کراچی ملک کے لیے حقیقی مفہوم میں ریڑھ کی ہڈی ہونے کے باوجود اب تک مسائلستان بنا ہوا ہے۔ شہر کیا ہے، چیستان ہے۔ معاملات اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ کہیں کسی بھی معاملے کا کوئی سِرا ہاتھ نہیں آتا۔ شہر کی صورتِ حال دیکھ کر یہ مصرع یاد آئے بغیر نہیں رہتا
اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے
بعض معاملات اِتنے عجیب ہیں کہ لاکھ کوشش پر بھی سمجھ میں نہیں آتے۔ اب یہی دیکھیے کہ شہرِ قائد سمندر کے کنارے آباد ہے مگر پیاسا ہے۔ اور پیاس بھی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ محرومی کا احساس ہے کہ دل و دماغ کی جان نہیں چھوڑتا۔ شہر مختلف النوع طبقات میں منقسم ہے۔ ہر طبقہ چاہتا ہے کہ وسائل کا غالب حصہ اُس کے حصے میں آئے۔ سب اپنے اپنے اسٹیک سے بڑھ کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
حیرت ختم کیسے ہو کہ وسائل کی کمی نہیں مگر پھر بھی مسائل ہیں کہ دوچند ہوئے جاتے ہیں۔ کیوں؟ ملک کا سب سے بڑا شہر اور مسائل کا گڑھ؟ بات عجیب ہی تو ہے۔ کوئی کیا سمجھے؟ اہلِ شہر کی زبانیں خاموش ہیں مگر چہروں پر سوال لکھے ہیں۔ ہر طرف سوال ہی سوال ہیں۔ ہر سوال جواب کا منتظر ہے۔ اور جواب، بظاہر، اُن میں سے کسی کے پاس نہیں جو شہر کو ہر اعتبار سے اپنا اسٹیک ہی نہیں، جاگیر بھی مانتے ہیں۔ محض کہہ دینے سے تو کوئی اسٹیک ہولڈر نہیں ہو جاتا۔ جنہیں شہر کو اپنا چاہیے وہ اِسے باپ کی جاگیر سمجھ بیٹھے ہیں۔ اسٹیک ہولڈر ایک مدت سے مزے لُوٹ رہے ہیں۔ شہر آمدنی کا ذریعہ ہے۔ تجوریاں بھری جارہی ہیں مگر مسائل کے حل کی کسی کو فکر لاحق نہیں۔ سوا دو کروڑ سے زائد آبادی کے شہر پر کوئی بھی متوجہ ہونے کو تیار نہیں۔
کراچی میں آبادی چونکہ متنوع ہیں اس لیے مسائل بھی ادق تر ہوئے جاتے ہیں۔ معاش کے اعتبار سے یہ شہر ایک نعمت سے کم نہیں۔ کوئی بھی کاروبار جتنی تیزی سے کراچی میں جمتا ہے کہیں اور نہیں جمتا۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ شہر مجموعی طور پر وسیع القلب اور وسیع النظر ہے۔ لوگ نئے آنے والوں کو کھلے دل سے اور کسی الجھن کے بغیر قبول کرتے رہے ہیں۔ نئے کاروبار کھولنے والوں کو خوف کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
ملک کے بیشتر دور افتادہ علاقوں میں معاش کے ذرائع کم ہیں اور معیارِ زندگی پست ہے۔ جہاں بنیادی مسائل ہی ڈھنگ سے حل نہ ہو پاتے ہوں وہاں زندگی کا معیار بلند کرنے کی سوچ کہاں سے پروان چڑھے؟ یہی سبب ہے کہ جب کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ اہل خانہ کے لیے کیا اور کیسے کرے تو وہ کراچی کا رخ کرے۔ یہ بالکل فطری ہے کیونکہ اور کوئی راستہ نہیں۔ لاہور اور راولپنڈی میں دوسروں کو پروان چڑھانے کی زیادہ گنجائش نہیں۔ کچھ یوں بھی ہے کہ ان دونوں شہروں میں باہر سے آنے والوں کو قبول کرنے کا رجحان اور وسعتِ قلب و نظر کم ہے۔ جو لوگ کہیں آکر لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں کاروبار شروع کرتے ہیں اُن کے حوالے سے عجیب رویہ روا رکھا جاتا ہے۔
ملک بھر کے لوگ آکر کراچی میں آباد ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا قیام عارضی کیونکہ وہ کمانے آتے ہیں۔ ان کی اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ کچھ نہ کچھ کماکر اہلِ خانہ کو بھیجیں۔ اگر یہ اہلِ خانہ کو بھی یہاں رکھیں گے تو ڈھنگ سے جی نہیں پائیں گے۔ عارضی ہی سہی، تیس چالیس لاکھ افراد کے سکونت پذیر ہونے سے مسائل تو پیدا ہونے ہی ہیں۔ آبادی میں اتنا بڑا اضافہ محض بنیادی سہولتوں کے حوالے سے نہیں بلکہ معاشرت کے حوالے سے بھی مسائل اور پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔
کراچی میں کس کا سرمایہ لگا ہوا ہے؟ صرف اہلِ شہر کا؟ جی نہیں۔ اہلِ شہر بھی اس شہر میں اپنا سرمایہ لگاتے ہیں مگر جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ صرف اُنہی کا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو شہر کب کا مزید خرابیوں سے دوچار ہوچکا ہوتا۔ کراچی میں ملک بھر کے لوگوں نے سرمایہ لگا رکھا ہے۔ کئی کاروباری برادریاں یہاں اپنے اسٹیکز رکھتی ہیں۔ یہ سیکڑوں ارب روپے کی سرمایہ کاری تحفظ بھی چاہتی ہے تاکہ بار آور ثابت ہو۔ یہ سرمایہ کاری پوری توجہ چاہتی ہے۔ اگر شہر کو نیا رنگ روپ دیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب صرف ملک سے نہیں بلکہ بیرون ملک سے بھی لوگ یہاں مزید اور غیر معمولی سرمایہ کاری کو ترجیح دیں گے۔
کراچی کو بزنس حب کہتے لوگوں کی زبان نہیں سوکھتی، مگر جب عمل کی بات آئے تو کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ جنہیں یہ شہر چلانے کو ملتا رہا ہے اُنہوں نے محض مال بٹورنے پر توجہ دی ہے۔ معاملات کو مسلسل نظر انداز کیے جانے سے کیفیت یہ ہوگئی ہے کہ اہلِ کراچی آج بھی ۱۹۵۰ء کے عشرے کے ماحول میں جی رہے ہیں۔ بنیادی ڈھانچا جواب دے چکا ہے۔ شہریوں کو انتہائی بنیادی سہولتوں کی فراہمی بھی ڈھنگ سے یقینی بنانا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ اتنے بڑے شہر میں زندہ رہنے کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ دو وقت کی روٹی اور چھت کا اہتمام کرنے پر زندگی کا بڑا حصہ ضایع ہو رہا ہے۔ کسی بھی شہر کی اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہوسکتی ہے کہ اُس کے مکین عمومی طرزِ زندگی بھی ڈھنگ سے ممکن نہ بنا پائیں۔
صوبائی اور مقامی کا جھگڑا ہے کہ عشروں سے جاری ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کوئی مانے یا نہ مانے، اس وقت سندھ عملاً شہری اور دیہی تقسیم کا شکار ہے۔ فنڈ مختص کرنے کے معاملے میں بھی جانب دارانہ اور امتیازی سوچ کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شہری علاقوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہ بات تو افسوس ناک ہے ہی، مگر اس سے کہیں زیادہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ دیہی علاقوں کے فنڈ بھی کھا پی لیے گئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی پر الزام ہے کہ اس نے شہری سندھ پر توجہ نہیں دی، بنیادی ڈھانچا بہتر نہیں بنایا اور لوگوں کو تعلیم و صحت کے ساتھ ساتھ روزگار کی سہولت فراہم کرنے میں بھی دلچسپی نہیں لی۔ سچ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے دیہی سندھ پر بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ سندھ کے بیشتر شہری علاقوں میں اردو اور دیگر زبانوں کے بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ اگر اُن کے حصے کے فنڈ دیہی سندھ پر لگا دیے جاتے تو بھی کوئی دکھ کی بات نہ تھی کہ عوام کو کچھ تو ملا۔
کراچی کا معاملہ یہ ہے کہ جسے جہاں مینڈیٹ ملا، اُس نے وہاں نقب لگائی ہے۔ مینڈیٹ کو بھی بعض تنظیموں اور جماعتوں نے باپ کی جاگیر سمجھا ہے۔ کراچی میں بیشتر سرکاری زمین کو چائنا کٹنگ کے ذریعے بیچ کھایا گیا اور سندھ کے دیگر علاقوں کو وہاں کے اسٹیک ہولڈرز نے تباہی کے دہانے تک پہنچادیا۔ ہر طرح کے سرکاری فنڈ کی بندر بانٹ کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کو عشرِ عشیر تک نہیں مل پاتا۔ یاروں نے ندی نالے بھی نہ چھوڑے۔ چھوٹے نالوں پر دکانیں بنی ہوئی ہیں اور بڑے نالوں اور ندیوں کی زمین کو رہائشی مقاصد کے تحت ہڑپ کرلیا گیا ہے۔ یہ بھی نہ سوچا گیا کہ ندی نالوں کی زمین پر قبضہ کرکے اپنی ہی موت کا سامان کیا جارہا ہے۔ ملیر ندی اور لیاری ندی کے پٹ میں کچی آبادیاں موجود ہیں۔ بارشوں کے بعد طغیانی کے نتیجے میں ان آبادیوں کے مکینوں کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے اس کے باوجود ندی میں بستیاں بسانے کی روش ترک نہیں کی جاتی۔
کئی عشروں سے کراچی میں صرف گراوٹ اور پستی کا راج ہے۔ عام آدمی کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہو پایا ہے۔ پانی، بجلی اور گیس میں سے کچھ بھی بہ قدرِ ضرورت میسر نہیں۔ شہر کی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ہاں، وصولی بھرپور کی جاتی ہے۔ بجلی چرانے کا رواج عام ہے۔ کئی علاقوں میں کنڈے لگاکر بڑے پیمانے پر بجلی چرائی جاتی ہے۔ اس خسارے کی وصولی بھی ان سے کی جاتی ہے جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں۔ سوا دو کروڑ سے زائد آبادی کے شہر کو سرکاری سطح پر جو طبی سہولتیں میسر ہیں وہ انتہائی ناکافی ہیں۔ میڈیکل مافیا نے علاج جیسے انتہائی بنیادی معاملے کو بھی نجی شعبے کے حوالے کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ لوگ چھوٹی موٹی بیماری کا علاج کرانے کے لیے بھی نجی اسپتالوں اور کلینکس کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔ علاج سے قبل ٹیسٹ کے نام پر بھی لوگوں کی جیب سے بہت کچھ نکلوا لیا جاتا ہے۔ جب علاج کی باری آتی ہے تب تک مریض کے متعلقین غیر معمولی اخراجات سے ادھ مُوئے ہوچکے ہوتے ہیں۔
تعلیمِ عامہ کے معاملات کو بھی بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔ پورے ملک کی طرح اہلِ کراچی کی اکثریت بھی بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہے۔ سرکاری اسکول اول تو ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہیں اور جو ہیں اُن کا معیار بھی بہت پست ہے۔ تدریس کی نگرانی کا معقول انتظام نہیں۔ عوام بھی سرکاری اسکولوں کا معیار بلند کرنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔
حد یہ ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر کے لیے اب تک ماس ٹرانزٹ کا معقول نظام نہیں لایا جاسکا۔ کبھی ٹرانسپورٹ مافیا آڑے آگئی اور کبھی سُرخ فیتے نے سب کچھ ہڑپ کرلیا۔ کراچی میں عام آدمی کے لیے روزانہ کام پر جانا اور واپس آنا ایک اذیت ناک مرحلہ بن چکا ہے۔ سوال دو چار افراد کا نہیں۔ شہر بھر میں کم و بیش پچاس لاکھ افراد یومیہ بنیاد پر سفر کرتے ہیں۔ جو معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے زیادہ دور تک نہیں جاتے اُنہیں بھی دیگر امور کی انجام دہی کے لیے گھر سے نکلنا ہی پڑتا ہے۔ لاکھوں افراد کے لیے شہر میں طویل فاصلے کا سفر اب شدید عذاب کا مترادف ہوکر رہ گیا ہے۔
۱۹۸۵ء کے بعد سے کراچی کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ایم کیو ایم رہی ہے۔ چار سال قبل کراچی پریس کلب کے باہر دھرنا دینے والوں سے خطاب کے دوران ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے جو کچھ کہا اُس نے پارٹی کے پورے ڈھانچے یا وجود کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ تب سے اب تک یہ تنظیم شدید گراوٹ کا شکار ہے۔ ان چار برسوں کے دوران بھی کراچی کا نظم و نسق ایم کیو ایم کے ہاتھ میں رہا۔ شہر کا میئر ایم کیو ایم ہی سے تھا۔ پھر بھی تنظیم کو نئی زندگی دینے، اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے عوام سے معافی مانگنے اور نئے عزم و لگن کے ساتھ کام کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ ان چار برسوں میں ایم کیو ایم نے بڑے یا بنیادی اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے کراچی کے معاملات درست کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے یا نبھانے سے یکسر گریز کیا ہے۔ شہر کے دعویدار بننے والے اِس کے لیے کچھ کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ یہ ہے المیہ۔ اور اب بھی امید ہے کہ ووٹ بینک برقرار رہے گا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی ہے جو کچھ نہ کرنے پر بھی ووٹ مانگتے ہوئے ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ لوگ اب بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ بار بار آزمانے کی روش ترک کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ ایک زمانے سے جن کے ہاتھوں شہر کا سب کچھ لُٹا ہے اُنہی کو دوبارہ سب کچھ سونپنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔
ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اِسے کیا کہیے
لوگ امیدیں وابستہ کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ صرف امیدیں کب تک؟ حقیقت پسندی تو کہیں بھی برائے نام دکھائی نہیں دے رہی۔ سب اپنی اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ رہے ہیں۔ سندھ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ اہلِ کراچی کے مسائل حل کرے گی، اُنہیں مصیبت کی گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑے گی۔ سوال یہ ہے کہ سندھ کے سیاست دان، جن کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے اور جو سندھ کے اصل باشندے ہیں، جب اپنے اپنے آبائی علاقوں کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوسکے تو کراچی کے لیے کچھ کرنے کے حوالے سے کیوں کر سنجیدہ ہوں گے؟
کراچی کو پوری دیانت، منصوبہ سازی اور محنت کے ذریعے نیا رنگ دینا لازم ہے۔ اِسے حقیقی بین الاقوامی یا عالمی انداز کا شہر بنانا کچھ مشکل نہیں۔ ساحلی شہر ہونے کے ناطے یہاں ایسے متعدد مقامات تیار کیے جاسکتے ہیں جن میں غیر ملکی سیاحوں کی غیر معمولی دلچسپی ہو۔ کراچی کا ساحل قدرتی طور پر اس قدر موزوں ہے کہ اِسے ترقی دینا کوئی بہت بڑا دردِ سر نہیں۔ اس معاملے میں دبئی کے تجربے سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔ کراچی میں اب بھی ایسے کئی علاقے ہیں جن پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ تھوڑی سی توجہ سے ان علاقوں کو پوری دنیا کے لیے انتہائی پرکشش بنایا جاسکتا ہے۔ ہاکس بے۔ پیراڈائز پوائنٹ اور چند دوسرے ساحلی علاقوں کو ترقی دے کر غیر ملکیوں کے لیے انتہائی پرکشش بنانا کچھ دشوار نہیں۔ یوں شہری سیاحت کو بھی تیزی سے فروغ دیا جاسکتا ہے۔
چند ایک علاقوں کو اچھی شکل دے کر یا چند نئے علاقے بین الاقوامی انداز سے بساکر باقی شہر کو بے یار و مددگار چھوڑ دینا، پست تر معیارِ زندگی کی بھٹی میں جھونک دینا کسی بھی اعتبار سے مسئلے کا حل نہیں۔ پورے شہر کو توازن کے ساتھ ترقی دینا لازم ہے۔ کراچی کے چند ہی علاقے اچھی حالت میں ہیں۔ ان علاقوں میں وہی لوگ رہائش اختیار کرسکتے ہیں جن کی مالی حیثیت انتہائی غیر معمولی ہو۔ ایسے دو چار علاقوں کے ہونے سے شہر کو حقیقی مفہوم میں ترقی یافتہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر پورے شہر کو توازن کے ساتھ ترقی دی جائے تو بیرونی سرمایہ کار بھی خوشی خوشی یہاں آئیں گے۔
لازم ہے کہ شہر میں رہنے والے اور بالخصوص غیر مقامی افراد اِسے صدقِ دل سے ’’اون‘‘ کریں، اپنا کہیں، اپنا سمجھیں اور اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کریں۔ کوئی یہاں آکر بسے ضرور مگر کمانے کے بعد بوریا بستر لپیٹ کر اُڑن چُھو ہونے کی ذہنیت کے ساتھ نہیں۔ یہاں سے جو کچھ کمایا جائے اُس کا ایک معقول حصہ اِس پر خرچ بھی تو کیا جائے۔ اس معاملے میں مقامی اور غیر مقامی آبادی کو مل کر پوری دیانت اور لگن کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ شہر کے لیے معقول رویہ اپناتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف کمانے کا نہ سوچا جائے بلکہ شہر کو اپ گریڈ کرنے پر بھی توجہ دی جائے۔
کراچی کسی کی جاگیر تھا نہ ہے۔ اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ یوں بھی کوئی خطۂ ارض اُسی کا ہوتا ہے جو اُس سے محبت کرتا ہے، اُسے اپناتا ہے، اُس کے لیے محنت کرتا ہے اور اُسے ترقی دینے کے بارے میں سوچتا ہے۔ کراچی کو حقیقی مفہوم میں ترقی سے ہم کنار کرنے، ہم آہنگی کا مسکن بنانے اور زیادہ سے زیادہ خوشحالی یقینی بنانے والا شہر بنانے کے لیے لازم ہے کہ مقامی و غیر مقامی کا ٹنٹا ختم کیا جائے، یہاں بسنے والوں کو یقین دلایا جائے کہ یہ شہر اول و آخر اُن کا ہے اِس لیے اِس سے محبت کریں اور اِس کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار رہیں۔
کراچی کو خصوصی نظم کے تحت دینے کی ضرورت ہے۔ لازم ہوچکا ہے کہ عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب اُنہیں دو وقت کی روٹی کے اہتمام کی فکر و کوشش سے بلند تر سطح پر پہنچنے کے قابل بنایا جائے۔ کراچی میں عام آدمی بنیادی مسائل کا حل چاہتا ہے۔ کوئی بھی نظم اِس منزل تک پہنچنا ممکن بنادے تو باقی کام لوگ خود کرلیں گے۔ وہ حکومت سے روزگار بھی نہیں مانگتے۔ لوگ معاشی تگ و دَو کے عادی ہیں۔ مسئلہ بنیادی مسائل کے حل کا ہے۔ اگر بنیادی مسائل حل ہوجائیں تو معاشی جدوجہد کے ذریعے وہ زندگی کا معیار بلند کرنے میں کامیاب ہو ہی جائیں گے۔
کم و بیش ہر معاملے میں شہر کو مافیاز نے جکڑ رکھا ہے۔ لازم ہے کہ مافیاز کے بچھائے ہوئے جال توڑے جائیں۔ شہر کی بدنصیبی یہ ہے کہ پینے کا پانی تک خریدنا پڑ رہا ہے۔ یہی حال دوسری بہت سی بنیادی چیزوں کا بھی ہے۔ جنریٹر اور یو پی ایس مافیا نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ بڑھواکر معاملات کو مزید خرابی سے دوچار کیا تاکہ لوگ جنریٹر اور یو پی ایس خریدنے پر مجبور ہوں۔ ڈیری مافیا دودھ کے دام اپنی مرضی کے مطابق بڑھاتی رہتی ہے۔ یہی حال گوشت، سبزی اور پھلوں کا بھی ہے۔ کراچی کو حقیقی معنوں میں ترقی سے ہم کنار کرنے کے لیے مافیاز کا طلسمات ختم کرنا ناگزیر ہے۔
اب آیے اس سوال کی طرف کہ کراچی کا قبلہ اور حلیہ درست کیسے ہوگا۔ کیا موجودہ اسٹیک ہولڈرز اس شہر کو نیا رنگ و روپ دینے میں کامیاب ہوسکیں گے؟ اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی میں حقیقی ترقی اُسی وقت ممکن ہے جب اسٹیک ہولڈر نئے ہوں اور اُنہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی ہو۔ اِتنے بڑے شہر کو ایک طرف بے لگام اور دوسری طرف بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ ہمیشہ نہیں چل سکتا۔ شہر کو حقیقی ترقی و استحکام سے ہم کنار کرنے کے لیے مزید کئی سو ارب روپے کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ وفاق کو اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔
ایک زمانے سے یہ بات دبی زبان میں کہی جارہی تھی کہ کراچی کے معاملات کو اگر درست کرسکتی ہے تو صرف ’’بیرونی‘‘ قوت ہی درست کرسکتی ہے۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ وفاق کو شہرِ قائد کے معاملات درست کرنے کے لیے مداخلت کرنی چاہیے۔ دو برس کے دوران یہ معاملہ بہت حد تک کھل کر سامنے آگیا۔ سندھ حکومت اور مقامی اداروں نے اپنا کردار پوری دیانت اور جاں فشانی سے ادا کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ معاملات الجھتے ہی چلے گئے۔ کم و بیش ڈیڑھ عشرے سے کیفیت یہ ہے کہ شہرِ قائد کے مکین اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے کسی نجات دہندہ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ہاتھ میں کراچی کے معاملات کم و بیش تین عشروں تک رہے ہیں، مگر اس نے خاطر خواہ حد تک سنجیدہ ہونے کی کوشش ہی نہیں کی۔ سارا زور مال بٹورنے پر تھا۔ کارکنوں کو نوازنے کے نام پر بلدیاتی اداروں کی اوور اسٹافنگ کردی گئی۔ اس کے نتیجے میں تمام ہی بلدیاتی اداروں کا مالی توازن بُری طرح بگڑ گیا۔ اور اس خرابی کا جو نتیجہ برآمد ہونا تھا وہ ہم ڈھائی تین سال سے دیکھ رہے ہیں۔ جب بھی بارشیں ہوتی ہیں، کراچی کا حلیہ بگڑ جاتا ہے۔ بارش کا پانی کئی دن کھڑا رہتا ہے۔ جب پانی اترتا ہے تو کیچڑ کئی دن جان نہیں چھوڑتا۔ شہر کو دوبارہ صاف ستھرا کرنے پر غیر معمولی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اب پھر بارشیں ہوئی ہیں اور ایک بار پھر شہر کا حلیہ ایسا خراب ہوا ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔
کراچی کو کسی ’’بیرونی‘‘ سیٹ اَپ کے تحت کرنے کی باتیں اب کھل کر کی جارہی ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ جو کچھ شہر کے نام نہاد اسٹیک ہولڈرز نے اب تک کیا ہے اُس کی بنیاد پر تو اُن سے کسی بھی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ایسے میں بہتر تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ کراچی کے بارے میں ملک کی اعلیٰ ترین سطح پر کچھ سوچا جائے اور جو کچھ سوچا جائے اُس پر عمل بھی کیا جائے۔ جن سے کچھ امید اور توقع تھی اُنہوں نے ہمیشہ وعدے اور دعوے کیے۔ جب ضرورت پڑی تب وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیے۔ لوگ اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہی رہ گئے۔ بہت کچھ ہے جو اس شہر کے لوگ خود ہی کرلیتے ہیں۔ ایسے میں سرکاری مشینری کی طرف سے برائے نام مدد کی توقع ہوتی ہے۔ وہ بھی پوری نہیں ہو پاتی۔ جنہیں ووٹ کے ذریعے منتخب کرکے شہر کو سنبھالنے اور چلانے کا مینڈیٹ دیا جاتا رہا ہے اُنہوں نے بھی کبھی نہیں سوچا کہ تھوڑی سی توجہ مرکوز کرنے سے بہت سے مسائل ایک طویل مدت کے لیے حل ہوسکتے ہیں۔
اہلِ کراچی نے حالیہ بارشوں کے نتیجے میں جو تباہی جھیلی ہے اُس کے نتیجے میں یہ سوچ پھر پروان چڑھی ہے کہ شہر کو اب کوئی اور ہی سنبھالے تو اچھا ہے۔ وفاق کی ممکنہ مداخلت سے کبھی دل خوف سا محسوس کیا کرتے تھے۔ اب خیال آتا ہے کہ شاید اِس سے کچھ بہتری ہی رونما ہو۔ یوں بھی جب معاملات جوں کے توں رہنے دیے جارہے ہیں تو وفاق کو مداخلت کے بارے میں سوچنا ہی پڑے گا۔ اور سوچا جارہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی چند دنوں میں کئی بار کہا کہ اب کراچی کے معاملات کو جوں کا توں نہیں چھوڑا جاسکتا، کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ ۲۸؍اگست کو انہوں نے ایک اجلاس میں کہا کہ کراچی کے معاملات کو یونہی نہیں چھوڑا جاسکتا۔ معاملات کی درستی کے لیے لازم ہے کہ کچھ کیا جائے، کوئی طویل المیعاد منصوبہ لایا جائے۔ طویل عرصے کے دوران پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ ہی لانا پڑے گا۔ پہلے قدم کے طور پر نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو شہر کے تین بڑے نالوں کی صفائی کا ٹاسک دیا گیا۔ نام نہاد اسٹیک ہولڈرز کو خوف زدہ اور مشتعل کرنے کے لیے بس اتنا ہی کافی تھا۔ اگلے ہی دن سندھ حکومت کا ردعمل سامنے آگیا۔ یہ بات وہ بھلا کس طور برداشت کرسکتی تھی کہ جو کام اُس سے نہ ہوا یا اُس نے نہیں کیا وہ کام کوئی وفاقی ادارہ کرے۔ این ڈی ایم اے کو وزیر اعظم کی طرف سے کراچی میں کسی ٹاسک کا سونپا جانا اس اعتبار سے بھی پریشان کن تھا کہ صوبائی سطح پر بھی ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی تو موجود ہے۔ جنہیں کچھ کرنا ہے اگر وہ نہیں کریں گے تو کوئی اور آکر کرے گا۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ جب کراچی میں موسلا دھار بارشیں ہو رہی تھی اور علاقوں پر علاقے ڈوبتے جارہے تھے تب بھی بلیم گیم تھما نہیں تھا۔ ایم کیو ایم کہہ رہی تھی کہ شہرِ قائد کو پیپلز پارٹی نے برباد کیا۔ پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کو فنڈ بھی دیے اور اختیارات بھی مگر اُس نے اپنے حصے کا کام نہیں کیا۔ دوسری طرف ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے کبھی اختیارات دیے نہ فنڈ۔ اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو ضرور کچھ نہ کچھ کام کیا جاتا۔ عوام کے لیے مخمصہ بڑھ گیا۔ کس کی مانیں، کس کی نہ مانیں؟ ڈھائی عشروں میں بھی یہ طے نہ ہو پایا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ اب دو چار دن میں کوئی کیا غور کرے اور کسی نتیجے تک پہنچے۔
کراچی کے متعدد معاملات کو وفاق کے حوالے کرنے کی باتیں خاصے نمایاں انداز سے کی جانے لگی ہیں۔ یہ فطری سی بات ہے۔ شہر جس حالت میں ہے اُس نے شہریوں کو روایتی اسٹیک ہولڈر سے اتنا مایوس کردیا ہے کہ اب اگر کوئی اور کچھ کرنا چاہے تو اہلِ شہر میں سے کسی کو بھی کچھ خاص اعتراض نہ ہوگا۔ وزیر اعظم عمران خان نے پیر ۳۱؍اگست کو ایک اور اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ایک طویل المیعاد پلان کے ذریعے کراچی کو نئی زندگی دی جائے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ پر کام ہو رہا ہے کیونکہ کراچی کے مسائل پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ شہر کی اپ گریڈیشن لازم ہے۔ کراچی ترقی کرے گا تو ملک ترقی کرے گا۔
اب وفاق نے کھل کر بہت کچھ کہنا شروع کردیا ہے۔ سندھ حکومت کہتی ہے کہ وفاق نے فنڈ روک رکھے ہیں۔ وفاق کہتا ہے کہ سندھ حکومت کو جو فنڈ دیے گئے وہ اُس نے ڈھنگ سے بروئے کار لانے پر توجہ نہیں دی۔ اس کے نتیجے میں فنڈ کی خورد برد ہوئی اور لوگوں کے بنیادی مسائل جوں کے توں رہ گئے۔ سندھ کی حالت ایک زمانے سے دگرگوں ہے۔ جو کچھ اہلِ سندھ کو بھگتنا پڑ رہا ہے اُسے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صوبائی حکومت پر کسی بھی حوالے سے زیادہ بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ وفاق کا موقف بہت حد تک درست ہے۔ دیگر صوبوں کے مقابلے میں سندھ کی حالت زیادہ خراب ہے۔ یہاں کرپشن کا معاملہ بہت ہی بگڑا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی سے ایک بڑی شکایت یہ ہے کہ وہ سندھ کے شہری علاقوں کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔ اور دوسری طرف دیہی سندھ کو کچھ خاص نہیں مل رہا۔ پیپلز پارٹی ایک زمانے سے سندھ کارڈ کھیل کر ووٹ بینک کو برقرار رکھتی آئی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا ہے کہ وفاق کے پاس فنڈ ہوتے تب بھی سندھ حکومت کو نہ دیے جاتے۔ بارہ برس میں سیکڑوں ارب روپے دیے گئے مگر کوئی بھی کام نہیں ہوا۔ تعلیم و صحتِ عامہ کا حال برا ہے۔ لوگوں کو یومیہ سفر کے لیے بہت تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے۔ صفائی کا معاملہ اب تک رُلا ہوا ہے۔ پانی کی فراہمی و نکاسی کا معاملہ اب تک درست نہیں کیا جاسکا۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ پُلوں اور فلائی اوور کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ جب بھی کوئی مشکل کھڑی ہوتی ہے، سیاسی انتقام کی بات کی جاتی ہے۔
اہلِ شہر اب زیادہ شرحِ صدر کے ساتھ وفاق کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ وفاق کے تحت کوئی سیٹ اپ لائے جانے کی صورت میں کراچی کو صاف ستھرا کرنے کے ساتھ ساتھ حقیقی بین الاقوامی یا عالمی انداز کا شہر بنانا بھی ممکن ہوسکے گا۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کراچی کو معمولی نوعیت کی منصوبہ سازی سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اگر شہر کو واقعی باقی ملک کے لیے زیادہ سودمند بننا ہے تو لازم ہے کہ جامع منصوبہ بندی کی جائے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ واقعی اور بنیادی زمینی حقیقتوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ کراچی کے حوالے سے کوئی بھی بڑی حقیقی تبدیلی اُسی وقت یقینی بنائی جاسکتی ہے جب عوام کے تمام مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔
کراچی کے مسائل گوناگوں ہیں۔ اِنہیں ڈھنگ سے حل کرنے کے لیے پس منظر کا جاننا لازم ہے۔ پس منظر سمجھے بغیر مسائل کے حل کی راہ نکالی نہیں جاسکتی۔ عمران خان اور اُن کے رفقا اگر واقعی کراچی کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں تو منصوبہ بندی پر غیر معمولی توجہ مرکوز کریں تاکہ مسائل کا دیرپا حل تلاش کیا جاسکے۔ سب سے بڑھ کر نیت کا اخلاص لازم ہے۔
کراچی کے حوالے سے تحرک نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ آرمی چیف نے یکم ستمبر کو کراچی کا دورہ کیا۔ انہوں نے بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے معاملات کا جائزہ لیا۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی کراچی کا دورہ کرکے حالات کا جائزہ لینا ہے۔ ان سطور کے ضبطِ تحریر میں لائے جانے تک دورہ نہیں ہوا تھا تاہم تیاریاں جاری تھیں۔
Leave a Reply