مشرقی پاکستان کے آخری گورنر سے ہم اَسیری
Posted on February 16, 2011 by پروفیسر سید سجاد حسین in شمارہ 16 فروری 2011 // 0 Comments

جب مجھے سیون سیلز سے نیو ٹوئنٹی نام کے بلاک میں منتقل کیا گیا، تب مشرقی پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والی کئی نمایاں شخصیات سے میری ملاقات ہوئی۔ ان میں متحدہ پاکستان کے آخری گورنر برائے مشرقی پاکستان، ڈاکٹر عبدالمالک، ان کی کابینہ کے رکن اخترالدین، مشرقی پاکستان کونسل مسلم لیگ کے صدر خواجہ خیر الدین اور کونسل مسلم لیگ ہی کے سرکردہ رکن مولانا نورالزماں نمایاں تھے۔ ان میں سب سے کم عمر، اخترالدین تھے جو عمر کی چوتھی دہائی کے وسط میں تھے۔ میں انہیں یونیورسٹی میں ان کے زمانہ طالب علمی سے جانتا تھا۔ ۱۹۵۳ء میں ایک خیر سگالی مشن لے کر میں برما گیا تھا اور اس چار رکنی مشن میں اخترالدین بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کو میں ۱۹۶۲ء سے ذاتی طور پر جانتا تھا، جب وہ فلپائن میں پاکستان کے سفیر تھے۔ اُس سال منیلا میں ڈاکٹر عبدالمالک سے میری ملاقات ہوئی اور مجھے اُن کے سیاسی خیالات اور نظریات کی ایک جھلک دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ غیرمعمولی طور پر مذہبی آدمی تھے۔ انہوں نے مجھے خبردار کیا تھا کہ بھارت چین تنازع میں پاکستان کا چین کی طرف جھکاؤ خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ ان کا سوال یہ تھا کہ کیا پاکستان اپنی بنیاد (مذہب) کو یکسر نظر انداز، بلکہ مسترد کرنے والی اشتراکی ریاست سے دوستی بڑھاکر خطرناک کھیل نہیں کھیل رہا تھا؟
میں جانتا ہوں کہ سیاسی سوالوں کے آسان جواب نہیں ہوا کرتے۔ ۱۹۷۱ء میں چین ہمارا بہت اچھا دوست ثابت ہوا۔ ہاں، یہ بات البتہ قابل بحث ہے کہ پاکستان میں خارجہ پالیسی کی بنیاد تبدیل ہونے کے بعد حکومت نے اگر بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی سرپرستی نہ کی ہوتی تو وہ آج جتنی طاقتور ہیں، کیا اتنی طاقتور ہوتیں؟ اشتراکی لٹریچر کو سرکاری سرپرستی میں ملک بھر میں تقسیم کیا گیا۔ اس نظریے کو پھیلانے میں حکومت کی آشیرباد شامل رہی کہ اشتراکیت آج کی دنیا کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔ حکومت کا خیال یہ تھا کہ بائیں بازو کے عناصر کی سرپرستی کرکے وہ چین سے تعلقات بہتر اور مزید مستحکم بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اِس سے پاکستان میں بائیں بازو کو تقویت ملی، تاہم بائیں بازو کے جو عناصر چین کے نظریات سے متفق نہیں تھے، انہوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کا ساتھ دے کر ملک توڑنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر عبدالمالک غیرمعمولی طور پر مستحکم شخصیت کے مالک تھے۔ طویل سیاسی کیریئر کے دوران، ان پر کبھی کرپشن اور غیردیانت داری کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔ وہ قائد اعظم کے اعتماد پر پورے اترے اور پاکستان کی پہلی کابینہ میں انہیں بھی شامل کیا گیا۔ مسلم لیگ کا شاید ہی کوئی معاملہ یا پہلو ہو جو اُن کی نظر سے اوجھل رہا ہو۔ ۱۹۴۰ء کی دہائی میں تحریک پاکستان کے دوران پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں ان کا علم لاجواب تھا۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ ان کی سیاست اس نوعیت کی تھی کہ وہ کبھی مقبول سیاست داں نہیں رہے۔ مزدور تحریکوں سے ان کا گہرا تعلق رہا۔ ٹریڈ یونین ازم کے بارے میں وہ بہت کچھ جانتے تھے۔ وہ خاموش طبع اور نرم مزاج کے انسان تھے۔ سیاسی مخالفین بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ کسی زمانے میں وہ کانگریس میں بھی رہے تھے، تاہم اس میں انہوں نے کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کیا۔ یکے بعد دیگر آنے والی حکومتیں ڈاکٹر عبدالمالک سے تعاون کی خواستگار رہیں، کیونکہ ان کی ایمانداری پر کسی کو شبہ نہ تھا۔ ان کے مخالفین ان پر صرف یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ بڑے اور اہم منصوبوں کو سوچنے اور ان پر عمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ بہت کم بولتے تھے۔ سیاست میں یہ خوبی کبھی کبھی خامی بھی ثابت ہو جاتی تھی۔ میں نے ان میں اور شفیق الرحمٰن میں مزاج کے اعتبار سے خاصی مماثلت دیکھی، حالانکہ شفیق الرحمٰن کی عمر تو خاصی کم ہے۔
۱۹۷۱ء کے پریشان کن حالات میں ڈاکٹر عبدالمالک کے گورنر کی حیثیت سے تقرر کی پشت پر کئی عوامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے واحد نائب صدر نورالامین نے یہ منصب قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالمالک ان شخصیات میں سے تھے جو مشکل ترین حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ڈاکٹر عبدالمالک کی جگہ کوئی اور ہوتا تو حالات بہتر ہوسکتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ اپنی خاموش طبعی یا کم گوئی کے باعث ڈاکٹر عبدالمالک عوام میں پاکستان کو متحد رکھنے کا جذبہ جگانے میں ناکام رہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اور کون تھا جو اُس وقت حالات کے دھارے کا رخ موڑتا یا اس کی راہ میں کھڑا ہو پاتا؟ انہوں نے کابینہ کے لیے ارکان کا انتخاب احتیاط سے نہیں کیا۔ ان میں بیشتر وہ تھے جن سے عوام ناواقف تھے اور جو سیاسی معاملات کو سلجھانے کی صلاحیت سے عاری بھی تھے۔ بعض تو ایسے تھے جن کا نام ہی عوام نے پہلی بار سنا تھا۔ ان میں اعتماد تھا، نہ اپنے منصب سے متعلق فرائض کی بجا آوری کے لیے مطلوب اہلیت۔ ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسی ٹیم منتخب کرنے کی کوشش کی تھی جس کے ارکان کی ایمانداری پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکے، مواخذے کا سوچ بھی نہ سکے۔ اس معاملے میں بھی وہ اندازے کی غلطی کرگئے۔ ان کی کابینہ میں عبدالقاسم بھی تھے جو نہ صرف یہ کہ ایماندار نہیں تھے، بلکہ مشکل حالات میں بہتر انداز سے کام کرنے کی صلاحیت یا عزم سے بھی عاری تھے۔ عبیداللہ مُجمِدار عوامی لیگ کے سرکردہ رکن تھے۔ عبیداللہ کو اس خیال سے کابینہ کا رکن بنایا گیا تھا کہ دنیا کو بتایا جاسکے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کی انتہا پسندی پر، اب خود اُن کے اپنے ساتھیوں میں سخت ردعمل پنپ رہا ہے! حق تو یہ ہے کہ اس کا الٹا ہی اثر مرتب ہوا۔ عوام میں یہ تاثر عام ہوا کہ ڈاکٹر عبدالمالک کی کابینہ میں صرف موقع پرست اور چاپلوس قسم کے لوگوں ہی کو جگہ مل سکی ہے۔ اس کابینہ پر لوگوں کو کم ہی اعتبار تھا۔ غیرمعروف، بلکہ گمنام قسم کے سیاست دانوں کی کارکردگی سے عوام اور حکومت کے درمیان خلاء بڑھتا گیا۔
عبیداللہ مُجمِدار کی طرح ڈاکٹر عبدالمالک کی کابینہ میں وزیر محنت سلیمان بھی مشرقی اور مغربی پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے عوامی لیگ کے نظریات کے حامی تھے۔ عدالت میں انہوں نے اپنے سیاسی فلسفے کے بارے میں جو طویل بیان دیا، اس نے ان تمام لوگوں کو حیرت زدہ کردیا جو ان کے پس منظر سے واقف نہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ شیخ مجیب الرحمٰن کے سیاسی نظریات سے پوری طرح متفق ہیں اور ڈاکٹر عبدالمالک کی کابینہ میں فوج کے دباؤ پر شمولیت اختیار کی تھی۔ مزید یہ کہ فوج نے دھمکی دی تھی کہ کابینہ میں شامل نہ ہونے کی صورت میں انہیں گولی مار دی جائے گی۔ یہ سفید جھوٹ تھا، عوام نے بھی اس بیان کو قبول نہیں کیا۔ اس نوعیت کی بے بنیاد باتیں کرکے انہوں نے خود کو تضحیک کا نشانہ بنالیا۔
ڈاکٹر عبدالمالک کی کابینہ میں اخترالدین (ڈاکٹر مالک کے بعد) واحد رکن تھے جو قول و فعل کے تضاد سے مبّریٰ تھے۔ مگر ان کی سیاسی حیثیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بالکل گمنام شخصیت تھے۔ ان کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ وہ ایک ابھرتی ہوئی شخصیت ہیں۔ بہتوں کو یقین تھا کہ وہ خوب نام پیدا کریں گے، مگر وہ مشرقی پاکستان میں رائے عامہ کو بڑی حد تک متاثر یا تبدیل کرنے کی صلاحیت سے محروم تھے۔
میں یہ باتیں اس پہلو کو واضح کرنے کے لیے بیان کر رہا ہوں کہ ڈاکٹر عبدالمالک نے یقیناً نیک نیتی سے کابینہ منتخب کی تھی، تاہم وہ عام سی اہلیت کے لوگوں پر مشتمل تھی۔ وزرا میں اتنی کشش نہیں تھی کہ لوگ ان کے جلسوں میں کھنچے چلے آتے۔ ان کی تقاریر میں بھی کوئی آدرش نہیں ہوتا تھا۔ حالات سے لڑنے کے طور طریقے سجھانے اور کسی متبادل صورت حال کے حوالے سے ان کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔ وہ آنے والے زمانے کے لیے کوئی ٹھوس اور امید افزا منظرنامہ تیار نہیں کرسکتے تھے۔ ان کے اقدامات نے بھی کوئی ہلچل پیدا نہ کی۔ کابینہ نے ستمبر ۱۹۷۱ء میں حلف اٹھایا تھا جب مشرقی پاکستان کا بحران اپنے نقطہ عروج کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ کابینہ صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی پیدا کرنے میں ناکام رہی۔ اگر اس کے ارکان میں طاقتور اور مقبول شخصیات شامل ہوتیں تو کوئی بھی ان پر کٹھ پتلی ہونے کا الزام عائد نہ کر پاتا۔ فطری سی بات ہے کہ ملک کی تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کابینہ میں غیراہم لوگوں کا انتخاب، خود ڈاکٹر عبدالمالک کی ساکھ کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوا۔ خود ڈاکٹر عبدالمالک نے ہم سے گفتگو میں کئی بار اعتراف کیا کہ جو لوگ انہوں نے اپنی کابینہ میں منتخب کیے تھے، وہ ممکنہ بہترین لوگ نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ چند ایک ارکان کے بارے میں خود ان کا ذہن واضح نہ تھا۔
جیل کے ماحول نے ڈاکٹر عبدالمالک کی سیاسی عزیمت کو مزید پختہ کردیا۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ مذہبی ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان (اور پاکستانیوں) کا سب سے بڑا بلنڈر اپنے بانی کے نظریے سے منحرف ہو جانا تھا۔ جب لفظ اسلام ایک لیبل بن گیا، جب مذہب کو ہتھیار کے طور پر ان منافقین نے بھی استعمال کیا جو اپنے جلسوں اور اقدامات میں اسلامی تعلیمات کے مخالف رہے، تب عوام کے لیے صداقت اور منافقت میں تمیز کرنا دشوار تر ہوگیا۔
مولانا نورالزماں میرے ایک کزن کے بچپن کے دوست نکل آئے۔ میں نے ان کے بارے میں سن رکھا تھا اور میرا خیال تھا کہ وہ بوڑھے اور باریش ہوں گے۔ وہ باریش ضرور تھے تاہم ان کی داڑھی زیادہ متاثر کن نہ تھی۔ جسم خاصا متوازن اور پھرتیلا تھا اور جسم میں چربی یا موٹائی کا نام و نشان خال خال ہی تھا۔ وہ خاصے پرعزم اور پرجوش دکھائی دیتے تھے۔ وہ عام مذہبی شخصیات سے بہت مختلف تھے جو خاصی سنجیدہ رہتی ہیں اور بیشتر معاملات میں سست روی اور نرم خوئی کا مظاہرہ کرنے کو مذہبی تعلیمات کا درجہ دیتی ہیں! مولانا نورالزماں کا ذخیرہ الفاظ لاجواب تھا اور وہ اسے اپنے مخالفین کے خلاف عمدگی سے بہ روئے کار بھی لاتے تھے۔ وہ اپنی زندگی کا، یا کوئی بھی دوسرا واقعہ سناتے وقت قسمیں بھی کھاتے تھے اور زیب داستاں کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ ان کا یہ انداز بات کو دلچسپ بناتا تھا، تاہم بہت سے لوگ ان کی باتوں سے پریشان ہو اٹھتے تھے۔ وہ جمعیت علمائے اسلام سے وابستہ تھے، جو ہندوستان میں کانگریس کی ذہنیت سے ہم آہنگ جمعیت علمائے ہند کی پاکستانی شاخ کا سا درجہ رکھتی تھی۔ جمعیت علمائے اسلام سے وابستگی ہی نے انہیں بھارت کی چند معروف مذہبی شخصیات سے واقفیت کا موقع فراہم کیا تھا۔
مولانا نورالزماں مسلم لیگ کے رکن بھی تھے، تاہم جب مخالفین نے انہیں پارٹی سے نکال کر دم لیا، تب انہوں نے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ انہیں نظریاتی بنیاد پر جیل میں ڈالا گیا تھا۔ انہیں کولیبوریٹرز آرڈر کے تحت کسی بھی معاملے میں مورد الزام ٹھہرایا نہیں جاسکتا تھا۔
مولانا نورالزماں مجموعی طور پر دوستانہ مزاج کے حامل تھے۔ وہ انگریزی اچھی جانتے تھے اور عام ملاؤں سے خاصے مختلف تھے۔ ذرا واقفیت بڑھی تو اندازہ ہوا کہ خاندانی پس منظر اور تربیت نے انہیں مذہب کے معاملے میں خاصے محدود نقطہ نظر سے دوچار کیا تھا۔ ان سے مذہبی امور پر عقلی انداز سے بات کرنا خاصا دشوار تھا۔ وہ خاصے بنیاد پرست تھے۔ انہیں اس بات سے نفرت تھی کہ قرآن کی تفسیر یا احادیث کی تشریح علامتی یا تجریدی انداز سے کی جائے۔ اگر کوئی ایسا کرتا تھا تو وہ سختی سے مخالفت کرتے تھے۔ وہ کبھی کبھی اس معاملے میں طویل بحث کرکے لوگوں کو بیزاری سے دوچار کردیا کرتے تھے۔ قرآن کی جن آیات سے صاف اندازہ ہوتا تھا کہ وہ علامتی طور پر بیان کی گئی ہیں، مولانا انہیں لفظ بہ لفظ لیتے۔ اگر کوئی عقائد کی تشریخ عقلی یا مختلف انداز سے کرتا تو وہ اسے دین سے انکار کے مساوی سمجھا کرتے تھے۔ ہم میں سے بعض افراد جان بوجھ کر ایسی باتیں کرتے تھے جو مولانا کے جذبات کو مجروح کرتی تھیں۔ ان کا ردعمل دیکھنا بہت دلچسپ امر تھا۔ میں ان سے گفتگو کے دوران شیکسپیئر اور سگمنڈ فرائڈ کا حوالہ اکثر دیا کرتا تھا۔ میرا خیال یہ ہے کہ وہ اس تصور ہی سے بیزار رہتے تھے کہ کوئی مسلمان کسی تقریر کے ذریعے کوئی ایسی بات کہے جس کے نتیجے میں کوئی غیرمسلم مصنف مذہب یا کسی بھی دوسرے معاملے پر اپنی بات منوانے میں کامیاب رہے۔ انگریزی علم کے باوجود مولانا نورالزماں معاشرے کے ان عمومی مذہبی لوگوں سے زیادہ مختلف نہیں تھے جو جدید خیالات سے مکمل ناواقفیت رکھتے ہیں۔ کسی جدید خیال کو یکسر مسترد کرنے اور اسے پڑھ کر، سمجھنے کے بعد مسترد کرنے میں تو بہت فرق ہے۔ اور یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص پرانی سوچ سے اندھی عقیدت کے ساتھ وابستہ رہنے کی صورت میں نئے چیلینجز سے اس طرح منہ موڑ لے کہ ان سے پوری طرح واقف ہی نہ ہو۔ مولانا نورالزماں کا تعلق اس دوسری طرح کے لوگوں سے تھا۔ ان کی باتیں سن کر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا تھا کہ جدید معاشرے میں مذہبی علماء تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہمدردیوں سے کیوں اور کیونکر محروم ہوگئے ہیں؟ ان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ جامعات میں تعلیم پانے والے لڑکوں اور لڑکیوں سے اس زبان میں بات نہیں کرسکتے جو ان میں مروّج ہے۔ ابلاغ کا فقدان ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اگر نوجوانوں میں مذہبی تعلیمات کے حوالے سے کوئی ابہام یا غلط فہمی پائی جاتی ہے تو اسے مذہبی علماء سوچے سمجھے بغیر الحاد یا مذہب بیزاری قرار دے بیٹھتے ہیں۔ مذہبی علماء کا رویہ اس قدر سخت اور غیرلچکدار ہے کہ مختلف سوالوں کے جواب کے متلاشی ذہن بنیادی مذہبی سوچ سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ نو مسلموں میں تبلیغ کرتے تھے۔ وہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے کہ قرآن اور حدیث پر مبنی ان کے دلائل صرف ان کے لیے موزوں تھے جو ان کی اتھارٹی کو بلا چوں چرا تسلیم کرلیتے ہیں۔ غیرمسلموں اور تشکیک پسندوں کو اسلام کی طرف لانے کے لیے مختلف نوعیت کے دلائل درکار ہوتے ہیں اور اس معاملے میں مذہبی علماء کی علمی تربیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ کسی بھی ناقد کو قرآن کی کسی آیت کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کرنا سراسر لاحاصل ہے، اگر ناقد غیرمسلم یا تعقل پسند مسلم ہو۔
مولانا نورالزماں نے ایک بار مجھ پر زور دیا کہ میں مولانا عبدالخالق کی ایک کتاب اور مولانا اشرف علی تھانوی کے خطبات پر مشتمل کتابیں پڑھوں۔ دونوں کتابوں میں محض مذہبی عقائد کا تذکرہ تھا اور میرے نقطہ نظر سے خاصی مایوس کن تھیں۔ مولانا عبدالخالق کی کتاب زیادہ مایوس کن تھی۔ مولانا عبدالخالق نے صرف راسخ العقیدہ مسلمانوں کو مخاطب کیا تھا اور دین کے بنیادی اصول بیان کیے تھے۔ مولانا تھانوی نے اپنی تحریر کے ذریعے یہ تاثر دیا تھا کہ ان کے دلائل سے دینی تعلیمات کے بارے میں تمام شبہات یا اشکال دور ہو جائیں گے۔ کہیں کہیں انہوں نے تاریخ کے حوالے اور فلسفے کی بنیاد پر دلائل دیے تھے۔ مگر میں نے یہ اندازہ قائم کیا کہ انہوں نے اسلام سے باہر کی پوری دنیا کو یکسر نظر انداز کردیا تھا۔ عمومی تاریخ سے متعلق ان کے علم نے مجھے متاثر نہیں کیا۔ ان کی طرز تحریر سے بھی اندازہ ہوا کہ جدید دور کی منطق اور فلسفے سے ان کی زیادہ واقفیت نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے بارے میں میری رائے بالکل غلط ہو، کیونکہ میں تو ان چند رشحاتِ قلم کی بنیاد پر بات کر رہا ہوں جو جیل میں میری نظر سے گزرے۔ ان کی بڑی اور معروف تصانیف میرے زیرِمطالعہ نہیں رہیں۔ البتہ ان کی طرزِ تحریر میں ایک بات نے مجھے متاثر کیا۔ راسخ العقیدہ مسلمانوں کے مجمع پر وہ اثر انداز ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔
ویسے تو دنیا بھر میں جدید نظریات اور مذہبی فکر کے درمیان خلاء پایا جاتا ہے، مگر میں نے پاک و ہند کے مسلمانوں میں یہ کسی بھی دوسرے خطے کے مقابلے میں زیادہ دیکھا ہے۔ اس معاملے میں صرف علامہ محمد اقبال استثناء کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کوئی مذہبی عالم نہیں تھے۔ انہوں نے ’’اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل جدید‘‘ لکھ کر لاکھوں پڑھے لکھے مسلمانوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات، جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سمجھنے کے قابل بنایا۔ مگر سچ یہ ہے کہ خود مذہبی علماء نے علامہ کی فکری کاوشوں سے کم ہی استفادہ کیا۔ اقبال کے فکری اثرات سے مذہبی طبقہ اس قدر خائف تھا کہ بعض علماء نے تو انہیں باغیانہ سوچ کا حامل بھی قرار دے دیا۔ میرے خیال میں مذہبی علماء کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے حوالے سے خالص بنیادی اور غیربنیادی باتوں میں فرق کرنے کا شعور نہیں رکھتے۔ وہ اس خوف میں بھی مبتلا رہتے ہیں کہ کسی بھی غیربنیادی بات پر تنقید، در اصل بنیادی بات پر حملے کے مترادف ہے۔
مولانا نورالزماں عجیب و غریب دلائل دے کر مجھے حیران کردیا کرتے تھے۔ منطق کی کسوٹی پر ان دلائل کو پرکھنا صرف ان دلائل کی موت پر منتج ہوتا تھا۔ مگر مولانا نورالزماں کو اس کی چنداں پروا نہیں تھی۔ اگر کوئی شخص پڑھا لکھا نہ ہو اور خلوص کے ساتھ کوئی غلط بات بھی کہہ رہا ہو تو سادگی اور پُرکاری کے اصول کی بنیاد پر اسے سراہا جاسکتا ہے۔ مولانا نورالزماں کا معاملہ خاصا مختلف تھا۔ ان میں اَن پڑھ آدمی کی معصومیت کے ساتھ ساتھ، نیم خواندہ شخص کی جہالت بھی تو تھی! وہ اس خیال کے حامل تھے کہ مذہب کی تعلیمات کو تنقیدی نظر سے دیکھنا بغاوت کے مترادف ہے۔
میں نے مولانا نورالزماں کا ذکر اتنی تفصیل سے اس لیے کیا ہے کہ وہ ہمارے معاشرے کے ایک طبقے کے نمائندہ تھے۔ اس طبقے کی افادیت سے یکسر انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اسی طبقے نے اپنی خامیوں یا کمزوریوں سے ایسے نتائج بھی پیدا کیے ہیں جنہیں نظرانداز کرنا کسی طور ممکن نہیں۔ مجھے یہ اعتراف بھی کرنا ہوگا کہ مولانا نورالزماں سے میں نے سیاسی پس منظر کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ وہ بہت سی نمایاں سیاسی اور عوامی شخصیات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔ اگر مولانا کی صحبت نصیب نہ ہوئی ہوتی تو میں بہت سی سیاسی مصلحتوں کو سمجھنے سے قاصر رہتا۔ جب انہیں سنتا تھا تو مجھے اندازہ ہوتا تھا کہ سیاست کے بارے میں میری سوچ کس قدر سادہ لوحی پر مشتمل تھی۔ انہوں نے بہت سی نمایاں شخصیات کی بد اعمالیوں کے بارے میں ایسے شواہد پیش کیے کہ انکار کرنے کی کسی میں تاب نہ تھی۔ سیاسی امور میں ان سے اختلاف بہت مشکل امر تھا۔ وہ ڈاکٹر شاہداللہ مرحوم کے بارے میں عدم احترام پر مبنی سوچ رکھتے تھے اور متعدد واقعات کی روشنی میں ان کی حماقت ثابت کرتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں اسلامی تھیالوجی کے حوالے سے ایک بحث نمایاں ہے۔ جس میں ڈاکٹر شاہداللہ مرحوم نے متعدد مقامات پر شرح باقیہ کا حوالہ دیا ہے۔ مولانا اسحاق کا استدلال یہ تھا کہ وہ شرح کے بجائے اصل کتاب سے مستفید ہونا پسند کریں گے۔ ڈاکٹر شاہداللہ نے پوچھا کہ باقیہ کیا ہے۔ وہ شرح باقیہ کو اصل کتاب سمجھ رہے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ دینی علوم کے معاملے میں وہ کس سطح پر تھے۔
تیس پینتیس سال قبل کے، ڈھاکا یونیورسٹی کے اساتذہ سے متعلق بھی چند ایک کہانیاں سننے کو ملیں، جن سے میں بہت محظوظ ہوا۔ ان سے مجھے وہ گزرا ہوا زمانہ یاد کرنے کا موقع ملا۔ سچ تو یہ ہے کہ ماضی اب زمانہ ماقبل تاریخ معلوم ہوتا ہے۔ یادوں سے مشترکہ طور پر مستفید یا محظوظ ہونا بڑی نعمت ہے۔ فلسفیانہ بنیاد پر میرے اور مولانا نورالزماں کے درمیان ایک خلیج حائل تھی، مگر مشترکہ یادوں نے ہمیں ایک دوسرے قریب کردیا۔
سیاست کے حوالے سے میرا خیال یہ تھا کہ مولانا نورالزماں کو خود بھی مکمل اندازہ نہیں تھا کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔ جب کبھی اسلامی بنیادوں پر نظم و نسق یا حکمرانی کی بات ہوتی تھی، وہ خود بھی بتا نہیں پاتے تھے کہ ان کے ذہن میں اس کا کیا نقشہ ہے۔ ان کی باتوں میں خاصا ابہام پایا جاتا تھا۔ میں نے بارہا ان سے کہا کہ اسلام سے وفاداری بہت اچھی بات ہے، مگر جب اس وفاداری کو حقوق و فرائض اور انسانی زندگی کے ناگزیر امور جیسی اٹل حقیقتوں میں تبدیل نہ کیا جائے تب تک بات نہیں بن سکتی۔ وہ اس نوعیت کی مشقوں کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ قرآن میں حقوق اور فرائض جامع ترین شکل میں موجود ہیں۔ لہٰذا ان کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں۔ اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا کہ قرآن عالمگیر یا آفاقی اصول بیان کرتا ہے اور بیشتر معاملات کو تمام ممکنہ تفصیلات کے ساتھ بیان نہیں کرتا (یعنی بہت کچھ سوچنے کی گنجائش اللہ نے رکھ چھوڑی ہے)۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ جو کچھ قرآن میں ہے وہ نہ صرف حرفِ آخر ہے بلکہ مزید شرح کا محتاج بھی نہیں۔ ایسے معاملات پر بات کرتے وقت وہ خاصے مشتعل ہو جایا کرتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے انہیں کوئی زد پہنچی ہو۔ ایسے مواقع پر میں یہ محسوس کرتا تھا کہ مبہم امور پر جیل میں لڑنا درست نہیں۔ مولانا نورالزماں کی باتوں سے یہ بات کشید کرنا ناممکن تھا کہ جدید معاشرے کے سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے اسلام کے بنیادی اصولوں سے کس طور مدد لی جاسکتی ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کو ہر اعتبار سے عملی ضابطہ حیات سمجھتے ہیں، وہ خود بھی بعض امور میں ابہام رکھتے ہیں اور کسی بھی معاملے میں ٹھوس دلائل کے ساتھ بحث میں شریک ہونے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ان کے پاس جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بیان کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہر دور کا اپنا لب و لہجہ ہوتا ہے جسے اپنائے بغیر بات عمدگی سے بیان نہیں کی جاسکتی۔ جدید سیاسی نظریات اور قرآن کے احکام کے درمیان پایا جانے والا تنازع، انہیں خوفزدہ کر رکھتا ہے۔ جو لوگ جدید سیاسی نظریات کی روشنی میں بات کرتے ہیں، انہیں تشکیک پسند قرار دیتے ہیں۔
☼☼☼
Leave a comment