موجودہ دور میں کچھ اسلامی ملکوں کے اندر مخصوص قسم کی لڑائیاں پیدا ہوئیں، جنہیںاب اسلامی دہشت گردی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان لڑائیوں کو کچھ دلائل سے بظاہر ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ یہ اسلامی دہشت گردی ہے۔ اگرچہ کثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے، جو اس کی مدافعت کے لیے کام کرتے ہیں مگر اپنی کوتاہ فکری کی وجہ سے وہ اس میں ناکام رہتے ہیں اور غالب تاثر یہی باقی رہتا ہے کہ یہ لڑائیاں واقعتا اسلامی دہشت گردی نظر آنے لگتی ہیں۔
یہ لڑائیاں کیوں کسی مسلمان ملک میں پیدا ہوتی ہیں، اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ وہ یہ کہ کسی مسلم ملک میں شدید قسم کی بیرونی مداخلت یا فوجی حملہ۔ مثلاً آٹھ سال پہلے عراق اندرونی طور پر پرامن ملک تھا جیسے ہی اس پربیرونی حملہ ہوا، یہ دہشت گرد کارروائیوں کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔
وہ دلائل جن سے کسی مسلم قوم کی بیرونی مداخلت کے خلاف کی جانے والی مزاحمت کو اسلامی دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے، انتہائی بے وزن اور مضحکہ خیز ہیں۔ وہ یہ ہیں: (۱)مسلمان ان لڑائیوں کو جہاد کہتے ہیں (۲) جو یہ لڑائیاں لڑتے ہیں، انہیں ’مجاہد‘ کہتے ہیں (۳) جو ان لڑائیوں میں مرتے ہیں، انہیں ’شہید وشہداء‘ کہتے ہیں (۴) ان لڑائیوں میں مرنے والوں کو ’جنتی‘ بھی کہتے ہیں۔ ہمارے کچھ دانشور ان دلیلوں کو صحیح مانتے ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ مسلمان غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، مگر چونکہ مسلمان واضح طور پر ان لڑائیوں کو جہاد کہتے ہیں اور اپنے آپ کو مجاہد کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں اوران لڑائیوں میں شہید ہونے کی صورت میں جنت حاصل کرنے کا ذریعہ بھی بناتے ہیں، اس لیے یہ جنگجو خود اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ ان کی آزادی کی جنگ اسلامی دہشت گردی قرار دی جائے۔
برصغیر میں انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ء کا جو غدر ہوا، اس کو بھی جہاد ہی کہا گیا تھا۔ جو لوگ اس لڑائی میں مارے گئے تھے، ان کو اس وقت بھی اور آج بھی دینی یا قرآنی لفظ شہید ہی سے یاد کیاجاتا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جہاد کو جنت حاصل کرنے کا ذریعہ بتانا، یہ دراصل صرف جنگجو مسلمان کا نہیں، بلکہ ہر مسلمان کا ایمان ہوتا ہے کہ نیک کام سے جنت ملتی ہے، بُرے کام سے دوزخ۔ دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی کسی نہ کسی طرح کی دوسری زندگی پرایمان رکھتے ہیںاور اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔
ابھی تک یہاں ان چار دلائل کو پیش کیا گیا جنہیں کچھ غیر مسلم حکومتیں استعمال کر رہی ہیں۔ ان دلائل میں جہاد، مجاہد، شہید اور جنت جیسے دینی الفاظ کو ایک خاص ڈھنگ سے زیر بحث لایا جاتا ہے اور نتیجہ بھی برآمد کیا جاتا ہے کہ ان مسلم ملکوں کے اندر واقعی اسلامی دہشت گردی ہو رہی ہے۔ لیکن کچھ دلائل ایسے بھی ہیں جنہیں مسلمانوں کی ان لڑائیوں کو غیر اسلامی قرار دینے کے لیے پیش کیا جاتا ہے، وہ یہ ہیں: (۱)غیر حکومتی سطح کی دفاعی لڑائی کسی بھی عذر کی بنیاد پر اسلام میں حرام ہے (۲) جنگ میں خودکش کارروائی کرنا اسلام میں حرام ہے (۳) درپردہ جنگ اسلام میں حرام ہے۔ انہی سے متعلق یہاں بالترتیب بات ہوگی۔
کہا جاتا ہے کہ غیر حکومتی سطح کی لڑائی کسی بھی عذر کی بنیاد پر اسلام میں حرام ہے۔ دفاعی لڑائی تو اسلام میں جائز ہے مگر اس میں یہ فرق پیدا کرنے کی کوشش کرنا کہ صرف حکومتی سطح پر دفاعی لڑائی جائز ہے، غیر حکومتی سطح پر کسی بھی عذر کی بنیاد پر جائز نہیں، کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کسی مسلمان ملک میں حکومت کی موجودگی میں، کہا جاسکتا ہے کہ عوام اور تنظیموں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے فیصلے کی بنیاد پر کسی حریف ملک کے خلاف جنگ چھیڑیں، چاہے اس حریف ملک نے مسلمانوں کو کوئی نقصان ہی پہنچایا ہو۔ ایسا کرنے سے دراصل وہ حکومت ہی ختم ہوتی ہے جس کی یہ عوام اور تنظیمیں رعایا ہوتی ہیں۔ لیکن کسی مسلم ملک میں بیرونی حملے کے بعد یہ کہنا کہ اب اس ملک کے مسلم عوام کے لیے کسی بھی عذر کی بنیاد پر عسکری مدافعت جائز نہیں، کئی بڑے سوال پیدا کرتا ہے۔ اگر ہم صرف یہ عذر لیں کہ حملہ آور ملک نے عام لوگوں کو پرامن رہنے کی صورت میں بھی مار ڈالنا شروع کیا، جو ماضی قریب تک جنگوں میں عام بات تھی، کیا مسلم عوام کے لیے تب بھی دفاعی جنگ ناجائز ہوگی۔ ان حالات میں تو جنگ سے کچھ مسلم آبادی بچ سکتی ہے، لیکن جنگ نہ کرنے کی صورت میں انہیں اپنے آپ کو بھیڑ بکریوں کی طرح موت کے لیے پیش کرنا ہوگا۔
اسلام فردِ واحد کو بھی دفاعی لڑائی کا حق دیتا ہے۔ یہ حق اس کو حکومت کی موجودگی میں بھی ہوتا ہے، جب کسی شخص پر دشمن حملہ کرتا ہے یہ بہت کم ممکن ہوتا ہے کہ وہاں پر کوئی سرکاری اہلکار موجود ہو جو اس شخص کا دفاع کر سکے۔ اس لیے اسلام نے فرد کو یہ حق دیا کہ جب اس پر کوئی چور لٹیرا حملہ کرے، وہ خود اپنے جان و مال کی خاطر لڑ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک گروہ بھی لٹیروں کے حملے کا شکار ہو جاتا ہے تو وہ گروہ بھی حکومت سے بے نیاز ہو کر اپنا دفاع خود کر سکتا ہے۔ اب جنگ میں بھی ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں۔ جب ایک ملک جنگ میں پسپا ہوا، حملہ آور ملک کی فوج نے اس کے علاقوں میں داخل ہو کر لوگوں کو لوٹنا، مارنا شروع کر دیا تو لوگ اپنا انفرادی حقِ دفاع استعمال کرتے ہوئے بھی حملہ آوروں کے خلاف جنگ لڑ سکتے ہیں۔ جب حکومت کی موجودگی میں صرف اس لیے فرد کو انفرادی دفاع کا حق دیا جاتا ہے کہ حکومت قاصر ہوتی ہے کہ وہ ہر شخص کا خود تحفظ دے سکے۔ توجب جنگ میں حکومت ہی ختم ہوئی ہو، ان حالات میں بھی افراد کو اپنے دفاع کا حق ہونا چاہیے۔ یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کی موجودگی میں تو افراد کو ایسے دشمنوں سے لڑنے کا حق حاصل ہے جن سے ان کو حکومت بچانے سے قاصر ہے، مگر جنگ کے دوران حکومت ختم ہونے کی صورت میں یا دفاع سے قاصر رہنے کی صورت میں افراد انفرادی طور پر سر پڑے دشمنوں یا حملہ آورورں سے نہیں لڑ سکتے۔
جنگوں میں ایک عام بات یہ بھی ہوجاتی ہے کہ اگر ایک جنگ قائم شدہ حکومت و باقاعدہ سرکاری انتظامیہ کے حکم سے ہی شروع ہوجاتی ہے، مگر بہت جلد جنگ کے دوران یہ ساری حکومت و سرکاری انتظامیہ حملہ آور فوج کی کارروائیوں سے بکھر کر رہ جاتی ہے، اس بکھرائو کی وجہ سے فوج و رضاکار جنگجو جو چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں کسی مرکزی حکومت کے بجائے ایریا کمانڈروں کی سرپرستی میں جنگ جاری رکھتے ہیں۔ وہ جنگ جو قائم شدہ حکومت کے حکم سے شروع ہوئی تھی، عملاً ابتدا میں ہی ایک غیر حکومتی سطح کی گروہی و عوامی سطح کی جنگ ہو کر رہ جاتی ہے۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی کہ جب ایک جنگ کا آغاز قائم شدہ حکومت کی رہ نمائی میں ہوا مگر حملہ آوروں نے اس ملک کے بڑے حصے پر غلبہ پاکر حکومت ختم کی۔ اس دوران باقی ماندہ حصے کے عوام نے اس حصے کو بچانے کے لیے پھر بھی جنگ جاری رکھی۔
