مصر کے لیے تین ہفتے بہت پریشان کن رہے ہیں۔ پہلے ایک تہائی ارکان کی سیاسی وابستگی کو بہانہ بناکر پارلیمان کو فوج کی سپریم کونسل نے تحلیل کردیا۔ اس کے بعد عبوری آئین نافذ کرتے ہوئے فوج نے صدر کے، قانون سازی سمیت، تمام اہم اختیارات اور امور اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ یہ گویا اس بات کا اشارہ تھا کہ نئے سیاسی سیٹ اپ کو عسکری قیادت چلنے دینے کے موڈ اور حق میں نہیں۔ اخوان کے لیے یہ سخت آزمائش کا وقت تھا۔ پارلیمان میں اس کی پوزیشن بہت مستحکم رہی۔ اسلام پسندوں نے مجموعی طور پر ۵۵ فیصد نشستیں حاصل کیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ قانون سازی کے شعبے میں بھی ان کا پلہ بھاری رہنا تھا۔ یہ بات سیکولر عناصر کو نہ بھائی اور انہوں نے فوج کے ذریعے نومنتخب پارلیمان پر شب خون مار دیا۔ مصری عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش بھی تھی کہ جمہوریت وغیرہ کے چکر میں نہ پڑیں اور اپنے کام سے کام رکھیں۔ عسکری قیادت نے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر آئینی عدالت کے ذریعے یہ اعلان کرادیا کہ صدارتی انتخاب کے نتائج غیر معینہ مدت تک ملتوی کیے جاتے ہیں کیونکہ امیدواروں نے عذر داریاں داخل کی ہیں۔ مگر عوام سمجھ چکے تھے کہ یہ سب کچھ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہے۔
عوامی انقلاب کو سبوتاژ کرنے کی کون سی کوشش نہیں کی گئی؟ میڈیا کے ذریعے عوامی انقلاب کے خلاف باضابطہ اور منظم مہم چلائی گئی۔ اخوان المسلمون اور دیگر گروپوں کی اندرونی لڑائی کی باتیں پھیلائی گئیں۔ انقلاب کے حوالے سے عوام کو بدگمان کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ بھی باور کرایا گیا کہ انقلاب ونقلاب میں کچھ نہیں رکھا اور یہ کہ بیداری کی صورت میں حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ جو کچھ چل رہا ہے اسے چلنے دیا جائے۔ ایک مرحلہ وہ بھی آیا کہ جب عوام نے قدرے خاموشی اختیار کرلی اور عسکری قیادت یہ سمجھ بیٹھی کہ اب انقلاب ختم ہوچکا ہے۔ موقع غنیمت جان کر اس نے پارلیمان تحلیل کی اور صدارتی انتخاب پر بھی شب خون مارنے کی کوشش کی۔ مگر جب صدارتی انتخاب کے نتائج غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان ہوا تو عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔ لاکھوں افراد نے ایک بار پھر قاہرہ کے تحریر اسکوائر اور دیگر مقامات پر جمع ہوکر انقلابی قوتوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ انہیں اندازہ تھا کہ اگر وہ چپ ہوکر بیٹھ گئے تو عسکری قیادت اور سیکولر عناصر مل کر معاملات کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور پھر وہی ہوگا جو وہ چاہیں گے۔ انقلاب کے لیے مصری عوام نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ڈیڑھ سال سے معیشت ڈانوا ڈول ہے۔
فوج نے عام شہریوں کو کسی بھی وقت، کسی بھی الزام میں گرفتار کرنے کا استحاق بھی حاصل کرلیا۔ ایک اعلیٰ دفاعی کونسل قائم کردی گئی جس میں فوج ہی سے اعلیٰ افسران کو تعینات کیا جانا تھا۔ یہ استحقاق کٹھ پتلی آئینی عدالت کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ بعد میں جب عوام نے شدید احتجاج کیا تو یہ اختیار واپس لے لیا گیا۔
فوج نے جمہوریت پر شب خون مارتے ہوئے جو کچھ کیا اس سے ایک مثبت نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسلام پسند متحد ہوگئے۔ اخوان اور سلفی مکتب فکر کے لوگ اپنے اختلافات نظر انداز کرکے ایک ہوگئے۔ انہیں اندازہ ہوگیا کہ اگر وہ آپس میں اختلافات کی نذر ہوتے رہے تو عوامی انقلاب کے حقیقی ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ صدر منتخب ہونے کے بعد محمد مرسی نے خاصی دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وزیر اعظم اخوان سے منتخب نہیں کیا جائے گا اور نائب صدور بھی مختلف سیاسی جماعتوں سے لیے جائیں گے۔ اب یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ نائب صدور میں خواتین اور عیسائی بھی شامل ہوں گے۔
محمد مرسی کو صدارتی انتخاب میں کامیاب قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اخوان یا اسلام پسندوں کے پاس تین ادارے ہیں۔ پارلیمان، ایوان صدر اور تحریر اسکوائر۔ پارلیمان اور ایوان صدر کی باضابطہ حیثیت ہے، جبکہ تحریر اسکوائر اس امر کی علامت ہے کہ اگر مذکورہ بالا دونوں اداروں کے لیے کوئی خطرہ کھڑا ہو تو اس کا سامنا عوامی قوت سے کیا جائے۔ مصر میں عوام کی حکومت کے لیے ان تینوں کا ایک دوسرے سے مربوط رہنا لازم ہے۔ محمد مرسی نے تحریر اسکوائر میں علامتی طور پر حلف اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پورے ملک کے صدر ہیں اور تمام مصریوں کے حقوق اور بہبود کے لیے کام کریں گے۔ یہ بہت خوش آئند بیان ہے کیونکہ مصر کو اس وقت سب سے زیادہ قومی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ عوامی انقلاب کے نتیجے میں جن کے ہاتھ سے اقتدار نکل گیا ہے انہیں اس بات کا یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ پریشان نہ ہوں، معاشرے میں ان کا بھی مقام ہے۔ کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
محمد مرسی کی فتح کا اعلان اس امر کا غماز نہیں ہے کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ اختلافات اور تصادم کی کیفیت برقرار ہے۔ فوجی سپریم کونسل نے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ مصر کو رفتہ رفتہ حقیقی جمہوریت کی طرف لے جانا اور عوام کی بہبود کے لیے پوری ایمانداری سے اقدامات کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ مصر کے عوام پہلی بار فوج کے سامنے قدرے طاقتور اور پرعزم دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے پاس پارلیمان اور ایوان صدر ہے۔ اب وہ فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتے ہیں۔ مصر میں جمہوریت کے لیے خطرات کمزور ہوگئے ہیں، ختم نہیں ہوئے۔ فوج اپنے اقتدار کو کسی نہ کسی شکل میں بچانے کی خاطر کچھ بھی کرسکتی ہے۔ عوام بھی تیار ہیں اور ان کے نمائندے بھی۔ محمد مرسی کی فتح کے اعلان کے لیے فوج کی سپریم کونسل پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے لاکھوں افراد کا دوبارہ جمع ہونا اس بات کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ اب عوام کو کسی طور دبایا نہیں جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی بیداری کی لہر صرف مصر نہیں بلکہ پوری عرب دنیا میں خاصی مستحکم اور قوی ہے۔
یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ مصر میں فوج نے اقتدار پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوشش کی مگر عالمی برادری خاموش رہی۔ عبوری آئین کے ذریعے صدر کے اختیارات سلب کرلیے گئے۔ پارلیمان تحلیل کردی گئی مگر کسی بھی طرف سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی۔ امریکا اور یورپی یونین نے محض رسمی طور پر چند جملے ادا کیے اور پھر چپ سادھ لی۔ کسی بھی ملک میں جمہوریت کے فروغ کا ڈھول پیٹنے والی امریکی حکومت کو مصر کے معاملے میں سانپ سونگھ گیا۔ مغربی دنیا نے یہ تماشا اِس طور دیکھا جیسے جمہوریت کو قانونی حیثیت دینے کا عمل ہو۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب پارلیمان کو تحلیل کردیا گیا مگر کسی بھی بڑی طاقت نے کوئی بیان نہیں داغا۔ اس سے مصر اور دیگر عرب ممالک کے عوام کو یہ پیغام ملا کہ مغربی دنیا اب بھی جمہوریت کے حوالے سے عرب دنیا کے بارے میں دہرے معیارات پر یقین رکھتی ہے۔ کہیں اور جمہوریت کو دبانے کی کوشش کی جائے تو امریکا اور یورپ چیخ پڑتے ہیں مگر جب مصر میں فوج کی سپریم کونسل نے اعلیٰ ترین آئینی عدالت کے ساتھ ملی بھگت کے ذریعے جمہوریت کا بوریا بستر گول کرنے کی کوشش کی تو کہیں سے کوئی صدا نہ آئی۔ عرب دنیا کے لوگ اب تک نہیں بُھولے کہ مغربی دنیا نے اُن کے آمروں کو چار عشروں تک بھرپور حمایت اور تعاون سے نوازا ہے۔ صدارتی انتخاب میں محمد مرسی کی کامیابی کا اعلان بھی مغربی دنیا آسانی سے ہضم نہیں کر پائی۔ جب پیرس نے مبارک باد دی تب امریکا کو بھی خیال آیا کہ مصریوں کو مبارک باد دی جانی چاہیے۔
امید کی جانی چاہیے کہ مصر کے عوام اپنے انقلاب کو کسی بھی سودے بازی کی نذر نہیں ہونے دیں گے بلکہ تکمیل تک پہنچاکر ہی سکون کا سانس لیں گے۔ اِسی صورت وہ انقلاب کے حقیقی ثمرات سے بہرہ مند ہوسکیں گے۔
(“The Three Pillars of Egypt”… “Dawn”. June 30th, 2012)
Leave a Reply