رجب طیب ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی تیسری بار انتخابات جیت گئی ہے۔ ایردوان نے اعلان کیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی نے پھر انتخاب جیتا تو وہ آئین کی تشکیل نو کریں گے تاکہ اس میں فوج کے اختیارات پر واضح قدغن لگائی جاسکے اور ملک کو بنیادی حقوق کے حوالے سے بہتر مقام تک لانا ممکن ہو۔
ایردوان نے استنبول کے علاقے قاسم پاشا میں آنکھ کھولی۔ ان کی خواہش تھی کہ قاسم پاشا کی فٹبال ٹیم میں کھیلیں۔ انہوں نے اسلامی علوم کی جامع تعلیم بھی حاصل کی تاکہ دینی امور کی تدریس کا فریضہ انجام دیں۔ یہ دونوں خواہشات تو پوری نہ ہوسکیں تاہم وہ وزیر اعظم ضرور بن گئے۔ اب وہ آئین کی تشکیل نو کے ساتھ ساتھ ایک صدارتی نظام متعارف کرانا چاہتے ہیں جو فرانس کے صدر کی طرح مضبوط لیڈر دے۔ اگر ایسا ہوا تو نئے ترکی کے پہلے صدر خود طیب ایردوان ہی ہوں گے۔ یہ سب کچھ بہت خطرناک دکھائی دے رہا ہے۔ ایردوان چاہتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ، جامعات کے سربراہان و دیگر اساتذہ اور فوج پارلیمنٹ کو جوابدہ ہو۔
ملک کی قدیم، سیکولر اشرافیہ سمجھتی ہے کہ طیب ایردوان ملک کو اسلامی مملکت بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ججوں، فوج اور اساتذہ پر طیب ایردوان کی اے کے پارٹی کو سبقت مل گئی تو ملک کو ایک بار پھر سخت گیر اسلامی ریاست بننے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔ امریکا اور اسرائیل کے سیاسی تجزیہ کار اور قائدین اس بات سے خوش نہیں ہیں کہ طیب ایردوان کو تیسری مدت کے لیے بھی وزیراعظم بننے کا موقع دیا جارہا ہے۔ ایردوان نے انتخابی مہم کے دوران اسرائیلی میڈیا کی ایک سازش بے نقاب کی تھی۔ ترک میڈیا کی سرکردہ شخصیات اس بات سے خوش نہیں کہ طیب ایردوان تنقید کو ذرا بھی برداشت نہیں کرتے۔ ایک بڑے اخبار کے مالک کو تنقید کی پاداش میں بھاری ٹیکس ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔ حکومت پر تنقید کی پاداش میں ۶۰ سے زائد صحافی جیل میں ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں حکومت مخالف صحافی تو چین کی جیلوں میں بھی نہیں۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ترکی کی عیسائی برادری نے طیب ایردوان کی پارٹی کی بھرپور کامیابی کا خیرمقدم کیا ہے۔ اے کے پی شراب نوشی کے حق میں نہیں اور سر پر اسکارف رکھنے کے معاملے میں بھی سخت گیر ہے مگر اس کے باوجود عیسائی برادری اس لیے خوش ہے کہ ایردوان نے ۸۰ سال پرانے عیسائیت مخالف قوانین کے حوالے سے لچک کا عندیہ دیا ہے۔ وہ بلا ضرورت سخت گیر رویہ اپنانے کے حق میں نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایردوان نے قسطنطنیہ کے ۱۷۰۰ سال پرانے آرتھوڈوکس چرچ کی پدرانہ حیثیت برقرار رکھنے کی بھرپور وکالت کی ہے۔ موجودہ پیٹریارچ بارتھولومیو دنیا بھر کے ۳۰ کروڑ سے زائد آرتھوڈوکس عیسائیوں کے روحانی پیشوا ہیں۔ ۱۹۲۳ء کے قوانین کے تحت آرتھوڈوکس کے کالج آف کارڈینلز (سائنوڈ) کا سربراہ ترک یونانی نسل کا ہونا چاہیے۔ ترکی میں اس نسل کے صرف ڈھائی ہزار افراد ہیں۔ بارتھولومیو اب ۷۱ سال کے ہیں۔ ان کے ساتھیوں کی عمریں بھی اچھی خاصی ہیں۔ ایسے میں یہ خطرہ پیدا ہوچلا تھا کہ کہیں ترک آرتھوڈوکس چرچ ختم ہی نہ ہو جائے یا قیادت کے بحران سے دوچار نہ ہو جائے۔ ایردوان نے دنیا بھر سے آرتھوڈوکس بشپس کو ترک شہریت دے کر اس چرچ کو مٹنے سے بچالیا ہے۔
