مصر میں اسلام پسندوں کی فتح

مصر میں انتخابی مراحل شروع ہوچکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے اندازوں سے زیادہ اسلام پسند امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ بات یقینی ہے کہ حتمی انتخابی نتائج کے سامنے آنے پر اسلام پسند عناصر ملک کی سب سے نمایاں اور منظم سیاسی قوت بن کر ابھریں گے۔ دارالحکومت قاہرہ، اسکندریہ اور پورٹ سعید میں جو رجحانات سامنے آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اخوان المسلمون مصر کی پارلیمنٹ میں تیس سے چالیس فیصد تک نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ سخت تر مؤقف کے حامی سلفی عناصر بھی انتخابات میں حیرت انگیز طور پر زیادہ کامیاب رہے ہیں۔ اب تک انہیں ۲۰ فیصد تک کامیابی ملنے کے آثار ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مصر کی پارلیمنٹ میں اسلامی عناصر واضح اور فیصلہ کن اکثریت کے حامل ٹھہریں گے۔ مصر میں حقیقی سیاسی تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔

اگر کسی ملک میں ساٹھ سال تک دھوکا دہی پر مبنی انتخابات ہوتے رہے ہوں اور پھر حقیقی شفاف انتخابات منعقد کیے جائیں تو چند ایک حیرت انگیز باتیں تو ہوں گی ہی۔ ۴۹۸ نشستوں میں سے ایک تہائی کے لیے پولنگ ۲۸ نومبر کو شروع ہوئی۔ انتظامی امور میں کہیں کہیں چند ایک کوتاہیاں سرزد ضرور ہوئیں تاہم مجموعی طور پر ایسی کوئی بات نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو حقیقی شکایت ہو۔ حتمی نتائج جنوری کے وسط سے پہلے متوقع نہیں۔ اس کے بعد بھی پارلیمنٹ کے ایوان بالا شورٰی کونسل کے انتخابات باقی رہیں گے۔ دیہی علاقوں میں اب تک پولنگ نہیں ہوئی اور اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ اسلامی عناصر ان علاقوں میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے۔

مصر عرب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا اور سب سے زیادہ با اثر ملک ہے۔ اس ملک میں سیاسی ڈھانچے کا مکمل طور پر تبدیل ہونا جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ مصر طویل مدت سے مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا کا اتحادی ہے۔ اب مصر میں اندرونی سطح پر نمایاں تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ چھ عشروں سے فوج کے زیر اثر حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی رہی ہیں اور ہر حکمران فوج کے ماتحت رہ کر کام کرتا آیا ہے۔ تبدیلی کی ہوا چلی ہے۔ مصر کے متوسط طبقے میں سیکولر ازم زیادہ نمایاں نظریے کے طور پر کار فرما رہا ہے۔ اسلامی عناصر کی حالیہ انتخابی فتح اس امر کی غماز ہے کہ اب سیکولر ازم کے لیے حقیقی چیلنج ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ سیکولر ازم نے خود کو اسٹریٹ پاور کے طور پر بھی اپنایا ہے۔ اب اسٹریٹ پاور اسلامی عناصر کے ہاتھ میں ہے۔ اسلامی عناصر رجعت پسندوں کے لیے بھی خاصے بڑے چیلنج کا درجہ رکھتے ہیں جن کا تعلق سابق حکومت سے ہے اور جن کے مفادات کی نگرانی فوج کر رہی ہے۔ اِس وقت بھی حکمرانی جرنیلوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے فروری میں حسنی مبارک سے چارج لیا تھا۔

ووٹوں کی گنتی کے دوران اخوان اور فوج کے نمائندوں میں سے کسی نے بھی متصادم بیانات جاری نہیں کیے۔ ۲۴ رکنی حکمراں فوجی کونسل کے رکن جنرل محمود شاہین نے ایک بیان میں کہا کہ آئندہ سال کے وسط میں صدارتی انتخابات کے منعقد کیے جانے تک فوج کسی بھی حکومت کو قائم یا برقرار رکھنے کا حق محفوظ رکھے گی۔ اخوان المسلمون کے سیاسی بازو فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے سربراہ محمد مرسی نے کہا کہ جسے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہو اسے حکومت تشکیل دینا چاہیے۔

مصر میں حال ہی میں دوبارہ ہنگامے شروع ہوئے ہیں۔ تحریر اسکوائر میں دوبارہ جمع ہونے والے مظاہرین کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ فوج کی تشکیل دی گئی کابینہ مستعفی ہو اور فوج اقتدار فی الفور سویلینز کے حوالے کرے۔ سابق معزول صدر حسنی مبارک کے قابل اعتماد اوربااختیار ساتھی نئے عبوری وزیراعظم کمال گنزوری کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے غیر معمولی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان سے بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ کسی انقلابی کے حق میں مستعفی ہو جائیں۔ فوج کو سیکولر عناصر کی جانب سے اقتدار چھوڑنے کے مطالبے کا سامنا ہے۔ اسلامی عناصر کی شاندار انتخابی کامیابی سے فوج پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔

انقلابی لہر کے آنے کے بعد سے اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے افراد سیکولر عناصر اور سلفی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو باور کراتے رہے ہیں کہ سیاست میں اب انہیں مرکزیت حاصل ہے اور وہ فیصلہ سازی کے عمل میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اب تک سیکولر عناصر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ملک کی سلامتی میں ان کا کردار سب سے اہم ہے۔ ساتھ ہی سلفی مکتب فکر کے لوگ بھی ملک کے لیے خود کو نہایت اہم گردانتے رہے ہیں۔ جس تحریک نے ۸۰ برسوں کے دوران خود کو اسلامی دنیا میں منوایا ہے اور جس کے منبع سے بہت سی تحاریک کے دھارے بہے ہیں اگر وہ حتمی انتخابی نتائج میں ۴۰ فیصد یا اس سے زائد نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے سیکولر یا پھر سلفی عناصر سے اتحاد کرنا پڑے گا۔

یہ صورت حال مصر کے سیکولر عناصر کے لیے خاصی پریشان کن ثابت ہو رہی ہے۔ مصر کی ساڑھے آٹھ کروڑ (۸۵ ملین) آبادی میں قبطی عیسائیوں کی تعداد ۱۰؍فیصد ہے۔ انہیں سلفیوں سے شدید خوف محسوس ہوتا ہے۔ بہت سے علاقوں میں سیکولر عناصر نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ ناتجربہ کار بائیں بازو کی جماعتوں کے لیے امکانات بالکل ختم نہیں ہوئے۔ اگر وہ اتحاد تشکیل دے کر کام کریں تو خاصی حوصلہ افزا کامیابی حاصل کرسکتی ہیں۔ مصر کے انتخابی قوانین بہت بڑی یا بہت چھوٹی جماعتوں کے مقابلے میں درمیانے حجم کی جماعتوں کے لیے زیادہ کارگر ثابت ہوتے ہیں۔

اسلامی عناصر کی فتح نے مصر میں لوگوں کو سوچنے اور خوفزدہ ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بہت سے معاملات میں ہنسی کا سامان بھی کیا ہے۔ کسی مصری نے ٹوئٹر پر لکھا ہے۔ ’’اے اہل مغرب! اسلامیوں کی فتح سے زیادہ خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ کی طرف سے خوفزدہ ہونے کا فریضہ بہت سے مصری بخوبی انجام دے رہے ہیں!‘‘

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۳ دسمبر ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*