ہندوستانی مسلمانوں کا پیغام، انسانی دنیا کے نام

ہندوستانی مسلمانوں کی متفقہ تنظیم ’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘ نے چنئی مدراس میں اپنے انیسویں اجلاس کے انعقاد پر پوری دنیاے انسانیت سے جو اپیل کی ہے، وہ ایک دعوتِ فکر بھی ہے اور دعوتِ عمل بھی۔ چونکہ یہ ایک ایسے ادارہ کی طرف سے دعوتِ فکر و عمل ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کے احساسات کا ترجمان ہے۔ اس لیے یہ پیغام پوری اُمتِ مسلمہ کے احساسات و جذبات کا ترجمان اور حالات کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ امید ہے وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت کی جائے گی اور مساجد کے ائمہ اور خطبا اس دعوت کو عوام تک پہنچائیں گے۔


’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘ کا یہ نمائندہ اجلاس جس میں مسلمانوں کے مختلف مکاتبِ فکر، مختلف جماعتوں اور تنظیموں کے نمائندے شریک ہیں، مسلمانانِ عالم کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کو مسلکی، تنظیمی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے، ان کی صفوں میں بکھرائو پیدا کرنے اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف اُکسانے کی منظم سازش کی جارہی ہے جس کا مقصد اُمتِ مسلمہ کو کمزور، بے اثر اور بے وقار کرنا اور ان کے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر مغربی استعماریت کو تقویت پہنچانا نیز عالمِ اسلام اور ترقی پذیر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا اور بالواسطہ طریقہ پر پوری دنیا میں صیہونی تسلط قائم کرنا ہے، مسلمان خواہ کہیں بھی ہوں اور ان کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل اور زبان و علاقہ سے ہو لیکن وہ ایک ہی اُمت کے افراد ہیں اور پیغمبرِ اسلامﷺ نے حاملینِ حق کا جو قافلہ مرتب کیا ہے وہ اس کا ایک حصہ ہیں۔ اس لیے تمام مسلمانوں کو اور خاص کر عالمِ اسلام کو مغرب کی اس سازش کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور ہر گز ان کا آلۂ کار نہیں بننا چاہیے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اس امت کے درمیان جتنے اختلافی مسائل ہیں، اُن سے کہیں زیادہ وہ اُمور ہیں جن پر پوری اُمت کا اتفاق ہے۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ اختلافی نکات کو ابھارنے کے بجائے مشترک قدروں کو سامنے رکھتے ہوئے اتفاق و اشتراک کی فضا پیدا کی جائے اور دشمنانِ اسلام کو اس کا موقع نہ دیا جائے کہ وہ ہماری صفوں میں بکھرائو پیدا کر دیں۔

اس اجلاس کا احساس ہے کہ مغربی طاقتیں نہ صرف مسلمانوں میں انتشار پیدا کر رہی ہیں بلکہ جو لوگ اپنے آپ کو تہذیب کا علمبردار اور انسانی حقوق کا پاسدار کہتے ہیں، وہی اُمتِ مسلمہ کے جذبات کو مجروح کرنے اور ان کے دلوں کو زخمی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ مذہب سے دوری بلکہ مذہبی اَفکار و اَقدار سے بیزاری اور نفسانیت اور مادّیت کی غلامی کی وجہ سے مغربی اقوام کو اس کا احساس بھی شاید باقی نہیں رہا کہ مسلمان اپنے مذہبی شعائر کے ساتھ کتنی محبت و توقیر کے جذبات وابستہ رکھتے ہیں اور اسلامی شعائر پر ان کا اپنی جان نثار کر دینا ’’کھونا‘‘ نہیں بلکہ ’’پانا‘‘ ہے۔

گزشتہ دنوں اہانت آمیز کارٹون اور بعض دوسرے اشتعال انگیز بیانات کے ذریعہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی بالارادہ کوشش کی گئی۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایسی ناشائستہ حرکتیں انسانی حقوق کے احترام کے مغایر ہیں اور انسانی شرافت اور علمی دیانت کے بھی خلاف ہیں۔ اس لیے دنیا میں امن و آشتی کو قائم رکھنے اور بقاے باہم کے اصول پر تمام گروہوں کے اپنے تشخصات کے ساتھ باقی رہنے کے لیے ایسی دل آزار حرکتوں سے اجتناب کرنا ضروری ہے اور مسلمانوں نے قرآن شریف کی ہدایت کے مطابق ہمیشہ دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے سے اجتناب کیا ہے۔

یہ اجلاس مسلمانوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی منصوبہ بند کوششوں کو نظر میں رکھیں۔ کچھ فرقہ پرست عناصر کوشاں ہیں کہ مسلمانوں کو مشتعل اور بے برداشت کیا جائے، ایسی باتیں کہی جائیں کہ مسلمان سڑک پر نکل آئیں اور پھر مشتعل مزاجی کے نام پر انہیں بدنام کیا جائے اور مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، مسلم دشمنی کے نام پر ہندوستان کے اکثریتی فرقہ کو متحد کیا جائے اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔ ہم سمجھداری سے کام لے کر بے موقع اشتعال سے بچ کر ایسی سازشوں کو ناکام و نامراد کر دیں۔

اجلاس کو اس بات پر افسوس ہے کہ ذرائع ابلاغ جن کا فریضہ حقائق اور سچائیوں کو پیش کرنا ہے اور جن کا معاشرہ کی تعمیر میں نہایت اہم کردار ہے، وہ اکثر صحیح راہ سے منحرف ہو جاتے ہیں اور کسی خاص گروہ کو بدنام، بے آبرو اور بے توقیر کرنے کے لیے دانستہ یا نادانستہ کچھ لوگوں کا آلۂ کار بن جاتے ہیں، کسی بات کو بلاتحقیق ایک واقعہ کی حیثیت سے پیش کرنا، کسی واقعہ کی غلط توجیہ کرنا یا اس کے صرف ایک پہلو کو پیش کرنا اور دوسرے کو نظرانداز کرنا بددیانتی ہے۔ گزشتہ دنوں عالمی سطح پر بھی اور ہندوستان کی سطح پر بھی بعض واقعات کے سلسلہ میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی جو کوششیں کی گئیں، وہ نہایت ہی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہیں۔

بورڈ ذرائع ابلاغ کے اداروں سے خواہش کرتا ہے کہ وہ اپنے فریضۂ منصبی کو محسوس کریں، مسلمانوں کی کردار کشی کے رویہ سے بچیں اور مسلمان جماعتوں، تنظیموں، اداروں اور شخصیتوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے قول و عمل کے ذریعہ اسلام کی صحیح تصویر لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ ہمارے گروہی اختلافات قانونِ شریعت کی غلط تصویر پیش کیے جانے کا سبب نہ بن جائیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف نہ صرف عسکری، بلکہ فکری یلغار بھی جاری ہے اور اس صورتحال نے صلیبی جنگوں کی یاد تازہ کر دی ہے لیکن مسلمانوں کو ایسے واقعات سے ہرگز حوصلہ نہ ہارنا چاہیے اور دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے، عالمِ اسلام اور اُمتِ مسلمہ پر پہلے بھی ایسے حالات گزر چکے ہیں، ان حالات نے وقتی طور پر مسلمانوں کو ضرور زخم پہنچایا ہے لیکن اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی اپنے دین سے وابستگی پر کبھی کوئی آنچ نہ آسکی۔

موجودہ سخت اور مشکل ترین حالات کی بہت سی خوشگوار جہتیں بھی ہیں۔ مسلمانوں کی ایمانی حمیت میں اضافہ ہوا ہے، نئی نسل میں اپنے دین سے وابستگی اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی کا جذبہ بڑھا ہے۔ پوری دنیا میں دعوتِ اسلام کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں، لوگ قرآن مجید اور پیغمبرِ اسلامﷺ کے بارے میں جاننے اور حقائق کو سمجھنے کے لیے کوشاں ہیں اور یہ سوچ مسلمانوں کے لیے نہایت ہی نتیجہ خیز اور ثمر آور ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو تو شکست دی جاسکتی ہے لیکن اسلام کو شکست نہیں دی جاسکتی۔

اس دین کی معقولیت، قانونِ فطرت سے ہم آہنگی، دل و دماغ کو فتح کرنے کی صلاحیت اور اس کی سادگی اور انسانی ضرورتوں اور مصلحتوں سے توافق وہ خوبیاں ہیں جنہوں نے ہمیشہ مخالف فاتحین کے دلوں کو فتح کیا ہے، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حوصلہ و ہمت سے کام لیں، دل شکستہ نہ ہوں اور اپنے اندر داعیانہ کردار پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس بات کو فراموش نہ کریں کہ مسلمان جس ماحول میں رہتا ہے، وہ وہاں خیر، انسانیت نوازی، عدل و انصاف کی قدروں کو فروغ دیتا ہے اور مسلمانانِ ہند نے اپنی اسی ذمہ داری کو فراموش کر دیا ہے۔ وہ اس ملک میں انسانیت نوازی، عدل و انصاف، غم خواری و ہمدردی کے نقیب اور علمبردار بن کر ابھریں۔

مسلمانوں کو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ موجودہ حالات میں پوری دنیا میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصاً اسلام کی حفاظت اور امت کو ان کے دین سے جوڑے رکھنے میں دینی مدارس کا نہایت اہم کردار ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ مسلمانوں کے ملّی و مذہبی وجود کے لیے شہِ رگ کا درجہ رکھتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ مدارس کے اس کردار کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس امت کے تعاون سے چلیں اور حکومت کے اثر سے آزاد رہیں۔ اسی لیے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے حکومت کے زیرِ نگرانی ’’مدرسہ بورڈ‘‘ کی تجویز سے اختلاف کیا ہے۔ مسلمان مدارس و مکاتب کے نظام کو فروغ دیں، اس کو تقویت پہنچائیں اور اس دوستی نما دشمنی سے اپنی تعلیم گاہوں کو بچائیں، ورنہ تعاون کے نام پر بتدریج مدارس کے نظام میں مداخلت کی راہ ہموار ہو گی اور اس کے نقصانات نہایت سنگین ہوں گے۔ اسی لیے مدارس کے ذمہ داروں اور اساتذہ کا فریضہ ہے کہ وہ ان اداروں کو دوسروں کے تعاون سے بے نیاز رکھیں۔

ہر قیمت پر اپنی صفوں کو متحد رکھنا، اپنے قول و فعل کے ذریعہ صحیح اسلامی تصور پیش کرنا، اپنے اجتماعی فیصلوں میں حکمت و تدبر کے پہلو کو ملحوظ رکھنا، بے موقع اشتعال سے اپنے آپ کو بچانا اور دینی مراکز کو تقویت پہنچانا، موجودہ حالات میں پوری دنیا کے مسلمانوں اور خاص کر مسلمانانِ ہند کی ذمہ داری ہے، اس کے بغیر ہم ان سازشوں کو ناکام نہیں بنا سکیں گے جس کے جال ہمارے گرد بُنے جارہے ہیں۔

(بشکریہ: ’’تعمیرِ حیات‘‘ لکھنؤ۔ شمارہ: ۲۵ جنوری ۲۰۰۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*