پیٹریارچیٹ کے فادر ڈوسیتھیوز اینیگنوسٹوپولوز نے ترکی حکومت کی جانب سے مختلف ممالک اور خطوں کے آرتھوڈوکس بشپس کو شہریت دیئے جانے کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے زندگی بھر ترک حکومت کی جانب سے اس سے زیادہ مثبت اقدام کوئی نہیں دیکھا۔ طیب ایردوان نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت عیسائی اپنی ان املاک کے لیے کلیمز داخل کرسکیں گے جو ان سے ضبط کی جاتی رہی ہے۔ ۱۹۱۵ء میں تباہ ہونے والے ایک آرمینیائی چرچ کو سرکاری خرچے پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے اور آرمینیا سے تعلق رکھنے والے پادریوں کو وہاں عبادت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ قدیم یونانی آرتھوڈوکس سمیلا موناسٹری (خانقاہ) میں بھی حال ہی میں ایک بڑے اجتماع کی اجازت دی گئی۔
مذہبی امور کے ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ محمد گورمیز نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ جس طرح اسلامی اداروں کو بندش کے نتیجے میں غیر معمولی دباؤ جھیلنا پڑا تھا اسی طرح اقلیتوں کے اداروں کو بھی دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے مطالبات کی روشنی میں انہیں حقوق دینے سے خود اسلامی اداروں کے احیاء اور استحکام کی راہ ہموار ہوگی۔ ترکی کے انتہائی قوم پرست عناصر اسلامی اداروں کو بھی تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور عیسائی اداروں کے بارے میں بھی تحفظات رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مذہبی آزادی دینے سے ترک معاشرے کی ساخت متاثر ہوگی۔ ان کی خواہش ہے کہ مذہبی آزادی کو ایک خاص حد تک رہنے دیا جائے۔ قوم پرست عناصر کا ایک بنیادی شکوہ یہ ہے کہ مختلف آرتھوڈوکس چرچ سے تعلق رکھنے والے عیسائی دراصل ترک معاشرے کا حصہ بننے سے گریز کرتے ہیں اور ان کے اس رجحان کے باعث ’’ترکیت‘‘ داؤ پر لگتی ہے۔ ماضی میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جو جنگیں اور رسا کشی ہوتی رہی ہے اس کی داستانیں آج بھی درسی کتب میں پائی جاتی ہیں۔ قوم پرست عناصر کے خیال میں مذہبی آزادی کا دائرہ وسیع کرنے سے معاملات خراب ہوں گے۔
بہت سے لوگوں نے کلیساؤں کی املاک ضبط کرکے غیرمعمولی مالی فوائد بٹورے ہیں۔ انہیں عیسائیوں کو دی جانے والی آزادی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ وہ چاہتے ہیں کہ عیسائیوں کو ضبط شدہ املاک کے کلیمز داخل کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ عیسائیوں کو ایردوان کی شکل میں ایک اچھا اتحادی میسر آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طیب ایردوان نے اصلاحات کے ذریعے اور عیسائیوں کے بارے میں نرمی دکھا کر دراصل قوم پرستوں پر وار کیا ہے جو ہمیشہ عیسائیوں کے کٹّر دشمن رہے ہیں۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۱۹ ؍جون ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply