افغانستان معدنی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ مغربی ماہرین نے جدید ترین آلات کی مدد سے اندازہ لگایا ہے کہ افغانستان کے طول و عرض میں کم و بیش ایک کھرب (یعنی سو ارب) ڈالر مالیت کی معدنیات ہیں مگر چونکہ ملک شدید بدامنی کا شکار ہے اور بنیادی ڈھانچا بھی تباہ ہوچکا ہے، اس لیے ان معدنیات کو نکالنا اور عالمی منڈی میں موثر انداز سے فروخت کرنا کابل انتظامیہ کے لیے ممکن نہیں رہا۔ طالبان سمیت کئی منظم گروپ معدنی وسائل پر متصرف ہیں۔ اس وقت افغانستان کے ۳۴ میں سے ۱۴؍صوبوں میں طالبان معدنی وسائل نکال کر ہر سال ۲۰ سے ۳۰ کروڑ ڈالر کما رہے ہیں۔ منشیات کے بعد معدنیات ہی ان کے لیے سب سے بڑا ذریعۂ آمدن ہے۔ طالبان افغانستان کے طول و عرض میں تیزی سے قدم جما رہے ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان کا ملک معدنیات سے مالا مال ہے، اس لیے وہ قیمتی پتھر نکالنے کے شعبے میں بھی تیزی سے قدم جما رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ آمدن کا مستقل اور معقول ذریعہ ہے۔ انہوں نے اسٹون کمیشن بنانے کی بات بھی کی ہے۔ پوست کے بعد معدنیات کے شعبے سے ہونے والی آمدن نے ان کی لڑنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔ اب وہ زیادہ منظم انداز سے اور جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ کسی بھی وقت سکیورٹی فورسز سے ٹکراسکتے ہیں۔
افغانستان میں لوہے اور تانبے کے وسیع ذخائر کے علاوہ ہائڈرو کاربن مٹیریل کے ذخائر بھی وافر مقدار میں موجود ہیں۔ ملک بھر میں سنگِ مرمر اور دوسرے قیمتی پتھر کے علاوہ جواہر کے ذخائر بھی موجود ہیں۔ بہت سے مقامات پر تیل اور گیس کے ذخائر کا بھی پتا چلا ہے۔ مگر چونکہ مرکز میں کمزور حکومت ہے اور پورے ملک پر اس کا تصرف ایسا نہیں جس پر بھروسا کیا جاسکے، اس لیے اب تک ان معدنی وسائل سے بھرپور طور پر مستفید ہونا سرکاری مشینری کے لیے ممکن نہیں ہوسکا۔ طالبان اور دیگر منظم عسکریت پسند گروپ معدنی وسائل کو اپنی مرضی کے مطابق نکال کر فروخت کر رہے ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ افغانستان میں ۹۰۸؍ارب ڈالر سے زائد مالیت کی معدنیات اور ۲۰۰؍ارب ڈالر سے زائد مالیت کے ہائیڈرو کاربن (پٹرولیم) ذخائر پائے جاتے ہیں۔ اگر اس شعبے کو منظم کیا جائے اور ان معدنیات کو موزوں اور معیاری طریقے سے نکال کر فروخت کیا جائے تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اس وقت بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ملک بھر میں درجنوں مقامات پر سنگِ مرمر اور دیگر معدنیات دھڑلے سے نکال کر فروخت کی جارہی ہیں جس کے نتیجے میں حکومتی سرپرستی میں مائننگ کا شعبہ پنپ نہیں پارہا۔ اس حوالے سے کی جانے والی حکومتی کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
طالبان کے ساتھ ساتھ اب اسلامک اسٹیٹ آف خراسان (ننگرہار) اور دیگر عسکریت پسند گروپ بھی غیر قانونی مائننگ میں ملوث ہیں۔ دی افغانستان اینٹی کرپشن نیٹ ورک نے فروری میں اطلاع دی تھی کہ طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں نے گزشتہ برس کاسمیٹکس کی تیاری میں استعمال ہونے والے عنصر ’’ٹیلک‘‘ کی غیر قانونی فروخت سے کم و بیش ۴۶ کروڑ ڈالر کمائے۔ طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپ اس وقت اپنی آمدن کے ذرائع میں زیادہ سے زیادہ تنوع پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
طالبان نے اب تک اس شعبے میں ملوث ہونے کی باضابطہ تصدیق نہیں کی ہے اور اپنے آپ کو اس حوالے سے بہت پیچھے اور پردے میں رکھنے کی کوشش کی ہے مگر خیر، طالبان ہی کے تحت ایک ’’دابارو کمسیون‘‘ (اسٹون کمیشن) کام کر رہا ہے جو معاملات کو بہتر انداز سے ڈیل کرتا ہے، ٹیکس نافذ کرتا ہے اور مائننگ لائسنس بھی جاری کرتا ہے۔ طالبان کا دابارو کمسیون ۲۰۰۹ء میں قائم کیا گیا اور یہ مالی کمسیون کے تحت کام کرتا ہے۔
امریکا نے ۲۰۰۹ء میں افغان حکومت کو مزید مضبوط کرنے اور داخلی سلامتی کا معاملہ بہتر بنانے کی ضرورت سے ۳۳ ہزار اضافی فوجی تعینات کیے۔ اس کا ایک بنیادی مقصد میدانِ جنگ میں طالبان کی پیش قدمی روکنا بھی تھا۔ طالبان نے امریکی فوج کو فراہم کی جانے والی اس کمک کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی بھرپور تیاری کی اور اس کے لیے وسائل کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھنے پر بھی خاطر خواہ توجہ دی۔ اسی دوران پاکستان نے طالبان کے سابق امیر ملا محمد عمر کے نائب اور سینئر ملٹری کمانڈر ملا عبدالغنی برادر کو گرفتار کیا۔ یہ فروری ۲۰۱۶ء کی بات ہے۔ اس کے نتیجے میں طالبان قیادت میں جو خلا پیدا ہوا، اُسے ملا اختر منصور کے ذریعے پُر کیا گیا۔ ملا اختر منصور کا تعلق قندھار سے تھا اور اس نے اسحاق زئی قبائل سے اپنے تعلق کو طالبان کی طاقت میں اضافے کے لیے بھرپور انداز سے بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ جولائی ۲۰۱۵ء میں ملا عمر کی طبعی موت کی تصدیق ہوجانے کے بعد ملا اختر منصور نے طالبان کے حقیقی امیر کا منصب سنبھال لیا۔ ملا عمر کی موت غالباً جولائی ۲۰۱۳ء میں واقع ہوچکی تھی۔ ویسے ملا اختر منصور نے عبدالغنی برادر کی گرفتاری کے بعد سے طالبان کی قیادت کسی نہ کسی حیثیت میں سنبھال ہی رکھی تھی۔
ملا اختر منصور کو مئی ۲۰۱۶ء میں امریکی فوج نے فضائی حملے میں ہلاک کیا۔ اس کے ساتھ اسحاق زئی قبیلے کا ملا گل آغا اخوند بھی مارا گیا۔ ان دونوں نے مل کر مائننگ کے شعبے کو پروان چڑھایا اور ہلمند پر زیادہ توجہ دی جس کے نتیجے میں طالبان کی آمدن میں متعدبہ اضافہ ہوا۔
مالی کمسیون (فنانشل کمیشن) طالبان کی آمدن کے مختلف ذرائع کا نگران ہے۔ طالبان کے مبینہ ذرائع آمدن میں پوست کی فصل کے علاوہ معدنیات کا نکالا جانا، اغوا برائے تاوان اور غیر سرکاری تنظیموں سے بھتے کی وصولی نمایاں ہیں۔ دابارو کمسیون کا سربراہ غزنی صوبے سے تعلق رکھنے والا سابق طالبان میڈیا اینڈ پروپیگنڈا پرسن احمد جان احمد ہے۔ طالبان نہیں چاہتے کہ دنیا کو ان کی آمدن کے ذرائع کا علم ہو اس لیے دابارو کمسیون یا مالی کمسیون کے بارے میں لوگوں کو کم ہی معلوم ہے۔
اکتوبر ۲۰۱۶ء میں اقوام متحدہ کے اینیلیٹیکل سپورٹ اینڈ سینکشنز مانیٹرنگ ٹیم نے بتایا کہ طالبان نے ہلمند سمیت کئی صوبوں میں معدنیات نکالنے پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ اس غیر قانونی سرگرمی سے طالبان کی آمدن کا بڑا حصہ آتا ہے۔ طالبان کی معدنی سرگرمیوں کا زور جنوبی افغانستان پر ہے۔ جن اداروں نے کان کنی کے لائسنس لے رکھے ہیں اور قانونی طریقے سے معدنیات نکالتے ہیں اُن سے بھی طالبان بھتہ وصولی کرتے ہیں۔ طالبان خود بھی معدنیات نکال کر فروخت کرتے ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں سے انہیں کتنی یافت ہوتی ہے اس کا درست اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ سب کچھ ڈھکے چھپے انداز سے ہو رہا ہے۔ طالبان ان تمام سرگرمیوں کو دنیا کی نگاہوں سے چھپانا چاہتے ہیں۔ افغان حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے جون ۲۰۱۶ء میں بتایا تھا کہ طالبان صرف ہلمند سے یومیہ پچاس ساٹھ ہزار ڈالر کی معدنیات نکال کر فروخت کر رہے ہیں۔ سنگِ مرمر بڑے پیمانے پر نکالا جارہا ہے۔ بدخشاں صوبے سے بھی معدنیات نکالی جارہی ہیں جن میں سنگِ مرمر نمایاں ہے۔ قیمتی پتھروں بالخصوص زمرد کی فروخت سے بھی طالبان نے کروڑوں ڈالر کمائے ہیں۔ افغانستان میں ہر سال نکالی جانے والی معدنیات سے ہونے والی آمدن کم و بیش ۲؍ارب ڈالر ہے جس کا ۱۰ تا ۱۵ فیصد طالبان کی جیب میں جاتا ہے۔ ۲۰۱۲ء کے بعد سے معدنیات کے شعبے میں طالبان کی سرگرمیاں تیزی سے بڑھی ہیں۔ مرکزی حکومت کے کنٹرول والے علاقوں میں بھی طالبان کھل کر کام کر رہے ہیں۔
افغان حکومت نے ۲۰۱۵ء میں معدنیات کی فروخت سے ۳ کروڑ ڈالر کمائے جو ملک بھر میں معدنیات کی مجموعی فروخت کو دیکھتے ہوئے بہت کم ہے۔ اس سے ایک طرف تو مرکزی حکومت کی کمزوری اور دوسری طرف طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کی مضبوطی کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ معدنیات کی فروخت کے حوالے سے سرکاری کھاتے میں جانے والی رقم کم و بیش اتنی ہی ہے جتنی طالبان حاصل کر رہے ہیں۔
طالبان میدان جنگ میں اپنی فتوحات کو دیگر شعبوں کی فتوحات پر ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ عسکری پہلو مضبوط ہوگا تو وہ اپنی بات بہتر ڈھنگ سے منوانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ انہوں نے ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۰ء میں آمدن کے ذرائع میں تنوع پیدا کرنے کا عمل شروع کیا تاکہ مختلف ذرائع سے مال آتا رہے اور میدان جنگ میں پریشانی یا سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مالیاتی ذرائع مضبوط کرنے کے حوالے سے طالبان پوست کی فصل اور ہلمند صوبے پر متوجہ رہے ہیں۔ ۲۰۱۰ء تک یہاں طالبان کا زور غیر معمولی تھا۔ زرخیز زرعی اراضی کے حامل علاقے مرجہ میں طالبان کی پوزیشن مضبوط تھی۔ ۷۰ فیصد تک کسان پوست اگانے پر توجہ دیتے تھے کیونکہ اس صورت میں ان کی آمدن معقول حد تک پہنچ جاتی تھی۔ پھر مرجہ کا کنٹرول واپس لینے کے لیے امریکا و اتحادی ممالک کے فوجیوں نے افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر آپریشن کیا۔ جب طالبان نے دیکھا کہ مرجہ کا کنٹرول ہاتھ سے نکل جانے پر پوست سے آمدن بھی کم ہو رہی ہے تو انہوں نے ہلمند کے دیگر علاقوں پر توجہ دینا شروع کی۔ اب وہ پوست کی فصل سے کہیں زیادہ معدنیات پر متوجہ تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ فصل تو خراب بھی ہوسکتی ہے مگر معدنی ذخائر کے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ یہ تو مستقل آمدن کے ذرائع تھے۔ طالبان نے اپنے زیر اثر علاقوں کے کسانوں سے فصلوں کی آمدن پر دس فیصد ٹیکس (عشر) وصول کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مجموعی دولت پر ڈھائی فیصد ٹیکس وصول کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ دیہی علاقوں میں کان کنی کرنے والے اداروں سے بھی طالبان نے اسی طور وصولی شروع کی۔ طالبان نے مائننگ کے شعبے میں جو کچھ بھی کیا ہے اس کی باضابطہ ڈاکیومینٹیشن نہیں ہے۔ اقوام متحدہ نے ۲۰۱۲ء میں رپورٹ کیا کہ طالبان نے معدنیات کے شعبے سے اب تک ۴۰ کروڑ ڈالر سے زائد کمائے ہیں۔ اس دوران طالبان نے کسانوں اور اداروں سے ٹیکس اور بھتے بھی وصول کیے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کو بھی بہت کچھ ادا کرنا پڑا ہے۔ ۲۰۱۳ء کے بعد سے طالبان نے جواہر برآمد کرنے پر خاص توجہ دی ہے۔ عالمی بینک نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان سے نکالے جانے والے قیمتی پتھروں کا ۹۰ فیصد غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجا جاتا ہے یعنی قومی خزانے میں کچھ بھی نہیں جاتا۔
۲۰۱۴ء کے آخر میں امریکا نے افغانستان میں اپنے فوجی مشن کے خاتمے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے طالبان نے مائننگ کے شعبے میں دلچسپی بڑھادی ہے۔ اس کے لیے سیکورٹی کے مسائل بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔ جب امریکی فوج نے انخلا شروع کیا اور اس دوران افغان فوج کی تربیت اور مدد کا سلسلہ شروع کیا تب طالبان نے مختلف علاقوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی ٹھانی اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ پوست کی فصل کے ساتھ ساتھ معدنیات سے بھی یافت بڑھانے پر توجہ دی جانے لگی۔ کئی علاقوں پر تصرف پانے کے بعد طالبان نے وہاں کے معدنی ذخائر کو بروئے کار لانا شروع کیا۔ ۱۵؍نومبر ۲۰۱۶ء کی پوزیشن کے مطابق افغانستان کے ۴۰۷؍اضلاع میں سے صرف ۵۷ فیصد پر کابل حکومت کا نمایاں کنٹرول تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں پر کابل حکومت کا اختیار اور تصرف گھٹتا ہی رہا ہے۔ ہلمند کے ۱۴؍میں سے ۱۱؍اضلاع طالبان کے کنٹرول میں رہے ہیں۔ یہ اگست ۲۰۱۶ء کی پوزیشن ہے۔ اس کے نتیجے میں طالبان کو معدنیات کے ذخائر سے بھرپور استفادہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ ۳۴ میں سے ۱۴؍صوبوں میں سیکڑوں مقامات پر غیر قانونی طریقے سے معدنیات نکالی جارہی ہیں۔ کابل سمیت کئی علاقوں میں طالبان معدنی وسائل سے بھرپور استفادہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ مجموعی طور پر معدنیات کے ۱۰؍ہزار ذخائر ایسے ہیں جو حکومتی کنٹرول سے باہر کے علاقوں میں ہیں۔ جون ۲۰۱۶ء میں افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نے تسلیم کیا کہ غیر قانونی طریقے سے معدنیات نکالی جارہی ہیں اور اس سلسلے کو روکنے میں حکومت کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ افغان حکومت نے ۱۲۷۰؍مقامات پر غیر قانونی طریقے سے معدنیات نکالنے کا عمل روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
طالبان نے ہلمند پر زیادہ توجہ دی ہے کیونکہ ۲۰۱۴ء سے اب تک یہ صوبہ کئی مواقع پر پورا کا پورا طالبان کے کنٹرول میں آتا رہا ہے۔ طالبان ہلمند میں مختلف ذرائع سے ہر سال کم وبیش ۲ کروڑ ڈالر کماتے رہے ہیں۔ غیر جانبدار ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت ہلمند کے حوالے سے جو اندازے پیش کر رہی ہے طالبان اُن سے کہیں زیادہ کما رہے ہیں۔ ہلمند میں سنگِ مرمر کی اعلیٰ اقسام پائی جاتی ہیں۔ زرد، ہلکا سبز، گہرا سبز اور گلابی یوں چار طرح کا سنگِ مرمر ہلمند سے ملتا ہے، جس کی عالمی منڈی میں خاصی مانگ ہے۔ گلابی سنگِ مرمر غیر معمولی اہمیت کا حامل اور خاصا مہنگا ہے۔ طالبان سنگِ مرمر لے جانے والے ہر ٹرک سے مال کی کوالٹی کے لحاظ سے ۲۵ تا ۶۰ ہزار روپے فی ٹن کی شرح سے ٹیکس لیتے ہیں۔ ہر ٹرک پر ۷ سے ۴۰ ٹن تک ماربل لدا ہوا ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۴ء کے دوران ہلمند سے ہر سال ایک لاکھ ۲۴ ہزار تا ایک لاکھ ۵۵ ہزار ٹن سنگِ مرمر نکالا گیا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ ہلمند سے روزانہ ۵۰ ٹرک سنگِ مرمر لے کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ حکومت کو سنگِ مرمر پر لگائے جانے والے ٹیکس سے خاصی قلیل آمدن ہوتی ہے۔ یہ ٹیکس ۳۳ ڈالر فی ٹن تک ہے۔
ہلمند میں طالبان کا معاملہ اب سنگِ مرمر پر ٹیکس عائد کیے جانے تک محدود نہیں رہا بلکہ وہ مائننگ لائسنس پر بھی رقوم وصول کر رہے ہیں۔ طالبان اسے اپنی اہم کامیابی گردانتے ہیں۔ اس سے ان کی آمدن میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ کان کنی کرنے والے چند ادارے لائسنس کی مد میں حکومت کو بھی رقم ادا کرتے ہیں تاہم لائسنس ان کے پاس صرف طالبان کا ہوتا ہے۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ ہلمند میں ایسے ۳۵ مقامات ہیں جہاں سے غیر قانونی طور پر سنگِ مرمر نکالا جارہا ہے۔ ان میں ایسے دور افتادہ علاقے بھی شامل ہیں جو طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔
دابارو کمسیون اور مالی کمسیون سے تعلق رکھنے والے افغان ذمہ داران خان نشین اور بیرم چاہ جیسے اضلاع میں اپنی موجودگی یقینی بناتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ وصولی ممکن بنائی جاسکے۔ سنگِ مرمر کی چند ایک کانیں طالبان عہدیداروں کی ملکیت میں بھی ہیں۔ ان میں سینئر طالبان کمانڈر (امیر خان متقی) کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔ امیر خان متقی ثقافتی کمیشن کے سربراہ رہے ہیں۔ دیگر عہدیداروں میں ملا منان اور ملا محمد عیسٰی بھی شامل ہیں۔
طالبان نے ماضی میں بھی معدنیات پر ٹیکس عائد کرکے اس مد میں غیر معمولی آمدن یقینی بنانے کی کوشش کی تھی۔ کرومائٹ اور دیگر معدنیات نکالنے پر ٹیکس لگایا گیا تھا اور اس حوالے سے کچھ نہ کچھ وصولی کی جاتی تھی۔ معدنیات سے وصولی کی پوری ذمہ داری دابارو کمسیون پر عائد ہوتی ہے۔ مائننگ کمپنیوں سے لائسنس یا کسی اور مد میں وصولی بھی دابارو کمسیون ہی کرتا ہے۔ دابارو کمسیون پاکستانی کاروباری شخصیات سے بھی رابطے میں رہتا ہے تاکہ غیر قانونی طور پر نکالنے جانے والی معدنیات کو بلیک مارکیٹ میں آسانی سے فروخت کیا جاسکے۔
ایسا نہیں ہے کہ قیمتی پتھر غیر قانونی طریقے سے نکالنے کا سلسلہ دور افتادہ علاقوں تک محدود ہے۔ کابل سے محض ۲۵ کلو میٹر اور امریکی کنٹرول والی بگرام ایئر بیس سے محض ۱۲؍کلومیٹر کے فاصلے پر پروان صوبے میں قیمتی پتھر نکالنے والی ایک سائٹ پر اب تک کام جاری ہے اور بظاہر کسی بھی طرف سے روک ٹوک کا کوئی خطرہ نہیں۔ یہاں سے نیفرائٹ جیڈ نکلتا ہے جو زیورات کی تیاری میں کام آتا ہے۔ یہ مقام نیلی کہلاتا ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ نیلی میں مائننگ کا عمل بہت حد تک طالبان کے کنٹرول میں رہا ہے اور یہ سلسلہ ۲۰۱۶ء کے دوران بھی جاری رہا ہے۔ یہ قیمتی پتھر کابل لایا جاتا ہے اور وہاں سے پاکستان منتقل کردیا جاتا ہے۔
سروبی کے مقام پر بھی معدنیات کے وسیع ذخائر ہیں، جن سے بھرپور استفادہ اب تک ممکن نہیں ہوسکا تاہم غیر قانونی طریقوں سے معدنیات نکال کر اسمگل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ طالبان کے زیر تصرف یہاں سے زمرد اور دیگر قیمتی پتھر نکالے جاتے رہے ہیں۔ یہاں سے نکالا جانے والا ایک زمرد دبئی میں ۶ لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔ افغان سیکورٹی فورسز نے غیر قانونی مائننگ روکنے کی بہت کوشش کی ہے مگر اب تک اسے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ سروبی سے اب تک معدنیات نکالی جارہی ہیں۔ قیمتی پتھر نکال کر پاکستان اور دیگر ممالک کو اسمگل کردیے جاتے ہیں۔ کابل کے نواح میں غیر قانونی کانوں سے نکالی جانے والی معدنیات اور قیمتی پتھر پشاور منتقل کیے جاتے ہیں۔ کابل کے نواح سے نکالنے والے قیمتی پتھر پشاور کی نمک منڈی میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
