غرب اردن۔۔۔ سلام فیاض کے بعد!

فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم سلام فیاض نے ۱۳؍اپریل کو استعفیٰ دے دیا۔ یہ استعفیٰ حماس اور فتح گروپ کے درمیان امن معاہدے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔

سلام فیاض کے استعفے کو فلسطینی علاقوں میں امن کے قیام کے حوالے سے ایک اور دھچکا ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ سلام فیاض آئی ایم ایف کے افسر رہ چکے تھے۔ ایم بی اے کے ساتھ ساتھ انہوں نے معاشیات میں پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے۔ کسی زمانے میں وہ سینٹ لوئی فیڈرل ریزرو فنڈ سے وابستہ تھے۔ مغربی سفارت کاروں کو سلام فیاض سے رابطے میں آسانی تھی اور بات سمجھانے میں دیر نہیں لگتی تھی۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے ملٹری بینڈز کو ختم کرکے اردن سے تربیت یافتہ آٹھ بٹالینز تعینات کیں۔ جن شہروں میں اسلحہ اجتماعی ثقافت کا حصہ بن چکا تھا اور جہاں ۲۰۰۰ء سے اب تک تشدد عام تھا، وہاں انہوں نے امن قائم کیا۔ پارلیمنٹ ختم ہو جانے کے بعد سلام فیاض نے فرامین کے ذریعے حکومت کی۔

سلام فیاض کے عہد میں مغربی ممالک نے کھل کر فنڈ فراہم کیے۔ غیر معمولی سطح پر ملنے والی امداد سے سلام فیاض فلسطینیوں کو ان کی خواہشات کے مطابق بہت کچھ دینے میں کامیاب ہوئے۔ معیار زندگی بلند ہوا۔ جو کبھی جنگجو تھے، وہ بیورو کریٹ بن گئے۔ انہوں نے لیپ ٹاپ اور آئی فون کو زندگی کا حصہ بنالیا، کاروں میں گھومنے لگے اور نارمل زندگی بسر کرنے لگے۔ غرب اردن پنپتا گیا اور فلسطینیوں اور خلیجی ممالک کے معیار زندگی میں پایا جانے والا فرق کم ہوتا چلا گیا۔ سلام فیاض اور ان کے ساتھی اب سامان پیک کر رہے ہیں اور دوسری طرف لوگوں کے ذہنوں میں یہ خدشات پروان چڑھ رہے ہیں کہ سکیورٹی کا کیا ہوگا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے فنڈ کہاں سے آئیں گے۔ فتح گروپ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ سلام فیاض کا استعفیٰ اندرونی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔ یہ ایک بڑی اسٹریٹجک غلطی تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینیوں کو چند ایک معاشی فوائد حاصل ہوئے ہیں مگر ان کے زیر تصرف زمین کا رقبہ گھٹتا گیا ہے کیونکہ یہودیوں نے بڑی تعداد میں نو آبادیاں بنالی ہیں۔ غرب اردن کے شمالی علاقوں میں جہاں نوآبادیاں کم ہیں، فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان کشیدگی بھی کم ہے۔ جہاں بھی یہ دونوں آمنے سامنے ہیں، کشیدگی کی سطح بلند رہتی ہے اور تصادم بھی ہوتا رہتا ہے۔ اپریل کے وسط میں غرب اردن کے صدر مقام رام اللہ کے نزدیک اوفرا کی نو آبادی سے یہودی نقاب پوش آبادکاروں نے آکر ایک بوڑھے فلسطینی پر حملہ کیا۔ اس فلسطینی کی زمین پر آباد کاروں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ فلسطینیوں نے جوابی کارروائی کے طور پر سلواد (Silwad) کی آبادی میں گشتی مکانات کو آگ لگادی۔ صورتِ حال اِتنی بگڑی کہ سپاہیوں کو فائر کھولنا پڑا۔ جلازون (Jalazoun) کے پناہ گزین کیمپ کے نزدیک سڑک پر یہودیوں اور فلسطینیوں نے ایک دوسرے کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔

۲۰۰۵ء میں تازہ ترین انتفاضہ کو کچلنے میں کامیاب ہونے والے موشے یالون کو اسرائیل کا وزیر دفاع بنایا گیا ہے۔ ان کے تحت افسران نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے احتجاج کو سختی سے کچل دیں گے۔ اسرائیلی حکومت نے مخبری کا نظام مربوط اور مستحکم رکھا ہے۔ خفیہ پولیس اپنا کام تندہی سے کرتی ہے۔ اب یہ سوچا جارہا ہے کہ اگر امن قائم کرنے کے لیے محض طاقت اور خفیہ نظام کافی نہیں تو متبادل ذرائع بھی سوچنے چاہئیں۔

فلسطینی علاقوں میں امن کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فتح گروپ اور حماس کے درمیان پائی جانے والی مخاصمت ہے۔ حماس کے عہدیدار اور کارکنان فلسطینی اتھارٹی کے اعلیٰ حکام کو اسرائیل اور امریکا کے حاشیہ بردار اور خادم قرار دیتے نہیں تھکتے۔ فتح اور حماس کے درمیان امن معاہدہ اب ناگزیر ہوچکا ہے۔ یہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ مگر خیر، اب بھی سب کچھ ختم نہیں ہوا اور اتنی دیر نہیں ہوئی کہ امن معاہدہ کسی کام کا ثابت نہ ہو۔ غرب اردن کے کوہستانی علاقے کے نگراں کی حیثیت سے سلام فیاض نے غزہ کی پٹی کی حکمران جماعت حماس سے مخاصمت کا آغاز کیا جو اسرائیل کے لیے غیر معمولی مسرت کا سامان کرنے والا عمل تھا۔ سلام فیاض کے بغیر بھی فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس حماس کے سربراہ خالد مشعل سے معاہدہ کرکے وسیع البنیاد مخلوط حکومت کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ اگر سلام فیاض کے جانے سے امن معاہدے کی راہ ہموار ہو جائے تو اسے بھی بڑی کامیابی تصور کیا جائے گا۔

(“The Palestinians’ West Bank: After Fayyad”… “The Economist”. April 20th, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*