اگرتم عالمی صورتحال پرپریشان ہو، تو تمہارا احساس ٹھیک ہے۔ عالمی معاملات فرد کے لیے بہت مشکل ہوچکے ہیں۔ پھرتم کس طرح سچ جان سکتے ہو؟ اورکس طرح جھوٹ اور پراپیگنڈے سے بچ سکتے ہو؟
لاعلمی، تم اُتنا نہیں جانتے جتنا کہ خیال کرتے ہو
یہ سچ ہے کہ انسان سارے علوم کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ گزشتہ چند صدیوں میں لبرل فکر نے انفرادیت پرستی پرکافی انحصار کیا ہے، اور اسے جدید معاشرے کی بنیاد بنایا ہے۔ جمہوریت کی بنیاد اس یقین پر رکھی گئی کہ فرد سب سے بہتر جانتا ہے۔ آزاد منڈی کا سرمایہ دارنظام یقین رکھتا ہے کہ گاہک ہمیشہ صحیح ہے۔ مگریہ غلطی ہے۔ فرد کی معقولیت پراتنا انحصار ٹھیک نہیں۔ ماہرین نفسیات کی تحقیق کہتی ہے کہ انسان کے اکثر فیصلے جذباتی ہوتے ہیں، معقولیت پرکم ہی کیے جاتے ہیں۔ اس لیے سیلیکون ویلے کے دورمیں فرد پراندھا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ انفرادیت پرستی صرف نامعقول ہی نہیں بلکہ تخیلاتی بھی ہے۔ انسان گروہوں کی شکل میں ہی سوچنے اور زندگی گزارنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ہمیشہ سے انسان قبائل اورمعاشرے کی صورت میں ہی رہتے آئے ہیں۔ کوئی فرد تنہا کچھ نہیں کرسکتا۔ ہماری دیگر جانوروں پرفوقیت کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ ہم گروہ کی صورت میں مل کر سوچتے ہیں۔ ایک شکاری انسان جانتا تھا کہ کپڑے کیسے تیار کرنے ہیں اورکیسے آگ جلانی ہے، خرگوش کا شکار کیسے کرنا ہے، اور شیرسے کیسے محفوظ رہنا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم آج زیادہ جانتے ہیں، مگر بطورافراد ہم درحقیقت بہت ہی کم جانتے ہیں۔ ہم دوسروں کی مہارتوں کے محتاج ہیں۔ ہم دراصل معلومات کے دھوکے میں ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ ہم سب کچھ جان سکیں۔ عموماً سب اپنے موافق ماحول میں رہنے کے عادی ہیں، جہاں پسند کی خبریں ہوں، جہاں ہم خیال لوگ ہوں، جہاں کوئی چیلنج کرنے والا نہ ہو۔ ہمارے اکثرنظریات گروہ کی صورت میں مستحکم ہوتے ہیں اور ہم ان نظریات سے جُڑے رہتے ہیں۔ لوگوں پرحقائق کے ساتھ بمباری پرجوابی وار کا سامنا ہوتا ہے۔ اکثر لوگ اتنے سارے حقائق برداشت نہیں کرتے اور نہ ہی خود کو بے وقوف کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ سائنس دان بھی گروہی طرزِ فکرسے مبرا نہیں ہوتے۔ وہ سائنس دان جو سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے خیالات حقائق سے بدل سکتے ہیں وہ بھی گروہی طرزِفکر کی زَد میں ہیں۔
طاقت کا بلیک ہول
اجتماعی طرزِ فکر کے مسائل نہ صرف عام رائے دہندگان اور گاہک بلکہ صدور اور سی ای اوز سب کو لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ مشیروں کی فوج اورانٹیلی جنس ایجنسیاں ایسی صورتحال میں کچھ بھی کام نہیں آتیں۔ جب آپ دنیا پر حکمرانی کررہے ہوں تو سچ پانا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ تم بہت زیادہ مصروف ہوتے ہو۔ تمہیں مسائل کی گہرائی میں اترنے اور انہیں سمجھنے کے لیے بہت سارا وقت درکار ہوتا ہے، جو تمہارے پاس نہیں ہے۔ اگر تم بہت سارا وقت قربان نہیں کر سکتے، تو تم سچ تک کبھی بھی رسائی نہیں پاسکتے۔ عالمی طاقتیں سچ کو مسخ کرتی ہیں۔ آج بھی ان کی ترجیح حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے انہیں مسخ کرنے کی ہے۔ جب تمہارے ہاتھ میں ہتھوڑا ہو تو ہر شے کیل نظر آتی ہے۔ اگر تم اس طرح نہ بھی دیکھو تو لوگ یہ نہیں بھولیں گے کہ تمہارے ہاتھ میں ہتھوڑا ہے۔ جو کوئی بھی تم سے بات کرے گا تم اُس پر بھروسہ نہیں کرو گے۔ عالمی طاقت بلیک ہول جیسا کردار ادا کرتی ہے، جو آس پاس کا خلا لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ تم جس شے کے قریب ہوتے ہو وہ سمٹ جاتی ہے۔ تمہارے مدار میں آنے والا ہر لفظ بوجھل ہو جاتا ہے۔ ہر فرد تمہاری خوش آمد کرتا ہے، تمہیں خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور تمہیں مطمئن کرنے میں لگا رہتا ہے۔ وہ جانتے ہیں تمہارے پاس ایک دو منٹ سے زیادہ کا وقت نہیں ہے، اس لیے وہ کچھ غلط یا تلخ کہنا نہیں چاہتے، اس لیے کھوکھلے نعرے لگاتے ہیں یا گھسے پٹے تعریفی جملے دہرا دیتے ہیں۔ دو سال پہلے مجھے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی جانب سے دعوت ملی۔ دوستوں نے خبردار کیا کہ نہ جانا، مگر میں خود کو نہ روک سکا۔ مجھے لگا کہ وہاں کچھ نہ کچھ ایسے راز سامنے آئیں گے جو اِن بند دروازوں کے پیچھے سے باہر نہیں آپاتے۔ کیا ہی مایوس کُن تجربہ تھا! وہاں تقریباً تیس لوگ تھے اور ہر ایک نیتن یاہو کی توجہ حاصل کرنے میں لگا ہوا تھا، لطیفے اوربیجا تعریفوں کا سلسلہ لگا ہوا تھا۔ جن کے پاس راز تھے وہ انہوں نے باہرآنے نہیں دیے۔ یہ سب اقتدار کی کشش کا نتیجہ تھا۔
اگر تم سچ جاننا چاہتے ہو تو طاقت کے بلیک ہول سے فرار ہونا ہوگا، اور اِدھر اُدھر علم تلاش کرنا ہوگا۔ آنے والی دہائیوں میں دنیا مزید مشکل ہوجائے گی۔ بادشاہ اور مہرے دونوں ہی جدید ٹیکنالوجی سے نابلد ہوں گے، معاشی اور سیاسی حرکیات سے ناواقف ہوں گے۔ جیسا کے دوہزار سال پہلے سقراط نے جانا تھا کہ بہترین علم یہ ہے کہ اپنی لاعلمی کا اعتراف کیا جائے۔
مگر پھراخلاق اور انصاف کا کیا ہوگا؟ اگر ہم دنیا کو سمجھ ہی نہیں سکتے توپھرصحیح اور غلط کا فیصلہ کیسے کرسکتے ہیں؟ کیسے بتاسکتے ہیں کہ انصاف کیا ہے؟ اور نا انصافی کیا ہے؟
انصاف، ہمارا تصور انصاف شاید اب نہ چلے
ہماری دیگر حسیات کی طرح، حس انصاف کی جڑیں بھی قدیم ارتقائی سلسلے میں ہیں۔ انسانی اخلاق نے موجود حالت تک پہنچنے میں لاکھوں سال کا ارتقا طے کیا ہے۔ معاشرتی اور اخلاقی مسائل حل کیے ہیں۔ آج ہمیں عالمی عدم مساوات، عالمی موسم کی حدت اور دیگر بڑے بڑے سوالات کا سامنا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا اقدار کا مسئلہ ہے؟ نہیں! ہمارے پاس بہت ساری اقدار ہیں۔ مسئلہ ہے ان اقدار کے نفاذ کا! سارا مسئلہ نمبرز کا ہے! جب ہم براعظموں میں پھیلے کروڑوں لوگوں کے درمیان معاملات دیکھتے ہیں، تو ہمارا تصور اخلاق مشکل میں پڑجاتا ہے۔ اگر تم کھمبیاں جمع کرو، اورمیں تم سے سب چھین لوں، تمہارے بچے بھوکے سوئیں، یہ ناانصافی ہوگی۔ یہاں انصاف کا تصور سمجھنا آسان ہوگا۔ مگر آج کہ جب میں اپنے گھر میں امن وامان کی زندگی بسر کر رہا ہوں، بائیں بازو والے مجھے اسرائیلی فوجیوں کے گناہوں کا حصہ دار قرار دیتے ہیں، مغربی کنارے میں ہونے والے مظالم کا شراکت دار ٹھہراتے ہیں۔ اشتراکی سمجھتے ہیں کہ میری آرام دہ زندگی کی قیمت تیسری دنیا کے مزدور بچوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ کیا مجھے اس طرح موردِ الزام ٹھہرانا جائز ہے؟ یہ کہنا مشکل ہے!
