فلسطینی دھڑوں میں اتحاد ہوسکتا ہے؟

فلسطینی دھڑوں میں صلح کی بات چیت ایک بار پھر خبروں میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوسکے گا؟ اگر سب کچھ درست چلتا رہا تو بہت جلد فلسطین کو، کم از کم دستاویز اور نظریے کی حد تک، دو بلاکس کی شکل میں متحد ہو جانا چاہیے۔ غزہ کی پٹی پر اسلامی تحریک حماس کی حکمرانی ہوگی اور غرب اردن پر فلسطینیوں کی سیکولر قومی تحریک فتح کا تصرف ہوگا۔ حماس کے سربراہ خالد مشعل اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے ۲۴ نومبر کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ملاقات کی۔ ملاقات کا مقصد مئی میں انجام پانے والے ایک معاہدے کے تحت عبوری حکومت کے قیام کے معاملے کو حتمی شکل دینا، انتخابات کی تاریخ کا تعین کرنا اور حماس کو تنظیم آزادی فلسطین کی چھتری تلے لانا تھا جو تمام آزادی پسند فلسطینی تنظیموں کی مادر تنظیم سمجھی جاتی ہے۔

فلسطینی دھڑوں کو متحد کرنے کا خواب کسی طور شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایک ہفتے تک امریکی صدر براک اوباما کے خصوصی ایلچی اور اردن کے بادشاہ عبداللہ نے اپنے اپنے طور پر فلسطینی دھڑوں کے سربراہوں کو سمجھانے اور منانے کی کوشش کی اور شاہ عبداللہ ایک عشرے سے بھی زائد مدت میں پہلے اردنی شاہ تھے جو، ہیلی کاپٹر کے ذریعے، فلسطینی اتھارٹی کے دارالحکومت رام اللہ پہنچے۔ محمود عباس مغربی دنیا کے منظور نظر سلام فیاض کو وزیراعظم بنائے رکھنے پر مُصِر ہیں تاکہ مغرب سے امداد ملتی رہے۔ حماس چاہتی ہے کہ سلام فیاض کی چھٹی کردی جائے۔ فتح انتخابات سے دور بھاگتی ہے اور ریٹائرمنٹ کی خواہش رکھنے والے محمود عباس کا نعم البدل، بظاہر، اُس کے پاس کوئی نہیں۔ فتح کو ویسی ہی اندرونی لڑائی سے ڈر لگتا ہے جس نے ۲۰۰۶ء میں حماس کو انتخابات میں شاندار فتح حاصل کرنے کے قابل بنادیا تھا۔

ابتدا میں حماس کوئی معاہدہ کرنے کے معاملے میں سنجیدہ دکھائی دی تھی۔ فتح کی کمزور پڑتی ہوئی پوزیشن نے حماس کو خاصا مضبوط کیا ہے۔ ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں حماس کو ۴۴ فیصد اور فتح کو ۴۱ فیصد ووٹ ملے تھے۔ حماس نے اتنی نشستیں حاصل کرلی تھیں کہ کسی کی مدد اور حمایت کے بغیر بھی حکومت بناسکتی تھی اور بنائی۔ تجارتی سطح پر بھی حماس نے خاصی کامیابی حاصل کی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے مگر اس محاصرے کے توڑ کے لیے حماس نے غزہ سے مصر میں کئی سرنگیں بنا رکھی ہیں۔ روزانہ ۶۵۰۰ ٹن سے زیادہ اسمگل شدہ تعمیراتی سامان غزہ آتا ہے۔ حماس کے معاشی امور کے وزیر اعلا رفاتی کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں اسرائیلی فوجی کارروائی سے جو نقصان ہوا تھا اس کا بہت حد تک ازالہ کیا جاچکا ہے۔ حماس نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا ہے اور یہ نرم رویہ رکھنے والے محمود عباس کے لیے دھچکے سے کم نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حماس کو اخوان المسلمون کی بڑھتی ہوئی قوت سے بھی تقویت ملی ہے۔ عرب دنیا میں بیداری کی لہر نے اخوان المسلمون کو غیر معمولی حیثیت فراہم کردی ہے۔

فتح سے معاہدے کی صورت میں حماس کو غیر معمولی فائدہ پہنچے گا۔ مغربی کنارے کے علاقے میں اس کے قدم مضبوط ہوں گے۔ فتح کے ذریعے وہ مغربی حکومتوں سے بہتر روابط قائم کرسکے گی۔ امریکا نہ سہی، یورپ سے تو اس کے رابطے قائم ہو ہی سکتے ہیں۔ اپنی سنجیدگی ظاہر کرنے کے لیے حماس نے غزہ میں فتح کے کارکنوں کو پرچم لہرانے کی اجازت دی ہے اور فتح کے تحت ہونے والی ورکشاپس اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی شادیوں اور دیگر تقاریب میں شریک ہونا شروع کردیا ہے۔

ویسے اگر حماس اور فتح میں کوئی معاہدہ نہ ہوسکا تب بھی اشک بہانے والے کم ہی ہوں گے کیونکہ حماس کی نظریں جنوب کی جانب موجود مواقعوں پر مرکوز ہیں۔ اس نے مصر سے اب تک کی جانے والی زیر زمین تجارت کو ختم کرکے اسے باضابطہ شکل دینے پر بھی گفت و شنید کی ہے۔ ایک وفد حال ہی میں مصر گیا جس نے سالانہ ایک ارب ڈالر کی زیر زمین تجارت کو باضابطہ شکل دینے پر بات کی اور خیال کیا جارہا ہے کہ اگر دونوں ممالک باضابطہ تجارت پر راضی ہوگئے تو تجارتی حجم دو ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہو جائے گا۔ غزہ میں یومیہ بلیک آؤٹ ختم کرنے کے لیے اِسے مصر کے گرڈ سے جوڑا بھی جاسکتا ہے۔ بسوں کے ذریعے غزہ کو پورے خطے سے جوڑنے کی بات بھی کی جارہی ہے۔ حماس کے ایک وزیر کا کہنا ہے کہ دو ایک سال میں یہ ہوگا کہ غزہ سے بس سروس کے ذریعے کوئی بھی مراکش تک جاسکے گا۔

غزہ میں چند حماس رہنما فتح سے کوئی مفاہمت نہ ہونے کی صورت میں بھی سفارتی فوائد دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تنظیم آزادیٔ فلسطین یا فلسطینی اتھارٹی کے بجائے عرب دنیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی نئی حکومتوں کے ذریعے مغرب اور بالخصوص امریکا سے بات کرنا آسان ہے کیونکہ اب نئی حکومتوں سے مغربی حکومتیں بھی رابطے میں ہیں۔ ایک تشویش کی بات البتہ یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ ایسی کسی بھی حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے جس میں حماس شامل ہو۔

غزہ کی قیادت ایک ایسا نظام لانا چاہتی ہے جو اسلامی اصولوں کے مطابق اور اندرونی سطح پر حد بندیوں سے آزاد ہو۔ مثلاً محمود زہار کو اب بھی یاد ہے کہ وہ غزہ سے ٹرین کے ذریعے نہر سوئز کے دوسرے کنارے پر واقع اپنے آبائی شہر اسماعیلیہ جایا کرتا تھا۔ یہ بات ۱۹۶۷ء کی جنگ سے قبل کی ہے۔ محمود زہار کہتا ہے کہ ہم سب ایک ہیں، کوئی مسلمانوں کو الگ نہیں کرسکتا۔

مصر کی عبوری فوجی حکومت حماس کے ارادوں سے کچھ کچھ پریشان دکھائی دیتی ہے۔ حماس کو امید ہے کہ انتخابات میں اخوان حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت کے ساتھ یا اس کے آس پاس ابھرے گی۔ سات سال بعد حال ہی میں غزہ جانے والے فتح کے عہدیدار حسام زولموٹ کا کہنا ہے کہ ’’حماس خود کو الگ یا تنہا نہیں سمجھتی۔ عرب دنیا میں ۱۵ ؍کروڑ افراد جس اسلامی لہر کا حصہ ہیں حماس بھی اسی کا حصہ ہے‘‘۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*