امریکا نے غیر ترقی یافتہ اقوام کو اپنا غلام بنانے کا جو نظام وضع کر رکھا ہے، اُس کا ایک اہم جُز امریکی ریاست جارجیا میں فورٹ بیننگ کے مقام پر واقع امریکی فوج کا ’’دی اسکول آف امریکاز‘‘ بھی ہے، مگر اِس کے بارے میں لوگ کم ہی جانتے ہیں۔ اس اسکول میں لاطینی امریکا کے فوجی افسران اور سپاہیوں کو اپنی ہی حکومتوں کا تختہ الٹنے اور اپنے ہی لوگوں کی امیدوں کا خون کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔
اس نام نہاد یونیورسٹی نے، ’’جسے اسکول آف ڈکٹیٹرز بھی کہا جاتا ہے، دہشت، اذیت، قتلِ عام اور فوج کے ڈیتھ اسکواڈ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ناقابلِ احترام گریجویٹ تیار کیے ہیں‘‘۔ امریکا نے یہ اسکول ابتدا میں پاناما میں قائم کیا تھا تاہم ۱۹۸۴ء میں یہ فورٹ بیننگ، جارجیا منتقل کردیا گیا۔ امریکی کانگریس کا دعویٰ ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق تربیت بھی دی اسکول آف امریکاز کے نصاب کا حصہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تعلیمی ادارہ لاطینی امریکا میں عدم استحکام پیدا کرنے والی مشینری کا سب سے بڑا پُرزہ ہے۔
۱۹۹۶ء میں امریکی محکمۂ دفاع کو غیر معمولی عوامی دباؤ پر دی اسکول آف امریکاز کے تربیتی نصاب کی تفصیلات بتانا پڑیں۔ تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ اس تعلیمی ادارے میں لاطینی امریکا کی ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گردی، اذیت رسانی، سیاسی انتشار اور معاشی تباہی کی جامع تربیت دی جاتی ہے۔ اور یہ کہ عام شہریوں کو نشانہ بنانے اور اُنہیں زیادہ سے زیادہ دباؤ میں رکھنا بھی اس نصاب میں شامل ہے۔ اُسی زمانے میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ دی اسکول آف امریکاز میں پڑھائے جانے والے نصاب کے تحت امریکی مفاد کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے بھرتی کیے جانے والے مخبروں اور کاؤنٹر انٹیلی جنس ایجنٹس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اپنے ’’مشن‘‘ کی تکمیل کے لیے متعلقین کو خوفزدہ کریں، رشوت دیں، کسی کو مارنے کے بعد رقم ادا کریں، مار پیٹ کریں، غیر قانونی طور پر مقید رکھیں، بات نہ ماننے والوں کو موت کے گھاٹ اتاریں اور سچ کو مسخ کردیں۔
۱۹۹۰ء کے عشرے میں دی اسکول آف امریکاز کے طریقِ کار سے متعلق مزید تفصیلات سامنے آئیں اور لاطینی امریکا کے متعدد سفاک آمروں سے اس کا ربط ثابت ہوا۔ یہ تعلیمی ادارہ بند کرانے کی بہت کوشش کی گئی مگر افسوس کہ ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی۔
اس اسکول میں تربیت پانے کے لیے ہر سال لاطینی امریکا کی افواج سے ۲ ہزار افسروں اور سپاہیوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ اب تک ۶۰ ہزار سے زائد افسر اور سپاہی تربیت پاچکے ہیں۔ اسکول کے نصاب میں جنگ کے نفسیاتی حربے، شورش کچلنے کے طریقے، بلند سطح کی تفتیش کے طریقے، شہریوں کا احتجاج کچلنے کے اطوار اور سیاسی قتل شامل ہیں۔ امریکی فوج کے بہترین تربیت کنندگان کی جانب سے جدید ترین طریقے متعارف کرائے جانے کی صورت میں یہ نصاب تیسری دنیا کے فوجی افسروں اور سپاہیوں کو سچ کا چہرہ مسخ کرنا، مزدور رہنماؤں اور صحافیوں کو خاموش کرنا، مذہبی قیادت کو خوفزدہ کرنا اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ چھیڑنا سکھاتے ہیں۔ یہ نصاب منحرفین اور مخالفین کی آواز کچلنا اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق خاموش کرنا سکھاتا ہے۔ دی اسکول آف امریکاز میں پڑھنے والوں کو اپنے اپنے ملک میں غریبوں، بھوکوں اور زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم افراد کو زیادہ سے زیادہ محروم رکھنا اور اُنہیں ہر وقت خوفزدہ رکھنا سکھایا جاتا ہے۔ یہ نصاب لاطینی امریکا کے فوجی افسروں اور سپاہیوں کو یہ بھی سکھاتا ہے کہ بہتر طرزِ حکمرانی سے متعلق اپنے ہی لوگوں کی امیدوں کو کس طور قتل کیا جائے۔
دی اسکول آف امریکاز سے فارغ التحصیل ہونے والے اپنے اپنے ملک کی آزادی کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوئے ہیں۔ اعلیٰ ترین تربیت پاکر جدید ترین امریکی ہتھیاروں سے لیس ہوکر لوگوں کی نگرانی اور کنٹرول کے انتہائی کارگر طریقوں سے واقفیت کے ساتھ دی اسکول آف امریکاز کے گریجویٹس نے اپنے اپنے ملک کو عشروں تک شدید خوف کی حالت میں رکھا ہے۔
دی اسکول آف امریکاز میں تربیت مکمل کرنے والے جب وطن واپس جاتے ہیں تو وہاں مذہبی قائدین، سماجی کارکنوں، صحافیوں اور دانشوروں کو سماج دشمن و شر پسند قرار دیتے ہیں اور اُنہیں اُس نظام کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، جو آمروں اور اُن کے حامیوں کو اقتدار کے ایوانوں میں رکھتا ہے۔ دی اسکول آف امریکاز سے فارغ التحصیل ہونے والے لاطینی امریکا میں بدترین آمر ثابت ہوئے ہیں اور اُنہوں نے تشدد اور ایذا رسانی کے بھیانک ترین طریقے اختیار کیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق کا بدترین ریکارڈ رکھنے والی ریاستیں اپنے افسروں اور سپاہیوں کو تربیت کے لیے دی اسکول آف امریکاز بھیجتی ہیں۔ لاطینی اور جنوبی امریکا کی تمام ریاستوں میں دی اسکول آف امریکاز سے فارغ التحصیل ہونے والے خواتین اور بچوں سمیت لاتعداد منحرفین کے قتل عام، مخالفین پر بدترین تشد اور لوگوں کو لاپتا کرنے کے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔
امریکا سے تربیت پانے والے ان آمروں کو اپنے اپنے ملک میں منتخب اور قانونی طور پر جائز حکومتوں کے تختے الٹنے کی ذمہ داری سونپی جاتی رہی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اِنہیں فنڈ بھی ملتے ہیں اور اسلحہ بھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اِن کے خالص غیر قانونی اور غیر انسانی اقدامات کی امریکی قیادت بھرپور حمایت کرتی ہے۔ اِن سب کو تربیت یہی دی گئی تھی کہ اپنے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ کچلیں، دہشت زدہ رکھیں اور امریکی ملٹی نیشنلز کو زیادہ سے زیادہ لوٹ کھسوٹ کی اجازت دیں۔ کیا دنیا کو یاد نہیں کہ ارجنٹائن میں امریکا کے تربیت یافتہ ’’آزادی پسند و جمہوری رہنماؤں‘‘ نے جارج رافیل وائڈیلا کی آمریت ۱۹۸۱۔۱۹۷۶ء کے خلاف آواز اٹھانے والے ہزاروں افراد کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا۔ بہت سوں کو طیاروں میں بٹھاکر تین ہزار فٹ کی بلندی سے سمندر میں پھینک دیا گیا۔
کیلوِن سِمز نے نیو یارک ٹائمز کی ۱۳ مارچ ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں لکھا ’’یہ تمام آمر انسانی حقوق کے بدترین دشمن رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے سی آئی اے کی سرپرستی میں بدنامِ زمانہ ڈیتھ اسکواڈ قائم کیے۔ اِن اسکواڈز نے لاکھوں شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اب بہت سے معاملات سے پردہ اٹھ رہا ہے تو یہ جان کر مزید دکھ ہوتا ہے کہ سی آئی اے نے ویتنام کی جنگ کے زمانے ہی سے دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کرنے کے لیے کوکین، افیون اور ہیروئن کی اسمگلنگ کو فروغ دیا اور اِن منشیات کی بڑی کھیپیں امریکا میں بھی آنے دی گئیں جو ڈرگ مافیا تک پہنچیں‘‘۔
انٹر نیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں لیر کولنز نے لکھا ’’جو امریکی دنیا بھر میں دہشت گردی، ایذا رسانی اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے اقوامِ عالم پر تنقید کرتے ہیں، اُنہیں ایسا کرنے کے بجائے اپنی حکومت کو ہدفِ تنقید بنانا چاہیے۔ اِس عمل کی ابتدا وہ دی اسکول آف امریکاز بند کرنے کے مطالبے سے کرسکتے ہیں‘‘۔
نیوز ویک جیسے صفِ اول کے امریکی جریدے نے دی اسکول آف امریکاز کے حوالے سے امریکی قیادت کے دامن پر لگے ہوئے داغ کو دھونے کے حوالے سے جو کوشش کی وہ انتہائی شرمناک تھی۔ جریدے نے لکھا کہ چند ایک واقعات ہوئے ہیں، جن کی بنیاد پر اس تعلیمی ادارے کو بدنام کیا جارہا ہے اور چند گندے سیب پوری ٹوکری کو خراب کر رہے ہیں۔ جریدے نے مزید لکھا کہ اس ادارے میں تعلیم پانے والے بیس بال کھیل کر اور ڈزنی لینڈ کی سَیر کرکے امریکی کلچر کو خوب اپنا رہے ہیں!
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The School of the Americas”. (“globalresearch.ca”. November 09, 2019)
Leave a Reply