ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات اور ٹیکس نیٹ میں وسعت کے ذریعے اہداف حاصل کرنے سے متعلق اقدامات نے وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی اساس کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ ووٹرز اور کاروباری افراد عمران خان کے متعارف کرائے ہوئے اقتصادی پروگرام کا دکھ پوری شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔
راولپنڈی کے راجہ بازار میں جوتوں کا سیلزمین قیصر محمود کہتا ہے کہ ’’پاکستان میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عام آدمی کی موت واقع ہو رہی ہے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بجلی کے بل بھی قیامت ڈھا رہے ہیں۔ ان سب سے کچھ بچ پائے تو انسان جوتے خریدنے کا سوچے‘‘۔
اگست ۲۰۱۸ء میں وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے پر عمران خان کو اندازہ ہوا کہ انہیں ترکے میں تجارت اور بجٹ خسارے کے ساتھ ساتھ گھٹتے ہوئے زر مبادلہ کے ذخائر بھی ملے ہیں۔ انہوں نے معیشت کو بریک لگادیا اور پھر مئی میں خاصے متذبذب انداز سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے استدعا کی کہ پاکستان کے لیے بیل آؤٹ پیکیج تیار کرے۔ یہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا بائیسواں پروگرام تھا۔ آئی ایم ایف نے جواب میں سخت تر معاشی اقدامات کا مطالبہ کیا۔ عمران خان کی حکومت کہتی ہے کہ اس نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا ہے۔ یہ دیوالیہ پن ان قرضوں کی بنیاد پر ہونا تھا جو سابق حکومتوں نے لیے تھے۔ حکومت کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اس کی نافذ کی ہوئی اصلاحات پاکستان کو ایسی معاشی صورتِ حال سے بچالیں گی جو کبھی بہت اچھی ہو جاتی ہے اور کبھی اچانک بہت بُری شکل اختیار کرلیتی ہے۔ حکومتی منصوبہ یہ ہے کہ ادھار اور درآمدی مال کی بنیاد پر ہونے والی ناپائیدار ترقی کے بجائے ملک کو برآمدات اور توسیع یافتہ ٹیکس نیٹ کے ذریعے ترقی دی جائے، جو ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرے اور حقیقی فلاحی ریاست کے لیے درکار فنڈ بھی فراہم کرے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ اس وقت ہے اور جو کچھ حکومت کرنا چاہتی ہے، اس کے درمیان کی مدت میں لوگوں کو غیرمعمولی معاشی الجھنوں کا سامنا ہے۔ ملک میں سود کی شرح ۱۳ فیصد ہوچکی ہے جو ایشیائی ممالک میں پائی جانے والی بلند ترین شرح سود میں سے ہے۔ روپے کی قدر میں غیر معمولی کمی واقع ہوچکی ہے۔ ایک سال پہلے کے مقابلے میں افراطِ زر تین گنا ہوچکا ہے۔ دوسری طرف معاشی نمو کی شرح ۲ء۴ فیصد تک جا گری ہے۔ ماہرین بجا طور پر یہ سوال کر رہے ہیں کہ حکومت کے پاس معیشت کو بحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کوئی قابل اعتماد اور کارگر حکمت عملی ہے بھی یا نہیں۔ عمران خان وہ کرنا چاہتے ہیں جو اب تک کوئی بھی سویلین یا فوجی حکومت نہیں کرسکی: لوگوں کو ٹیکس دینے پر آمادہ کرنا۔ ۲۰ کروڑ ۸۰ لاکھ کی آبادی میں صرف ایک فیصد افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
حکومت نے خوردہ فروشوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے سپلائرز کو دستاویزی شکل دیں۔ حکومت انہیں سیلز اور انکم ٹیکس ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ود ہولڈنگ ٹیکس جمع کرنے کا بھی کہہ رہی ہے۔ چھوٹے تاجر کہتے ہیں کہ حکومت نے اس حوالے سے سخت اقدامات واپس نہ لیے تو اسی ماہ احتجاج کیا جائے گا۔ تاجروں اور صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ اگر وہ ٹیکس نیٹ میں داخل ہوجائیں تو حکومتی دعوؤں کے باوجود انسپکٹروں کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کا احتمال ہے۔
عمران خان کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں کلیدی کردار مڈل کلاس نے ادا کیا ہے۔ اس طبقے کا کہنا تھا کہ پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں نے خاطر خواہ خدمت نہیں کی تھی۔ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والوں کو بھی تعلیم اور صحت کے معاملے میں نجی شعبے پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ بہت آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے کہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والوں کو بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے۔ رواں سال جنوری سے ستمبر کے دوران اشیائے خور و نوش کے حوالے سے مہنگائی ۳ سے بڑھ کر ۱۵ فیصد ہوچکی ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران کاروں کی فروخت میں ۳۹ فیصد کمی آئی ہے۔ اس دوران موٹر سائیکلوں کی فروخت میں ۱۷ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے تخمینہ لگایا ہے کہ عمران خان کی وزارتِ عظمٰی کے دو سال مکمل ہونے تک ملک بھر میں ۲۰ لاکھ افراد ملازمتوں سے محروم ہوچکے ہوں گے اور کم و بیش ۸۰ لاکھ افراد افلاس کے گڑھے میں لڑھک چکے ہوں گے۔ جنوری ۲۰۱۱ء میں عرب دنیا میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر کا حوالہ دیتے ہوئے حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان میں ایسے حالات تیاری کے مرحلے میں ہیں۔ یہ بم پھٹنے کے انتظار میں ہے‘‘۔ حفیظ پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت حکومت نے معیشت کی اوور ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔ انتہائی مالدار طبقے سے اضافی ٹیکس وصول کرنے کے بجائے غیر ضروری طور پر چھوٹے تاجروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مقبولیت کے حوالے سے اب عمران خان کی تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔
معیشت کی سست رفتاری سے بڑے کاروباری اداروں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان پر بھی غیر معمولی جارحانہ انداز سے ٹیکس لادا جارہا ہے۔ بہت سے کاروباری ادارے اس بات سے بھی خوفزدہ ہیں کہ حکومت کی انسدادِ بدعنوانی مہم میں کہیں انہیں بھی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
دو درجن بڑی کاروباری شخصیات نے رواں ماہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور تحفظات سے آگاہ کیا۔ جنرل باجوہ نے ان سے کہا کہ وہ حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں اور اس کی پالیسیوں کے حامی ہیں۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاست دان الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے میں عمران خان کو فوج کی مدد حاصل رہی ہے۔ عمران خان کی جماعت اور فوج دونوں ہی نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
پہلے سال بہت سے معاشی اہداف کے حصول میں ناکامی کے بعد اب حکومت کہتی ہے کہ وہ بنیادی معاشی اقدامات میں تبدیلیاں لارہی ہے تاکہ معاشی نمو کی رفتار بڑھائی جاسکے۔ آئی ایم ایف نے بھی اس بات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے اچھے آثار دکھائی دیے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران تجارت اور بجٹ کے خسارے میں ایک تہائی کی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ ٹیکس وصولی میں ۱۶ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے۔ برآمدات میں بھی اضافہ دکھائی دیا ہے۔
معاشی امور کے وفاقی وزیر حماد اظہر کہتے ہیں کہ معیشت تیزی سے مستحکم ہو رہی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ معیشت ذرا مستحکم ہوجائے تو ہم معاشی نمو میں اضافہ یقینی بنانے کے مرحلے تک پہنچ سکتے ہیں۔
حکومتی شخصیات کی طرف سے کہی جانے والی باتیں سڑک پر آسانی سے قبول نہیں کی جاتیں۔ اگست میں ’’اپسوس‘‘ نے صارفین کا اعتماد جانچنے کے حوالے سے کیے جانے والے سروے میں پایا کہ صارفین کے اعتماد میں کم و بیش ۸۹ فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ دی فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے رواں ماہ وزیر اعظم کو خط لکھا ہے کہ ۱۳ ماہ کے دوران معیشت میں کسی بھی سطح پر صحت مند آثار دکھائی نہیں دیے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ماہانہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ کاروباری برادری کا اعتماد بھی منفی چل رہا ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار نوجوانوں، بلکہ طلبہ نے ادا کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ نئی نسل کو جاب مارکیٹ میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اضافی ٹیکس کی وصولی کے لیے حکومت نے چھوٹے دکان داروں اور ان کے سپلائرز پر نظریں جما رکھی ہیں۔ یہ طبقہ خام قومی پیداوار کے ۲۰ فیصد کا محرک ہے مگر برائے نام بھی انکم ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ اگلے مرحلے میں ڈاکٹر اور وکلا جیسے پروفیشنلز کا تعاقب کیا جائے گا، جو اپنا معاوضہ نقد وصول کرتے ہیں اور ٹیکس نیٹ میں آنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ خرید و فروخت کے حوالے سے دستاویزی ثبوت کی شرط نے کاروباری سرگرمیاں ماند کردی ہیں۔ ملک بھر میں عوام کی اکثریت خود غیر رسمی معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہی ہے۔ راولپنڈی کے ہارڈ ویئر کے ہول سیلر محمد رفیق قریشی کہتے ہیں کہ ’’۷۰ سال کی بددیانتی کو راتوں رات کیسے دور کیا جاسکتا ہے۔ لوگ خوفزدہ ہیں کیونکہ انہیں معلوم نہیں کہ انہیں کتنا ٹیکس ادا کرنے کو کہا جائے گا‘‘۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Middle-Class person Is dying”.(“The Wall Street Journal”. Oct. 17, 2019)
Leave a Reply