طالبان نے لائم اسٹون اور کوئلے کی غیر قانونی مائننگ بھی جاری رکھی ہے، جس سے خاصی آمدن ہوتی ہے۔ کوئلہ بامیان میں نکالا جاتا ہے، اس صوبے میں کوئلے کی بیشتر کانیں بند کی جاچکی ہیں مگر پھر طالبان کی آمدن کا ایک اہم ذریعہ بامیان کی غیر قانونی مائننگ ہے۔
اجمالاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ طالبان نے آمدن کے دیگر ذرائع کے ہوتے ہوئے بھی معدنیات کے شعبے پر خاص توجہ دی ہے۔ پوست کی فصل، اغوا برائے تاوان، عشر، ٹیکس اور بھتوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے غیر قانونی مائننگ کا دائرہ بھی وسیع کیا ہے۔ کان کنی سے جڑے ہوئے اداروں سے بھی وہ لائسنس کی مد میں خطیر رقوم وصول کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بہت سے علاقوں میں خود بھی معدنیات نکال کر اسمگل کر رہے ہیں۔ اس حوال سے بھتے کی مد میں بھی اچھی خاصی رقوم جمع ہوتی ہے۔ دابارو کمسیون طالبان سے وابستہ اداروں میں غیر معمولی ساکھ کے ساتھ ابھرا ہے۔ معدنیات کے شعبے میں طالبان کا نفوذ کئی سال سے جاری ہے اور اس راہ میں بظاہر کوئی بڑی رکاوٹ نہیں۔ طالبان نے اپنی پوزیشن اس حوالے سے غیر معمولی حد تک مستحکم کرلی ہے۔ جہاں بھی طالبان کا تصرف غیر معمولی ہے وہاں معدنیات نکالے جانے کا عمل تیزی سے جاری رہا ہے۔ اس مد میں طالبان کی آمدن اتنی ہے کہ وہ خود بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔
افغانستان میں معدنیات کے ذخائر کو جس بری طرح نوچا اور بھنبھوڑا جارہا ہے اسے دیکھ کر حکومتی ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں یکساں طور پر پریشان ہیں۔ مگر اس صورت حال میں فوری طور پر کوئی انقلابی قدم اٹھانا ان کے بس کی بات نہیں۔ حکومتی شخصیات کو بھی اندازہ ہے کہ جب تک ملک میں استحکام نہیں آئے گا، سلامتی کی صورت حال قابل رشک حد تک بہتر نہیں بنائی جاسکے گی تب تک معدنیات سے مستفید ہونا اور قومی خزانے کو بھرنا حکومت کے لیے ممکن نہ ہوسکے گا۔ اس حوالے سے لیگل فریم ورک تیار کرنا اور مائننگ کے شعبے کو باضابطہ شکل دینا لازم ہے مگر حکومت فی الحال ایسا کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس وقت افغانستان میں مائننگ کا شعبہ انتہائی قابل رحم حالت میں ہے۔ افغان حکومت اب تک کرپشن سے لڑ رہی ہے اور دوسری طرف سیکورٹی اب تک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپ جہاں بھی موقع دیکھتے ہیں، حکومت کے سیکورٹی سیٹ اَپ کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتے۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ملک میں سیکورٹی کا مسئلہ رہے گا تو ان کا وجود بھی برقرار رہ سکے گا۔ حکومت کو کمزور کرتے رہنا ہی ان کی اولین ترجیح ہے تاکہ وہ خود کبھی خطرے کی لپیٹ میں نہ آئیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Taliban stones commission and the insurgent windfall from illegal mining”. (“ctc.usma.edu”. March 10, 2017)
Leave a Reply