صدام حسین کو کویت سے کھدیڑنے کے بعد امریکا بارہ سال تک دھمکی دیتا رہا۔ صدام حسین بھی ان بارہ برسوں میں امریکا سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے فوج، نیم فوج اور رضاکار جنگجو تیار کرتا رہا مگر پھر بھی جنگ کا آغاز ہونے کے بعد اس جنگ کی ساری سرکاری و حکومتی حیثیت ایک دن میں ختم ہوگئی۔ اب اس نظریے کہ غیر حکومتی سطح کی جنگ جائز نہیں، کے مطابق صدام حسین کی فوج کو کوئی حق نہیں رہا کہ وہ جنگ جاری رکھے۔ کیونکہ اس جنگ کی حکومتی سطح کی حیثیت ختم ہو چکی تھی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جس جنگ کے لیے عراق بارہ سال تک تیاری کرتا رہا، اس کا جواب ایک دن میں ختم ہوا۔
دورِ نبوتؐ میں جو جنگیں مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں لڑیں، ان سے بھی یہ زیر بحث نظریہ برآمد کرنا بہت دشوار نظر آرہا ہے۔ ہجرت کے وقت اگرچہ بڑی تعداد میں مدینے کے لوگ مسلمان ہوئے مگر کثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی جو پرانے مذاہب پر برقرار تھے اور جو لوگ مسلمان ہوئے وہ بھی ابتدا میں ہر لحاظ سے مہاجرین کی بالادستی مدینے پر نہیں چاہتے تھے۔
تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہجرت کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگوں کا آغاز کیا تو ابتدا میں آپ کو دنیا کی نظروں میں مدینے کے قائم شدہ حاکم کی حیثیت حاصل نہ تھی۔ اس کی تصدیق ان باتوں سے بھی ہوتی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگوں کا آغاز سریہ سیف البحر، سریہ رابع، سریہ فرار اور غزوہ ابواء سے کیا تو ان جنگوں میں فقط مہاجرین نے حصہ لیا۔ کوئی انصار نہ شامل ہوا۔ جب مکہ کے قریشیوں کوپتا چلا کہ رسول اللہﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں نے ان کے تجارتی قافلوں پر حملے کیے توانہوں نے خط لکھتے وقت عبداللہ ابن ابی کو مدینے میں یا یثرب کے حاکم و بادشاہ کہہ کر مخاطب کیا۔ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگوں کا آغاز کیا تو مدینے کے ارد گرد ماحول نہیں بنا تھا کہ پانچ سو میل دور سے آئے ہوئے مہاجرین کو مدینے کے ہر سطح کے سیاہ و سفید کا مالک سمجھا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں محض مہاجرین کے قائد کی حیثیت سے ملک شام جاتے ہوئے قریش کے تجارتی قافلوں پر حملے کیے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کفار قریشیوں نے انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں مسلمانوں کو مکہ سے باہر ریگستانوں کی طرف بھگا دیا تھا، جس سے مسلمانوں کو شدید قسم کی بھوک پیاس اور دوسرے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ لہٰذا ان حالات میں جس مہاجر گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر قریش کے تجارتی قافلوں پر حملے کیے کوئی بھی انصاف پسند شخص اس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔
دراصل جن لوگوں نے یہ نظریہ پیدا کیا کہ غیر حکومتی سطح کی جنگ کسی بھی عذر کی بنیاد پر جائز نہیں، وہ سرے سے نہیں جانتے کہ جنگ کس چیز کا نام ہے۔ اس لیے یہ لوگ کہتے ہیں کہ جنگ لڑنے کا حق فقط قائم شدہ حکومت و تربیت یافتہ فوج کو حاصل ہے، باقی ماندہ عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ لوگ جنگ کو کھیل کی نظر سے دیکھتے ہیں جس میں کچھ لوگوں کا کام مقابلہ کرنا ہوتا ہے، باقی لوگ ہارنے پر افسوس اور جیتنے پر تالیاں بجانے کا کام کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ کسی کھیل کا نہیں، بلکہ سب سے بڑی آفت و مصیبت کا نام ہے۔ جنگ بنیادی طور پر دو حکومتوں یا دو فوجوں کے درمیان نہیں ہوتی، بلکہ دو ملکوں کے درمیان ہوتی ہے۔ جب بھی کسی ملک پر حملہ ہوتا ہے وہ اس ملک کے سارے عوام پر ہوتا ہے اور جنگ کے بُرے نتائج بھی حکومت کے ساتھ سارے عوام کو بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ حکومت و فوج کا جنگ سے خصوصی تعلق کسی اور وجہ سے ہوتا ہے۔ ملک کی اصل عوام ہیں نہ کہ حکومت۔ حکومت ملک میں اس لیے ہوتی ہے کہ عوام اس کو پسند کرتی ہے، انہیں لگتا ہے کہ بعض معاملات وہ حکومت کے بغیر نہیں چلا سکتے، جو حکومت بظاہر شاہانہ یا غیر جمہوری ہے، اس کے پیچھے بھی ان معاملات کی وجہ سے عوامی رضامندی موجود ہوتی ہے۔ کسی ملک میں حکومت کی کیا حیثیت ہوتی ہے یا عوام کا ملک کے اندر کیا مقام ہوتا ہے، وہ جنگ کے وقت خود بخود فطری طور پر واضح ہونے لگتا ہے۔ اگر حملے کے وقت کوئی حکومت ذرا سا بھی ناکامی کا خطرہ محسوس کرتی ہے تو وہ حکومت ہی سب سے پہلے ہنگامی بنیاد پر رضاکار جنگجو بھرتی کرنے لگتی ہے، جن کی تعداد اکثر تربیت یافتہ فوج سے درجنوں گناہ زیادہ ہوتی ہے جنگ میں ناکامی کی صورت میں یہی رضاکار جنگجو غیر حکومتی سطح کی جنگ نہیں کرسکتے تو حکومت کے لیے رضاکار جنگجوئوں کی بھرتی بھی ایک غلط اقدام ہوگا جو جنگ میں ناکامی کی صورت میں غیر حکومتی سطح کی جنگ کے لیے عظیم سبب بنتا ہے۔ کیا حکومت کے لیے اس اقدام کی ممانعت ممکن ہے؟ اگر ممکن نہیں تو اس اقدام کا جو نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی ملک کی حکومتی سطح کی جنگ غیر حکومتی سطح کی ہوجاتی ہے تو اس جنگ کی ممانعت بھی ممکن نہیں۔ دوسری طرف بوقت جنگ عوام کا جو طرزِ عمل بنتا ہے وہ بھی قطعاً مذکورہ نظریے کے موافق نہیں ہوتا۔ عوام ایسا کچھ سوچ ہی نہیں پاتے ہیں کہ ان کو جنگ سے کوئی سروکار نہیں۔ اس طرح عوام کا بڑا حصہ کسی نہ کسی طرح جنگ میں الجھ جاتا ہے۔ سب سے پہلے حکومت کا ساتھ دیا جاتا ہے، اگر حکومت جنگی تباہ کاریوں سے باقی نہ رہی تب بھی عوام کوئی بندوبست کر کے جنگ جاری رکھتے ہیں۔ لہٰذا جنگوں کے مطالعے سے یہ نظریہ قائم کرنا ناممکن نظر آرہا ہے کہ جنگ لڑنے کا حق فقط قائم شدہ حکومت کو حاصل ہے اور غیر حکومتی سطح کی جنگ کسی بھی عذر کی بنیاد پر جائز نہیں۔ اس نظریے کی دھجیاں اس وقت اور بھی زیادہ بکھر جاتی ہیں کہ جب جنگوں کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ جو جنگیں حکومتی سرپرستی میں شروع ہوتی ہیں، ان میں بھی آگے چل کر پچاس فیصد سے زیادہ جنگیں غیر حکومتی سطح کی عوامی جنگ بن کر رہ جاتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ درپردہ جنگ اسلام میں حرام ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگوں کو ہمیشہ علانیہ طور پر لڑنا آسان نہیں۔ خصوصاً اس صورت میں جب دوسرے ممالک نے درپردہ جنگ چھیڑ رکھی ہو۔ اگر درپردہ جنگ کا آغاز کرنا غلط ہو تو کم ازکم جوابی طور پر ایسی جنگ کو جائز ہونا چاہیے۔ اگر اس کو جنگی اصول ہی مانا جائے کہ درپردہ جنگ کسی بھی صورت میں نہیں لڑی جاسکتی تو اس سے خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ چھوٹی جنگیں بھی بڑی جنگوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں، جس سے یہ کوئی دانشمندانہ اصول نہیں بنتا۔
