ترک چین ’’گٹھ جوڑ‘‘
Posted on September 1, 2018 by James M. Dorsey in شمارہ یکم ستمبر 2018 // 0 Comments

امریکا نے سیاسی محرکات سے معمور جو تجارتی جنگ چھیڑی ہے اُس میں ترکی کو مکمل شکست سے بچانے میں قطر اور چین کی طرف سے دستِ تعاون کا دراز کیا جانا ایک خاص حد تک ہی کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ ترکی میں اس وقت صدر رجب طیب ایردوان کی جانب سے پیش کی جانے والی شرحِ سود کی تھیوریز کے ہاتھوں بنیادی ڈھانچے میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو شدید کمی کا سامنا ہے۔ ترکی میں ابھرنے والے حالیہ معاشی اور مالیاتی بحران سے ترکی اور چین جیسے ممالک کے ترقیاتی ماڈل پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے کیونکہ یہ ماڈل ملک کو فردِ واحد کی حکومت کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک بات تو بہت واضح ہے … یہ کہ ترقی کا یہ ماڈل بہت بڑے پیمانے پر قرضوں کے حصول کی ترغیب دیتا ہے۔
ترکی اور چین میں قرضوں کے ذریعے معیشت کو فروغ دینے کا رجحان عام ہوا تو چند ایک مثبت تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔ معیشت میں جان پڑی اور عوام کا معیارِ زندگی بہت حد تک بلند ہوا۔ بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کو افلاس کے جال سے نکلنے کا موقع ملا۔ بہر کیف، چین اور ترکی دونوں ہی کے معاملے میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ بین الاقوامی بازارِ زر میں رونما ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ سے یہ دونوں معیشتیں محفوظ رہنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ بین الاقوامی بازارِ زر میں جو غیر یقینی صورتِ حال رونما ہوتی ہے اُس کا اثر دونوں بڑی معیشتوں پر غیر معمولی حد تک مرتب ہوتا ہے۔ بہت حد تک یہی معاملہ پاکستان اور اُس جیسے اُن تمام ممالک کا بھی ہے، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ ان تمام ممالک کو چین کی طرف سے کی جانے والی فنڈنگ میں غیر معمولی کشش دکھائی دی ہے اور اِنہوں نے زیادہ سے زیادہ فنڈنگ یقینی بنانے کے لیے دو چار قدم آگے جانے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔
چین نے قرضوں کا جال بچھایا ہے۔ سری لنکا اور افریقی ملک جبوتی کا کیس بہت واضح ہے۔ دونوں ممالک کو اپنے بنیادی ڈھانچے کا کنٹرول چینیوں کے ہاتھ میں دینا پڑا ہے۔ لاؤس اور ایسے ہی چند دیگر ممالک کو اب چین پر منحصر ہوکر جینا پڑ رہا ہے کیونکہ ان پر قرضوں کے بوجھ کا بڑا حصہ چین کا ہے۔ قرضوں کی بنیاد پر ترقی کا ماڈل جو منفی نتائج پیدا کرسکتا ہے اُن سے بخوبی نپٹنے کے لیے چین کا تیار رہنا اس امر کا غماز ہے کہ وہ خود بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ ترقی کا یہ ماڈل درست نہیں۔
اگر چین کا درآمدات پر انحصار نہ ہو، غیر معمولی تجارتی خسارے کا حامل نہ ہو اور ڈالر کی شکل میں زیادہ قرضے نہ لینے پڑیں تب بھی ترقی کا یہ ماڈل چین کے حق میں نہیں جاتا۔ یہ ماڈل مختلف حوالوں سے چین کے لیے بھی دو دھاری تلوار کے مانند ہے۔ مارگن اسٹینلے کے چیف اسٹریٹجسٹ اور ایمرجنگ مارکیٹس ایکویٹی کے سربراہ رچیر شرما کہتے ہیں کہ چین میں ایک عشرے کے دوران جاری کیے جانے والے اندرونی قرضوں کا بین الاقوامی قرضوں میں تبدیل ہو جانا ایک فطری دباؤ پیدا کر رہا ہے۔ چینی حکومت اور تجارتی بینکوں کے جاری کردہ ان قرضوں کو بیرون ملک بلند تر شرحِ سود سے فائدہ اٹھانے کے لیے بروئے کار لایا جاتا رہا ہے۔ چینی سرمایہ کار امریکا میں بلند شرح سود حاصل کرسکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ چین سے سرمائے کی منتقلی جاری ہے۔ امریکا میں شرح سود مزید بلند ہونے کا امکان ہے۔ ایسے میں چین سے سرمائے کی منتقلی اُس کی معیشت کے لیے خطرناک صورتِ حال پیدا کرسکتی ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ امریکا نے چند غداروں کے ساتھ مل کر ترکی کے خلاف معاشی جنگ چھیڑی ہے، جس میں ڈالر کو گولی، گولے اور میزائل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ایردوان کا استدلال ہے کہ ایک مدت سے چند لابیز ترکی میں شرحِ سود بلند رکھ کر معاملات کو خراب کر رہی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پائیدار ترقی کے لیے شرحِ سود کم رکھی جائے تاکہ قیمتیں قابو میں رہیں۔ ایردوان کا کہنا ہے کہ بلند شرحِ سود کے ساتھ کام کرنا مغربی طرزِ معیشت ہے، جس کے نتیجے میں خرابیاں بڑھی ہیں۔ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے عشروں میں لاطینی امریکا میں بھی پائیدار ترقی کے لیے قیمتوں کو قابو میں رکھنے اور شرحِ سود کم رکھنے کا ماڈل اپنایا گیا تھا۔ یہ ماڈل ایک خاص حد تک کامیاب بھی رہا تھا مگر مسئلہ یہ ہے کہ عالمی معیشت کا سانچا اور ڈھانچا کچھ اور ہے، جس سے مطابقت نہ رکھنے کے باعث یہ ماڈل زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ لاطینی امریکا کے چند ممالک نے اندرونی معاشی استحکام تو حاصل کرلیا مگر عالمی منڈی میں کچھ کر دکھانے کی پوزیشن میں نہ رہے۔
ترقی و تعمیر نو کے یورپی بینک (ای بی آر ڈی) نے گزشتہ برس کے اواخر میں خبردار کیا تھا کہ ترکی کے کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اور بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے زرِمبادلہ کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے اور خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے ۲۵ فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اس کے نتیجے میں معاملات بہت بگڑیں گے۔
دو بڑی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی نظر میں ترک معیشت شدید مشکلات سے دوچار ہے، جس کے نتیجے میں وہ باہر سے زیادہ قرضے بھی نہ لے سکے گی اور قرضوں کا گراف نیچے لانے میں بھی فوری طور پر کامیاب نہ ہوسکے گی۔ ایسے میں ترک حکومت کے پاس عوام سے اضافی ٹیکس کی وصولی کے سوا آپشن نہ بچے گا۔ اور اگر ایسا ہوا تو ترک معیشت کساد بازاری کے دور میں داخل ہوجائے گی۔ رچیر شرما کا دعویٰ ہے کہ ترک معیشت کا بحران اندرونی نوعیت کا ہے، جسے امریکا سے معاشی جنگ کا نام دینا درست نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مالیاتی منڈی میں ڈالر کے ہاتھوں کئی معیشتیں خرابی سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔
قرضوں کی بنیاد پر ترقی کا ماڈل کتنا کمزور ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دو ٹوئیٹس نے ترک معیشت کو ہلاکر رکھ دیا۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو کے ذریعے ترقی کا خواب دیکھنے والے ممالک کو ترکی کی صورتِ حال سے سبق سیکھنا چاہیے۔ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے اب تک بارہ مرتبہ رجوع کرچکا ہے۔ ترکی نے اٹھارہ مرتبہ مدد لی ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت بہت جلد بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ کرسکتی ہے۔
(جیمز ایم ڈورزے سنگاپور کے راجا رتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینئر فیلو اور یونیورسٹی آف ووزر برگ کے انسٹی ٹیوٹ آف فین کلچر کے شریک ڈائریکٹر ہیں)۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Turkey-China debt nexus” (“The Globalist”. August 21, 2018 )
Leave a comment