افپاک جو کہ افغانستان اور پاکستان کے خطے کے لیے مخفف نام کے طور پر مشہور ہے، میں صدر اوباما بغداد کی طرز پر شہر کے اندر شہر جیسے بڑے اور وسیع نئے سفارتخانے اور دوسری عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں۔ ایسے سفارتخانے دنیا میں کسی اور جگہ بھی موجود نہیں ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ وہ وہاں طویل مدت تک رہنا چاہتے ہیں۔
اس وقت عراق میں ایک بڑی دلچسپ چیز دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اوباما عراقی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ ریفرنڈم نہ کرایا جائے، جو Status of Forces Agreement یعنی فورسز کی موجودگی کے معاہدے کے تحت ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس پر بش انتظامیہ بڑی مشکل سے آمادہ ہوئی تھی، جسے عراقی عوام کی مزاحمت کی وجہ سے جنگ کے بنیادی مقاصد سے رسمی طو پر دستبردار ہونا پڑا تھا۔ ریفرنڈم پر واشنگٹن کی طرف سے حالیہ اعتراض کے متعلق ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی نامہ نگار ایلیا روبن نے دو روز پہلے تفصیلات بیان کی تھیں: ’’اوباما کو خدشہ ہے کہ عراقی عوام اس شق کو مسترد کر دیں گے، جس کے تحت امریکی فوج کی واپسی میں ۲۰۱۲ء تک تاخیر کی جا سکتی ہے۔ وہ امریکی فوج کی فوری واپسی پر بھی اصرار کر سکتے ہیں‘‘۔ لندن میں عراقی معاملات کے تجزیہ نگار جو عراقی فائونڈیشن برائے جمہوریت و ترقی، لندن کے سربراہ ہیں، جبکہ یہ تنظیم مغرب کی حامی ہے نے وضاحت کی ہے کہ: ’’عراق کے لیے یہ الیکشن کا سال ہے اور کوئی بھی شخص ایسا نظر نہیں آنا چاہتا کہ وہ امریکیوں کو خوش کر رہا ہو۔ عراق میں اب امریکا کی مخالفت عروج پر ہے‘‘۔ بلا شبہ ایسا ہی ہو رہا ہے اور کوئی بھی شخص جس نے پینٹاگان سمیت مغرب کی سرپرستی میں ہونے والے الیکشن دیکھے ہیں، وہ حقائق سے واقف ہے۔ قانونی تقاضوں کے مطابق ہونے والے ریفرنڈم کو روکنے کے لیے امریکی کوششوں سے بہت کچھ افشا ہوتا ہے۔ بعض اوقات انہیں ’’جمہوریت کے فروغ‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
اوباما بہت واضح طور پر اپنے مقاصد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ وہ خطے میں امریکا کی ایک مضبوط اور بڑے پیمانے پر موجودگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور طالبان کو پاکستان میں دھکیلنے کی پیٹریاس کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے افپاک جنگ کو تیزی سے پھیلا رہے ہیں، جبکہ پاکستان جیسی انتہائی خطرناک اور غیر مستحکم ریاست کے لیے اس کے نتائج خوفناک ہوں گے، جہاں سارے علاقے میں پہلے ہی شورش برپا ہے۔ یہ شورش سب سے زیادہ قبائلی علاقوں میں ہو رہی ہے۔ پاک افغان سرحد ایک مصنوعی سرحد ہے، جو انگریزوں نے ڈیورنڈ لائن کے نام سے قائم کی تھی اور سرحد کے دونوں طرف پشتون قبائل ہی آباد ہیں جنہوں نے یہ سرحد کبھی قبول نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت نے بھی اس سرحد کو کبھی قبول نہیں کیا، جبکہ لڑائی اسی علاقے میں ہو رہی ہے۔
خطے کے حالات کے نامور ماہرین میں سے ایک سیلگ ہیریسن نے حال ہی میں لکھا ہے کہ واشنگٹن کی حالیہ پالیسیوں، جو اوباما کی پالیسیاں ہیں، کا نتیجہ پشتونوں پر مشتمل ایک نیم مختار قسم کی علیحدہ ریاست بھی ہو سکتا ہے جسے ہیریسن نے ’’اسلامی پختونستان‘‘ کا نام دیا ہے۔
ڈرون حملوں میں اضافے کے ساتھ امکانات زیادہ خراب نظر آنے لگے ہیں، کیونکہ عام لوگوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں سے عوام میں زیادہ اشتعال پیدا ہو گیا ہے اور ڈرون حملوں میں اضافہ صرف چند روز پہلے جنرل سٹینلے میکرسٹل کو غیر معمولی اختیارات ملنے کے بعد ہوا ہے۔ وہ اسپیشل فورسز سے تعلق رکھنے والا ایک وحشی قسم کا قاتل ہے۔ اسے کارروائیوں کو تیز تر کرنے کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ عراق میں جنرل پیٹریاس کے انسداد بغاوت کا مشیر جنرل ڈیوڈ کل کلن۔ میرے خیال میں وہ کرنل ہے۔ نے اوباما ’پیٹریاس‘ میکرسٹل پالیسیوں کو ایک بنیادی ’’اسٹریٹجک غلطی‘‘ قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹ سکتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس ملک کے وسیع رقبے، اسٹریٹجک محل وقوع اور ایٹمی ہتھیاروں کے پیشِ نظر یہ ایک ایسی آفت اور تباہی ہے جس کے سامنے عہدِ حاضر کے تمام مسائل ’’بونے‘‘ اور معمولی نظر آئیں گے۔
یہ بات بھی کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ریگن کی اہم امداد کی بدولت پایہ تکمیل تک پہنچے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا اور بھارت کے درمیان حالیہ ایٹمی معاہدہ بھارت کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے میں اہم مددگار ثابت ہوا ہے۔ یہ معاہدہ ایٹمی عدم پھیلائو معاہدے (این پی ٹی) کے لیے بھی ایک شدید جھٹکا ہے۔ دونوں ممالک کشمیر کے مسئلے پر دوبارہ ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور دونوں افغانستان میں ایک طرح سے ’’پراکسی جنگ‘‘ بھی لڑ رہے ہیں۔ یہ سرگرمیاں عالمی امن بلکہ انسانی بقاء کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہیں۔
(بشکریہ: ’’ڈیمو کریسی نائو‘‘۔ ۳ جولائی ۲۰۰۹)
Leave a Reply