چند برس قبل پہلی بار چاند پر خلا نووردوں کے اترنے کے بعد چاند کے حوالے سے ترقی یافتہ اقوام کی مہم جوئی سرد پڑ چکی تھی لیکن اب دوبارہ مہم جوئی زیادہ جوش اور شدت کے ساتھ شروع ہو گئی ہے۔ کئی دوسرے ممالک بھی اس دوڑ میں شریک ہو چکے ہیں اس بار امریکا کو اس کے پرانے حریف یو ایس ایس آر ہی سے مقابلہ نہیں کرنا پڑ رہا بلکہ ہندوستان، چین سمیت کئی ممالک اور گوگل نے بھی اس مہم جوئی میں اقدام کا آغاز کر دیا ہے۔
چاند کی سطح پر لطف اور نشاط آور تفریح، چہل قدمی اور گہما گہمی کا تو غالباً کوئی امکان نہیں ہو گا نہ ہی اس بار کی مہم جوئی کا مقصد فراہمی معلومات، جستجو اور تحقیق و تفتیش تک محدود ہو گا اور نہ ہی سابقہ مہم جوئی کو دہرانا یا تفریحی گاڑی یا بگھی میں بیٹھ کر لطف اندوز ہونا ہے بلکہ یہ ایک ایسی مہم جوئی ہو گی جو تکلیف دہ اور پریشانی کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔
چاند کی سطح پر اُترنے کا تصور اپنے اندر بے پناہ کشش ضرور رکھتا ہے لیکن وہاں بھی آپ کو اپنی بقا اور قیام کے لیے ٹھکانہ اور مسکن کی ضرورت ہو گی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا کئی ٹن وزنی خلائی جہاز چاند کی سطح سے واپس زمین پر آ سکتا ہو اور خلا میں جا سکتا ہو یوں اگر یہ ممکن ہو جائے اور خلائی جہاز جانے کے بعد آتا جاتا رہے تب بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ اس دوران اس کے ہزاروں کی تعداد میں اجزا اور پرزے ٹھیک ٹھیک کام کرتے رہیں لیکن اس کی کوئی ضمانت یا گارنٹی دینا ممکن ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پہلی بار چاند کی سطح پر خلا نورد اُترے تھے تو اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن نے ایک ایسی صورتحال کے پیش نظر کہ توقعات کے برعکس واقعہ بھی ہو سکتا ہے، ایک مختصر خطاب کا متن تیار کر رکھا تھا جس میں انہیں کہنا تھا کہ ’’قسمت نے چاند پر تحقیق و تفتیش کے لیے جانے والے خلانَوردوں کو وہیں فائز المرام کر دیا ہے اور وہ چاند ہی پر ابدی سکون و استراحت میں رہیں گے‘‘۔
بہرحال خلا نوردوں کو چاند پر اچھا وقت گزارنے کا موقع ملا اور امریکا کو جس نے چاند پر خلا نورد بھیجے تھے دنیا بھر میں بڑی شہرت ملی تاہم خلا نوردوں نے چاند کو ایک بالکل خالی ارضی تودے کی صورت میں پایا تھا جو ۴ لاکھ کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر محیط تھا یوں ہر لحاظ سے چاند کے حوالے سے مہم جوئی کا یہ دوسرا عشرہ بہت مشکلات سے گھرا ہوا ہے اور ایک بار پھر امریکا اور بہت سے ملکوں کی نظریں چاند کو مسخر کرنے پر لگ گئی ہیں۔
ناسا کے حوالے سے جو بات اب سننے میں آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ۲۰۱۵ء تک ناسا خلا نوردوں پر مشتمل ایک اور خلائی جہاز اورین (Orion) چاند کے بیضوی مدار پر بھیجے گا اور ۲۰۲۰ء تک اورین کو چاند کی سطح پر اترنے والے الٹیر (Altair) کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا اور اسی سال چاند کی سرزمین پر نئے سرے سے امریکیوں کے قدم پہنچیں گے جس طرح سے ۱۹۷۲ء میں اپولو ۱۷ کے پہلے مشن کے نتیجہ میں امریکی خلا نورد چاند کی سطح پر پہنچے تھے۔ اس حوالے سے کنٹریکٹرز کا انتخاب کیا جا چکا ہے دھات کی کٹائی کا کام شروع کیا جا رہا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس مہم جوئی کے لیے رقوم مختص کی جا چکی ہیں۔ ناسا کے کانٹی لیشن پروگرام کے منیجر چیف ہنیلے کے مطابق یہ ایک تحقیقی پروگرام ہے جس کے ذریعہ خلا نوردوں کی تحقیق و تفتیش اور اخذ معلومات پر نظر رکھی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اس مہم جوئی پر ماہانہ لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس حوالے سے مختلف کام انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں۔
گلوبلائزیشن نے اس مہم جوئی کو نئی تحریک دی ہے چونکہ ایشیا اور یورپ کی معیشتیں دولت و تونگری کے نئے خزانوں سے مالا مال ہیں۔ اس لیے دنیا کے کئی دوسرے ممالک بھی اس بات کو محسوس کر رہے ہیں کہ چاند تک رسائی ممکن ہے۔ کوئی بات نہیں کہ ماضی میں امریکا اور سوویت یونین جیسے دو فریقوں کے درمیان ہی چاند پر رسائی کی یہ دوڑ محدود رہی تھی لیکن اس دفعہ اس دوڑ میں شریک ہونے والوں میں چین سرفہرست ہے۔ اس کے بعد ہندوستان، جاپان اور یورپ کے ۱۷ ملکوں کی مشترکہ تشکیل کردہ یورپین اسپیس ایجنسی کا نمبر ہے یوں اس بار اس دوڑ میں بیک وقت دنیا کے بہت سے ممالک شریک ہو گئے ہیں۔ ہندوستان نے ۲۲ اکتوبر کو چندرایان ون نامی اپنا خلائی جہاز خلا میں بھیجا ہے۔ اس میں انسان یا خلا نورد نہیں ہیں، تاہم یہ چاند کے بیضوی مدار سے معلومات فراہم کرے گا۔ چین کا شانگی۔ ون (Change-1) خلائی جہاز پہلے ہی چاند کے بیضوی مدار میں موجود ہے۔ اسی طرح جاپان کا خلائی جہاز سینیلے (Selene) اور یورپ کے ممالک کا مشترکہ خلائی جہاز اسمارٹ۔ ون (Smart-1) ۲۰۰۳ء سے چاند کے بیضوی مدار میں ہیں۔ یورپین اسپیس ایجنسی اب اپنے خلائی جہاز کو مخالف سمت میں چلانا چاہتی ہے جب کہ چین ۲۰۲۰ء تک چاند پر اپنے خلا نورد بھیجنے کے عزائم رکھتا ہے۔ یورپین اسپیس ایجنسی ۲۰۱۶ء تک ایک گلوبل روبوٹک ولیج تعمیر کرنے کی توقعات اور امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے اور ۲۰۲۴ء تک چاند پر ایک مستقل نوعیت کے اڈے کے قیام کے عزائم رکھتی ہے جہاں انسان بھی ہر وقت موجود رہیں گے۔ ان تمام مہم جوئیوں میں سے کسی ایک میں بھی نجی شعبے سرے سے شریک ہی نہیں ہیں۔ گوگل نے پیشکش کی ہے کہ ۳۱ دسمبر ۲۰۱۲ء سے قبل چاند کی سطح پر جس گروپ نے بھی ایک روبوٹ کو لینڈ کر دیا، اسے گوگل ۳۰ ملین ڈالرز کا انعام دے گی تاہم اس روبوٹ کو کم از کم ۵۰۰ میٹر (۱۶۴۰ فٹ) کا سفر چاند کی سطح پر کرنا اور وہاں سے ویڈیو واپس بھیجنا بھی ضروری ہو گا۔ انعام کے اس اعلان کے صرف ۶ ماہ کے عرصہ میں ۵۳ ملکوں کے ۵۶۰ گروپوں نے اس مہم جوئی میں دلچسپی کا اظہار کیا یوں اچانک ہی چاند پر جو گزشتہ ۴۰ سال سے صرف امریکا کی ایک کلچر کالونی کا مسکن سمجھا جاتا تھا اب اس کے بہت سے دعویدار پیدا ہو گئے ہیں۔