دورِ قدیم میں فردوسائل زندگی سے واقف تھا۔ مگر آج میں ُان مرغیوں کی تقدیرکے بارے میں کچھ نہیں جانتا، جن کے انڈے میرے ناشتے کی میز پر پہنچتے ہیں۔ میں نہیں جانتا میری حکومت خفیہ طورپرکون سا مہلک اسلحہ کن ظالم جابر حکمرانوں کو بیچ رہی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس میں جوکچھ نہ جاننے کی کوشش کرے، وہ حقائق سے لاعلم ہی رہتا ہے، اور جو سچ جاننے کی کوشش کرتے ہیں وہ سچ تک بمشکل ہی پہنچ پاتے ہیں۔ ایسی چوری سے کیسے بچا جاسکتا ہے، جو عالمی معاشی نظام میرے نام پر میرے علم کے بغیرکررہا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ نظام اس قدر پیچیدہ ہوچکا ہے کہ اندازہ لگانا بے حد مشکل ہے کہ درحقیقت کیا ہورہا ہے۔ کوئی یہ کہہ کر جان چھڑا سکتا ہے کہ ’میں اپنی نیت جانتا ہوں، اس سے زیادہ میرا ذمہ نہیں‘۔ مگر ایک ایسی دنیا میں جہاں سب باہم مربوط ہوں وہاں یہ دلیل کام کرے گی؟ دورِ جدید میں صرف نفرت اور لالچ ہی جرائم نہیں بلکہ لاعلمی اور لاتعلقی بھی بڑے جرائم ہیں۔
ماضی میں عالمی مسائل کی ذمے داری افراد پرعائد نہیں کی جاسکتی تھی، مگرآج عالمی حدت پربحث ہویا مصنوعی ذہانت کا معاملہ ہو، ہر فرد کا کردار اثر انداز ہورہا ہے۔ ہرطرح کے نقطہ نظر کی یکساں اہمیت ہے۔ مگر کوئی ایسا کیسے کرسکتا ہے؟ کوئی کس طرح دنیا بھر کے گروہوں کے تعلقات میں ربط پیدا کرسکتا ہے؟
یہاں تک کہ اگر ہم چاہیں، تب بھی دنیا بھر کے اخلاقی مسائل نہیں سمجھ سکتے۔ لاکھوں شامیوں کے باہمی تعلقات کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ پانچ کروڑ یورپیوں کے باہمی تعلقات کا ادراک کیسے کیا جاسکتا ہے؟
ایک رائج طریقہ سچ جاننے کا یہ ہے کہ اداروں پر انحصار کیا جائے، جہاں وہ لے جائیں وہاں چلے جائیں۔ مذہبی اور نظریاتی عقائد اس سائنسی دور میں بھی بہت پرکشش ہیں، کیونکہ یہ ہمیں امید دلاتے ہیں۔ اس طرح کی تعلیمات لوگوں میں ایک طرح کی علمی تسکین پیدا کرتی ہیں، اخلاقی یقین عطا کرتی ہیں، تاہم ان کا منصف ہونا متنازع ہے (یہ مصنف کی رائے ہے جسے قبول عام نہ آج حاصل ہے نہ کبھی ماضی میں رہا ہے، اللہ نے کبھی اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا، یہ بندے ہی ہیں جو اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں، القرآن۔ مترجم)۔
پھرہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا لبرل عقائد قبول کرنے چاہییں؟ ووٹراور گاہکوں کے انتخاب پرمعاملات چھوڑدینے چاہییں؟ یا پھر انفرادیت پرستی مسترد کردینی چاہیے۔ کیونکہ ہم عالمی مسائل سے گزررہے ہیں، اس لیے ہمیں عالمی اجتماعیت کی ضرورت ہے۔ فیس بک، مذہب یا قوم پرستی یہ اجتماعیت تشکیل نہیں دے رہے۔ سارے انسانی گروہ اپنے اپنے مفادات پرتوجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ امریکی، چینی، مسلمان، اور ہندو عالمی کمیونٹی کی تشکیل کے لیے کچھ نہیں کررہے ہیں۔ تو پھر کیا کیا جائے؟ اعلان کردیا جائے کہ سچ اور انصاف کی تلاش ناکام ہوچکی ہے؟ کیا ہم واقعی ’بعد ازسچ‘ کے دور میں داخل ہوچکے ہیں؟
سچ کے بعد،کچھ جعلی خبریں ہمیشہ چلتی ہیں!
ہمیں بار بار یہ بتایا جاتا ہے کہ ہم ایک نئے دورمیں جی رہے ہیں۔ یہ سچ کے بعد کا دور ہے۔ ہم جھوٹ اورفکشن میں گھرے ہوئے ہیں۔ مثالیں ملنا کچھ مشکل نہیں۔ فروری ۲۰۱۴ء میں روس نے یوکرین پر حملہ کیا اور کریمیا کی کئی اہم فوجی پوسٹوں پر قبضہ کیا۔ مگر روسی حکام اور پیوٹن مسلسل خبر کی تردید کرتے رہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ روسی فوجی نہیں بلکہ خودساختہ دفاعی گروہ ہیں، جنہوں نے مقامی دکانوں سے روسی ساختہ اسلحہ خریدا تھا۔ پیوٹن اور اس کے ساتھی بخوبی جانتے تھے کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے (پروفیسر صاحب کا سرمایہ دارانہ تعصب کمال کا ہے، مثال کے لیے روس کا نسبتاً کم اہم واقعہ ڈھونڈ نکالا مگر عراق پر حملے کے لیے ’کیمیائی ہتھیاروں‘ کا تباہ کُن جھوٹ بھول گئے، اس کے علاوہ یہ بھی نظر انداز کرگئے کہ مغرب کے مرکزی دھارے کا میڈیا جھوٹ کے ’فن‘ میں بدترین درجے پر ہے۔ روسی میڈیا اس کا عشر عشیر بھی نہیں)۔
آپ جس طرف بھی ہوں، ایسا لگتا ہے کہ ہم ’سچ کے بعد‘ کے ہولناک دورمیں زندگی گزار رہے ہیں، کہ جب نہ صرف جنگی واقعات بلکہ تاریخیں اور قومیں تک شاید جعلی ہیں۔ لیکن اگر یہ سچ کے بعد کا دور ہے، تب، واقعی،سچ کے لیے دور عافیت کا دور کیا ہوا؟ کیا یہ اسی کی دہائی کا دور تھا؟ سن پچاس کا؟ سن تیس کا؟ وہ کون سا دور ہے جوہمیں سچ کے بعد کے دور میں لے آیا، انٹرنیٹ؟ سوشل میڈیا؟ ٹرمپ یا پیوٹن کا عروج؟ پراپیگنڈہ اورغلط معلومات نئے نہیں، یہاں تک کہ پوری پوری قوموں کا انکاراورجعلی ملکوں کی تخلیق کا طویل حسب نسب ہے۔ برطانیہ کی آسٹریلیا میں آبادکاری کو NOBODY’S LAND جیسے جھوٹے غیرقانونی ڈاکٹرائن سے جواز مہیا کیا گیا، اس نے مقامی باشندوں کی پچاس ہزار سالہ زندگی کو مؤثر طور پر تاریخ سے مٹا دیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں صہیونیت کا مشہور نعرہ تھا ’زمین سے محروم لوگوں (یہودیوں) کی واپسی‘ اُس ’زمین کی جانب جہاں کوئی آباد (فلسطینی) نہیں‘ تھا (حیرت ہے، پروفیسر صاحب دہشت گردی کے باب میں فلسطینیوں کو ’دہشت گرد‘ بتا رہے ہیں اوریہاں مظلوم بنا کر پیش کررہے ہیں!۔ مترجم)۔ ۱۹۶۹ء میں اسرائیلی وزیراعظم کا جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ’’فلسطینیوں کا کوئی وجود نہ ہے اور نہ کبھی تھا‘‘۔ اس طرح کے خیالات آج بھی اسرائیل میں عام ہیں۔ جبکہ مسلح تنازع کی تاریخ دہائیوں پر پھیلی ہے، کیا یہ تنازع کسی ایسی شے کے خلاف ہے جس کا کوئی وجود نہیں؟ مثال کے طورپرفروری دوہزار سولہ میں وزیر انات برکو نے اسرائیلی پارلیمان میں دوران تقریر کہا تھا کہ ’’فلسطینیوں کی حقیقت اور تاریخ پرشبہ ہے‘‘۔ خاتون کے پاس اس دعوے کا ثبوت کیا تھا؟ خاتون کا خیال تھا کہ حرف P عربی کے حروف تہجی میں نہیں پایا جاتا، اس لیے کس طرح palestinian People کا وجود کہیں ہوسکتا ہے؟ (عربی میں فلسطین حرف ’ف‘ سے شروع ہوتا ہے نہ کہ pسے)۔
’سچ کے بعد‘ کے انواع
درحقیقت، انسان ہمیشہ سے ’سچ کے بعد‘ کے عہد میں ہی رہے ہیں۔ انسان ہمیشہ سے فکشن تخلیق کرتے رہے ہیں، اور ان پریقین کرتے رہے ہیں (یعنی پروفیسرصاحب کا یہ دعویٰ بھی فکشن ہوسکتا ہے! اس کتاب کے سب ہی دعوے دیومالائی ہوسکتے ہیں!)۔ پتھر کے زمانے سے انسان دیو مالائی کہانیوں کے ذریعہ مجتمع ہوتے رہے ہیں۔ یہ انسان کی سب سے اعلیٰ صلاحیت ہے، اسی کے سہارے انسان کرۂ ارض پر حاکم ہوا ہے۔ جب تک انسان ایک جیسے قوانین اور احکامات پریقین رکھتے ہیں، بہترین تعاون کرتے ہیں اور بہترین اجتماعیت ثابت ہوتے ہیں۔ مسیحیوں نے صدیوں یہی کیا، کبھی انجیل کی سند پر سوال نہیں اٹھایا۔ مسلمانوں نے قرآن حکیم پر اپنا یقین مستحکم کیا (پروفیسر صاحب میں اگر جرأت ہے تو قرآن حکیم پر اعتراض اٹھائیں، کوئی سوال اٹھائیں، لیکن اگر ایسا نہیں کرسکتے تو انجیل یا کسی بھی دوسری کتاب کے ساتھ قرآن کا حوالہ دینا بند کردیں، کیونکہ انجیل یا کسی بھی دوسری کتاب کی سند قرآن حکیم کی سند پر حجت نہیں ہوسکتی)۔ ہمارے پاس آدم اور حوا کے واقعہ کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے(سائنس کے پاس کسی بھی شے کا کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں ہے، کیا سائنس بتاسکتی ہے کہ انسان کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ یا انسان کے احساسات اور حسیات کا فرق کہاں ہے؟ سائنسی ثبوت کی بنیاد پر تو کچھ بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا! آئن اسٹائن نے کیا ہی دانشمندانہ بات کی تھی کہ ’’یا تو سب کچھ معجزہ ہے یا پھر کچھ بھی معجزہ نہیں ہے‘‘۔) چند جھوٹی خبریں ہمیشہ قائم رہتی ہیں (پروفیسر نے سچ اور جھوٹ کا اپنا پیمانہ پیش کیا ہے، جو ظاہر ہے قابل قبول نہیں ہے اور جھوٹ کی ہمیشگی کا دعویٰ ازخود ایک عقیدہ ہے، جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ سب جانتے اور مانتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے)۔ مجھے پتا ہے کہ اکثر لوگ جھوٹی خبروں کے لیے مذہب کی مثالوں سے جزبز ہوں گے۔ مگریہی میرا نقطہ نظر ہے(پروفیسریوول ہراری صاحب کی نظر میں مذہب کے لیے جتنا تعصب ہے، اتنی ہی یہ نظر تہذیب مغرب کے معاملہ میں کمزور ہے۔ تاریخ میں پہلی بارجھوٹ اور منفی پراپیگنڈے کوباقاعدہ صنعت کا درجہ دینے کا اعزاز مغرب کو حاصل ہے۔ امریکا کے کروڑوں مقامی باشندے قتل کیے گئے اور جھوٹ بولا گیا۔ آسٹریلیا کے کروڑوں انسانوں کی تاریخ مٹا دی گئی اور جھوٹ بولا گیا، عراق میں جھوٹ بول کر پندرہ لاکھ لوگ مار دیے گئے، جھوٹ پر پوری پوری جنگیں گھڑی گئیں، جھوٹ پر سارا میڈیا استوار ہے، اورجھوٹ ہی مغرب کی ’ڈپلومیٹک‘ خوبی رہی ہے۔ فلسفے کی پوری تاریخ جھوٹ اور قیاس پرکھڑی کی گئی)۔
چند جعلی خبریں سات صدیوں تک چلتی ہیں!
ماضی قریب میں ہرقوم نے اپنی قومی داستان گھڑ رکھی تھی۔ کمیونزم، فاشزم، اور لبرل ازم نے پورا اعتقاد نامہ بنا رکھا تھا۔ جوزف گوئبلزنازی پراپیگنڈہ ماسٹرتھا، وہ کہتا تھا کہ جھوٹ ایک بار بولا جائے تو جھوٹ ہی رہتا ہے، ہزار بار بولا جائے توسچ بن جاتا ہے۔ آپ بیتی ’مین کاف‘ میں ہٹلرلکھتا ہے کہ پراپیگنڈہ کی کامیابی کا انحصار چند محدود اور بنیادی نکات پر ہے، جنہیں متواتردہرایا جائے۔
سوویت پراپیگنڈہ مشین بھی سچ کے معاملہ میں اتنی ہی پرفریب تھی۔ پوری پوری جنگوں سے ایک ایک فرد کی تصویر تک تاریخ دوبارہ لکھی گئی۔ سوویت پراپیگنڈہ مشین اس قدر فعال تھی کہ اندرون ملک بڑے بڑے قتل عام خوبی سے چھپا لیتی تھی، اوردنیا کے سامنے سوویت یونین کو یوٹوپیا بناکر پیش کیا جاتا تھا (پروفیسر ہراری یہاں خود سرمایہ دار امریکا کے پراپیگنڈسٹ لگ رہے ہیں۔ اس حوالے سے پروفیسر ہراری پراپیگنڈہ کے بدنام ترین کریل کمیشن کا ذکر کرنا بھول گئے، جسے امریکا نے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے بنایا تھا اور جس کے نتیجے میں ہسٹریائی ماحول پیدا کیا گیا تھا اور ایٹم بم دھماکوں کے لیے ماحول سازگار بنایا گیا تھا)۔
تاہم آج فیس بک اور ٹوئٹرکے دور میں یہ مشکل ہوجاتا ہے کہ کس واقعہ پریقین کیا جائے اورکس پرشک کیا جائے۔ کمرشل کمپنیاں بھی فکشن اور جھوٹ پر انحصار کرتی ہیں۔ برانڈنگ کے لیے جھوٹی کہانی صبح شام دہرائی جاتی ہے، یہاں تک کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ جب تم کوکا کولا کے بارے میں سوچتے ہو ذہن میں کیا تصاویر ابھرتی ہیں؟ صحت مند ایتھلیٹ کھیلتے ہوئے منظر پر ابھرتے ہیں؟ یا پھر شوگر کے موٹے مریض؟ کوکاکولا زیادہ پینے سے کوئی صحت مند نہیں ہوتا۔ یہ ذیابطیس اور موٹاپے کے خطرات بڑھا دیتی ہے۔ مگر کوکا کولا دہائیوں سے اربوں ڈالر اس جھوٹ پر خرچ کررہا ہے کہ اُس کا تعلق صحت، کھیل اور نوجوانوں سے ہے۔ سچ سچ ہے، یہ کبھی بھی نوع انسان کا اعلیٰ ایجنڈا نہیں رہا ہے۔ دو ہزار سال قبل رومن سلطنت کے خلاف یہودیوں کی بغاوت اس یقین پر برپا کی گئی کہ خدا اُن کے لیے جنگ کرے گا۔ مگر انہیں ناکامی ہوئی اور یروشلم برباد کردیا گیا، یہودی جلا وطن کیے گئے۔ جب تک کسی دیو مالائی کہانی پر یقین نہ ہو، لوگوں کے بڑے بڑے ہجوم منظم نہیں کیے جاسکتے۔ اگرتم حقائق کی بنیاد پر آگے بڑھو گے توبہت ہی کم لوگ تمہارے پیچھے چلیں گے۔ درحقیقت، لوگوں کو متحد کرنے میں جھوٹی کہانیوں نے سچ پر سبقت کی ہے۔
ہم نوع انسان طاقت کو سچ پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہم دنیا کو سمجھنے سے زیادہ اس پرقابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہم اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، تب بھی نیت اسے زیر کرنے ہی کی ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر تم کوئی سچا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہوتونوع انسان پربھروسہ نہیں کرسکتے بلکہ اس معاملہ میں بندروں پرزیادہ انحصار کرسکتے ہو۔
(کتاب: ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)
Leave a Reply