کشور محبوبانی کی شخصیت مشرق اور مغرب کا حسین سنگم ہے۔ وہ مشرق کے ہیں مگر مغرب کو بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ چین سے وابستہ تصورات اور الجھنوں کے بارے میں اُن کے تجزیے مغرب کے اُن مبصرین اور ماہرین کے تجزیوں سے بہت بہتر ہوتے ہیں جو تنگ نظر ہیں اور اُتھلے پانیوں کی سی سوچ رکھتے ہیں۔
امریکا نے چین کو کسی نہ کسی حوالے سے مطعون کرنے کی مہم تیز کردی ہے۔ دنیا بھر میں یہ تاثر پھیلایا جارہا ہے کہ آج جتنی بھی خرابیاں پائی جاتی ہیں اُن میں سے بیشتر کے لیے چین ذمہ دار ہے۔ امریکی حکومت، ڈیپ اسٹیٹ اور ایسٹ کوسٹ اسٹیبلشمنٹ نے چین کے خلاف کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔ معاملہ کورونا وائرس کا ہو یا ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا، امریکی پروپیگنڈا مشینری چین کو موردِ الزام ٹھہرانے میں دیر نہیں لگاتی۔
کشور محبوبانی نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے ایشیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے فیلو ہیں۔ وہ ۲۰۰۱ء اور ۲۰۰۲ء میں سلامتی کونسل کے صدر بھی رہے۔ لی کوان ییو اسکول آف پبلک پالیسی کے بانی سربراہ (۲۰۰۴ء تا ۲۰۱۷ء) بھی رہے۔ کشور محبوبانی کو ایشیا کا صفِ اول کا ڈپلومیٹ کہا جاسکتا ہے۔
کشور محبوبانی کو بے پَر کی اڑانے کا شوق نہیں۔ پورے تحمل کے ساتھ غور و فکر کے بعد وہ خاصے پُرسکون انداز سے امریکیوں پر واضح کرتے ہیں کہ چین کے بارے میں اُن کے بیشتر تصورات بے بنیاد ہیں۔ کشور محبوبانی نے اپنی تازہ کتاب ’’کیا چین جیت چکا ہے؟‘‘ میں اس نکتے پر بحث کی ہے کہ چین اب تک اپنے عظیم مفکر تاؤ کے بیان کردہ اصولوں پر کار فرما ہے۔ تاؤ نے کہا تھا کہ پانی جیسے ہو جاؤ یعنی اپنے آپ کو بہنے دو۔ کشور محبوبانی کہتے ہیں کہ جیو پالیٹکس کی سطح پر چین اور امریکا کے درمیان جو کشمکش پائی جاتی ہے وہ ناگزیر بھی ہے اور اُس سے بچا بھی جاسکتا ہے۔ بچا بھی جاسکتا ہے؟ بات بہت عجیب ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے مواقع پر صرف تصادم ہوتا آیا ہے۔
یہ حقیقت کسی بھی طور نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ امریکی قیادت حالات کے پیدا کردہ فکری زندان میں بند ہوکر رہ گئی ہے۔ اُس نے چند مفروضے پروان چڑھائے ہیں اور اُن مفروضوں کی بنیاد ہی پر کام کر رہی ہے۔ وسیع تر تناظر میں سوچنے کے بجائے امریکی پالیسی ساز بہت قریب کا فائدہ دیکھنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ چین سے متعلق امور پر بحث کے دوران کشور محبوبانی اور ہارورڈ یونیورسٹی کے گراہم ایلیسن کے خیالات میں غیر معمولی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
ایک بنیادی سوال مشرق اور مغرب کے ملاپ کا ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ ثقافتی اور تہذیبی سطح پر ایک دوسرے کو قبول کرنے سے آج بھی گریز ہی کیا جارہا ہے۔ مغرب صرف بالادستی چاہتا ہے۔ جدید ترین فطری علوم و فنون میں عدیم المثال پیش رفت کو بنیاد بناکر وہ باقی دنیا کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ مشرق جدیدیت کے معاملے میں چونکہ پیچھے ہے اِس لیے مغرب نے یہ تصور کرلیا ہے کہ اُسے اپنایا ہی نہیں جاسکتا۔ کشور محبوبانی کا تعلق ہندو گھرانے سے ہے مگر اُنہوں نے سنگاپور میں پرورش اور تربیت پائی۔ ان کی والدہ انہیں ہندو مندر کے ساتھ ساتھ بدھ مندر میں بھی لے جاتی تھیں۔ سنگاپور میں بدھ مت سے تعلق رکھنے والے بیشتر چینی تھے۔ چینیوں سے کشور محبوبانی کا عمر بھر کا تعلق رہا ہے۔ وہ لی کوان لیو کے شاگرد رہے ہیں مگر کسی بھی اعتبار سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے نظریات سے پوری طرح متفق رہے ہیں۔
چین اور روس کے کمیونزم میں بہت فرق ہے۔ روس میں سارا زور نظریے پر تھا۔ چین نے اپنے خطے اور تہذیب کو نظر انداز نہیں کیا۔ چینی قیادت ’’اشتراکی‘‘ ہونے سے زیادہ ’’چینی‘‘ ہونے پر یقین رکھتی ہے۔ چینی قیادت آج بھی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ دنیا کو چینی تہذیب سے روشناس کرایا جائے، چینی اخلاقی اقدار کے درشن کرائے جائیں۔
کشور محبوبانی نے اپنی تازہ ترین کتاب میں امریکا اور چین کی جیو پالیٹیکل پوزیشن کی تشریح کرتے ہوئے دونوں کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے اُنہیں بھی واضح کیا ہے۔ اُنہوں نے امریکیوں کو یاد دلایا ہے کہ جو نظام انہوں نے سات عشروں پہلے وضع کیا تھا اُس پر اب دنیا بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ امریکا کی طاقت سے خوفزدہ ہونے والے تو بہت ہیں مگر اُس سے خیر کی توقع رکھنے والوں کی تعداد برائے نام رہ گئی ہے۔ اس وقت امریکا اگر کچھ کر پارہا ہے تو محض اس لیے کہ عالمی مالیاتی نظام اُس کے ہاتھ میں ہے اور یہ نظام ڈالر کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ عالمی تجارت چونکہ ڈالر میں ہو رہی ہے، اس لیے امریکا صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں عمومی مالیاتی رجحان یہ ہے کہ کسی بھی معاشی جھٹکے کو برداشت کرنے کے لیے ڈالر کا سہارا لیا جائے۔ زر مبادلہ کے ذخائر ڈالر کی شکل میں رکھے جارہے ہیں۔ ڈالر پر یہ غیر معمولی انحصار مزید خرابیاں پیدا کر رہا ہے۔ ڈالر پر غیر معمولی انحصار ختم کرنے کے حوالے سے اب آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ ڈالر کو ریزرو کرنسی کے طور پر استعمال کرنے کی ذہنیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ چین نے بلاک چین ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسی کرنسی متعارف کرانے کی کوششیں تیز کردی ہیں جو امریکی ڈالر کے متبادل کے طور پر کام کرے۔ کشور محبوبانی اپنی کتاب کے ذریعے ہمیں گزشتہ اگست میں منعقدہ چائنا فائنانس ۴۰ فورم میں لے جاتے ہیں جہاں پیپلز بینک آف چائنا کے ڈپٹی ڈائریکٹر مُو چینگ چُن نے کہا کہ اب چین اپنی کرپٹو کرنسی متعارف کرانے کے بہت نزدیک ہے۔
دو ماہ بعد چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ ’بلاک چین ٹیکنالوجی‘ اب چین کے لیے اسٹریٹجک معاملہ ہے۔ یہ انتہائی ترجیحی معاملہ ہے اور اب قومی معاملے کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ خود مختار بلاک چین کے طور پر ڈجیٹل یوآن اب کسی بھی لمحے کی بات ہے۔ کشور محبوبانی کہتے ہیں کہ چین کی متعارف کرائی ہوئی کرپٹو کرنسی کو قبول کرلیے جانے کی صورت میں وہ مالیاتی نظام مرحلہ وار زوال پذیر ہوسکتا ہے، جو امریکی ڈالر کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ چین کا منصوبہ یہ ہے کہ اپنے ڈجیٹل پلیٹ فارمز Alipay، WeChat Pay وغیرہ کو بتدریج عالمی مالیاتی نظام کا حصہ بنائے۔
ایشیائی صدی
کشور محبوبانی کا استدلال ہے کہ چینی قیادت اپنی ہزاروں سال کی تہذیب پر فخر کرتی ہے اور اُسے آگے بڑھانے میں دلچسپی لیتی ہے تاہم یہ کہنا کسی بھی طور درست نہ ہوگا کہ چین پوری دنیا پر چھا جانے کا متمنی ہے اور سب کو چینی بنانے کا خواہش مند ہے۔ اس کے باوجود امریکا نے یہ مفروضہ قائم کرلیا ہے کہ چین اُس کے وجود کے لیے ایک بڑا، نمایاں خطرہ ہے۔
امریکا حالات کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ تاریخ کے ایک دور کے آغاز پر امریکا اسٹریٹجک سطح پر معیاری ایڈجسٹمنٹ کی اہلیت نہیں رکھتا۔ ایشیا کے بہترین ذہن امریکا کی اِس نا اہلی پر حیرت کا اظہار کرتے نہیں تھکتے۔ کشور محبوبانی نے اپنی کتاب میں ایک پورا باب (کیا امریکا یو ٹرن لے سکتا ہے؟) اِسی موضوع پر لکھا ہے۔
میکنزے کی ایک حالیہ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ ’’اگلا نارمل‘‘ ایشیا سے ہوگا یعنی ایشیا کی کوئی قوت عالمی امور پر غیر معمولی حد تک چھا جائے گی۔ ۲۰۴۰ء تک عالمی معیشت میں ۴۰ فیصد صَرف ایشیا کے ہاتھوں ہوگا اور عالمی خام پیداوار میں ایشیا کا حصہ ۵۲ فیصد تک ہوگا۔ میکنزے رپورٹ کی روشنی میں یہ بات سوچی جاسکتی ہے کہ جس ایشیائی صدی کی بات عشروں سے کی جارہی ہے وہ اب (کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ ۱۹۹۷ء میں جب میں ہانگ کانگ کی چین کو منتقلی کی کوریج میں مصروف تھا تب برازیل میں میری کتاب ’’ایشیائی صدی‘‘ شائع ہوئی تھی۔ تب تک مجھے ایشیا میں رہتے ہوئے تین سال ہوچکے تھے اور میں نے کشور محبوبانی کے سنگاپور سے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ جسے ہم ایشیائی صدی کہتے ہیں وہ دراصل یوریشیائی صدی ہے اور شروع ہوچکی ہے۔ ایشیا اور یورپ کو ایک لڑی میں پرونے کا عمل بھرپور انداز سے شروع ہوچکا ہے۔ روس اور چین کی اسٹریٹجک پارٹنرشپ نے معاملات کو مزید یکجا کردیا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The unbearable lightness of China”. (“atimes.com” April 27, 2020)
Leave a Reply