بھارت میں سرکاری اسکولوں کی حالتِ زار

کمرہ جماعت میں ۸۰ کے قریب بچے موجود تھے۔ انھوں نے ہم آواز ہو کر ہمیں انگریزی میں صبح بخیر کہا اور پھر اپنی توجہ دوبارہ اپنے ریاضی کے استاد کی طرف مرکوز کردی۔ نیلے اور سفید لباس میں یہ بچے ترتیب سے اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ بھارتی ریاست اتر پردیش کے ایک نجی اسکول ’’وائے ڈی وی پی انٹرکالج‘‘ کی نویں جماعت کا منظر تھا۔ اسکول کا احاطہ کھیتوں سے گھرا ہوا تھا۔ اس اسکول کی فیس ۱۷۰ سے ۲۵۰ بھارتی روپے ہے جو کہ کسانوں اور مزدوروں پر مشتمل مقامی آبادی کے لحاظ سے کچھ زیادہ ہے۔لیکن اس کے باوجود یہ اسکول بھرا ہوا ہے اور یہاں ۱۰۰۰ طالب علم موجود ہیں۔اسکول کے ۱۱ ؍اساتذہ کو ان کی عمراور تجربے کے لحاظ سے ماہانہ ۲ ہزار سے ۵ ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔

کچھ ہی میل دور ایک سرکاری اپر پرائمری اسکول موجود ہے۔اس اسکول میں ۶۳ بچے داخل ہیں۔جس روز ہم نے اسکول کا دورہ کیا اس دن ۵۰ بچے حاضر تھے۔میلے لباس میں یہ بچے کمرہ جماعت کے فرش پر بیٹھے اپنی کتابوں کو تک رہے تھے۔ انھیں کوئی نہیں پڑھارہا تھا۔اسکول میں موجود ۲؍ اساتذہ صحن میں بیٹھے تھے۔انھیں ۵۰ہزار اور ۴۰ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔جب کہ اتر پردیش میں اوسطاً ماہانہ آمدنی ۴۶۰۰ روپے ہے۔اساتذہ کا کہنا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں داخلے کم ہو رہے ہیں۔وہ اس کا ذمہ دار گاؤں کی پنچائیت کے سربراہ کو ٹھہراتے ہیں جنھوں نے قریب ہی اپنا نجی اسکول کھول لیا ہے(یہ وائے ڈی وی پی اسکول نہیں) اور لوگ ان سے اپنے مراسم بڑھانے کے لیے اپنے بچوں کا داخلہ ان کے اسکول میں کروارہے ہیں۔تاہم گاؤں کے ایک مزدور بھارت لعل کا خیال کچھ اور ہے۔اس کے بچے وائے ڈی وی پی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ’’میرے بچے سرکاری اسکول میں نہیں جاتے، وہ کہتے ہیں کہ وہاں پڑھائی نہیں ہوتی۔اسی وجہ سے مجھے نجی اسکول کا خرچ برداشت کرنا پڑ رہا ہے‘‘۔

بھارت میں ایک عرصے سے بڑے اور مہنگے نجی اسکول موجود ہیں۔لیکن گزشتہ دہائی میں چھوٹے اور سستے نجی اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۱ء کے درمیان ان نجی اسکولوں میں ۴ کروڑ ۴۰ لاکھ طلبہ داخل تھے۔ ۲۰۱۶ء سے ۲۰۱۷ء کے درمیان یہ تعداد بڑھ کر ۶ کروڑ ۱۰ لاکھ ہو چکی تھی۔ اس کے بر عکس سرکاری اسکولوں کے داخلے ۱۲ کروڑ ۶۰ لاکھ سے کم ہو کر ۱۰ کروڑ ۸۰ لاکھ ہوگئے۔یونیورسٹی کالج لندن کی پروفیسر گیتا کنگڈن،جو لکھنٔومیں ایک نجی اسکول بھی چلاتی ہیں، کا کہنا ہے کہ نجی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے، کیوں کہ اکثر اسکول حکومت سے رجسٹرڈ نہیں ہیں۔

اس تبدیلی کی دو وجوہات ہیں۔پہلی وجہ تو نظامِ تعلیم کی ناکامی ہے۔بھارت میں اسکولوں کا معیار کس حد تک گر چکا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی دو ریاستوں نے اسکولوں میں تحصیل علم کے عالمی مقابلے میں شرکت کی۔ مقابلے میں دنیا کی کل ۷۴ ریاستیں اور شہر شامل تھے، جن میں سے بھارتی ریاستوں کا نمبر ۷۲ اور ۷۴ رہا۔

دوسری وجہ انگریزی ذریعۂ تعلیم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے، جس کی وجہ معاشرے میں انگریزی زبان کی اہمیت اور عالمی سطح پر اس کی قبولیت ہے۔ نجی اسکولوں کی اکثریت انگریزی میں تعلیم دینے کا دعویٰ کرتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں داخلوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد بھارتی ریاستوں کے وزراء اعلیٰ کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ ریاست اترپردیش کے ڈائریکٹر آف ایجوکیشن ’’سرویندر وِکرم سنگھ‘‘ کا کہنا تھا کہ ’’جب میں نے یہ منصب سنبھالا تو میرا ہدف سرکاری اسکولوں کے کم ہوتے ہوئے داخلوں پر قابو پانا تھا‘‘۔

بھارت کی ریاستی حکومتیں دو طرح سے اپنا ردِعمل ظاہر کر رہی ہیں۔ایک طریقہ تو رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ (RTE) کا نفاذ ہے۔اس ایکٹ کی رو سے تمام اسکولوں کو لائسنس حاصل کرنے کے لیے کچھ شرائط کو پورا کرنا ہوگا۔ان شرائط میں، لائبریری، باورچی خانہ اورہر استاد کے لیے ایک کلاس رو م شامل ہے۔گو کہ سرکاری اسکول بھی ان شرائط پر پورا نہیں اُترتے لیکن اس ایکٹ کا استعمال صرف نجی اسکولوں کے خلاف ہی ہوتا ہے۔شیوندن سنگھ ریاست اتر پردیش کے شہر لکھنٔو کے ایجوکیشن آفیسر ہیں۔ان کی زیر نگرانی ۲۱۵ سرکاری اسکول اور ۲۰۰ رجسٹرڈ نجی اسکول ہیں۔ اس سال انھوں نے ۶۰ غیر رجسٹرڈ نجی اسکول بند کیے ہیں اور یہ تلوار مزید ۶۹ اسکولوں پر لٹک رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ’’اب تک ہم نے ان اسکولوں کے ساتھ نرمی اختیار کی ہوئی تھی،لیکن اس سال سے RTE سختی سے نافذ کیا جارہا ہے‘‘۔

گنشیام چترویدی کا کہنا ہے رجسٹریشن صرف قوانین کی پابندی کرنے سے نہیں ملتی۔وہ لکھنٔو میں ایک نجی اسکول چلاتے تھے۔ ان کے مطابق حکام نے ان سے اسکول کی رجسٹریشن کے لیے رشوت طلب کی۔ ان کے انکار کرنے پر ان کا اسکول بند کر دیا گیا۔ دیگر اسکول مالکان نے دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ایک اسکول مالک کا کہنا تھا کہ اس نے اسکول کی رجسٹریشن کے لیے ایک لاکھ روپے ’’عطیہ‘‘ دیا ہے۔ دہلی جیسے شہر میں جہاں آبادی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے، نجی اسکولوں کو بندکرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔لیکن شہر کی حکمران جماعت عام آدمی پارٹی نے نجی اسکولوں کے لیے فیسوں میں اضافے کی شرح کو محدودکر دیا ہے۔ممکنہ طور پر اس اقدام سے تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔

عام آدمی پارٹی نے سرکاری اسکولوں کی بہتری کے لیے ایک اور قدم اٹھایا ہے۔وہاں کے وزیر تعلیم منیش سِسوڈیا کے سابق مشیر کا کہنا تھا کہ ’’سرکاری اسکولوں کی حالت ہماری امید سے زیادہ خراب تھی۔بیت الخلاکی بدبو کلاسوں تک آتی تھی، اساتذہ اور طالب علموں کا نام و نشان تک نہ تھا‘‘۔ منیش سسوڈیا نے اسکولوں کے غیر اعلانیہ دورے شروع کیے ہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ اس سے اسکولوں کی کارکردگی بہتر ہوگی۔ اُن کا کہنا ہے کہ اب سرکاری اسکولوں کی کارکردگی نجی اسکولوں سے بہتر ہوگئی ہے۔ تاہم کسی بھی استاد کو نوکری سے نہیں نکالا گیا کیوں کہ اساتذہ کی انجمنیں سیاسی طور پر بہت مضبوط ہیں اور وہ کسی بھی ایسی اصلاح کو مسترد کر دیتے ہیں، جس سے ان کی نوکری کو خطرہ ہو۔

راجستھان حکومت کم ہوتے ہوئے داخلوں کی وجہ سے ۸ ہزار سرکاری اسکولوں کو بند اور ایک ہزار اسکولوں کو دوسرے اسکولوں میں ضم کرچکی ہے۔ راجستھان میں سال ۲۰۱۳ء تک سرکاری اسکولوں کی تعداد ۸۲ ہزار تھی جو اب ۶۳ ہزار ہو گئی ہے۔یہاں ہیڈ ماسٹروں کو ابھی تک کسی استاد کو رکھنے یا نوکری سے نکالنے کا اختیار نہیں ہے۔البتہ وہ ان کی شکایت ضرور کر سکتے ہیں۔حکام کا کہنا کہ وہ ہیڈ ماسٹروں کواساتذہ کے خلاف انضباطی کارروائی کرنے کا اختیار دینے کا سوچ رہے ہیں لیکن یہ بہت حساس معاملہ ہے۔اس وقت کم از کم اتنا ضرور ہو رہا ہے کہ اساتذہ اسکول آرہے ہیں اور پڑھارہے ہیں۔

ریاست اتر پردیش اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے لیے ایک اور مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک ہی جماعت کے طالب علموں کا معیار اور صلاحیتیں یکساں نہیں ہیں۔ آٹھویں جماعت کے بھی کچھ ایسے طلبہ ہیں جنھیں پڑھنا نہیں آتا۔ رواں سال سے حکومت نے ’’پرتھم‘‘ نامی غیر سرکاری ادارے کے ساتھ ایک پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ اس پروگرام میں طلبہ کی درجہ بندی ان کی عمر کے لحاظ سے متعین جماعتوں کی جگہ ان کی صلاحیتوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔

کئی ریاستیں سرکاری اسکولوں کو مزید پُر کشش بنانے کے لیے انگریزی زبان میں تدریس شروع کر رہی ہیں۔ ریاست اتر پردیش میں رواں سال ۵ ہزار سال اسکولوں نے انگریزی زبان میں تدریس شروع کردی ہے، جو کہ اساتذہ اور طالب علموں دونوں کے لیے چیلنج ہے۔ کراونی پرائمری اسکول لکھنٔو کے ہیڈماسٹر کا کہنا ہے کہ اکثر والدین خود پڑھے لکھے نہیں ہیں، ان کے بچوں کے لیے ہندی میں پڑھنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ آخر وہ کسی ایسی زبان میں کیسے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، جو نہ ہی ان کے گھر میں بولی جاتی اور نہ ہی وہ اسے کہیں اور سنتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو انگریزی میں ہی تعلیم دی جارہی ہے، لیکن تیسری سے پانچویں جماعت کے بچوں کے لیے ذو لسانی نظام ہے۔ اگر ان کو صرف انگریزی میں پڑھایا جائے تو وہ کچھ بھی نہیں سمجھیں گے۔ یہاں تک کہ پانچویں جماعت کے بچوں کو “Chlorophyll” اور “Photosynthesis” جیسی اصطلاحات سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔لیکن اس اقدام سے اسکول میں بچوں کے داخلوں میں اضافہ ہوا ہے اور اب ان کی تعداد ۱۱۷ سے بڑھ کر ۱۸۵ ہو گئی ہے۔

ان اقدامات کے متوقع نتائج سامنے آرہے ہیں۔اتر پردیش اور راجستھان کے سرکاری اسکولوں میں داخلے بڑھے ہیں۔لیکن یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ یہ اقدامات تحصیل علم پر کس طرح اثر انداز ہوں گے۔بھارتی حکومت اس بارے میں سنجیدگی سے اعدادو شمار جمع کر رہی ہے کہ کیا اسکولوں میں بچے واقعی کچھ سیکھ رہے ہیں یا نہیں۔آنے والے چند سالوں میں یہ بات واضح ہوجائے گی کہ بچوں کو نجی اسکولوں میں جانے سے روکنے کی اس مہم نے بھارتی نظام تعلیم کو’’بہتر‘‘کیا ہے یا’’بد تر‘‘۔

(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)

“The War On Private Schools”.(“The Economist”. Oct. 13, 2018)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*