دورِ رسالت میںبھی درپردہ جنگوں کا جواب درپردہ جنگ سے دیا جاتا تھا۔ جب یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف خفیہ سازشیں کیں تو مسلمانوں نے بھی خفیہ طریقہ اختیار کیا۔ اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں، جب درپردہ جاسوسی کا جواب درپردہ طور پر ہی دیا گیا۔ درپردہ جنگ ایک چھوٹی جنگ ہوتی ہے، یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ہر بار کسی چھوٹی کارروائی کے جواب میں علانیہ طور پر بڑی جنگ لڑی جائے۔ اس لیے اُس دور میں بھی درپردہ کارروائیوں کو درپردہ طور پر ہی نمٹ لیا جاتا تھا اور مطلوب نتائج کے لیے بھی یہی طریقہ درست رہتا تھا۔
دہشت گردی کی مخالفت کس طرح کی جائے؟
اب میں اس سوال پرآنا چاہتا ہوں کہ بعض مسلمان ملکوں کے اندر اس وقت جو تشدد ہو رہا ہے اس کی مخالفت کس طرح ہونی چاہیے۔ اس کی مذمت کے لیے جو طریقہ اس وقت عالمی سطح پر مروج ہے، اس کو اوپر بیان کیاگیا۔ اس طرح اس دہشت گردی کی جو عالمی سطح پر مذمت ہو رہی ہے، وہ اس دائرے میں محدود و محصور ہوتی ہے کہ یا تو اس دہشت گردی کو براہ راست اسلامی تعلیمات کا ثمرہ مانا جاتا ہے یا بدقسمتی سے اسلام کی غلط تشریح کی جاتی ہے۔ اب یہ اصول بن گیا ہے کہ جو شخص دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، پہلے وہ کسی نہ کسی صورت میں اس کو تسلیم کرتا ہے کہ اس دہشت گردی کی جڑیں دینِ اسلام میں موجود ہیں۔ مگر مذمت کا یہ طریقہ بالکل غلط ہے۔ ایسی مذمت سے دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ قرآن سے وہ آیات نکال دیے جائیں جن کے اندر تشدد کا ذکر ہے اور ایسے کارٹون بنائے گئے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا دہشت گرد دکھایا گیا ہے۔ بظاہر اس کے لیے خود جہادی عوام ذمے دار ہیں مگر حقیقت ہے کہ یہ بالکل غلط ہے۔ اس کے لیے وہ مسلم دانشور ذمے دار ہیں جنہوں نے مغربی ملکوں کے ان دلائل کو درست مانا جن کی مدد سے انہوں نے اس دہشت گردی کا بنیادی سبب جارحیت پسند ملکوں کی جارحیت سے ہٹا کر دین اسلام سے جوڑ دیا۔
دہشت گردی کی مذمت کرنا اور یہ تسلیم کرنا کہ دہشت گردی کا سبب دین اسلام ہے، دو الگ الگ باتیں ہیں۔ لیکن اس وقت یہ باتیں ایک دوسرے سے جڑ گئی ہیں۔ اگر آپ یہ قبول نہیں کر رہے ہیں کہ اس دہشت گردی کی وجہ دین اسلام ہے تو آپ کی دہشت گردی کی مذمت بھی قبول نہیں۔ یہ سب مغربی ملکوں کے اندر اوچھے دلائل سے ہوا، جنہیں اب مسلمان بھی درست مانتے ہیں۔ مغربی طاقتوں نے دہشت گردی کی مذمت کا جو طریقہ نکالا ہے، وہ اس کو واقعی دہشت گردی ختم کرنے کے لیے صحیح و مؤثر طریقہ نہیں سمجھتے ہیں، بلکہ ان کو جو اپنی ریاستی دہشت گردی چلانے کے لیے عالمی سطح کی عوامی مذمت کا خطرہ لاحق رہتا ہے، وہ اس سے بچنا چاہتے ہیں۔ اس وقت عالم گیر عوامی سطح پر ریاستی دہشت گردی اور استعماریت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ جب بھی کوئی طاقتور ملک اس طرح کی کوشش کرتا ہے تو ساری دنیا کے عوام اس ملک کے خلاف احتجاج اور مذمت کرتے ہیں۔ جب امریکا نے صدام حسین کا تختہ پلٹنے اور عراق میں اپنی موافق حکومت قائم کرنے کے لیے اس پر حملہ کر دیا تو پوری دنیا میں امریکا مخالف عوامی احتجاج اور مذمت ہوئی۔ امریکا دنیا میں بدنام ہوکر رہ گیا۔ مسلمان بھی یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ مسلمانوں کے کسی مسئلے پر عالمی سطح پر امریکا کی مذمت ہو رہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکا مخالف مذمت میں اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ امریکا نے جن الزامات کی بنیاد پرعراق پر حملہ کیا تھا وہ سو فیصد غلط ثابت ہوئے اور جو وہاں پہلے حکومت پھر عوام کے ساتھ لڑائیوں میں لاکھوں لوگ مارے گئے، وہ بھی اسی بیجا امریکی حملے کا نتیجہ تھا۔
مسلمانوں کو ایک دائرے میں رہ کر ہی دہشت گردی کی مذمت کرنی چاہیے۔ جو جنگجو اپنی دہشت گردی کو دفاعی جنگ یا تحریک آزادی کہنا جائز سمجھتے ہیں، ان کی لڑائیوں کو ناجائز اور حرام کہے بغیر بھی اگر مذمت نہیں تو مخالفت کی جاسکتی ہے۔ جو لڑائی کسی صورت میں جائز ہو اس کی مذمت کرنا شاید ناممکن ہے۔ موجودہ وقت میں جو مسلمان قومیں بیرونی جارحیت کے خلاف لڑ رہی ہیں ان کی لڑائیاں دفاعی زمرے میں آنے کے سبب جائز بھی ہیں، لہٰذا مذمت کے قابل بھی نہیں رہتی ہیں۔ البتہ مخالفت کے قابل ضرور ہیں۔ وہ دائرہ، وہ دلائل کیا کیا ہیں جن کے حدود میں رہ کر دہشت گردی کی مخالفت ہونی چاہیے، وہ کسی سے اوجھل نہیں ہیں۔ مگر دہشت گردی کی مکمل روک تھام میں کامیابی نہ ملنے کے سبب ہمارے دانشور توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ اپنے دائرے سے باہر نکل کر مغربی دانشوروں کے دائرے میںچلے جاتے ہیں، جس کے نتائج بالکل الٹے اور خطرناک سامنے آتے ہیں۔ وہ دہشت گردی جو بیرونی جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے، اس کی ان دلائل کے دائرے میں رہ کر مخالفت ہونی چاہیے:
۱۔ مسلمان یہ لڑائیاں فوجی طاقت کے بے حد عدم توازن میں لڑ رہے ہیں، ایسی لڑائیاں طویل مدت تک جاری رکھنے کے باوجود بھی نہ کہیں جیتی گئیں نہ جیتنے کا امکان ہے اور ہر طرح کا نقصان بھی مسلمان یکطرفہ طور پر اٹھا رہے ہیں۔
۲۔ مسلمانوں کی پستی و محکومی کی اصل وجہ ہے تمدنی ترقی کے میدان میں باقی دنیا سے بچھڑ جانا۔ اس ترقی کو حاصل کیے بغیر مسلمان اپنی محکومی دور نہیں کر سکتے اور اس ترقی کی جدوجہد فقط پرامن ماحول میں ہی ممکن ہے۔
۳۔ یہ اہم دلیل بھی قائم کی جاسکتی ہے کہ ’جس لڑائی کو جیتنے کا امکان بہت کم ہو وہ لڑائی جائز ہونے کے باوجود بھی لڑنا ضروری نہیں ہے‘۔ جب مکہ میں رسول اللہﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں پر حملے ہوئے تو اگر رسول اللہﷺ بروقت ہی جوابی جنگ چھیڑتے وہ اخلاقی طور پر غلط نہیں ہوتا مگر رسول اللہﷺ نے اپنی جماعت کو کمزور حالت میں دیکھ کر یہ نہیں کیا۔
تاریخ بہترین منصف ہے
شاید مسلم دانشوروں کی ایک تعداد کو اس میں پختگی نظر آرہی ہے کہ مسلم دہشت گردوں کے خلاف ہر وہ دلیل استعمال ہونی چاہیے، جو ان کی مذمت کے لیے ایجاد کی گئی ہے۔ وہ اس کو نادانی تصور کرتے ہیں کہ مسلم دانشور ان دلائل کی خامیوں کی طرف توجہ کریں اور ان کو ظاہر کریں۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے مسلم دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ان کی دہشت گردی میں اضافہ ہو جائے گا۔ یوں یہ دانشور حقیقت پسندی کے بجائے کسی پختگی کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنی دہشت گرد مخالف مہم کے دوران ان غلط دلائل کی بوچھاڑ کرتے ہیں، مگر ان کی یہ سوچ غلط ہے۔ صحیح دلائل ہی کسی علاقے کے دہشت گردوں کے ذہنوں پر اثر کرسکتے ہیں۔ غلط دلائل کا استعمال صحیح دلائل کو بھی بے اثر کر ڈالتا ہے۔ تاریخ اس کے لیے بہترین منصف ہے کہ فوجی جارحیت کے شکار محکوم ملکوں کے عوام کو کسی طرح اس جارحیت کے خلاف لاحاصل جنگجوئی سے دور رکھا جائے۔
