مودی حکومت کی اپنے دور کے آغاز میں خلیج فارس اور مغربی ایشیا کی طرف دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ ۲۰۱۵ء کے بعد جب متحدہ عرب امارات نے بھارت سے تزویراتی تعلقات قائم کرنے کی خواہش ظاہرکی۔ ان تعلقات میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھارت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور پاکستان سے تعلقات کو ایک حد تک محدود رکھنے جیسے نکات بھی شامل تھے۔ کچھ عرصے بعد بھارت کا رویہ یکدم تبدیل ہوا۔ ۲۰۱۵ء میں کیا جانے والا نریندر مودی کا دورہ عرب امارات اور اس کے بعد کے واقعات و حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اس خطے کے بارے میں بھارتی حکمت عملی میں ایک بڑی اور واضح تبدیلی آئی ہے۔ اس مضمون کے پہلے حصے میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے، نئی دہلی کے لیے متحدہ عرب امارات اب ویزوں اور توانائی کے حصول کے بجائے اپنی بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، مضمون میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ بھارت نے خطے پر فوجی اور تزویراتی نظر رکھنے کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔
انتخابات کے بعد
۲۰۱۴ء کے انتخابات سے پہلے مودی نے جب وزارتِ عظمیٰ کے لیے انتخابی مہم چلائی تو داخلی معاملات پر ایک بھرپور ایجنڈا بنایا گیا تھا، لیکن خارجہ پالیسی پر زیادہ بات نہیں کی گئی تھی۔ وزیراعظم بننے کے بعد اپنے ابتدائی دنوں میں مودی کا عالمی حالات کے بارے میں نقطہ نظر حقیقت پسندانہ تو تھا لیکن محدود تھا۔ ایک مذہبی اور قوم پرست جماعت یعنی بھارتیا جنتا پارٹی سے تعلق کی وجہ سے وہ دنیا کو ایک خاص نظر سے دیکھتے تھے، جس میں تجارت، سرمایہ داری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو خاص اہمیت حاصل تھی۔
مودی نے اس بات کا کھلے عام اظہار کیا تھا کہ وہ تجارت کے ذریعے روایتی حریف ممالک یعنی پاکستان اور چین سے تعلقات میں بہتری لائے گا۔ اوباما انتظامیہ کی جانب سے بھارتیوں پر ویزے کی لگائی جانے والی پابندی نے ان کو کافی عرصے پریشان کیے رکھا۔ ان کے پسندیدہ وہ ممالک تھے جنھوں نے اس کے حلف لینے کے بعد ملاقات کی، ان میں اسرائیل اور جاپان شامل ہیں۔ مغربی ایشیا کے حوالے سے نہ کبھی انھوں نے عوامی مقامات پر بات کی اور نہ ہی نجی محفلوں میں۔ سوائے اس کے کہ وہ ان ممالک کو اسرائیل کے تناظر میں دیکھتے تھے۔
اس کی پہلی ترجیح پڑوسی ممالک سے تعلقات میں بہتری لانا تھی۔ پڑوسی ممالک کی جانب سے بھارت کے حوالے سے شک اور ناپسندیدگی کے تاثر کی وجہ سے ملک کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا اظہار انھوں نے کئی دفعہ کیا۔ وہ اس تاثر کو مکمل طور پر تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ چین اور پاکستان نے تو بھارت کے حوالے سے اپنے تاثرات تبدیل نہیں کیے، لیکن چھوٹے ممالک جیسے بنگلادیش اور نیپال میں ان کو کامیابی حاصل ہوئی۔ انھوں نے اس پالیسی کو بحرہند تک بڑھا دیا، یعنی موریشس اور سیچیلیس جیسے ممالک سے بھی تعلقات میں کافی بہتری آئی۔
عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کی دوسری ترجیح بھارتی معیشت پر غیر ملکی سرمایہ داروں کا اعتماد بحال کرنا تھا، بھارتی معیشت اس وقت کریڈٹ ریٹنگ کے سہارے پر کھڑی تھی۔ اس پالیسی کے ذیلی نکات یہ تھے کہ لاکھوں کی تعداد میں موجود تارکین وطن سے بھرپور رابطہ کیا جائے۔
ان کی خارجہ پالیسی کی تیسری ترجیح عالمی طاقتوں سے تعلقات میں بہتری لانا تھی۔ مودی اور اوباما نے ۲۰۱۴ء میں کامیاب کانفرنس کی، جس میں بہت سے معاہدوں کے علاوہ اس بات کا بھی عزم کیا گیا کہ ماحولیات کی تبدیلی کے چیلنج سے مشترکہ طور پر نبٹا جائے گا۔ مودی نے روس سے بھی تعلقات میں بہتری کے ارادے کا اظہار کیا اور ساتھ ہی چین کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری لانے کی خواہش ظاہر کی۔
ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے مودی نے ۲۰۱۴ء میں بیرون ممالک کے ۹ دورے کیے۔ ان میں سے چھ دفعہ وہ کسی عالمی کانفرنس یا اجلاس میں شرکت کے لیے گئے، جہاں انھوں نے عالمی راہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ ۲۰۱۵ء کی پہلی ششماہی میں ۱۷ غیر ملکی دورے کیے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان دوروں میں وسطی ایشیا کا کوئی ایسا دارالحکومت نہیں جہاں وہ نہ گئے ہوں، اس کے علاوہ بحراوقیانوس سے متصل بہت سے ممالک کے دورے کیے، لیکن ان میں مغربی ایشیا کی کوئی ایک ریاست بھی نہ تھی جس کا مودی نے دورہ کیا ہو۔
مفادات
اپریل ۲۰۱۴ء سے جولائی ۲۰۱۵ء تک کے دورانیے میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے مغربی ایشیا ایک غیر اہم خطہ رہا۔ چند ایسے اشارے ملتے ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ مودی اس خطے پر پہلے سے ہی نظر رکھے ہوئے تھے۔ لیکن بظاہر پالیسیوں میں ایسی کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی تھی۔ خلیج فارس کے حوالے سے روایتی خارجہ پالیسی کو ہی آگے بڑھایا جارہا تھا۔
مغربی ایشیا کے حوالے سے طویل عرصے سے جاری پالیسی میں تبدیلی لانے کا سہرا سینئر بیورو کریٹ سیکریٹری شری انیل واڈوا کو پہنایا جاتا ہے، جو کہ اپریل ۲۰۱۵ء میں اس خطے کے انچارج تھے۔ انھوں نے خلیج فارس میں بھارت کے چند اہم مفادات کی اہمیت کو نمایاں کیا۔ وہ مفاد درج ذیل ہیں: تیل اور گیس کی سپلائی لائن کی حفاظت، محصولات اور تقریباً سات کروڑ تارکین وطن کی ملازمتیں، سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات اور چند ممالک سے خصوصی دفاعی تعلقات۔
خطے میں جاری سیاسی افراتفری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’بھارت وہاں ہونے والے واقعات کے بارے میں کوئی بھی حتمی رائے نہیں رکھتا اور نہ ہی کسی فریق کی حمایت کرتا ہے۔ نئی دہلی جمہوریت کی تبلیغ کرنے کی کسی مہم میں شامل نہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس نے خطے کے تمام ممالک سے دوطرفہ تعلقات بڑھائے ہیں اور خطے کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں اپنے مفادات کو ہر نقصان سے بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ مغربی ایشیا کے لیے ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دی گئی جس میں ہر ملک سے انفرادی تعلقات قائم کیے گئے اور کسی بھی ٹکراؤ سے اپنے آپ کو الگ رکھا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم ایسے کسی متوازی نظام کی تشکیل نہیں چاہتے جس سے ہمارے دو طرفہ تعلقات متاثر ہوں‘‘۔
واڈوا نے خطے کے معاملات سے دور رہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’شیعہ سنی کی تیسری بڑی آبادی والے ملک کی حیثیت سے ہمیں اپنے ملک کی مذہبی اور نسلی تقسیم اور ان کے خیالات کو سامنے رکھتے ہوئے ان معاملات میں نہایت سنجیدگی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا تھا کہ کہیں اس کی کسی پالیسی کو غلط مفہوم دے کر اسے کسی فرقہ وارانہ لڑائی میں نہ الجھا دیا جائے۔
انھوں اس بات کا اقرار کیا کہ ہم سے مشرق وسطیٰ کے مسئلے میں فعال کردار اداکرنے کا کہا گیا تھا۔ لیکن ہمیں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے تزویراتی مفادات،اپنی طاقت اور اپنی حدود کوبھی مدنظر رکھنا تھا۔ انھوں نے عرب بہار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’عرب بہار نے خطے کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا،خطے میں نظریاتی جنگ کو بڑھاوا دیا اور خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا‘‘۔
ابھی تک بھارت نے ان حالات پر جو موقف اپنایا ہے اس کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ بھارت حالات کی بہتری کے لیے امریکا سے امیدلگائے ہوئے ہے۔جیسا کہ سیکریٹری واڈوا کا کہنا تھا کہ ’’بھارت سمجھتا ہے کہ خطے میں استحکام کے لیے امریکا کا کردار اہم ہے‘‘۔ جہاں تک چین کے بارے میں بات ہے تو بہت سے ممالک خطے میں چین کو مغرب کے متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں لیکن اس بارے میں کوئی بھی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔
یہ مغربی ایشیا کے حوالے سے بھارتی خارجہ پالیسی کا ایک خلاصہ تھا۔
خارجہ پالیسی میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حکومت نے خلیجی ممالک کے خودمختار مالیاتی اداروں کو کئی دفعہ اس بات کی دعوت دی ہے کہ وہ مودی کے پیداواری اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں بھرپور سرمایہ کاری کریں۔
اس طرح کی اپیلیں مودی کے وزیراعظم بننے کے چند ماہ بعد ہی شروع کر دی گئی تھیں اور اب تو ہر سرکاری بیان کے ساتھ اس طرح کی اپیلیں لازم ہو چکی ہیں۔ مارچ ۲۰۱۵ء میں جب قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے بھارت کا دورہ کیا تو ان سے اپیل کی گئی کہ بھارت کے ’’پیدواری منصوبوں‘‘ میں وہ سرمایہ کاری کریں اور یہ مودی کے داخلی ایجنڈے میں سے واحد نکتہ تھا جس پر امیر قطر نے اتفاق کیا۔ اس کے علاوہ بھارت نے کئی اور ممالک کو بھی اپنے ملک کے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔
ابو ظہبی کا یکسرپِھرنا
اگست ۲۰۱۵ء کے اوائل میں بھارتی حکومت نے اعلان کیا کہ نریندر مودی ۱۶،۱۷ اگست کو متحدہ عرب امارات کا سرکاری دورہ کریں گے۔ یہ بہت سے لوگوں کے لیے ایک حیرت انگیز اعلان تھا۔ اگرچہ متحدہ عرب امارات سرمائے اور تجارت کے لحاظ سے بھارت کا بڑا شراکت دار رہا ہے، لیکن سیاسی اور تزویراتی معاملات میں ان دونوں کے درمیان کوئی خاص تعاون نہیں رہا۔ مودی حکومت کے آغاز کے چھ ماہ میں بھارت کے سنیئر سرکاری افسران خطے کے دورے کرتے رہے ہیں، لیکن ان کی توجہ اسرائیل اور ایران پر رہی، عرب امارات کو انھوں نے کبھی کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ تمام سنی خلیجی ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ بہترین تزویراتی اور دفاعی تعلقات رہے ہیں۔ ان تعلقات کے تحت اسلام آباد نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کسی بیرونی جارحیت اور سلامتی کو درپیش کسی بڑے خطرے کی صورت میں اپنی فوج کو استعمال کرے گا۔
ان تعلقات کے تحت اس بات پر ایک خاموش سمجھوتا ہے کہ اگر ایران ایٹمی طاقت حاصل کر لیتا ہے تو ان بادشاہتوں کو بچانے کے لیے پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیار فراہم کرے گا۔ بھارت کو لگتا تھا کہ پاکستان سے اتنے گہرے تعلقات کی موجودگی میں ان ممالک سے فوجی تعلقات ناممکن ہیں۔ اور اس بات کا خاص تعلق متحدہ عرب امارات سے تھا، کیونکہ یہ ان تین ریاستوں میں سے ایک تھی جس نے افغانستان کی طالبان حکومت کو سرکاری سطح پر تسلیم کر رکھا تھا۔
مودی نے اپنے دورے کے دوران ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زید کے ساتھ جو معاہدے بھی دستخط کیے ان سے اس دورے کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا۔ دفاع اور سلامتی کے شعبے میں دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے مل کر کام کریں گے، دونوں ممالک کے سلامتی امور کے مشیران ششماہی میٹنگ کریں گے، بھارت میں اسلحہ کی پیداوار پر بھی غور کیا جائے گا اور دفاعی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے باقاعدگی سے فوجی مشقیں کی جائیں گی۔ بنیادی طور پر دونوں ممالک نے اس ضرورت کو تسلیم کر لیا ہے کہ اس بے یقینی کے حالات میں دونوں ممالک کے لیے آپس کے تعلقات اور تزویراتی شراکت داری بہت اہمیت کی حامل ہے۔ دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ انتہاپسندی اور مذہب کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے باہمی کوششیں کی جائیں گی۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک علما اور اساتذہ کے وفود کا تبادلہ بھی کریں گے۔ معیشت کے شعبے میں دونوں ممالک کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور بھارت یہ سمجھتا ہے کہ اس عمل سے ان کی ملکی معیشت ایک نئی سمت میں ترقی کرے گی۔ اس معاشی شراکت داری کا اہم پہلو یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اپنے خود مختار فنڈ کے ذریعے بھارت کے انفراسٹرکچر کو جدید بنانے کے لیے ۷۵ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، اسی سرمایہ کاری سے ’’U.A.E. India infrastructure investment fund‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ یہ رقم ہوائی اڈے،سڑکیں اور صنعتی راہدایاں بنانے میں خرچ کی جائے گی۔ متحدہ عرب امارات نے اس بات پر بھی رضامندی کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے تیل کے اسٹریٹجک ذخائر کا کچھ حصہ بھارت میں ذخیرہ کرے گا۔ اور ان ذخائر کو تجارتی طور پر بھی استعمال کرے گا۔ یہاں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر بھارت بھی یہ ذخائر استعمال کر سکے گا۔ اگرچہ یہ بات سرکاری دستاویزات میں ذیلی نکتے کی حیثیت سے شامل کی گئی ہے۔
ا س طرح کے سرکاری بیانات اور سمجھوتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مرحلے تک پہنچنے سے پہلے سفارتی سطح پر کافی کام ہوا ہے۔ بہت سے سرکاری افسران کے مطابق ابوظہبی کے شاہی خاندان نے مودی کو دورے کی دعوت دینے میں پہل کی ۔ جس پر نئی دہلی نے متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے تعلقات اور پاکستانی حمایت یافتہ دہشت گردوں کو دبئی میں جو پناہ گاہ اور مالی تعاون ملتا ہے اس پر وضاحت طلب کی۔ جس پر متحدہ عرب امارات نے یقین دلایا کہ یہ سب موضوعات بھی بات چیت کا حصہ ہوں گے۔
بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دیول نے اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات کے کافی دورے کیے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ابوظہبی نے نئی دہلی کی زیادہ تر تجاویز پرآمادگی ظاہر کی جس میں ان لوگوں کو ملک بدر کرنا بھی شامل تھا جن کا تعلق داؤد ابراہیم سے ہے اور ان کے مالیاتی وسائل کی نگرانی بھی کی جائے گی۔ اگرچہ مودی کے دورے سے پہلے داؤد ابراہیم کے گھر پر اماراتی پولیس کے چھاپے کی خبریں غلط ثابت ہوئیں۔
اس طرح کی یقین دہانیوں نے مودی کے دورے کا راستہ صاف کیا اور اس کے ساتھ جو بڑی نوازش کی گئی وہ یہ تھی کہ متحدہ عرب امارات نے اپنے ایک کھرب مالیت کے فنڈ کا کچھ حصہ بھارتی معیشت کی بہتری کے لیے خرچ کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ مودی کے قریبی ساتھی کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے سرکاری دعوت اور مودی کے دورے کے درمیان صرف دو سے تین ماہ کاوقت لگا۔ ابوظہبی کے شاہی خاندان کی اس گرم جوشی پر جب بھارت نے غور کیا تو اسے اس گرم جوشی کی چار تزویراتی وجوہات سمجھ میں آئیں۔
پہلی: ابوظہبی عالمی معاشی بحران کے دبئی پر پڑنے والے اثرات سے پریشان تھا اور وہ چاہتا تھا کہ دبئی کا تاثر کالے دھن کی جنت کا نہ ہو بلکہ دنیا بھر میں ایک باعزت طور پر دیکھا جائے جیسا کہ سنگاپور۔ اور اس کام کے لیے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا ’’کارپوریٹ سیکٹر‘‘ زیادہ معاون ثابت ہوگا۔
دوسری: یمن میں جاری خانہ جنگی میں شمولیت پر پاکستان کے انکار نے متحدہ عرب امارات کو اشتعال دلایا۔ سعودی عرب اور کویت کی طرح متحدہ عرب امارات بھی اس جنگ کو سنی شیعہ تقسیم اور خلیج کی بالادستی کے پیرائے میں دیکھتا ہے۔ اور پاکستان کی جانب سے انکار کو انھوں نے اس خاموش اسٹریٹجک معاہدے کی خلاف ورزی سمجھا جو پاکستان اور خلیجی ریاستوں کے مابین تھااور جس معاہدے کی وجہ سے متحدہ عرب امارات آج تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کرتا رہا ہے۔
تیسری: مغرب کی اتحادی بقیہ خلیجی ریاستوں کی طرح متحدہ عرب امارات بھی خطے کے بارے میں واشنگٹن کی حکمت عملی سے پریشان تھا ۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اوباما نے مغربی ایشیا میں مداخلت کم کرنے اور ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی خواہش پر عمل درآمد شروع کیا۔ اس کے علاوہ بھارت کی بڑھتی فوجی اور معاشی صلاحیتیں اس بات کا اشارہ دے رہی تھیں کہ آنے والے وقت میں امریکا بحرہند سے ملحقہ خطے میں بھارت کو اپنے جانشین اور اتحادی کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اس بات نے ابوظہبی کو مجبور کیا کہ وہ بھارت سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کی بھر پور کوششیں کرے۔ پھر افغانستان میں متحدہ عرب امارات کے پانچ سفارت کاروں کی طالبان یا حقانی نیٹ ورک کے ہاتھوں ہلاکت (متحدہ عرب امارات سمجھتا ہے کہ دونوں گروہوں کو پاکستانی فوج کی حمایت حاصل ہے) نے اسے بھارت کے مزید قریب کر دیا۔
چوتھی اور آخری وجہ: النہیان اپنے پڑوس میں غالب اور قابض ہونے والے انتہا پسند گروہوں سے بہت پریشان تھے۔
بھارت شیعہ سنی مسلمانوں کی تیسری بڑی آبادی والا ملک ہے اور وہاں کے مسلمان بہت پرامن اور غیر سیاسی بھی ہیں۔ ابوظہبی کاخیال تھا کہ دونوںممالک مل کر مسلمانوں میں ان رجحانات کو فروغ دے سکتے ہیں جو ابوظہبی کے حکمرانوں کے لیے معاون ثابت ہوں۔
مودی کا دورہ متحدہ عرب امارات ان کی حکومت کے لیے ’’ٹرننگ پوائنٹ‘‘ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس دورے سے پہلے تک مودی کی معاشی اور حکومتی پالیسیوں میں کچھ ایسا نہیں تھا جس کے لیے انھیں مغربی ایشیا کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ مودی ٹیکنالوجی کی ترقی اور توانائی کے نئے ذرائع کے حوالے سے صرف ترقی یافتہ ممالک کو ہی اپنے اتحادی کے طور پر دیکھتے تھے۔
تعلقات میں بہتری کے مزید فوائد
ابوظہبی کے شاہی خاندان نے مودی کو اس بات کا بھی یقین دلایا کہ وہ تمام خلیجی ریاستوں کے نمائندہ کے طور پر ان سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اس کے فوراً بعد ہی مودی نے قطر اور سعودی عرب کا بھی دورہ کیا جہاں ان کو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے اشارے ملے۔
بھارت کے پاس اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا یہ سنہری موقع تھا۔ اگرچہ اس سرمایہ کاری کی وجوہات سیاسی تھیں۔ مودی حکومت تعمیر و ترقی کے حوالے سے بھرپور حکمت عملی رکھتی ہے لیکن وہ اس وقت نجی طبقے کی طرف سے سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ سے پریشان ہے۔ خلیجی ریاستیں سرمایہ کاری کے لیے حکومتی سطح کو ترجیح دیتی ہیں اور نجی شعبے کی مداخلت کی قائل نہیں۔
ان تعلقات کا مزید فائدہ یہ بھی تھا کہ متحدہ عرب امارات سے تعلقات میں بہتری کی صورت میں بھارت اپنے روایتی حریف پاکستان کو نہ صرف تنہا کرسکتا ہے بلکہ متحدہ عرب امارت میں پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا تھا جن کے لیے مالی وسائل کا انتظام خلیجی ریاستوں کے ذریعے کیاجاتا ہے۔
نئی دہلی ریاض کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کے لیے بھی پرعزم ہے۔ بھارت کو اندازہ ہے کہ موجودہ شاہی خاندان حقیقی طور پر بھارت کے قریب آنے اور پاکستان سے تعلقات میں فاصلہ رکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے مودی نے سعودی عرب کے شاہی خاندان سے کافی اعتماد حاصل کیا۔
لیکن نئی دہلی کو اس بات کا اندازہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے فوجی تعلقات میں کمی ضرور آئی ہے لیکن تعلقات اب بھی کافی مضبوط ہیں۔ اس کا اندا زہ ان باتوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ،سعودی عرب نے دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے سنی اکثریتی ممالک کا جو فوجی اتحاد تشکیل دیا ہے اس کی سربراہی پاکستان کے سابق آرمی چیف کے سپرد کی ہے۔ سعودی عرب نے اگرچہ بھارت میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے لیکن اس ضمن میں کوئی واضح اعداد و شمار نہیں دیے کیوں کہ وہ خود مالی پریشانیوں کاشکار ہے۔ وہ صرف توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے لیکن کسی طویل مدتی معاہدے سے پس و پیش کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ادھر بھارت میں بھی اس حوالے سے ابہام پا یا جاتا ہے کہ آیا سعودی حکومت کبھی اپنے آپ کو انتہا پسندانہ وہابی نظریات سے الگ کر پائے گی۔ اس کے علاوہ اس طرح کے تجزیے بھی موجود ہیں کہ شاہی خاندان کے بقیہ افراد نے موجودہ قیادت کے حوالے سے کوئی رائے پیش نہیں کی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی بھی وقت پہلے کی طرح اسلامی پالیسیاں اور پاکستان سے قریبی تعلقات کی پالیسی نہ اختیار کر لی جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کا بھارت کے ساتھ رویہ پہلے سے مختلف ہے۔ سعودی ذرائع کا کہنا ہے انھوں نے بھارت کو ان دہشت گردوں کی معلومات دی ہیں جنھوں نے جنوری ۲۰۱۶ء میں بھارتی فضائیہ کی ایئربیس پر حملہ کیا تھا۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت میں موجود مساجد اور انتہا پسند مدارس کی فنڈنگ کے حوالے سے اب سعودی ہماری شکایتوں پر توجہ دیتے ہیں۔ مودی کے انتخاب سے پہلے تک ہونے والے دوروں میں سعودی عرب نے معاہدوں میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کبھی بھی سخت زبان استعمال نہیں کی تھی ۔
مودی نے قطر کا بھی دورہ کیا اور فوجی تعلقات بڑھانے کے لیے کہا لیکن قطرنے اپنی سرمایہ کا ری کو توانائی کے شعبے تک محدودرکھنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ بھارت کی خواہش ہے کہ قطر پیٹرو کیمیکل کی صنعت میں ۳۵؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ پورا کرے۔ دوحہ گیس کی عالمی منڈی میں بڑھتی ہوئی مسابقت کی وجہ سے اپنے گاہکوں سے سیاسی تعلقات مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ بھارت اپنی نوے فیصد قدرتی گیس دوحہ سے درآمد کرتاہے۔ ۲۰۱۶ء سے بھارت سب سے زیادہ تیزی سے گیس اور تیل درآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ اب دنیا کے باقی ممالک بھی اس بڑی منڈی کی جانب متوجہ ہو گئے ہیں ،خاص کر آسٹریلیااور امریکا۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Think West to go West: Origins and omplications of India’s West Asia policy under Modi”. (“mei.edu”. Sep.26, 2017)
Leave a Reply