امریکا کے بعد چاند کی سطح پر پہنچنے کی دوڑ میں سب سے طاقتور کھلاڑی چین ہے۔ جبکہ گزشتہ ایک سو سال کو امریکی صدی قرار دیا جا سکتا ہے اور خلائی پروگرام جیسا قوت کو ظاہر کرنے والا کوئی دوسرا پروگرام نہیں ہے۔ چین کی اکیڈمی آف سائنس سے باضابطہ طور پر منسلک ماہر اجرام فلکی لی جنگ کا کہنا ہے کہ چین کے عوام امریکی صدر کینیڈی کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں ان کے دور میں چاند کے حوالے سے مہم جوئی میں جو اپولو پروجیکٹ شروع کیا گیا تھا اس نے سائنسی قیادت میں امریکا کو بامِ عروج پر پہنچا دیا تھا اور اس کے نتیجے میں امریکا کی قومی طاقت و صلاحیت بھی بڑھ گئی تھی۔ ان کے بقول چین کے عوام کو اس بات کا بھرپور احساس ہے۔
۲۰۰۳ء میں چین نے اس حوالے سے واضح راستہ اختیار کیا اور صرف ایک خلا نورد کو اپنے پہلے خلائی مشن پر چاند کے بیضوی مدار میں بھیجا، پھر ۲۰۰۵ء میں دو خلا نوردوں پر مشتمل عملے نے چاند کی سطح پر ۵ دن قیام کیا اور پھر ستمبر ۲۰۰۸ء میں ۳ خلا نوردوں پر مشتمل ٹیم نے خلائی چہل قدمی کے مشن کی تکمیل کی۔
چاند کو مسخر کرنے یا وہاں تک رسائی کا سحر چین کا بہت قدیم خواب ہے اور خاص طور پر کم از کم ۱۹۷۸ء میں اس وقت سے تو واضح طور پر ہے جب امریکی صدر نے بیجنگ کو چاند کی چٹان کا ایک ٹکڑا جس کا وزن ۳۵ء۰ اونس تھا تحفہ کے طور پر پیش کیا تھا۔ چاند کی چٹان کا یہ ٹکڑا اپولو ۱۷ مشن کے خلا نورد اپنے ساتھ لائے تھے۔ چینی حکام نے چاند کے اس چٹانی ٹکڑے کے دو ٹکڑے کر کے نصف ٹکڑے کو سائنسدانوں کے حوالے کر دیا کہ وہ اس پر اسٹڈی کریں۔ خلائی سائنسدان اویانگ زیوان نے ڈیلی پیپلز کو بتایا کہ اس نصف چٹانی ٹکڑے پر مختلف پہلوئوں سے اسٹڈی کرنے کے بعد مختلف سائنس دانوں نے ۴۰ مقالے تیار کیے۔
چین کو اب چاند کے مزید چٹانی ٹکڑوں کے لیے امریکا سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس لیے کہ اس نے اکتوبر ۲۰۰۷ء میں شانگی ون (Shange-1) کو چاند کے بیضوی مدار میں بھیج دیا ہے۔ شانگی (Shange) دراصل چینی زبان میں چاند دیوی کو کہتے ہیں اور یہ خلائی جہاز چاند کی سطح سے ۱۲۵ میل دور ہی چاند کے بیضوی مدار میں گردش کر رہا ہے اس خلائی جہاز میں گرائونڈ کی اسٹڈی کے لیے تمام ضروری آلات بھی ہیں اور یہ لینڈنگ کے لیے مناسب و ممکنہ مقامات بھی تلاش کر رہا ہے۔ آئندہ سال چین، چاند کے مدار میں شانگی ۲ کو بھیجے گا جس کے بعد ۲۰۱۲ء میں ایک (Rover) بھیجا جائے گا اور ۲۰۱۷ء میں ایک ابوٹک سیمپل ریٹرن مشن بھیجنے کے بعد خلا نوردوں پر مشتمل ٹیم کو بھیجا جا سکتا ہے۔
چاند کے حوالے سے ہندوستان کا پروگرام غیر معمولی نوعیت کا نہیں ہے۔ بھارتی حکومت ۱۹۷۵ء میں سیٹلائٹ لانچنگ گیم میں شریک ہوئی تاہم اس کی توجہ ایسی آمدنی کا بنیادی ذریعہ بننے والی سائنسی تحقیق تک محدود رہی ہے۔ جیسے لینڈ میپنگ، موسم کی پیش بینی اور کمیونیکیشنز وغیرہ۔ ایک ایسا ملک جس کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے ایسی مہم جوئی کی خواہاں حکمراں پارٹی کے باوجود اس ضمن میں مزید پیش رفت نہیں کر سکتا اور یہ تبدیلی بھی ۱۹۹۸ء میں اس وقت آئی جب ہندوستان اور پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کے مقابلوں اور مبازرت سے دنیا کو ہڑ بڑا کر رکھ دیا تھا۔ اب ۲۰۱۱ء میں چندراین۔۲ اوور کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
چاند کے حوالے سے پرانی اور نئی مہم جوئیوں میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ پرانی مہم جوئی میں سرے سے نجی شعبہ کو شامل ہی نہیں کیا گیا تھا جب کہ اب کئی ملکوں کے نجی شعبے بھی اس حوالے سے متحرک ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں پائلٹ اور ایرو اسپیس ڈیزائنر ہرٹ روٹن نے برابری کی بنیاد پر ایک ہفتہ کے اندر اندر دوبارہ سب اورسیٹل اسپیس میں جانے اور آنے والی پہلی انسانوں کو لانے لے جانے والی گاڑی کی ڈیزائننگ میں X۔پرائز کے ساتھ مسابقت کی (اس گاڑی کی ڈیزائننگ پر آنے والی لاگت ۱۰ ملین ڈالرز ہے) X۔پرائز گروپ کے چیف ایگزیکٹو ایرواسپیس انجینئر پیٹر ڈانمنڈیس نے ستمبر ۲۰۰۷ء میں گوگل کے ساتھ ۳۰ ملین ڈالر کے انعام میں شریک ہونے کا اعلان کیا جس کا ہدف ۲۰۱۲ء کے آخر تک چاند کے بیضوی مدار میں جانے والے ایک نجی اوور کو بھیجنا ہے۔ اس مسابقت میں شامل ٹیمیں تو بے شمار ہیں لیکن نہ ان کے پاس مطلوبہ مہارت ہی ہے اور نہ ہی خطیر رقومات ہیں۔ تاہم اس میدان میں اب تک ۱۴ گروپ کام کر رہے ہیں جنہیں گوگل نے مقابلہ کے شرکا قرار دیا ہے۔ یہ گروپ بالعموم ایرواسپیس اور سافٹ ویر ٹیموں پر مشتمل ہیں جن کو کمرشل راکٹس استعمال کرنے یا اپنے خلائی جہاز تیار کرنے اور انہیں خلا میں بھیجنے کی اجازت دی جا چکی ہے۔
۲۰۰۴ء میں صدر جارج ڈبلیو بش نے چاند اور مریخ کی مہم جوئیوں کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کو بعض افراد نے ایک انتخابی چال قرار دیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بھی اس پلان کا حصہ ہو تاہم ابتدائی آئیڈیا کے ساتھ ایک باضابطہ پروگرام ترتیب دیا گیا جس کے تحت ۲۰۱۲ء تک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی تکمیل کی جائے گی اور فرسودہ اسپین شٹلز کو خارج کر دیا جائے گا شٹلز کی جگہ اپولو اسٹائل کے آربیٹر تیار کیے جائیں گے۔
اورین آربیٹر (Orion Orbiter) کا سب سے بڑا کنٹریکٹر لاک ہیڈ مارٹن ہے جو اپولو۔ ون کو مزید بہتر بنا رہا ہے اور اس دفعہ اس میں دو راکٹ ہوں گے جو Aren V اور Aren-1 ہوں گے۔ Aren-1 چاروں خلا نوردوں کو لے جائے گا جن کے ۶ ماہ تک وہاں رہنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔
آخر میں سوویت یونین کی مہم جوئی کے حوالے سے یہ بات معلوم رہنی چاہیے کہ اس نے سب سے پہلے ۱۹۶۱ء میں اپنے یوری کگارن خلا نورد کو مدار میں بھیجا تھا اب سوویت یونین نے بھی اپنے پروگرام میں توسیع کر لی ہے۔ تاہم اس حوالے سے سب سے زیادہ پیشرفت امریکا میں ہو رہی ہے دوسرے نمبر پر چین ہے جبکہ سوویت یونین، جاپان، ہندوستان اور یورپ اس کے بعد آتے ہیں۔ نجی شعبہ کی دلچسپی بھی اپنی جگہ اہم ہیں۔ تاہم ان کے اہداف مختلف ہیں۔
(بحوالہ: ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply