آسمان کو چھوتی ہوئی تیل کی قیمت امریکا میں سیاسی ہنگامہ آرائی کا سبب بنی ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ ہفتے سب سے اہم عدد ۷۵ ڈالر شمار نہیں ہوا جو کہ تیل کی قیمت ہے بلکہ ۸ء۴ فیصد معیشت کی شرح نمو شمار ہوئی جو کہ پہلے چار ماہ میں ہے۔گیس کی قیمت پر تمام عوامی شور شرابے اور سیاسی ہنگامہ آرائی کے باوجود اس نے معیشت کو بہت زیادہ مجروح نہیں کیا ہے اور یہ کر بھی نہیں سکتا ہے۔ ۲۰۰۳ء سے معیشت تقریباً ۴ء۳ فیصد کی شرح سے سالانہ ترقی کررہی ہے۔ یہ اب بھی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کیسے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ یہ ایک روایتی سوچ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کوئی بڑا اضافہ کساد بازاری کو جنم دیتا ہے یا تیزی سے اسے سست رفتار کردیتا ہے۔ لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا۔ ایک وجہ جو زبان زد عام ہے کہ معیشت توانائی خرچ کرنے میں بہت مہارت کا ثبوت دینے لگی ہے اور یہ سچ ہے۔۱۹۷۳ء کے مقابلے میں امریکی ۵۷ فیصد کم تیل اور قدرتی گیس استعما ل کرنے لگے تھے۔ ۱۹۹۰ء کے مقابلے میں یہ کمی ۲۴ فیصد ہے۔ کاریں اور ٹرکس کی بناوٹ کچھ اس طور کی گئیں کہ تیل خرچ کے معاملے میں یہ زیادہ کفایت شعار ہوگئی ہیں لیکن ۱۹۹۰ء کے بعد تیل کم خرچ کرنے کے حوالے سے جو مہارت انہیں حاصل کی تھی اس سے زیادہ حاصل نہیں کرسکی ہیں۔ نئی صنعتیں (سوفٹ ویئر پروگرامنگ اور ہیلتھ کلینکس) پرانی صنعتوں (اسٹیل بنانے کی صنعت اور فارمنگ) کے مقابلے میں کم توانائی خرچ کرتی ہیں۔لیکن ایک اور بڑی وجہ ہے روایتی سوچ کے غلط ہونے کی۔ ماضی (۷۴۔۱۹۷۳‘ ۸۰۔۱۹۷۹‘ ۹۱۔۱۹۹۰) میں تیل کی قیمتوں میں بڑا اضافہ مندی کا سبب نہیں تھا جبکہ مندی کا ظہور تقریباً انہیں عرصوں میں ہو اتھا۔ اس تعلق کو اس قدر دہرایا گیا ہے کہ بیشتر لوگوں نے اسے وحی الٰہی کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔ لیکن زیادہ تر اقتصادی تحقیقات نے اسے محض افسانہ قرار دیا ہے۔ یہ مندی بڑھتی ہوئی افراط ِ زر کے سبب ہوئی۔ وہ افراطِ زر تی جو تیل کی قیمتوں میں اضافے کا پیش خیمہ تھی اور پھر فیڈرل ریزرو کی جانب سے اِسے دبانے کی کوششیں تھیں۔ تیل کی اونچی قیمتوں نے تو محض معاملے کو تھوڑا بگار دیا۔
۱۹۸۰ء میں اشیائے صرف کی قیمتیں ۵ء۱۲ فیصد بڑھ گئیں اس میں توانائی کی قیمتیں شامل نہیں ہیں جو کہ ۷ء۱۱ فیصد بڑھی تھیں۔ اس سے معیشت کی لچک کا پتہ چلتا ہے۔ ایک امید افزا علامت یہ ہے کہ بیشتر کمپنیاں اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں توانائی کی قیمتوں کے اضافے کو منتقل نہیں ہونے دیتی ہیں۔ Moody`s Economy.com کے Mark Zandi کا کہنا ہے کہ ’’تجارتوں میں منافع کی شرح وسیع ہے اور وہ توانائی کی قیمتوں میں اضافے کو ہضم کرسکتی ہیں Zandi کو توقع ہے کہ ۲۰۰۶ء میں معیشت میں ۵ء۳ فیصد کا اضافہ ہو گا‘ ۷ء۴ فیصد کی اوسط بیروزگاری کے ساتھ۔ فطری سے وہ غلط بھی ہوسکتے ہیں۔ توانائی کے ماہرِ معاشیات Philip K.Verleger کا خیال ہے کہ تیل کی قیمت سو ڈالر فی بیرل تک جاسکتی ہے‘ ۵ فیصد کو چھوتی ہوئی افراطِ زر کے ساتھ اور مندی و کساد بازاری پرمنتج ہوتی ہوئی۔ اس لیے کہ تیل کی بڑھتی ہوئی مانگ کا سلسلہ جاری ہے اور جس کا تصادم محدود سپلائی سے ہے (خام اور شفاف‘ ہر دو شعبے میں) کسے معلوم ہے کہ روایتی سوچ جو ماضی میں غلط تھی اب سچ ثابت ہوسکتی ہے۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’نیوزویک‘‘۔ شمارہ۔ ۸ مئی ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply