ایران کے ’’آزاد خیالوں‘‘ کی فتح

جب آزاد دنیا کے رہنما عرب شہزادوں کے ساتھ تلوار لہراتے رقصاں تھے اور قدیم فارسی دشمن کی مذمت کررہے تھے تو خلیج کے دوسری طرف ایرانی ووٹر بے فکر رقص کررہے تھے، مردوں اور عورتوں سے سڑکیں بھری ہوئی تھیں اور جشن رات بھر جاری رہا، یہ لوگ صدر حسن روحانی کے دوبارہ منتخب ہونے کا جشن منا رہے تھے، وہ ایران کے مغرب سے تعلقات بہتر بنانے کے وژن پر اور سخت گیروں کے مقابلے میں کامیابی پر خوش تھے۔

۱۹مئی کو حسن روحانی نے ۵۷ فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ مقابل ابراہیم رئیسی کو محض ۳۸ فیصد ووٹ ملے، اسی دن منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں قدامت پسندوں کو تہران کی تمام ۲۱ نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا، قدامت پسندوں کی شکست میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، آخری بار انہوں نے پارلیمانی انتخاب ۲۰۱۲ء میں جیتا تھا، جس کی وجہ اصلاح پسندوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر الیکشن کا بائیکاٹ کرنا تھا، اس بار قدامت پسندوں نے خاص طور پر سخت مہم چلائی کیو نکہ ان کو احساس تھا کہ یہ انتخاب صرف صدر کا نہیں ہورہا بلکہ یہ شاید اگلے سپریم لیڈر کا بھی انتخاب ہو، موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اس وقت ۷۷ برس کے ہیں اور یہ ان کا آخری صدارتی انتخاب ہوسکتا ہے، عام طور پر مجلس خبرگان ۸۸ مسلم علما میں ایک کو جانشین منتخب کرتی ہے اور آخری بار ۱۹۸۹ء میں اس نے ایسا ہی کیا تھا، خامنہ ای کے ایک معتمد کا کہنا ہے کہ یہ انتخاب صدر سے آگے کے لیے ہے، یہ ووٹ صرف چار سال کی صدارت کے لیے نہیں ہے، خامنہ ای نے اپنے جانشین کے طور پر رئیسی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتخاب ایران کے ۴۰ سالہ مستقبل کے بارے میں ہیں، اس شکست سے باہر آنا بہت مشکل ہو جائے گا، ماضی میں قدامت پسند ایک امیدوار کے پیچھے متحد ہوجاتے تھے، ان کی ریلیاں نوجوان ملیشیا باسیج سے بھری ہوتی تھیں، ان کے ہاتھوں میں حزب اللہ کے جھنڈے ہوتے تھے، حسن روحانی نے آزاد خیال ہونے کی وجہ سے ووٹ حاصل کیا، حسن روحانی نے مہم کے آخری دن مذہبی تعصب رکھنے والوں پر سخت تنقید کی، انہیں بھاری اکثریت کی ضرورت تھی، انہوں نے ووٹروں سے شہری آزادی کو فروغ دینے اور پاسداران انقلاب، عدلیہ، ریاستی میڈیا، طاقتور علما کے خیراتی اداروں سے حساب لینے کا کہا، حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ایرانی قدامت پسندوں کا کام صرف پھانسی دینا، جیل بھیجنا اور منہ بند کرا دینا ہے، یہ آزادی کے لیے شرمناک ہے، اس پیغام سے انہوں نے لوگوں کے دل جیت لیے۔

حسن روحانی نے ماضی کے تمام صدور سے زیادہ اور ۲۰۱۳ء کے مقابلے میں ۵ فیصد زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حسن روحانی اپنے وعدے پورے کر سکتے ہیں؟

انتخابی مہم کے دوران حراست میں لیے گئے اصلاح پسندوں کو حسن روحانی کی فتح کے ایک گھنٹے کے اندر رہا کر دیا گیا، ان کے مشیر نے پیش گوئی کی ہے کہ وہ اپنی پہلی خاتون وزیر کا تقرر کریں گے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ میں پہلی سنی ہو، اس کے ساتھ ساتھ مزید بنیادی تبدیلیاں کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ حسن روحانی کے معمولی فرق سے فتح پر خامنہ ای یقینی طور پر خوش ہوتے، لیکن اگر حسن روحانی صدارت سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو انہیں ریاستی اداروں کی حمایت کی ضرورت پڑے گی، تبدیلی کا پتہ کھیل کر انہوں نے مقبول مینڈنٹ کی تجدید کرائی ہے، حسن روحانی ایک چالاک سیاستدان ہیں، وہ روایتی علما کے وفادار نہیں بنیں گے، مشیروں نے پہلے ہی ان کا تعارف پیش کر دیا ہے، ایران عراق جنگ کے دوران فوج کے ڈپٹی کمانڈر، ۱۶ برس تک نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری اور اب صدر ہیں، ان کی صدارت چار برسوں کے لیے ہے، انتخابات کے بعد اپنے ابتدائی بیانات میں انہوں نے ایران پر مزید میزائلوں کے تجربات کرنے پر زور دیا، شاید سخت گیروں کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ بہترین امید ہے اور ایک حقیقی دشمن سے انہیں کوئی فائدہ نہیں، انہیں یاد ہے کہ ایک اصلاح پسند صدر محمد خاتمی کے برسر اقتدار آنے کے چھ مہینے بعد امریکی صدر بش کی جانب سے ایران کو ’’بدی کا محور‘‘ قرار دے دیا گیا تھا، جس نے تصادم کو ہوا دی اور اس کے نتیجے میں ۲۰۰۵ء کے انتخابات میں ایک سخت گیر احمدی نژاد منتخب ہوگئے، ٹرمپ نے سعودی عرب اور اسرائیل کا دورہ کرکے فوجی سازوسامان دینے اور علاقائی حریف ایران کے ساتھ محاذ آرائی کا وعدہ کیا، عالمی سرمایہ کاری پر امریکی پابندیوں، مغربی کلچر اور معیشت کے بڑھتے ہوئے اثرات نے سخت گیروں کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ معیشت تباہ ہوسکتی ہے، جنگیں عظیم شیطان کو دوبارہ زندہ کرسکتی ہیں اور ان چار سالوں کی وجہ سے وہ طاقت دوبارہ حاصل کرلیں گے۔

(ترجمہ: سید طالوت اختر)

“The triumph of Iran’s liberals”.(“The Economist”. May 25, 2017)

Leave a Reply to Ishaq Cancel reply

Your email address will not be published.


*