اینڈرز فوگ رسمیوسین(Anders Fogh Rasmussen) ۱۵ اپریل کو نیٹو کے نئے سربراہ نامزد کر دیے گئے۔ مسلم دنیا میں ان کا قابلِ قبول ہونا بہت مشکل ہے۔ ڈنمارک کے وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے ۲۰۰۳ء عراق پر امریکی جارحیت کی حمایت کی نیز ۲۰۰۵ء میں ڈنمارک کے ایک اخبار میں رسول اکرمؐ کا اہانت آمیز خاکہ شائع ہوا۔ پوری مسلم دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی مگر اس شخص نے آزادیٔ رائے کے اظہار کے نام پر اس اخبار کی پُرزور حمایت کی۔ ۵۶ سالہ Rasmussen سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے اتنے قریبی دوست رہے ہیں کہ حزبِ اختلاف نے طنزاً انہیں ’’بش کا خواجہ سرا‘‘ کا نام دیا تھا۔ Rasmussen نے آزادی کے حوالے سے بش کے نظریات و اہداف کی پُرجوش حمایت کی تھی۔ حتیٰ کہ اس شخص نے گوانتا ناموبے میں بش انتظامیہ کے ذریعہ مشتبہ دہشت گردوں کو بغیر کوئی مقدمہ چلائے حراست میں رکھے جانے کی بھی حمایت کی۔ Rasmussen جارج ڈبلیو بش کی صدارت کے دوران ان سے آٹھ مرتبہ مل چکے ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں صدام حسین کی حکومت گرانے کے لیے صدر جارج بش نے جو اتحاد قائم کیا تھا اُس میں شمولیت کے حوالے سے Rasmussen نے غیرمعمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا جس پر ڈنمارک کے عوام نے ردِعمل دکھاتے ہوئے Rasmussen کی پالیسی کے خلاف بہت بڑے بڑے عوامی مظاہرے کیے۔ ۲۰۰۳ء میں انہوں نے ڈینش پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ذریعہ ہمیں جمہوری ریاستوں کو تحفظ دینا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں دہشت گردوں کو قید خانوں میں اس وقت تک مقفل رکھنا ہو گا جب تک کہ وہ عالمی امن کے لیے خطرہ بنے رہتے ہیں۔ نیٹو کے عظیم ترین فوجی مہم کا ساتھ دیتے ہوئے ڈنمارک نے افغانستان میں اپنی افواج بھیجی تھی۔ لیکن اس کو عالمی سطح پر انتہائی قابل ترین شخصیت بنانے میں جس چیز نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے وہ ان کی طرف اس اخبار کی حمایت ہے جس نے ۲۰۰۵ء میں رسولِ کریمؐ کا اہانت آمیز خاکہ شائع کیا تھا۔ Jyllands-Posten Rasmussen نامی ڈیش اخبار کے ذریعہ توہین آمیز خاکہ شائع کرنے کا یہ کہہ کر دفع کیا کہ پریس کی آزادی کے عنوان سے اسے یہ حق حاصل ہے۔ جب ۲۰۰۶ء کے اوائل میں ان کے خلاف پوری دنیا عروج پر تھی اور … توہین آمیز خاکوں کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے تھے نیز ڈنمارک کے مفادات کو اس وجہ سے نشانہ بنایا جارہا تھا۔ اس وقت بھی آنجناب کا یہی اصرار بے جا تھا کہ ’’ڈنمارک میں پریس کی آزادی پر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی‘‘۔ ترکی جو کہ مسلم ملک اور نیٹو کا رکن ہے‘ نیٹو کی ۶۰ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والے اجلاس میں Jaap de Hoop Scheffer کو نیٹو کے نئے سربراہ کی حیثیت سے نامزد کرانے کے حوالے سے اپنی کوشش میں ناکام ہو گیا۔ ترکی وزیراعظم طیب اردگان نے علی الاعلان کہا ’’وہ لوگ امن کی خدمت کیسے کر سکتے ہیں جو ہمیشہ امن کی راہ میں رکاوٹ بنے ہیں؟ ہمیں شک ہے۔۔۔ اور میری رائے نفی میں ہے‘‘۔ ترکی وزیراعظم نے مزید کہا کہ Rasmussen نے Roj ٹی وی پر پابندی لگانے کی ہماری درخواست کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ یہ چینل کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کا ترجمان ہے۔ PKK ترکی کے جنوب میں ۲۴ سال علیحدگی کی تحریک کی قیادت کر رہی ہے اور عالمی برادری کی نظر میں یہ ایک دہشت گرد تنظیم شمار ہوتی ہے۔ اردگان کا کہنا ہے کہ نیٹو ایک ایسا ادارہ ہے کہ جس سے قیامِ امن کی توقع کی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں دہشت گردوں کی دست رس میں جو میڈیا کے چینلز ہیں اُن کے مراکز ڈنمارک میں ہیں۔ ہم نے بارہا ان سے کہا کہ وہ انہیں روکیں لیکن وہ یہ کام نہیں کر سکے یا نہیں کیا۔۔۔ پھر موصوف سے کیسے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ امن قائم کریں گے؟ لیکن نیتو کے دوسرے اراکین کی نظر میں Rasmussen اس منصب کے لیے اہل تر قرار پائے۔ کہا جاتا ہے کہ جرمنی‘ برطانیہ اور فرانس Rasmussen کے پرجوش حمایتی تھے۔ جرمنی کی چانسلر Angel Markel نے انہیں ایک ’’عمدہ انتخاب‘‘ قرار دیا جو بقول ان کے ایک مضبوط سیکرٹری جنرل ثابت ہوں گے۔ وہ انگریزی اور فرنچ بہت روانی سے بولتے ہیں۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ ان کی خوش مزاجی اور بذلہ سنجی حالات کے تقاضا کے باعث فوراً سنجیدگی اور سادگی کا روپ دھار لیتی ہے۔ سیاسی مصالحت کے حوالے سے بھی ان کی صلاحیت کا بڑا چرچہ ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار Hans Engell کے مطابق مخلوط حکومت کی بطور وزیراعظم قیادت کرنے کی بنا پر انہیں ایک بہترین منتظم اور منصوبہ ساز خیال کیا جاتا ہے اور وہ ایک ایسی شخصیت تصور کیے جاتے ہیں جسے اپنے آپ پر مکمل کنٹرول ہو۔ Rasmussen شادی شدہ ہیں اور ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ حال ہی میں یہ دادا بھی بن چکے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو جسمانی طور سے فٹ رکھنے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں جو مختلف اقسام کی ورزشوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اطالوی وزیراعظم Silvio Berlusconi نے ان کے متعلق ایک بار کہا تھا کہ ’’یہ یورپ کے سب سے خوبرو وزیراعظم ہیں‘‘۔
(بحوالہ: “AFP” ۱۶ اپریل ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply