا زبردست فائدہ ہوا، تائیوان نے چین میں بھاری سرمایہ کاری کی اور اس کو عالمی معیشت سے جوڑ دیا۔ تائیوان کی حکومت طویل عرصے تک پرانے دشمن چین پر بہت زیادہ انحصار بڑھنے کی وجہ سے فکرمند رہی اور اس نے سرمایہ کاری دیگر ممالک میں منتقل کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن چین بہت سستا تھا، بہت قریب تھا، دونوں کی زبان اور ورثہ بھی ایک جیسا تھا اور بہت ساری چیزیں مشترک تھیں، ٹونی لین نے بھی تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور ویتنام میں کارخانے لگانے کی کوشش کی لیکن ان کو ہر بار چین واپس آنا پڑا۔
اب تائیوان کاطاقتور چین پر انحصار بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور اس پر واپس چین کا حصہ بننے کے لیے دباؤ اپنی انتہا پر جاپہنچا ہے، تائیوان کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے، تائیوان کی اس خطرناک صورتحال کی بازگشت دنیا بھر میں سنی جاسکتی ہے، لوگوں کا خیال ہے کہ تائیوان نے چین میں سرمایہ کاری کرنے میں بہت جلد بازی سے کام لیا۔ چین کے حوالے سے سب سے زیادہ پشیمانی امریکا میں پائی جاتی ہے، امریکا چین کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں لایا، چینی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار بنا اور اب واشنگٹن بیجنگ پر بڑے پیمانے پر ٹیکنالوجی کی چوری کا الزام بھی لگارہا ہے۔ ایک امریکی سرکاری اہلکار کے مطابق ’’چین کی جانب سے امریکی ٹیکنالوجی کی چوری تاریخ میں دولت کی سب سے بڑی منتقلی ہے‘‘۔ واشنگٹن میں بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ تجارت سیاسی تبدیلی لاتی ہے، لیکن چین میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تجارت پر پابندیوں کے خاتمے نے پارٹی کو کمزور کرنے کے بجائے مزید مضبوط بنا دیا، چین کی ترقی بڑے پیمانے پر برآمدات کا نتیجہ ہے، چین دنیا کے کارخانے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق چین کی برآمدات بڑھنے سے صرف امریکا میں بیس لاکھ نوکریاں ختم ہوئیں، جس کے نتیجے میں متاثرہ امریکی اضلاع نے صدر ٹرمپ کو ووٹ دیا۔
مخصوص دباؤ کا استعمال
بیجنگ کے وسط میں ایک اپارٹمنٹ کی پچاسویں منزل پر پرتکلف کھانے کے دوران چین کے سب سے کامیاب ریل اسٹیٹ ٹائیکون نے بتایا کہ انہوں نے تیانمن اسکوائر پر طلبہ کی زیر قیادت جمہوریت کے لیے احتجاج پر کریک ڈاؤن کے بعد کیوں سرکاری تحقیقی ادارے کی نوکری چھوڑ دی۔ وینٹون ہولڈنگ کے چیئرمین فینگ لون دنیا بھر میں اربوں ڈالر کی جائیداد کی خریدوفرخت کا کام کرتے ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ ’’ایک صبح میں اٹھا تو سب بھاگ رہے تھے، میں بھی بھاگ گیا، فوجیوں کی جانب سے گولی چلانے سے قبل میں اپنی پوری زندگی سول سروس میں گزارنے کا فیصلہ کرچکا تھا، پارٹی نے طلبہ سے ہمدردی رکھنے والوں کو نکال باہر کیا تھا، نوے کی دہائی میں فینگ نے تجارتی ادارے میں شمولیت اختیار کرلی، اس دوران چین کے سرکاری حکام نے بڑے پیمانے پر تجارتی اداروں میں شمولیت اختیار کی تھی۔ فینگ نے بتایا کہ ’’اگر اس وقت آپ نے ملاقات کرکے کاروبار میں آنے کی پیشکش کی ہوتی تو ہم کبھی آپ کے ساتھ نہیں آتے، یہ محض اتفاقی واقعہ تھا، یہ مارکیٹ اکانومی کے فروغ کے لیے بلا ارادہ بنایا گیا منصوبہ تھا، حکمت عملی بدلتے رہنا ہی پارٹی کی کامیابی کی وجہ تھی۔ ماؤ کی موت کے بعد ۱۹۸۹ء کی جمہوری جدوجہد سیاسی آزادی حاصل کرنے کی سب سے طاقتور تحریک تھی، لیکن کریک ڈاؤن نے راستہ تبدیل کردیا، ملک مزید جبر اور دباؤ کاشکار ہوگیا۔ قتل عام کے بعد معیشت کو سخت نقصان پہنچا، لیکن محض تین برس بعد ہی ڈینگ نے جنوبی چین کا دورہ کیا اور پارٹی کو دوبارہ سے اصلاحات اور مارکیٹ کھولنے کی پالیسی اپنانے کے لیے راضی کیا۔ فینگ کی طرح سرکاری نوکری چھوڑنے والے لوگوں کا کردار باہر رہتے ہوئے تبدیلی کی جدوجہد میں قوم کی رہنمائی کرنا تھا، یہ نجی تجارتی اداروں میں کام کرنے والی پہلی نسل تھی۔ اب صدر شی نے دوبارہ سے جبر کا راستہ اختیار کرلیا ہے، معاشرے کو دبایا جارہا ہے، صدر تمام طاقت اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اپنے لیے تمام عمر اقتدار کی راہ ہموار کررہے ہیں، وہ صدارتی مدت کا تعین کرنے والی شرائط ختم کررہے ہیں۔ کیا پارٹی ایک بار پھر لوگوں کو آزادی دے گی، جیسے تیانمن اسکوائر کے واقعہ کے کچھ برس بعد کیا گیا، یا اس بار جبر کا ماحول مسلسل قائم رہے گا، اگر ایسا ہوا تو چین کی حیران کن معاشی ترقی پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ خوف اس بات کا ہے کہ صدر شی چین کی ترقی سے متعلق نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کررہے ہیں، جبر کے ماحول کو مزید سخت کیا جارہا ہے۔ پارٹی نے ہمیشہ ہی ممکنہ مخالفین کو کچلنے میں بہت تیزی دکھائی ہے، پھر چاہے وہ نوآموز اپوزیشن جماعت ہو، کوئی مقبول روحانی تحریک ہو یا کوئی نوبل انعام یافتہ نقاد ہو، کسی کو بھی بخشا نہیں جاتا، مگر کچھ معاملوں میں استثنا بھی دیا گیا، لوگوں کو ذاتی زندگیوں کے حوالے سے آزادی دی گئی، تاکہ معاشی ترقی کا عمل جاری رہے۔ انٹرنیٹ ایک مثال ہے کہ پارٹی نے کس طرح سے جدید سہولت سے فائدہ اٹھایا، عوام کو محدود حد تک انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی، یعنی معاشی فائدہ تو اٹھایاگیا لیکن ساتھ ہی خطرے کا باعث بننے والی معلومات کی روک تھام کا انتظام بھی کرلیا، ۲۰۱۱ء میں مشرقی چین میں تیز رفتار ٹرین کے حادثے کے بعد پارٹی کے حادثے سے نمٹنے کے طریقہ کار کے حوالے سے عوام کی جانب سے سوشل میڈیا پر ۳۰ لاکھ سے زیادہ تنقیدی پیغامات بھیجے گئے، لیکن یہ پیغامات اسکرین پر نظر آنے سے قبل ہی سنسر کردیے گئے۔ یہاں تک کہ شدید پریشانی سے دوچار سرکاری حکام نے مقبول ترین چینی سوشل میڈیا سائٹ ویبو کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا، لیکن وہ عوام کے ردعمل سے سخت خوفزدہ تھے، آخر میں انہوں نے ویبو کو کھلے رہنے دیا لیکن ساتھ ہی سوشل میڈیا سائٹ پر کنٹرول بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری میں بہت زیادہ اضافہ کردیا اور کمپنیوں کو بھی کنٹرول بڑھانے کا حکم دیا گیا۔ اس پالیسی نے کام کر دکھایا، بہت سی کمپنیوں نے سنسر شپ کے کام کے لیے سیکڑوں ملازمین بھرتی کرلیے اور چین انٹرنیٹ کی عالمی دنیا میں بڑی طاقت بن کر ابھرا، آن لائن سنسر شپ کے لیے ادا کی گئی قیمت انٹرنیٹ سے پہنچنے والے فائدے کے مقابلے میں بہت معمولی تھی۔ انٹرنیٹ انڈسٹری کی بنیاد رکھنے والے چن ٹونگ کا کہنا ہے کہ ’’معاشی ترقی کے لیے ضروری معلومات ہم اب بھی حاصل کررہے ہیں‘‘۔
نیا دور
چین واحد ملک نہیں جس نے آمرانہ طرز حکومت پرقائم رہتے ہوئے فری مارکیٹ کی ضروریات کو اپنایا، لیکن چین طویل عرصے اور بڑے پیمانے پر اس نظام پر کاربند رہا، جس کے نتائج بھی بہت شاندار رہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین اس نظام کو برقرار رکھتے ہوئے امریکا کے شراکت دارکے بجائے دشمن کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ تجارتی جنگ تو صرف ایک آغاز ہے اور تجارتی جنگ ہی صرف وجہ تنازعہ نہیں، امریکا کے جنگی جہاز متنازع سمندری علاقوںمیں چینی دعوے کو چیلنج کرتے رہتے ہیں، چین کی جانب سے مسلسل فوجی اخراجات میں اضافے کے باوجود امریکی جنگی جہاز متنازع سمندری علاقے میں آمدورفت جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے ساتھ ہی واشنگٹن دنیا میں بڑھتے ہوئے چینی اثرات کا مقابلے کرنے کے لیے اقدامات بھی کررہا ہے، امریکا نے انتباہ جاری کیا ہے کہ عالمی انفرااسٹرکچر کے لیے آنے والی چینی سرمایہ کاری کے ساتھ کئی نقصانات بھی جڑے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ چین اور امریکا کسی سمجھوتے پر پہنچ جائیں، لیکن امریکا کے ہر طبقے میں چین کو متبادل عالمی نظام کے چیمپئن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ایک ایسا ملک جو آمرانہ رویے کو گلے لگائے ہوئے ہے اور ساتھ ہی غیر منصفانہ مقابلے کو فروغ دے رہا ہے، انتہائی حدتک بٹے ہوئے امریکا میں چین کے بارے میں غیر معمولی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
دوسری جانب صدر شی چن چینی قوم کی عظیم نشاۃ ثانیہ کے اپنے تصور سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں، صدر شی چن کے کچھ ساتھی ۲۰۰۸ء کے مالیاتی بحران کے بعد سے امریکا کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کو اپنے خدشات کا ثبوت سمجھتے ہیں، ان کے خیال میں امریکا مسلسل چین کو نیچا دکھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس دوران نئی نسل میں بھی بے چینی بڑھتی جارہی ہے، کیونکہ چینی طویل عرصے تک امریکا سے شدید متاثر رہے ہیں اور ان میں احساس بڑھ رہا ہے کہ پارٹی کسی مرحلے پر ناکام بھی ہوسکتی ہے۔ خوشحالی نے چین میں لوگوں کی توقعات کو بھی بڑھا دیا ہے، عوام معاشی ترقی کے علاوہ بھی بہت کچھ چاہتے ہیں، قوم صاف ہوا، محفوظ کھانا اور دوا، صحت اور تعلیم کی بہتر سہولیات، کرپشن میں کمی اور زیادہ مساوات کی خواہش مند ہے، پارٹی عوام کی توقعات پورا کرنے کی جدوجہد کررہی ہے، جس کے لیے حکام کی کارکردگی بڑھانے اور جانچنے کے لیے رپورٹ تیار کی جاتی ہے، ان رپورٹس کے مطابق حکام کی کارکردگی اہداف کو حاصل کرنے کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کا کہنا ہے کہ ’’بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ترقی کس کے لیے کی جائے، ہم اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے۔ ترقی کا عمل سست رفتار ہے، اس کے اثرات لمبے عرصے میں معیشت کی بہتری کی شکل میں سامنے آئیں گے، لیکن اس سے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے، پارٹی قوم کو درپیش چیلنجز پر بحث کو کنٹرول اور سنسر کرنے کے لیے پہلے سے بہت زیادہ خرچ کررہی ہے، چین کو بڑھتی ہوئی عدم مساوات، قرض کی خطرناک سطح اور عمر رسیدہ افراد کی بڑی تعداد جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ صدر شی چن خود تسلیم کرچکے ہیں کہ قوم نئے دور میں داخل ہوچکی ہے، جس کے لیے پارٹی کو بھی نئے طریقے اپنانا ہوں گے، لیکن ان کی پالیسی بھی ماضی کی طرح جبر کو مزید بڑھانا ہے، جس میں مسلم اقلیت کے خلاف وسیع پیمانے پر حراستی مراکز کا قیام بھی شامل ہے۔ چین نے آزاد معیشت کی پالیسی کوتبدیل کرتے ہوئے دیگر ممالک کو بھاری قرضے دینے شروع کردیے ہیں، نقادوں کا کہنا ہے کہ بھاری قرضوں کی آڑ میں چین دوسرے ممالک کی سیاست میں مداخلت کررہا ہے، ادھر گھر میں بھی پرانی سیاسی پالیسی پر قائم رہتے ہوئے نئی سوچ کے لیے راہیں بند کردی گئی ہیں۔ صدر شی چن کو بظاہر یقین ہے کہ چین کی کامیابی بہت شاندار ہے، اس لیے پارٹی دوبارہ سے انتہائی آمرانہ رویہ اختیار کرسکتی ہے، کیوں کہ اپنا وجود برقرار رکھنے اور امریکا سے آگے بڑھنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ یقینی طور پر وقت بھی پارٹی کے ساتھ ہے، گزشتہ چار دہائیوں کے دوران چین نے امریکا کے مقابلے میں دس گنا زیادہ رفتار سے اقتصادی ترقی کی ہے، اب بھی چین کی معاشی ترقی کی رفتار امریکا سے دگنی ہے، بظاہر پارٹی کو وسیع پیمانے پرعوامی حمایت بھی حاصل ہے اور دنیا بھر میں بہت سارے لوگوں کو یقین ہے کہ ٹرمپ کا امریکا زوال پذیر ہے جبکہ چین کے دور کا ابھی صرف آغاز ہوا ہے۔ لیکن ایک بار پھرچین دنیا کی توقعات پر پورا اترنے سے انکار کررہا ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“The land that failed to fail”.(“New Yrok Times”. Nov. 18, 2018)
Leave a Reply