ایشیا اور افریقا پر دوسو سال سے زائد تک یورپی قبضہ رہا، جسے استعماریت کا زمانہ بھی کہا جاتا ہے۔ شروع میں ان خطوں میں یورپی طاقتوں کے خلاف عسکریت کا رجحان غالب رہا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ رہنما اور وہ جماعتیں بھی غالب آگئیں جنہوں نے یورپی طاقتوں کے ساتھ مصالحت کی۔ برصغیر میں اس کی پہلی مثال مسلمانوں کے حد تک انیسویں صدی میں سرسید احمد خان نے قائم کی، انہوں نے جو بیرونی قابض انگریزوں کے ساتھ امن و آشتی سے رہنے کے لیے مسلمانوں کو ابھارا اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ اس کے لیے ان کو صرف انگریزوں نے خطابات سے نہیں نوازا، بلکہ انہوں نے مسلمانوں کے یہاں بھی عزت حاصل کی۔ جب ہم اس پرغور کرتے ہیں کہ سرسید احمد خان کو کیسے ۱۸۵۷ء کے غدر کرنے والوں سے، جنہیں مجاہد و غازی اور مرنے کی صورت میں شہید بھی کہا جاتا تھا، مخالف سمت میں چلنے کے باوجود عوام کے اندر عزت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ تو دراصل اس کا راز یہ تھا کہ انہوں نے صحیح دلائل و نکات کے حدود میںرہ کر کام کیا تھا۔ انہوں نے مسلم تشدد پسندی کے خلاف وہی دلائل پیش نہیںکیے جو انگریزوں نے قائم کیے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی بیرونی جارحیت کے خلاف عسکریت سرے سے حرام نہیں قرار دی۔ انہوں نے صرف اتنا بتایا کہ مسلمان انگریزوں کے خلاف لڑائیوں کو نہیں جیت سکتے، جہالت و ناخواندگی وقت کی سب سے بڑی کمزوری ہے، مسلمانوں اور برصغیر کی مناسبت سے یہ بھی بتایا کہ یہاں مسلمان اقلیت میں ہیں انہیں کیا فائدہ ہے کہ وہ اپنا خون بہائیں، جب کہ کامیابی کی صورت میں اقتدار ہندو اکثریت کو ملے گا۔ ان ہی جیسی باتوں کا خوبی سے استعمال کرتے ہوئے وہ آخر کار اپنی تشدد مخالف تحریک میں کامیاب ہوئے۔
پھر بیسویں صدی میں مہاتما گاندھی نے عدم تشدد کی بنیاد پر انگریز مخالف اور آزادی کے حق میں کام کیا۔ گاندھی جی کے اصولوں پر چلتے ہوئے بھی اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف وہی دلائل استعمال کیے جائیں جو متقابض طاقتیں ایجاد کرتی ہیں۔ انہوں نے انگریزوں کے جواب میں ہندوئوں کے تشدد کو تو غلط کہا مگر اس تشدد کو کبھی ہندوئوں کی مذہبی دہشت گردی نہیں قرار دیا بلکہ انگریز مخالف اس تشدد کو اپنی اصل شکل میں پیش کر کے ہی اس کی مخالفت کرتے رہے۔ عدم تشدد کی پالیسی پر چلتے ہوئے مہاتما گاندھی کو تب ہی انگریزوں سے متنفر اور آزادی کے جذبے سے سرشار ہندوستانی عوام میںعظیم رہنما کی حیثیت حاصل ہوئی جب ان کے عدم تشدد کے حق میں دلائل بالکل صاف اور واضح تھے، انہوں نے عدم تشدد کے حق میں کسی بھی اسٹیج پر غلط دلائل یا انہی دلائل کا استعمال نہیں کیا جو انگریز پیدا کرتے تھے، اگر وہ ایسا کرتے تواس سے انگریزوں سے متنفر ہندوستانی عوام میں محض ذہنی الجھنیں پیدا ہوتی، جس سے عدم تشدد کی پالیسی بھی کامیاب نہ ہو پاتی۔
استعماری دور کی عدم تشدد پر مبنی تحریکوں کی کامیابی کا جتنا زیادہ مطالعہ کیا جائے، یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان حالات میں کچھ خاص دلائل اور نکتے عوام پر اثرانداز ہوتے ہیں، جس سے وہ عدم تشدد پر مبنی تحریکوں کا حصہ بنتے ہیں۔ لہٰذا موجودہ دور میں امریکا جیسے ملکوں کی جارحیت کے نتیجے میں جو تشدد ظاہر ہوا، اس کی مخالفت، اس تاریخی سبق کے مطابق، فقط صحیح دلائل کے حدود میں رہ کر ہی کرنی ہوگی، تب ہی اس تشدد کے خاتمے کی امید کی جاسکتی ہے۔ صحیح دلائل کو ناکافی سمجھ کر غلط دلائل، وہ بھی انہی دلائل کا سہارا لینا جو امریکا پسند کرتا ہے، اس تاریخی سبق کے مطابق ایک نقصان دہ عمل ہے۔
خلاصہ
اس تحریر کی ابتدا ان دلائل سے ہوئی جو غیر مسلم طاقتوں نے پیدا کیے کہ مسلمانوں کا جنگ کے دوران جہاد، مجاہد، شہید اور جنت جیسے الفاظ کا استعمال ان کی ہر لڑائی کو اسلامی دہشت گردی ثابت کرتا ہے۔ ان دلائل کو بے وزن ثابت کر کے بتایا گیا کہ ان الفاظ کا استعمال ایک فیصد بھی ثابت نہیں کر سکتا کہ مسلمان غیر مسلم طاقتوں کے خلاف اسلامی دہشت گردی کر رہے ہیں اور ان ہی دلائل کے زیر اثر کچھ دینی علماء نے بھی جو جنگی اصول قائم کیے، کہ غیر حکومتی، خودکش اور درپردہ جنگی کارروائیاں نہیں کی جاسکتی ہیں ان کے حوالے سے بھی کہا گیا کہ ان اصولوں کو نہ تو جنگ کے دوران قائم رکھنا ممکن ہو سکتا ہے اور نہ ان اصولوں کو رسول اللہﷺ کی جنگی زندگی سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ مگر پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ان دلائل اور اصولوں کو قوی مانتے ہیں اور ان ہی کے حدود میں رہ کر دہشت گردی کی مذمت کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو ان مسلم آبادیوں نے اپنی جنگی کارروائیاں ترک کیں جن کو ان جنگوں میں الجھایا گیا اور نہ ریاستی دہشت گردی کو ’اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ (War Against Terrorism) جیسا حوصلہ افزا نام ملنے کی وجہ بے جا اور حیرت انگیز فروغ پانے سے روکا جاسکے۔
مسلم دانشور پچھلے بیس سال سے اٹھائے گئے اس ’اسلامی دہشت گردی‘ کی بحث کو سمجھنے میں بری طرح ناکام رہے۔ دراصل ان کی ذہن سازی، غیر محسوس طور پر خود اس بحث کو اٹھانے والوں نے کی۔ انہوں نے جو کچھ کہا اس اسلامی دہشت گردی کے متعلق وہ سو فیصد عالمی طاقتوں کے موافق رہا اور اس کے نتائج بھی ان ہی طاقتوں کے حق میں رہے۔ لہٰذا اگر مسلمان اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ان کو اس دہشت گردی کے مسئلے کو مکمل علم بنا کر اس کو اپنے صحیح تناظر میں رکھنا ہوگا۔ مسلمانوں کی کامیابی کا ہدف یہ ہے کہ مسلمان طاقتور قوموں کی کسی بھی جارحیت پر پرامن ردعمل کی عادت ڈال سکیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کر پائیں تو انہوں نے کوئی اسلامی دہشت گردی کی۔ ریاستی دہشت گردی کے جواب میں عوامی مزاحمت پیدا ہونا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رکھتی ہے۔ جہاں چنگاری اٹھائی جاتی ہے وہاں دھواں بھی اٹھ جاتا ہے، جہاں کسی ملک کو ہڑپنے کے لیے جارحیت اور فوج کشی کی جاتی ہے وہاں عسکری مدافعت پیدا ہونا لازم و ملزوم ہوتا ہے۔
مسلم دانشور اگر اپنی دہشت گرد مخالف مہم میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ان کو اس مہم کے دوران اس عادت سے کلیتہً پرہیز کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کی اس دہشت گردی یا جنگی پالیسی کو اس رنگ میں پیش کریں جو رنگ ان طاقتور قوموں نے اس کو دے رکھا ہے۔ مسلمانوں کی یہ جوابی جنگی پالیسی کیوں غلط ہے، وہ اس لیے نہیں ہے کہ یہ اسلامی دہشت گردی یا کسی مذہبی جنون کی نشاندہی ہے، بلکہ اس کے وجوہ الگ ہیں۔ ان ہی وجوہ کو پہچان کر اور مسلسل پیش کرتے رہنے سے اس مہم میں کامیابی مل سکتی ہے۔ ورنہ موجودہ روش پر رہتے ہوئے غلط فہمیاں جوں کی توں رہیں گی۔ نہ تو مسلمانوں کے یہاں موجود جوابی تشدد پسندی کا رجحان ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی امریکا جیسے ملکوں کی ریاستی دہشت گردی یا نام نہاد اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حیرت انگیز حوصلہ افزائی ختم کی جاسکتی ہے۔
(بشکریہ: ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ جولائی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply